رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش
Karachi Sewerage and Water Board corruption investigation, Dawn newspaper
Karachi Sewerage and Water Board corruption investigation, Dawn newspaper

Image Shutterstock

رپورٹنگ

‎کراچی کی واٹر سپلائی چین میں کرپشن اور ’ٹینکر مافیا‘ پر تحقیقات

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

پاکستان میں بطور صحافت کی استاد اگر مجھے اپنے طلباء یا اور صحافیوں کے کو ایک ایسی کہانی کے بارے میں بتانا ہو جس کو پڑھ کر وہ کچھ سیکھ سکتے ہیں وہ کراچی میں ٹینکر مافیا کے بارے میں ہے، جو انگریزی اخبار ڈان میں جنوری 2023 میں چھپی۔

یہ ایک بہترین تحقیق ہے اور اگے بڑھنے سے پہلے اسے ضرور پڑھیں۔ یہ کہانی تین ہنرمند اور منفرد صحافیوں نے لکھی ہے اور یہ اس بات کہ عکاسی کرتی ہے کہ کراچی جیسے شہر میں تحقیق کس طرح کی جا سکتی ہے۔

تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ کراچی میں پانی کی چوری کا پیمانہ اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے جتنا کہ معلوم تھا -اس نے اہم مشترکہ وسائل کی تقسیم کے مرکز میں کلیپٹوکریسی پر روشنی ڈالی۔

‎اس کے مصنف نازیحہ سید علی اور اسلم شاہ ہیں۔ سید علی ایک تجربہ کار رپورٹر ہیں جو پاکستان کے ایک بڑے رئیل اسٹیٹ کے سیٹھ کی بد عنوانی کی تحقیق کے لیے جانی جاتی ہیں۔ شاہ ایک سٹی واٹر بیٹ رپورٹر ہیں جو کراچی کے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کو اس حد تک جانتے ہیں کہ وہاں ایک خاغز بھی ہلے تو انہیں خبر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سید نواز الہدیٰ نے ان کی مدد کی جنہوں نے جغرافیہ اور علاقائی منصوبہ بندی میں پی ایچ ڈی کی ہے اور اخبار کے نقشہ سازی سیل ڈان جی آئی ایس میں چیف کارٹوگرافر بھی ہیں۔

‎ پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل یہ کہانی سیلنگ لیکوئیڈ گولڈ – کراچی کے ٹینکرمافیا کراچی جیسے شہر میں پانی کی فراہمی میں نظاماتی بدعنوانی کی وسعت کو  جانچتی ہے۔ تحقیقات میں سیاست دان، حکومتی عہدیداران، واٹر بورڈ کے عملے، فوجی اہلکاروں، ہائیڈرنٹ کنٹریکٹرز، واٹر ٹینکر مالکان، نیم فوجی دستوں، کمیونٹی کی سطح کے افراد اور دیگر کے نیٹ ورک کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ سب یومیہ 62 ملین روپے کمانے والا منافع بخش کاروبار ہے۔ اور یہ ایک محتاط تخمینہ ہے کیونکہ اس میں صرف چھ سرکاری سٹی ہائیڈرنٹس سے فروخت ہونے والے پانی کا حساب لگایا گیا ہے جبکہ کراچی میں درجنوں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کا پانی بیچہ جاتا ہے۔

‎معلومات ایکھٹی کرنے کے لیے رپورٹنگ ٹیم نے پانی کے پمپنگ اسٹیشنوں (یا مقامی زبان میں ہائیڈرنٹس) کی نگرانی کی، جیو سائنسی ڈیٹا، سیٹلائٹ امیجری، دستاویزات اور نقشے حاصل کیے اور واٹر سپلائی چین کے مختلف درجے پر موجود ذرائع سے بات کی۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ کراچی میں پانی کی چوری کا پیمانہ اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے جتنا کہ معلوم تھا -اس نے اہم مشترکہ وسائل کی تقسیم کے مرکز میں کلیپٹوکریسی پر روشنی ڈالی۔

‎ناکس انفراسٹرکچر

‎کراچی کا پائپ لائنوں کا ٹوٹتا ہوا نیٹ ورک کنگ جارج ششم کے دور کا ہے۔ یہ تقریباً 100 سال پرانا ہے۔ حکومت کے زیر انتظام واٹر یوٹیلیٹی نے فیصلہ کیا کہ شہر کے پھیلتے ہوئے اس پسماندہ اور کم سرمایہ ملنے والے سسٹم کو بہتر کرنے کا ایک ہی حل ہے: پانی کے نجی ٹینکرز کو اجازت دی جائے کہ وہ ہائیڈرنٹس (مین کے ڈبلیو ایس بی واٹر لائنوں پر دیوہیکل نوزلز) سے پانی بھریں اور شہر میں فراہم کریں۔ شہر میں چھ ہائیڈرنٹ موجود ہیں، جن کے ان علاقوں پر ہیں جہاں یہ موجود ہیں۔ ان ہائیڈرنٹس کی ہر دو سال بعد نیلامی ہوتی ہے اور ان کا انتظام ان نجی کمپنیوں میں سے ایک کو دیا جاتا ہے جو شہر بھر میں ٹینکرز کے ذریعے پانی فراہم کرتے ہیں۔

Karachi, Pakistan water supply network

Image: Screenshot, DAWN

 نتیجہ یہ ہے کہ کراچی میں رہنے والے جب اپنے گھر میں نل کھولتے ہیں تو انہیں  زیر زمین کے ڈبلیو ایس بی لائن سےآنے والا پانی نہیں ملتا – انہیں ایک نجی ٹینکر سروس کو فون کرنا پڑتا ہے اور انہیں پیسے دینے پڑتے ہیں تاکہ پانی ان کے گھر تک پہنچایا جا سکے۔ اس سے رہائشیوں کو مستقل پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

‎سب جانتے ہیں کراچی میں پانی کے نرخ اور تقسیم غیر مساوی ہے: پہلے تو ڈان کی رپورٹر سید علی نے سوچا کہ کیا یہ واقعی اہم کہانی ہے یا نہیں۔ "پھر خیال آیا، پانی حاصل کرنا ہر ایک کے لیے ایک جدوجہد ہے چاہے آپ اس کے لیے ادائیگی کر سکیں یا نہیں،” انہوں نے کہا۔

‎حکومت کی طرف سے منظور شدہ چھ ہائیڈرنٹس کے فلو میٹرز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے جس کے باعث نجی ٹینکر سروسز جتنا ریکارڈ کرتی ہیں اس سے کہیں زیادہ پانئ نکال کر بیچتی ہیں۔ دو دیگر سرکاری ہائیڈرنٹس پرائیویٹ کمپنیوں کو نیلام نہیں کیے گئے اس لیے وہاں احتساب بھی کم ہے۔ تاہم ان آٹھ مقامات کے علاوہ شہر غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے بھرا ہوا ہے جن کے آپریٹرز کے ڈبلو ایس بی کی پائیپوں سے پانی لیتے ہیں۔ کراچی میں غیر رسمی غیر دستاویزی غیر قانونی پانی فروخت کرنے کے کاروبار کا پیمانہ اتنا وسیع ہے کہ اس طرح کی تحقیقات صرف سطح کو کھرچ سکتی ہیں۔

‎”ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو ‘پانی کا حق نہیں ہے،”حصار فاؤنڈیشن کی سربراہ سیمی کمال کا کہنا تھا کراچی میں ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو خوراک، پانی اور روزی روٹی کی حفاظت پر مرکوز ہے۔ "ہمیں کراچی کے سماجی و سیاسی نقشے، اس کی عدم مساوات اور اس کی غربت کی پروفائل کو کھولنا چاہیے تاکہ یہ سمجھنا شروع کیا جا سکے کہ کے ڈبلیو ایس بی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر کیوں ہے، ایک ادارے کے طور پر اس کی قدر کم ہے اور وہ شدید تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔”

‎ذرائع تک رسائی

‎سید علی کے لیے پانی کی تقسیم ایک نیا موضوع تھا۔ اس لیے انہوں نے پس منظر کی تحقیق اور انٹرویوز کے ساتھ شروعات کی۔ اس کے بعد واٹر بورڈ کے عملے، اہلکاروں، ہائیڈرنٹ ٹھیکیداروں، لائن مینوں، رہائشیوں اور فش فارم آپریٹرز سے انٹرویو کرنے کے لیے فیلڈ رپورٹنگ کی۔ اس کے برعکس، شاہ پہلےسے ہی اس موضوع سے واقفیت رکھتے تھے۔ لہٰذا وہ واٹر بورڈ کے تمام چھوٹی چھوٹی ڈیولپمنٹس کا احاطہ کر رہے تھے بشمول کیے گئے فیصلے، رقم خرچ، بدعنوانی، غفلت، اور اس میں ملوث افسران اور عملہ یا اعلیٰ افسران جو اس سب پر پردہ ڈالتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

‎شاہ نے کہا "آپ لوگوں سے ملتے ہیں، یونین کے لوگ آپ کو بتاتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے، پھر میں افسران کے ساتھ فالو اپ کرتا ہوں۔” سید علی کا مزید کہنا ہے کہ اس پیمانے کی کہانی کے لیے آن دی گراؤنڈ رپورٹنگ ضروری ہے۔

‎ٹیم نے کے ڈبلیو ایس بی کے ذریعے نیلام کیے گئے آفیشل ہائیڈرنٹس کی ایک فہرست بنائی اور عملے سے پوچھا کہ نظام کس طرح کام کرتا ہے اور معمولی سے معمولی تفصیل بھی حاصل کی۔ سید علی نے اس کے بعد عملے، ٹینکر ڈرائیوروں اور ٹھیکیداروں سے سوال کیا کہ میٹرنگ سسٹم کیسے کام کرتا ہے، ٹینکر کہاں بھیجے جاتے ہیں، پانی کا ریٹ کیسے طے کیا جاتا ہے اور پیسے کون اکھٹا کرتا ہے۔ ان باتوں نے شاہ کی دی گئی اندرونی معلومات کے ساتھ مل کر ایک پورا جال پیش کیا کہ آکر پانی کی چوری میں کون ملوث ہے؟

‎سید علی اور نواز نے محسوس کیا کہ تحقیقات شروع کرنے کے لیے ایک اچھی جگہ کراچی کے پانی کا ذریعہ ہے، جہاں سے شہر کے پانی کا بنیادی ڈھانچہ شروع ہوتا ہے: کینجھر جھیل جو شہر سے تقریباً 75 میل مشرق میں واقع ہے اور گجو نہر جس سے مرکزی سپلائی آتی ہے ۔ نواز نے نمونے لیے کیونکہ وہ مچھلی کے فارموں کو فراہم کرنے والے پانی کی جانچ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے وہاں واٹر بورڈ کے عملے سے بات کی اور پوچھا کہ سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔ سید علی کو یہ بات سرکاری افسران سے بات کرنے سے زیادہ مفید معلوم ہوتی ہے۔

Kheenjhar Lake, Karachi's water source

Kheenjhar Lake, Karachi’s main water source. Image: Shutterstock

سید علی نے کہا، "میں نے ہمیشہ یقین کیا ہے کہ آپ کو نیچے کی سطح کے لوگوں سے بہترین اقتباسات اور بہترین معلومات ملتی ہیں۔” یہاں حقیقی دانشمندی پر مبنی جواب ملے گا چونکہ واٹر بورڈ کے نچلے درجے کے عملے کو سرکاری ورژن کو چھپانے اور پیش کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اور اگر وہ بات کرنے سے بہت ڈرتے ہیں تو دوسرے کریں گے۔ نواز نے مزید کہا، "جب بھی ہم آتے سرکاری عملہ بھاگ جاتا لیکن مقامی لوگ بہت مدد کرتے۔ یہ سب نہر اور ہائیڈرنٹس پر ہوا۔

‎یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ ایک ہائیڈرنٹ سے کتنا پانی نکالا جاتا ہے سید علی اور نواز ایک سرکاری ہائیڈرنٹ پر بیٹھے اور گنتی کی کہ ایک گھنٹے میں کتنے ٹینکر آتے ہیں – ایک ایسا حربہ جو نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ شیرپاو ہائیڈرنٹ کو کراچی کے خصوصی پوش محلوں میں سے ایک ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے لیے بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا ہے جو پائپ لائن نیٹ ورک کے آخری سرے پر بیٹھا ہے اور وہاں پانی کی شدید کمی ہے۔

‎کہانی کا سِرا تلاش کرنا

‎سید علی کے لیے تفتیش کا رخ اس وقت مڑ گیا جب 36 سالہ واٹر بورڈ سپروائزر فرقان اخترکو نومبر 2022 میں مسلح افراد  نے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان کا کام غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو تلاش کرنا اور کے ڈبلیوایس بی کے پانی کی چوری کے سیل کو رپورٹ کرنا تھا۔ قتل کے وقت یہ پانی چوری کرنے والوں کے تلاش میں نکلے تھے اور قاتل ان کی موٹر سائیکل بھی چرا کر لے گئے۔ (قتل کے اصل محرکات کا کبھی تعین نہیں ہوسکا؛ یہ گاڑی چوری کا ایک سادہ سا معاملہ ہوسکتا ہے۔ مقتول کے اہل خانہ نے سیکورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ڈان کی رپورٹنگ ٹیم سے بات نہیں کی۔)

‎”جب مجھے کے ڈبلیو ایس بی کے ایک دفتر میں فرقان کے بارے میں پتہ چلا تو

Map showing portion of Karachi's network of illegal hydrants.

Map showing portion of Karachi’s network of illegal hydrants. Image: Screenshot, Dawn

میں نے سوچا کہ کہانی یہاں سے شروع کرنے چاہیے،” ۔ سید علی نے تسلیم کیا کہ فرقان کی موت قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بنے گی لے لے گی کیونکہ وہ ایک معصوم شخص تھا جو اچھا کام کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کی زندگی۔ "ایک ایسے شخص کا قتل جو غیر قانونی ہائیڈرنٹس کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لوگ اس کی پرواہ کریں گے۔”

‎اس قتل نے اس کہانی سے وابستہ حقیقی زندگی کے ممکنہ خطرے کو بھی اجاگر کیا۔ حیرت کی بات نہیں کہ بہت کم لوگ ریکارڈ پر آنے کو تیار تھے۔ اس کے علاوہ کچھ مقامات جہاں غیر قانونی ہائیڈرنٹس چالائے جاتے ہیں وہاں جانا خطرناک ہے۔ نواز کی چال یہ تھی کہ وہ اپنا تعارف بطور پی ایچ ڈی ریسرچرکراتے  جو کہ غلط بیانی نہیں تھی۔ ٹیم نے اپنے ڈرائیور کو یہ بھی متنبہ کیا کہ اگر ضروری ہو تو وہ ان سے دستبردار ہو جائیں اور کہیں کہ وہ ایک اوبر ڈرائیور ہیں۔

‎شیرپاؤ ہائیڈرنٹ پر، ایک مسلح گارڈ نے صحافیوں سے تلخ کلامی کی اور انہیں وہاں سے جانے کو کہا۔’’میں ان واقعات سے محبت کرتا ہوں اور ہمیشہ انہیں شامل کرتا ہوں،” سید علی کہتی ہیں۔ "یہ چھوٹے چھوٹے چٹکلے آپ کہانی کو دلچسپ بناتے ہیں اور یہ تو سچا واقعہ تھا۔”

‎شاہ، سید علی اور ڈاکٹر نواز کے ساتھ میدان میں نہیں آئے کیونکہ ان کا کام دستاویزی ثبوتوں کا پتہ لگانا تھا جو وہ کبھی بھی سرکاری طور پر حاصل نہیں کر سکتے تھے جیسے کہ ہائیڈرنٹ آپریشنز کے اکاؤنٹس۔ چونکہ ان کے پاس واٹر بورڈ کے ذرائع تھے اس لیے وہ سید علی کو یہ بتانے کے قابل بھی تھے کہ کے ڈبلیو ایس بی کے اندر کون کس سے جڑا ہوا تھا اور اس میں شامل تھا۔

‎وہ کہانی پر کام کرتے وقت "تناؤ” محسوس کرنے اور بعض اوقات خوفزدہ ہونے کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ ایک سنسنی خیز مثال یہ ہے کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹ نیٹ ورک چلانے والے کچھ لوگوں نے شاہ کو ان کے ساتھ تھوڑی سی "گپ شپ” کے لیے ملاقات کی۔ انہوں نے ان کے سامنے ایک  اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا اور ان پر یہ یہ واضح کر دیا کہ انہیں خریدا نہیں جا سکتا۔

‎گہری تحقیقات کے لیے بے عیب ساکھ کو برقرار رکھنا اہم ہے۔ چونکہ سب سید علی کے بہترین کام سے واقف ہیں اس لیے ریٹائرڈ اور فعال بیوروکریٹس دونوں ہی ان سے بات کرنے کو تیار تھے۔”واٹر بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر بہت خوش آئند تھے اور شاید تھوڑا بے خبر بھی کیوں کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کتنی بڑی کہانی ہے،” وہ وضاحت کرتی ہیں۔ "مجھے لگتا ہے کہ وہ واقعی کچھ اچھا کرنا چاہتا تھا۔”

‎ثبوت حاصل کرنا

‎یہ دیکھتے ہوئے کہ واٹر ٹینکر مافیا کتنا مضبوط ہے اس کہانی کے لیے دو معیارات ضروری تھے: ٹھوس ثبوت حاصل کرنا اور یہ جاننا کہ تحقیق کب روکنی ہے۔

شاہ کلیدی دستاویزات حاصل کرنے میں کامیاب رہیں، جیسے کہ ہائیڈرنٹس اور سرکاری ایجنسیوں سے موصول ہونے والے پے آرڈرز کی فہرست، ٹینکرز کی بلنگ اور ترجیحی سلوک حاصل کرنے والوں سے وصول کی گئی رقم کی رسیدیں۔

‎ان کی تحقیق اس دعویٰے پر مبنی تھی کہ ہائیڈرنٹس سے کے ڈبلیو ایس بی کو ملی رقم اور ہائیڈرنٹس نکلا پانی آپس میں میل نہیں کھاتے۔ شاہ نے جو فہرستیں حاصل کیں ان سے یہ واضح ہو گیا کہ ناجائز پیسہ کمانے میں کون ملوث تھا اور اس میں کراچی میں طاقت کے تمام بڑے مراکز شامل تھے۔ شاہ نے اس کمپنی سے بھی بات کی جس نے واٹر بورڈ کے لیے ہائیڈرنٹ کا اصل حساب کتاب کیا۔

‎لیکن پانی کے ایک دن کے حجم کو نکالنا ہمیشہ ایک تخمینہ ہوگا جسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا شاہ کے لائے ہوئے دستاویزات کے ساتھ بھی ٹیم نے فیصلہ کیا کہ اپنی تحقیق اکو پختہ کرنے کے لیے اپنے تخمینے سے نکالے گئے اندازے کی ممکنہ حد کے بیچ میں کہیں رکھیں گے۔

‎ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے کراچی کے واٹر سپلائی نیٹ ورک اور پمپنگ اسٹیشنوں کا ایک اچھا تفصیلی نقشہ فراہم کیا جسے انہوں نے ڈرم اسکین کیا (بڑی اینالاگ تصویروں کو درست ڈیجیٹل فائلوں میں تبدیل کرنے کا اسکیننگ طریقہ)۔ نواز نے ڈیجیٹل طور پر نقشے کو سیٹلائٹ کی تصویروں سے ملایا اور اسے جیوریف کے ساتھ رجسٹر کیا جو 1966 میں قائم کیا گیا ایک بین الاقوامی جیو سائنس ڈیٹا بیس تھا۔

Archival KWSB map showing Karachi's water infrastructure

Archival KWSB map showing Karachi’s water infrastructure. Image: Screenshot, Dawn

‎”فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ کا نقشہ رجسٹرڈ ہے تو آپ ٹوپوشیٹس اور سیٹلائٹ امیجز سے جغرافیائی ڈیٹا نکال سکتے ہیں،” وہ بتاتے ہیں۔ نواز نے ان خطرناک مقامات کے تکلیف دہ دوروں کے بعد  کراچی کے پانی کے بنیادی ڈھانچے کا ایک تفصیلی نقشہ بنایا اور سرکاری کے ڈبلیو ایس بی لائنوں سے پانی کی چوری کے اہم بصری سیٹیلائٹ ثبوت بھی فراہم کیے۔

‎”سیٹلائٹ کی تصاویر مجرموں کی دوست نہیں اور صحافیوں کی بہت بڑی دوست ہیں،” نواز نے کہا۔ "اس طرح ہمیں [شیر پاؤ] ہائیڈرنٹ ملا جو عدالتی احکامات کے باوجود اب بھی کام کر رہا تھا۔”

‎کچھ دوسرے ممالک میں رپورٹنگ کے برعکس بدعنوانی کی اس اسکیم میں سرفہرست افراد کا مقابلہ کرنا قابل عمل یا محفوظ نہیں تھا۔ چنانچہ ایک خاص مقام پر ٹیم نے تحقیق روک دی۔’’اس سطح پر میں صاف  کہوں تو ڈر لگتا ہے،” سید علی کہتی ہیں۔ "میں اس مقام تک نہیں پہنچنا چاہتی جہاں مجھے لگتا ہے کہ میں واقعی اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہوں۔

موت کی سی خاموشی

‎اس قسم کی گہری تحقیقات کے لیے بے شمار صبر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے  اور اپبنے نیوز روم سے یہ وقت حاصل کرنا اہم ہے۔ سید علی کہتی ہیں کہ ان کی ٹیم خوش قسمت تھی کہ ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس نے انہیں اپنی تحقیقات کے لیے درکار تقریباً تین ماہ کا وقت دیا۔

‎شاہ کچھ مایوسی کے ساتھ تسلیم کرتی ہیں کہ ڈان نے پانی کی اسکیم سے منسلک کچھ نام نہ چھاپنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن وہ بتاتی ہیں کہ پانی کی چوری کی دستاویزی کرنا اور یہ سب کیسے کام کرتا ہے یہ بڑا انکشاف تھا۔ "یہ میرا مسئلہ نہیں ہے کہ نام چھوڑ دیا گیا ہے،” وہ کہتی ہیں۔ "اس شہر میں تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ نظام کون چلا رہا ہے۔”

‎شاید اس سے کہانی پر سرکاری ردعمل یا پش بیک کی کمی ہو۔ ’’یہاں پر خاموشی چھائی ہوئی تھی،”سید علی بتاتی ہیں۔ کوئی فون کالز بالکل نہیں۔ "کہیں بھی کسی کو گورننس کی سمجھ ہو اور پانی کی تقسیم میں بدعنوانی کے بارے میں ایک بڑی کہانی سامنے آئے تو ملوث لوگوں کا احتساب کیا جاتا۔”

‎لیکن ڈان کے قارئین خاموش نہیں رہے انہوں نے ٹیم کا بھرپور شکریہ ادا کیا۔

‎چند ماہ بعد، کراچی کی صوبائی حکومت نے واٹر یوٹیلیٹی کے اختیارات اور گورننس میں تبدیلی کے لیے ایک قانون متعارف کروایا جس میں دیگر اصلاحات کے علاوہ پانی کی چوری کو روکنے کے لیے مخصوص پولیس اسٹیشنوں کا قیام اور واٹر بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کی برطرفی کو آسان بنانا شامل تھا۔

اس تحریر کا اردو ترجمہ لائبہ زینب نے کیا یے اور اسے جی آئی جے این کی اردو ریجنل ایڈیٹر نے ایڈٹ کیا ہے۔


ماہم مہر کراچی میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ شہری انفراسٹرکچر پر رپورٹ کرتی ہیں اور قومی اخبارات ڈیلی ٹائمز اور ایکسپریس ٹریبیون کے کراچی سیکشنز کے لیے بانی سٹی ایڈیٹر کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ وہ کراچی میں آئی بی اے کے سینٹر آف جرنلزم ایکسیلنس میں صحافت میں ماسٹرز بھی پڑھا چکی ہیں اور باقاعدہ لکھنے سے متعلق ورکشاپس منعقد کرتی ہیں

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

وسائل

انسانی سمگلنگ کی تفتیش، آنکھوں کے سامنے چھپی برائی

انسانی اسمگلنگ دنیا بھر میں ایک مسلسل اور وسیع جرم ہے، اور صحافیوں کے لیے تفتیش کے لیے ایک اہم اور اثر انگیز علاقہ ہے۔ اس جی آئی جے این گائیڈ میں، پلیوٹزر انعام یافتہ صحافی مارتھا مینڈوزا نے اس موضوع کی تفتیش کے لیے اپنی تجاویز دی ہیں۔