رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش
NYT screenshot of secret Pentagon records on airstrike civilian casualties
NYT screenshot of secret Pentagon records on airstrike civilian casualties

Image: Screenshot

رپورٹنگ

موضوعات

کس طرح نیو یارک ٹائمز کی پیولٹزر جیتنے والی سیریز نے افغانستان میں ڈرون حملوں سے ہونے والی شہری ہلاکتوں کو بے نقاب کیا

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

NYT screenshot of secret Pentagon records on airstrike civilian casualties

تصور:سکرین شاٹ

18 مارچ، 2019 کو، ایک امریکی لڑاکا طیارے نے داعش کے دہشت گردوں کے اہداف کی تلاش میں شام کے شہر باغوز کے قریب خواتین، مردوں اور بچوں کے ایک بڑے ہجوم پر بم گرایا – اور ایک اور اتحادی طیارے نے پھر زندہ بچ جانے والوں پر دو مزید بم گرائے۔ بہت دور، قطر میں امریکی فوجی فضائی آپریشن کے مرکز میں، ڈرون نگرانی پر نگاہ رکھنے والے ایک "تذبذب کا شکار تجزیہ کار” نے محفوظ پیغام رسانی کے نظام میں ٹائپ کیا "اسے کس نے گرایا؟”، نیویارک ٹائمز کے مطابق۔ اخبار نے اطلاع دی کہ اس واحد، تباہ کن غلطی میں درجنوں شہریوں سمیت تقریباً 70 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

گزشتہ سال 29 اگست کو، افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک صحن میں ڈرون سے فائر کیے جانے والے ہیل فائر میزائل سے 10 افراد – تمام شہری – ہلاک ہوئے۔ ہدف: ایک شخص — جو بعد میں ایک امدادی کارکن پایا گیا — جسے ریپر سرویلنس ڈرون نے ٹریک کیا تھا اور اسے ایک کار میں ایسی اشیاء لوڈ کرتے ہوئے دیکھا تھا جسے دور دراز کے تجزیہ کاروں نے غلط طور پر بم کے پرزوں سے تعبیر کیا تھا۔

یہ 2014 سے مشرق وسطیٰ میں داعش کے خلاف امریکہ کے زیر قیادت اتحاد کی فضائی جنگ میں شہریوں کی مبینہ 1300 ہلاکتوں میں سے صرف دو تھیں جن کی جانچ ٹائمر کی ایک ٹیم نے کی۔اپنے مکمل تجزیے کی بنیاد پر، ٹائمز نے نتیجہ اخذ کیا کہ ” امریکی فضائی جنگ گہری ناقص انٹیلی جنس، جلدی اور غلط ہدف اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں سے دوچار ہے۔”

اخبار کی رپورٹ، آٹھ حصوں پر مشتمل سیریز نے امریکی محکمہ دفاع کو حلا کر رکھ دیا اور، اس ماہ کے شروع میں، بین الاقوامی رپورٹنگ کے زمرے میں پیولٹزر پرائز جیتا۔ اپنے ا

New York Times Pulitzer Prize International Reporting

تصویر: سکرین شاٹ

قتباس میں، پیولٹزر بورڈ نے "جرات مندانہ اور

انتھک رپورٹنگ کی تعریف کی جس نے عراق، شام اور افغانستان میں امریکی فوجی مصروفیات کے سرکاری اکاؤنٹس کو چیلنج کرتے ہوئے، امریکی زیرقیادت فضائی حملوں کے وسیع پیمانے پر عام شہریوں کے نقصان کی تعداد کو بے نقاب کیا۔”

اس تحقیقاتی میدان کے لیے ایک اہم طریقہ کار برطانیہ میں مقیم دو غیر منفعتی گروپوں کے صحافیوں اور محققین نے پیش کیا:دا بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلازم (ٹی ابی آئی جے) – جی آئی جے این کی ایک رکن تنظیم جس 2010 سے مشرق وسطیٰ میں ڈرون حملوں کو ٹریک کرنے کے لیے عوامی دستاویزات، پریس رپورٹس، اور کچھ اصل ذرائع استعمال کیا ہے۔  – اور ائیر وارز (Airwars) ایک واچ ڈاگ جس نے 2014 سے خطے میں فضائی حملوں اور توپ خانے سے شہری ہلاکتوں کو دستاویز کرنے کے لیے عربی زبان کے سوشل میڈیا اور این جی او رپورٹس سمیت وسیع قسم کے ذرائع استعمال کیے ہیں۔ ٹائمز کی تحقیقات عراق، شام اور افغانستان میں 100 سے زیادہ شہری ہلاکتوں کے مقامات پر زمینی رپورٹنگ، اندرونی فوجی ذرائع اور گواہوں کے انٹرویوز، ایئر وارز جیسے ڈیٹا بیس سے لیڈز، اور امریکہ کے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے حاصل کردہ خفیہ فوجی تشخیصی دستاویزات کے ایک ذخیرے کے تجزیے پر مبنی تھی۔ 

ٹائمز نے بہت سے حملوں کے منصوبہ سازوں کے درمیان باہمی طور پر تقویت دینے والی دو غلطیوں کا انکشاف کیا۔ پہلا تصدیقی تعصب تھا، جس میں روزمرہ کی چیزوں اور سرگرمیوں کو اکثر اس قسم کے ہتھیاروں یا مشتبہ حرکات کے طور پر پیش کیا جاتا تھا جو حملہ کرنے والے افسروں کو مشتعل کرتے تھے۔ دوسرا سیاق و سباق کی جہالت تھی، جہاں شہری نقل و حرکت کی پیشن گوئی کرنے کے لیے ناقص "زندگی کے نمونوں” کے نظریات کا استعمال کیا جاتا تھا، اور رمضان، دوپہر کی گرمی، اور داعش کے جنگجوؤں کی طرف سے نقل مکانی کا حکم ملنے والے شہریوں جیسے پیشن گوئی کے واقعات سے منسلک رویے پر بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔

(ذیل کے کلپ میں رپورٹر عظمت خان سے گفتگو کرتے ہوئے سنیں کہ یہ تعصبات امریکی فضائی حملوں پر کس طرح اثر انداز ہوئے۔)

اسی طرح، ٹائمز نے حادثے کے جائزے کے عمل میں اسی طرح کے تعصب اور نااہلی کا پردہ فاش کیا۔ کئی قصبوں میں ہونے والی ہلاکتوں کا اندازہ بالکل نہیں لگایا گیا کیونکہ فوجی جائزہ لینے والوں نے یا تو انہیں دوسرے دیہاتوں سے ملتے جلتے ناموں کے ساتھ الجھایا جن کو نشانہ نہیں بنایا گیا، یا یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ اپنے نقشوں پر قصبوں کو ڈھونڈ ہی نہیں سکے۔ مثال کے طور پر، مبصرین نے موصل کے پڑوس میں 30 اموات کے دعوے کی تحقیقات ترک کر دیں کیونکہ انہیں اس نام کے ساتھ کوئی جگہ نہیں مل سکی – لیکن ٹائمز کی ٹیم نے جلدی سے اسے گوگل میپس (Google Maps) پر "سیہا” کے طور پر درج پایا، اور خبریں بھی مل گئیں۔ سادہ گوگل سرچز کے ساتھ "سیہا” انگریزی ہجے کے ساتھ رپورٹ کرتا ہے۔ اسی طرح، پینٹاگون کے حکام نے عراق میں "الباب الغربی” نامی جگہ پر شہریوں کی ہلاکت کے دعووں کو مسترد کر دیا کیونکہ انہوں نے "الباب” اور "الغربی” نامی دو الگ الگ مقامات تلاش کیے – اور تلاش کرنے میں ناکام رہے۔

بلاک بسٹر سیریز کے پیولٹزر جیتنے کے بعد، نامہ نگاروں نے خود امریکی فوج کی طرف سے ایک نادر تعریف بھی حاصل کی۔ "میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ عمل خوشگوار تھا،” پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے ٹائمز کی ایوارڈ یافتہ کوریج کے جواب میں کہا۔ "لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ پوری بات ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے. یہ ایک آزاد پریس کا بہترین کارکردگی کا مظاہرہ ہے۔ یہ ہمیں حساب میں رکھتا ہے۔”

Azmat Khan

پیولٹزر پرائز کمیٹی نے ٹائمز فار انٹرنیشنل رپورٹنگ کو 2022 کے ایوارڈ میں بطور مصنف عظمت خان کے کردار کو نوٹ کیا۔ تصویر: بشکریہ خان

ان کی تحقیقات کے پردے کے پیچھے جھانکنے کے لیے، جی آئی جے این نے اس ٹیم کے دو اہم اراکین کا انٹرویو کیا: کرسٹوف کوئٹل – ٹائمز کی بصری تحقیقاتی ٹیم کے رکن، جنہوں نے ستمبر میں کابل ڈرون حملے کی ابتدائی کہانی پر کام کیا – اور سیریز کے لیڈ رپورٹر، عظمت خان، نیویارک ٹائمز میگزین کے ایک تحقیقاتی صحافی اور کولمبیا یونیورسٹی میں صحافت کے اسسٹنٹ پروفیسر۔ خان 2014 سے مشرق وسطیٰ میں شہری فضائی حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی کھوج لگا رہی ہیں، جب انہوں نے اور ایک ماہر سماجیات – دونوں فوجی افسران اور زمین پر موجود گواہوں سے انٹرویو کرتے ہوئے – شمالی عراق کے ایک علاقے میں 103 فضائی حملوں کی چھان بین کی، اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہر پانچ حملوں میں سے ایک میں ایسا ہوا ہے۔ -جسے ‘پریسیژن سٹرائیکس’ کہا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک شہری کی موت واقع ہوئی۔ خان کہتی ہیں کہ یہ شرح پینٹاگون کے دعوے سے 31 گنا زیادہ تھی – اور یہ کہ تب سے "دسیوں ہزار سٹرائیکس” میں یہی شرح برقرار ہے۔

کمزور جائزے اور مضبوط ویڈیو شواہد نے سیریز کو متحرک کیا۔

ٹائمز کے نامہ نگاروں کی طرف سے ایک اہم راستہ غیر مانوس دستاویزات کی صحافتی صلاحیت کو تسلیم کرنا تھا۔ 2014 میں شمالی عراق میں ہونے والے حملے کے لیے پینٹاگون کی شہری ہلاکتوں کی تشخیص کی صرف ایک رپورٹ حاصل کرنے کے بعد، خان کہتی ہیں کہ انہوں نے دستاویز کے اس طبقے کے بارے میں دو دلچسپ خصوصیات کو سمجھ لیا: اس میں شامل فوجی مواصلات کے بارے میں غیر متوقع طور پر تفصیلات موجود ہیں اور انہوں بہت کم چھان بین کی یا ان کمیونٹیز کو سمجھنے کی کوشش جن پر بمباری کی جا رہی ہے۔

"میں نے اس پہلی دستاویز میں جو کچھ پڑھا اس سے میں حیران رہ گئی تھی – ایسی باتیں  تھیں جیسے ‘ہم نے لوگوں کو دروازے کھولتے ہوئے دیکھا’، جسے [امریکی فوج] نے ‘داعش کا حربہ’ کہا… انہوں نے کہا کہ انہوں نے دن کے گرم ترین اوقات میں فلمایا، لیکن انہوں نے کوئی خواتین اور بچے نہیں دیکھے – جیسے کہ وہ اس وقت باہر ہوں گے،‘‘ خان بتاتی ہیں۔ "میں جانتی تھی کہ مجھے ایسے مزید دستاویزات حاصل کرنے ہیں۔”

(خان ذیل کے کلپ میں شہری ہلاکتوں کے بارے میں اپنی رپورٹنگ کی ابتداء کی وضاحت کرتی ہیں۔)

جواب میں، خان نے آر ٹی آئی یا معلومات کی آزادی کی درخواستیں دائر کرنا شروع کیں، اور پینٹاگون کی ہلاکتوں کے ان میں سے بہت سے  ایسے جائزی دساتویزات کے لیے ایک مقدمہ دائر کیا۔ اور، پچھلے سال تک، انہوں نے اس طرح کی 1311 رپورٹیں جمع کی تھیں۔ ٹیم نے گزشتہ ستمبر میں اپنی سیریز کا آغاز کیا، جب کوئٹل اور ان کی ٹیم کے سامنے اگست کے کابل ڈرون حملے سے پہلے کے واقعات کی سیکورٹی ویڈیو آئی، جس میں سات بچے مارے گئے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک چاہے جانے والا این جی او امدادی کارکن، زیماری احمدی کو غلط طریقے سے نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ اس نے اپنے باس کے لیے ایک لیپ ٹاپ، اور اپنے خاندان کے لیے پانی کے کنستر جمع کیے تھے- بے ضرر رویہ جسے فوجی تجزیہ کاروں نے چند منٹوں میں غلط طور پر دہشت گردانہ کاروائی کے طور پر نشان زد کیا تھا۔ 

"زیماری کے ساتھی کارکنوں نے ہمیں بتایا کہ وہ کیسے ایک عام آدمی تھا جو باقاعدگی سے  صبح اپنے پانی کے بڑے کنستر بھرنے آتا تھا،” کوئٹل یاد کرتے ہیں۔ "ہم نے یہ پہلے نہیں سنا تھا، اور یہ انتہائی دلچسپ تھا، کیونکہ فوج نے ایک آدمی کو ایک کار میں بڑے پیکیجوں کو لوڈ کرتے ہوئے دیکھا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ بم ہے۔ لہذا ہم نے پوچھا کہ کیا ان کے پاس ان کنستروں کی کوئی تصویر ہے، اور اس طرح ہمیں پتہ چلا کہ ان کے پاس یہ تمام ناقابل یقین سیکورٹی فوٹیج موجود ہے۔”

پینٹاگون نے اس کہانی کے جواب میں اپنے ابتدائی "رائٹیئس اسٹرائیک” کے دعوے کو تبدیل کر دیا، غلطی کو تسلیم

Christoph Koettl

کرسٹوف کوئٹل، نیو یارک ٹائمز میں بصری تحقیقاتی ٹیم کے رکن۔ تصویر: بشکریہ کوئٹل 

کرتے ہوئے، لیکن پھر دعویٰ کیا کہ یہ حملہ پھر بھی تک جائز تھا کیونکہ احمدی نے داعش کے "محفوظ گھر” کے ساتھ پارک کیا تھا۔ کوئٹل کی ٹیم نے اس دعوے کو بھی فوری طور پر غلط ثابت کر دیا- دکھاتے ہوئے کہ "محفوظ گھر” درحقیقت ایک خاندانی گھر تھا۔ خان کہتے ہیں، "کابل حملے کے بارے میں کرسٹوف اور بصری تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹنگ نے میرے خیال میں دنیا کو جگا دیا، اور اس نے اس موضوع پر بہت زیادہ نظریں جمانے پر مجبور کر دیا،” خان کہتی ہیں، "شہری ہلاکتوں کو ادارتی ترجیح بنانا مشکل ہے۔”

اگرچہ اس سیریز کے تناظر میں بہت کم فوجی جوابدہی ہوئی ہے، اور اصلاحات کے صرف معمولی اشارے ہیں، خان کہتی ہیں کہ اس منصوبے کے دیرپا اثرات میں اس کے طریقہ کار کا ماڈل، اور ٹیم نے دیگر رپورٹرز کے لیے کھوجنے کے لیے جو تشخیصی دستاویزات کھلے ہیں، شامل ہیں۔

 ’’آپ راتوں رات فوج جیسے اداروں میں اس قسم کی تبدیلی نہیں دیکھ پائیں گے جو آپ چاہتے ہیں، لیکن یہاں میں امید کرتی ہوں کہ عوام ان کوتاہیوں سے کہیں زیادہ واقف ہے،‘‘ خان کہتی ہیں۔ "بہت سارے محققین اب ان دستاویزات پر تحقیق کر رہے ہیں جو ہم نے جنگ کے قوانین جیسی چیزوں کو دیکھنے کے لیے عام کیے ہیں۔ یہ عام طور پر رپورٹرز نہیں دیکھ سکتے ہیں۔” ایک اور اثر، خان تجویز کرتی ہیں: "اب ہم نیوز میڈیا کو مستقبل میں فوجی درستگی کے دعووں کے بارے میں بہت زیادہ شکوک و شبہات اور ان ہلاکتوں کو بے نقاب کرنے کے لیے سخت محنت کرتے ہوئے دیکھیں گے۔”

(ذیل کے کلپ میں خان کو اس بارے میں بات کرتے ہوئے سنیں کہ ٹائمز سیریز شہری فضائی حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی مستقبل کی تحقیقات کو کیسے متاثر کر سکتی ہے۔)

خان کی فائل کا جائزہ لینے کے بعد، کوئٹل کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے فوجی فیصلہ سازی میں "سنگین نتائج کے ساتھ چھوٹی چھوٹی غلطیوں” کا ایک سلسلہ دیکھا، اور نظامی مسائل کے ثبوت ملے۔”

"ہم نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ دراصل بہت سے فوجی جائزہ لینے والے لوگ ہیں جن کے پاس ہنر اور اوزار ہیں – وہ ان ٹولز کی فہرست بھی بناتے ہیں جنہیں وہ دستاویزات میں استعمال کرتے ہیں: گوگل ارتھ؛ وکی میپیا؛ وہ تمام اوزار جو ہم استعمال کرتے ہیں،” وہ بتاتے ہیں۔ "لیکن میرے خیال میں ہر چند ماہ بعد فوجی جوانوں کی تبدیلی ہوتی ہے، اس لیے وہاں مستقل مزاجی، ناکافی تربیت، زبان کی مناسب مہارت نہیں ہے۔ یہ افراد پر منحصر ہے، اور وہ کتنا خیال رکھتے ہیں۔”

خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جی پی ایس کوآرڈینیٹ سے سیٹلائٹ شواہد اور زمین پر گواہوں کی گواہی کے ساتھ، اور اتحادی افواج کی طرف سے پوسٹ کی گئی سٹرائیک کی ویڈیوز کو قریب سے مانیٹر کر کے جانی نقصان کے دعووں کی تصدیق کی۔

” فیلڈ میں نکلنے سے پہلے، میں سیٹلائٹ سے پہلے اور بعد میں نقاط کا تجزیہ کرتی، اور میں اسے ایک دستاویز میں

Maxar satellite imagery after a US airstrike in Syria

تصویر: سکرین شاٹ

رکھ دیتی،” وہ کہتی ہیں۔ "شروع میں، میں [سیٹیلائٹ امیجری سروس] ٹیرا سرور(TerraServer) استعمال کر رہی تھی؛ بعد میں، میں نے میکسار (Maxar) اور گوگل ارتھ کا استعمال کیا — تبدیلیوں کی تلاش میں، اور آیا وہ دستاویزات میں بیان کردہ چیزوں سے مماثل ہیں”۔ خان مزید کہتی ہیں: "گواہوں کے انٹرویوز کے لیے، مجھے محتاط رہنا تھا کہ گواہوں کو دستاویزات سے معلومات فراہم نہ کروں، کیونکہ لوگ صرف تصدیق کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔”

شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے مفید ڈیٹا بیس

جب کہ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور برطانوی طبی جریدے دی لانسیٹ جیسی تنظیموں کے ذریعہ مفید سویلین ہلاکتوں کی رپورٹس اور نام نہاد تعزیتی ادائیگی کے ریکارڈ تیار کیے گئے ہیں، خان تجویز کرتی ہیں کہ رپورٹرز ایسے مخصوص ڈیٹا بیس کے ساتھ فضائی حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات شروع کریں جو کثیر سطح پر انحصار کرتے ہیں۔ ذرائع — عوامی فوجی بیانات سے لے کر مقامی زبان کے سوشل میڈیا اور این جی او رپورٹس تک۔ خاص طور پر، وہ ان ذرائع کی سفارش کرتی ہیں:

ایئر وارز (ٓٓAirwars): برطانیہ میں قائم ایک این جی او کے بنائے اس ذریعے نے 2014 سے شام، عراق، لیبیا، صومالیہ اور یمن سمیت چھ ممالک میں ٹینکوں، بندوخوں اور فضائی حملوں میں ہونی والی 60,000 مبینہ ہلاکتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔ ان کے ڈیٹا بیس میں ہزاروں فوجی دستاویزات، این جی او اکاؤنٹس، اور عربی زبان کی خبریں اور سوشل میڈیا رپورٹس کے ساتھ ساتھ درجہ بندی کے جائزے، اور تصدیقی حدود اور پروپیگنڈے کے ذرائع پر واضح اشارے شامل ہیں۔ "ایئر وارز بین الاقوامی سطح پر صحافیوں کے لیے ناقابل یقین حد تک مفید ہے کیونکہ وہ نہ صرف امریکی فوجی بیانات کو لاگ کر رہے ہیں، بلکہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کیا فرانس، مثال کے طور پر، اس یا اس دن کسی حملے میں ملوث ہو سکتا ہے؛ آسٹریلیا، نیدرلینڈز جیسے اتحادیوں کے بارے میں معلومات،” خان کہتی ہیں۔ "ان میں سے کچھ علاقوں تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے۔ یا جب آپ نہیں جانتے کہ مقامات کہاں ہیں، کیونکہ فوج انہیں ظاہر نہیں کرتی ہے – یہ وہ جگہ ہے جہاں ایئر وارز واقعی مددگار تھے۔”

ڈرون وارز ڈیٹا بیس (Drone Wars Database): دا بیورو آف انویسٹیگیٹو جرنلزم(ٹی بی آئی جے)  کی طرف سے مرتب کردہ، یہ ڈیٹا بیس 2010 سے افغانستان، یمن، پاکستان اور صومالیہ میں اتحادی افواج کے فضائی حملوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ "ٹی بی آئی جے بہت اچھا ہے کیونکہ آپ یمن، افغانستان اور دیگر کے بارے میں ڈیٹا آسانی سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں اور آپ ان کے طریقہ کار کو پڑھ سکتے ہیں،‘‘ خان بتاتی ہیں۔ "ان کے پاس وہاں تقریباً جغرافیائی محل وقوع ہیں، اور کس چیز کو فوجیوں نے تسلیم کیا تھا، اور کیا نہیں تھا۔”

وکی میپیا (Wikimapia): اگرچہ یہ ہلاکتوں کا ڈیٹابیس نہیں ہے، خان کہتی ہیں کہ یہ جزوی طور پر کراؤڈ سورس ویب میپ ٹول نظر انداز کی گئی جانی نقصان کی سائٹس کو تلاش کرنے کے لیے مفید ہے، کیونکہ اس میں کمیونٹی کے ذریعے پیدا ہونے والے واقعات کی کچھ تفصیل شامل ہوتی ہے، اور اکثر اس میں لیبلز اور متبادل جگہ کے نام شامل ہوتے ہیں جو رسمی یا مغربی نقشوں میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اسے گوگل ٹرانسلیٹ (Google Translate) کے ساتھ استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہیں، یا مقامی زبان کی مہارت کے حامل ساتھیوں کے ان پٹ کے ساتھ۔ "ان پٹ ملک کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے – وکی میپیا عراق میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا تھا، لیکن کچھ دوسرے ممالک میں کم – لیکن یہ بہت مددگار تھا،” خان نوٹ کرتی ہیں۔ "مجھے مغربی موصل میں ایک بجلی کے سب سٹیشن پر بمباری کا جائزہ لیتے ہوئے یاد آیا، اور یہ دیکھ کر کہ اس سب سٹیشن کو وکی میپیا پر ایک خاص طریقے سے لیبل کیا گیا تھا۔ اور میں نے سوچا، مجھے ‘موصل’ اور ‘ایئر اسٹرائیک’ کو ساتھ گوگل کرنے دیں، اور اس واقعے کی یہ واقعی خوفناک یوٹیوب ویڈیو سامنے آئی، اور میں اس کی تصدیق کر سکتی ہوں۔”

تاہم، خان نے متنبہ کیا کہ یہاں تک کہ بہترین، دستاویز پر مبنی ڈیٹا بیس میں بھی اہم خلاء موجود ہیں، جس کی وجہ انٹرنیٹ تک رسائی کی کمی، ناقص فوجی جائزے، اور حکومتی ریکارڈ کا گمشدہ یا غیر موجود ہونا ہے – اور یہ کہ اہم کم گنتی سے بچنے کے لیے زمینی رپورٹنگ ضروری ہے۔

"مثال کے طور پر، مجھے یقین ہے کہ ہمیں ابھی تک افغانستان میں، خاص طور پر جنوب میں، اور مشرق میں — ننگرہار اور کنڑ صوبوں میں عام شہریوں کی فضائی حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے پورے پیمانے کا اندازہ نہیں ہے،” خان کہتی ہیں۔ "ایک گاؤں میں میں نے تقریباً ایک مہینہ گزارا، کیسز کےنمونے لینے کے لئے، حکومت کے خاتمے کے بعد، وہاں کسی کے پاس موت کا سرٹیفکیٹ نہیں تھا۔ وہ تھے، جیسے: ‘وہ کیا ہیں؟’ تو، سرکاری دستاویزات کے بغیر، ان کا شمار نہیں کیا جائے گا۔ مجھے گھر گھر جانا پڑا۔”

فضائی حملے کے ثبوت اور ذرائع جمع کرنے کے اوزار

وژوئل پنگ (Visual Ping): خان نے اس ٹول کا استعمال ویب سائٹس میں ہونے والی تبدیلیوں کی نگرانی کے لیے، اتحادی افواج کی پوسٹ یا ہٹائی گئی سٹرائیک کی ویڈیوز کو ٹریک کرنے کے لیے کیا۔ خان کہتی ہیں، "یہ ایک ایسا ٹول ہے جسے میں واقعی پسند کرتی ہوں — آپ اسے آسانی سے اپنی مرضی کے مطابق بنا سکتے ہیں تاکہ آپ کو سائٹ کی مخصوص تبدیلیوں سے آگاہ کیا جا سکے جن میں آپ دلچسپی رکھتے ہیں،” خان کہتی ہیں۔ "پھر میں اپنے شواہد کو ان ویڈیوز سے ملا سکتی ہوں جو فوج نے اپ لوڈ کیے تھے۔ میں ان سے پوچھتی تھی، ‘کیا آپ نے اس جگہ پر فضائی حملہ کیا؟’ اور کبھی کبھی وہ مجھے ‘نہیں’ کہہ دیتے۔ اس طرح میں اس بات کا پردہ فاش کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ وہ اپنے تمام کوآرڈینیٹس کو لاگ نہیں کر رہے ہیں۔”

گوگل ارتھ پرو (Googe Earth Pro): خان اور کوئٹل کا کہنا ہے کہ اس معروف، مفت سیٹلائٹ امیجری اور میپنگ ٹول کے ڈیسک ٹاپ ورژن نے پچھلے چھ مہینوں میں اس کی تلاش کی خصوصیات — خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے لیے بہتر کی ہیں۔ اب یہ ٹول کے ٹائم لیپس سلائیڈر کی خصوصیت کا استعمال کرتے ہوئے، فضائی حملے کے مناظر کی درست، پہلے اور بعد میں تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ "ایک ٹول جو میں ہر روز استعمال کرتا ہوں وہ ہے گوگل ارتھ،” کوئٹل نوٹ کرتے ہیں۔ "کابل ڈرون حملے کی کہانی کے لیے یہ انتہائی اہم تھا۔ لوگ اسے تھوڑا کم سمجھتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ آپ صرف زوم ان کر سکتے ہیں اور بس، لیکن آپ واقعی اسے نقشے پر تاریخ اور معلومات کو ترتیب دینے اور ساتھیوں کے ساتھ ڈیٹا کا اشتراک کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔”

لنکڈ ان (Linkedin)اور ملٹری چیٹ فورمز پر سرچ: خان کہتی ہیں، ’’مجھے یہ ٹِپ نہیں دینی چاہیے، کیونکہ یہ جاری رپورٹنگ کا حصہ ہے، لیکن آپ کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوگی کہ اس فضائی جنگ کے میدان میں کتنی ملازمتوں کا اشتہار لنکڈ ان پر دیا جاتا ہے‘‘۔ "میں نے ان میں سے کچھ ملازمتوں کا ڈیٹا بیس بنایا ہے۔ میں ان لوگوں کو ہاتھ سے خط لکھنا پسند کرتی ہوں جو مجھے وہاں ملتے ہیں، اس لیے کوئی ڈیجیٹل ٹریل نہیں ہے، وہ کہتی ہیں۔ خان کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو بھی سویلین مشیروں اور فوج کے مشیروں کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ "پینٹاگون کے ایک سابق مشیر جنہوں نے ان فوجی تشخیصات کا مطالعہ کیا اور جوابدہی کی پیروی کی، وہ ہماری تحقیقات میں جرات مندانہ طور پر سامنے آئے،” وہ مزید کہتی ہیں۔ خان کہتی ہیں کہ ممکنہ رابطوں کی شناخت کے لیے ایک اور مفید طریقہ آن لائن ملٹری فورمز میں حصہ لینا اور تبصروں کے تھریڈز کو سکین کرنا ہے۔ "یہ حیرت انگیز ہے کہ آپ کتنی بار لوگوں کو یہ کہتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ ‘میں وہاں تھا جب…'”

جنگی علاقے میں تعاون کرنے والوں کو لوکیشن سروسز آن کرنا سکھائیں۔ خان کا کہنا ہے کہ مقامی تعاون کنندگان کی جانب سے بہادری سے شیئر کی گئی فضائی حملے کی سائٹ کی بہت سی تصویروں کی تصدیقی قدر ضائع ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے آلے پر میٹا ڈیٹا فنکشنز فعال نہیں ہیں۔’’اگر آپ کانگو جیسی جگہ کو دیکھ رہے ہیں۔ تو کبھی کبھی یہ اتنا ہی آسان ہوسکتا ہے جتنا کہ لوگوں کو اپنے تجربات کو دستاویز کرنے اور انہیں آپ کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے ٹولز کا استعمال کرنے کے لیے بااختیار بنانا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ "ہو سکتا ہے لوگوں کو یہ دیکھانا کہ ان کے فون پر جی پی ایس کوآرڈینیٹس کیسے آن کیے جائیں، تاکہ ان کا میٹا ڈیٹا ٹریک ہورہا ہو۔”

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کسی فضائی جنگ کے متاثرین نے ان کی پیولٹزر جیتنے کی خبروں پر ردعمل ظاہر کیا ہے کیونکہ اس سے شہری فضائی حملے میں ہونے والی ہلاکتوں پر دوبارہ توجہ دی گئی ہے، خان نے کسی قسم کی تصدیق یا جشن کا کوئی احساس پیش نہیں کیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے داعش اور اس کے خلاف امریکی زیر قیادت اتحاد کی جنگ کے ذریعے چھوڑے گئے دیرپا نقصان کی ایک دہلا دینے والی یاد دہانی شیئر کی۔

وہ کہتی ہیں، ’’مجھے کچھ دن پہلے کابل حملے میں زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک کا پیغام ملا۔ "اس نے اپنی بیٹی کھو دی۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہم ابھی تک کابل میں ہیں، ہمیں وہاں سے نہیں نکالا گیا، ہمیں کوئی [معاوضہ] رقم نہیں ملی۔’ انھوں نے کہا: ‘یہ ایوارڈ جیتنے پر مبارک ہو – آپ کو کتنی رقم مل رہی ہے؟’

"یہ سننا،” خان نے ایک طویل توقف کے بعد مزید کہا، "بس کام کا سب سے برا حصہ ہے۔”

___________________________________________________________

Rowan-Philp-140x140روون فلپ جی آئی جے این کے رپورٹر ہیں۔ وہ پہلے جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز کے چیف رپورٹر تھے۔ ایک غیر ملکی نامہ نگار کے طور پر، وہ دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک کی خبروں، سیاست، بدعنوانی اور تنازعات پر رپورٹ کر چکے ہیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

Karachi Sewerage and Water Board corruption investigation, Dawn newspaper

‎کراچی کی واٹر سپلائی چین میں کرپشن اور ’ٹینکر مافیا‘ پر تحقیقات

کراچی کے پانی کی فراہمی کے بحران کی تحقیق کرنت والی ٹیم نے جی آئی جے این کو بتایا کہ انہوں نے یہ کہانی کیسے کی — اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں تحقیقاتی صحافت کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے