تعلیمی تحقیق میں فراڈ اور غلطیوں کو کس طرح رپورٹ کیا جائے؟
ری ٹریکشن واچ بلاگ اور ڈیٹا بیس کے مطابق 2022 میں تعلیمی جرائد نے اخلاقی خلاف ورزیوں یا تحقیقی فراڈ کی وجہ سے 4,600 سے زیادہ سائنسی پرچے چھاپنے کے بعد واپس لیے ہیں۔
"ایسے نسبتاً کم پیپر ہیں جن میں اتنے بڑے مسائل موجود ہیں جو درست کیے جاتے ہیں یا واپس لیے جاتے ہیں۔” الزبتھ بیک، مائکرو بائیولوجسٹ اور سائنس انٹیگریٹی کنسلٹنٹ۔
اگرچہ مراجعت ہر سال شائع ہونے والے تمام تعلیمی پیپروں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوتی ہیں، لیکن بری تحقیق کے گہرے اثرات ہو سکتے ہیں۔ کچھ تحقیقات میں نئی ادویات، جراحی کے طریقہ کار، اور بیماریوں سے بچاؤ کے پروگرام شامل ہوتے ہیں۔ یہ سب براہِ راست صحت عامہ کو متاثر کرتے ہیں۔ حکومتی رہنما جرائم، تعلیم، سڑک کی حفاظت، موسمیاتی تبدیلی، اور اقتصادی ترقی جیسے شعبوں میں پالیسی سازی میں رہنمائی کے لیے تحقیقی نتائج پر انحصار کرتے ہیں۔
30 نومبر کو دا جرنلسٹ ریسورس نے صحافیوں کو ایسی علمی تحقیقات جو تحقیقی اخلاقیات پر پوری نہ اترتی ہوں، کو تلاش کرنے اور انہیں رپورٹ کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے ایک مفت ویبینار کا انعقاد کیا۔ اس ویبینار میں تین ایسے ماہرین جنہوں نے تحقیقی بدانتظامی پر رپورٹنگ کی ہے یا جن کے پاس ایسے واقعات کی نظر رکھنے یا انہیں پہچاننے کا تجربہ ہے، نے بہت سی تجاویز اور مشاہدات پیش کیے۔
آپ میں سے جو لوگ اس ویبینار میں شرکت نہیں کر پائے، یہاں ان کے لیے ہمارے پریزینٹرز کے چار اہم نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔ ایوان اورینسکی، نیشنل ایسوسی ایشن آف ہیلتھ کیئر جرنلسٹس کے سابق صدر ہیں۔ وہ نیویارک یونیورسٹی میں میڈیکل جرنلزم پڑھاتے ہیں اور ریٹریکشن واچ کے مشترکہ بانی ہیں۔ الزبتھ بیک ایک مائیکرو بائیولوجسٹ اور سائنس انٹیگریٹی کنسلٹنٹ ہیں۔ انہیں”امیج سلیوتھنگ کا عوامی چہرہ” کہا گیا ہے اور جوڈی کوہین پرو پبلیکا کی ایوارڈ یافتہ تحقیقاتی صحافی ہیں۔ ان کی سیریز 3 ملین ریسرچ بریک ڈاؤن نے شکاگو کی یونیورسٹی آف الینوائے میں نفسیاتی تحقیقی مطالعہ میں بدانتظامی کو بے نقاب کیا تھا۔
1۔ ریٹریکشن واچ اور پب پئیر ایسے دو آن لائن وسائل ہیں جو صحافیوں کو تحقیق میں دھوکہ دہی اور غلطیوں کی شناخت اور انہیں ٹریک کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
ریٹریکشن واچ، 2010 میں شروع کیا گیا ایک بلاگ، ایسےتحقیقی پیپروں کے بارے میں معلومات کا خزانہ ہے جنہیں تعلیمی جرائد سے ہٹا دیا گیا ہے۔
اس ویب سائٹ کی خصوصیات:
- ریٹریکشن واچ ڈیٹا بیس صحافی کسی مخصوص محقق، یونیورسٹی یا تحقیقی تنظیم سے منسلک مراجعت کی تلاش کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اسے پیٹرنز کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کریں- مثال کے طور پر، ایسے محققین کے گروہ جو اکٹھے کام کرتے ہیں یا ایک ہی ادارے میں کام کرنے والے متعدد محققین کی ہونے والی مراجعات۔
- دا ریٹریکشن واچ لیڈربورڈ، سب سے زیادہ پیپر واپس لینے والے محققین کی ایک غیر سرکاری فہرست۔
- سائنسی جاسوسوں کی ایک فہرست، جس میں خود بیان کردہ "ڈیٹا ٹھگ” جیمز ہیتھرز اور مشیل بی نیوجٹین شامل ہیں، جنہوں نے کرس ہارٹگرنک کے ساتھ مل کر سٹیٹ چیک تخلیق کیا جسے نفسیاتی پیپروں میں شماریاتی غلطیوں کو تلاش کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ ماہرین انتقامی کارروائیوں سے بچنے کے لیے عرفی نام استعمال کرتے ہیں۔
ریٹریکشن واچ کی مدد سے کوہن نے پروپبلیکا کے لیے بچوں کی ماہر نفسیات مانی پاولوری کے کام کے حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ پر کام کیا اور اس حوالے سے سیاق و سباق کا اندازہ بھی لگایا۔
کوہن نے ویبینار کے ناظرین کو بتایا، "ریٹریکشن واچ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ وہاں موجود معلومات اور اس کے ڈیٹا بیس کو استعمال کرنے کی صلاحیت حیرت انگیز تھی۔”
دی کرانیکل آف ہائر ایجوکیشن میں کوہن کی مشترکہ طور پر شائع ہونے والی سیریز میں انہوں نے انکشاف کیا کہ پاولوری نے 13 سال سے کم عمر بچوں پر طاقتور ڈرگ لیتھیم کا ٹیسٹ کر کے تحقیقی اصولوں کی خلاف ورزی کی، حالانکہ انہیں ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ بچوں کے والدین کو مناسب طریقے سے آگاہ کرنے میں بھی ناکام رہیں اور انہوں نے اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے جھوٹے اعداد و شمار بھی بنائے۔
کوہن نے لکھا کہ ”شکاگو میں قائم یونیورسٹی آف الینوائے نے پاولوری کی غلطیوں اور اپنی لاپرواہی کے لیے سخت جرمانہ ادا کیا۔“ وفاقی حکومت نے اسکول سے مطالبہ کیا کہ انہیں پاولوری کی تحقیق کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی طرف سے ملنے والی 3.1 بلین ڈالر کی رقم واپس کرے۔
پب پئیر ایک ایسی ویب سائٹ ہے جہاں محققین ایک دوسرے کے کام پر تنقید کرتے ہیں۔ وہاں پر کوئی بھی تبصرہ کر سکتا ہے۔ اس سےصحافیوں کو سائنسی عمل کے حصے کا مشاہدہ کرنے اور کسی خبر کے لیے کارآمد ثابت ہونے والی معلومات حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
بیک نے ویبینار میں کہا کہ پب پئیر کسی محقق کے کام کے بارے میں بلاوجہ تنقید اور قیاس آرائیوں کے امکانات کو کم کرنے کے لیے بہت اچھے طریقے سے موڈیریٹ کی جاتی ہے۔ یہ ویب سائٹ اپنے تبصرے کے قواعد کی تفصیل سے وضاحت کرتی ہے۔ یہ صارفین کو خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنے بیانات کو عوامی طور پر قابل تصدیق معلومات پر مبنی رکھیں اور اپنے ذرائع کا حوالہ دیں۔ وہاں کسی محقق پر پیشہ ورانہ غلطیوں کے الزامات لگانا ممنوع ہیں۔
”آپ صرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ فراڈ ہیں،“ بیک نے وضاحت کی۔ ” آپ کو پئیر ریویو رپورٹ کی طرح ثبوت اور دلائل کے ساتھ آنا ہوگا۔“
پب پئیر نے طالب علم صحافی تھیو بیکر کے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے صدر مارک ٹیسیئر-لاویگن کے مشترکہ تصنیف کردہ اکیڈمک پیپروں کی تحقیقات میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ٹیسیئر-لاویگن نے بالآخر استعفیٰ دے دیا اور ہولڈن تھورپ، جو سائنس فیملی آف جرنلز کے چیف ایڈیٹر ہیں، نے اگست کے آخر میں اعلان کیا کہ ٹیسیئر-لاویگن کے دو تحقیقی پیپر واپس لے لیے گئے ہیں۔
دا جرنلز ریسورس نے اگست میں پب پئیر کے استعمال کے حوالے سے ایک ٹپ شیٹ بھی بنائی ہے۔ اس ٹپ شیٹ میں سے ٹپ نمبر 1: پب پئیر کی مفت برائوزر ایکسٹینشن انسٹال کریں۔ جب آپ کسی شائع شدہ تحقیقی پرچے کو دیکھتے ہیں یا جب آپ کسی تحقیقی مقالے سے لنک کرنے والی ویب سائٹ پر جاتے ہیں، تو براؤزر ایکسٹینشن آپ کو پب پئیر پر اس پیپر کے حوالے سے ہونے والے کسی بھی تبصرے کے بارے میں خبر دیتی ہے۔
2۔ رپورٹنگ کے عمل کے شروع میں آزاد ماہرین سے پوچھیں کہ وہ آپ کی تحقیقی مطالعوں میں مسائل کی موجودگی کے حوالے سے مدد کریں۔
تحقیقی دھوکہ دہی اور غلطیوں پر رپورٹنگ کرتے ہوئے آزاد ماہرین سے رہنمائی حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ ایلزبتھ بیک جیسے ماہرین آپ کو یہ اندازہ لگانے میں مدد کر سکتے ہیں کہ آیا تحقیق میں مسائل موجود ہیں، کیا وہ ارادتاً کیے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور وہ کتنے پیچیدہ ہیں۔
ویبینار کے دوران، بیک نے صحافیوں کو مشورہ دیا کہ وہ رپورٹنگ کے عمل کی شروعات میں مدد طلب کریں اور ممکنہ مسائل کی جانچ کے لیے اس حوالے سے مخصوص مہارت رکھنے والے ماہرین کو ڈھونڈیں۔ بیک گمراہ کن اور تبدیل کی گئی تصاویر کو تلاش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کوئی اور شخص بے ضابطگیوں یا مصنفین کے درمیان تنازعات میں مہارت رکھ سکتا ہے۔
پیک کے سائنس انٹیگریٹی ڈائجسٹ بلاگ کے مطابق ان کے کام سے 1069 مراجعتیں، 1008 تصحیحیں اور 149 تشویش کے اظہار سامنے آئے ہیں۔ جرنل ایڈیٹرزعام طور پر کسی تعلیمی پیپر کے بارے میں تشویش کا اظہار اس وقت کرتے ہیں جب وہ کسی ممکنہ مسئلے سے آگاہ ہوتے ہیں، یا جب کوئی تفتیش نتیجے پر نہیں پہنچتی لیکن اس میں گمراہ کن معلومات یا تحقیقی بدانتظامی کے واضح اشارے موجود ہوتے ہیں۔
بیک نے صحافیوں کی سائنسی ریکارڈ کو درست کرنے اور محققین کو جوابدہ بنانے میں مدد کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
”سینئر محققین جو رہنما ہیں، سرپرست، نگران، اور لیب میں ہونے والی چیزوں کے جو ذمہ دار لوگ ہیں ان کا بہت کم احتساب کیا جاتا ہے۔“
اورینسکی نے صحافیوں سے کہا کہ وہ سائنسی جاسوسوں کو جانیں، جن میں سے کچھ ایکس پر سرگرم ہیں، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا۔
”آپ کو وہاں درجنوں ایسے لوگ مل سکتے ہیں،“ انہوں نے کہا۔ یہ کسی بھی قسم کے وسل بلور یا آپ کے لیے معلومات کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔“
اورینسکی نے بد سلوکی کی عام اقسام پر بھی روشنی ڈالی جن پر صحافی نظر رکھ سکتے ہیں۔
- جعلی ڈیٹا۔
- تصاویر میں گڑبڑ۔
- ادبی سرقہ۔
- یا ”اپنی ہی ادبی سرقہ کرنا” – جب محققین اپنے پہلے سے شائع شدہ مواد سے اپنے ڈیٹا یا تحریر کو اپنے نئے پیپر میں دوبارہ استعمال کرتے ہیں۔
- جعلی پئیر ریویو – پئیر ریویو کا عمل جو مکمل یا جزوی طور پرکسی پیپر کو شائع کروانے کے لیے تبدیل کیا گیا ہو۔
- پیپر ملز – ایسی تنظیمیں جو جعلی یا ممکنہ طور پر جعلی پیپر بناتی اور بیچتی ہیں۔
- تصنیف کے مسائل۔
- پبلیشر کی غلطیاں۔
3۔ تحقیقی دھوکہ دہی کے بارے میں تجاویز حاصل کرنے کا ایک بہترین طریقہ تحقیقی دھوکہ دہی پر رپورٹنگ کرنا ہے۔
اورینسکی نے بتایا کہ انہیں اور ریٹریکشن واچ کے دوسرے لوگوں کو تحقیقی بدانتظامی کے حوالے سے مسلسل ٹپس ملتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ٹپ دینے والے ان صحافیوں کے پاس آتے ہیں جو ان مسائل پر رپورٹ کرتے ہیں۔
”آپ اس بارے میں لکھتے ہیں اور پھر لوگ آپ کے پاس آتے ہیں،” کوہن نے مزید کہا۔ "وہ آپ کو نہیں جانتے جب تک آپ ان مسائل پر باقاعدگی سے رپورٹنگ شروع نہیں کرتے۔ اور باقاعدگی سے بھی نہیں، آپ اس بارے میں لکھنا شروع کرتے ہیں اور اس میں اپنی دلچسپی دکھاتے ہیں تو آپ کو مزید آئیڈیاز ملنے لگتے ہیں۔“
جہاں صحافی عدالتی ریکارڈ اور ذیلی بیانات سے بھی تحقیقی بدانتظامی کے الزامات کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں۔ کوہن نے کہا کہ صحافی پبلک کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تحقیقاتی رپورٹس اور محققین اور ان کے نگرانوں کے درمیان تحریری رابطے کے ریکارڈز کی کاپیاں بھی مانگ سکتے ہیں۔ اگر تحقیق انسانوں کے بارے میں ہو تو صحافی انسٹیٹیوشنل ریویو بورڈ کے ممبران کو بھیجی جانے والی اور ان کی طرف سے موصول ہونے والی رپورٹس اور گفتگو کی کاپیوں کی درخواست کر سکتے ہیں۔
انسٹیٹیوشنل ریویو بورڈ ایک ایسا گروپ ہے جس کی ذمہ داری تحقیق کا جائزہ لینا اور نگرانی کرنا ہے تاکہ جن انسانوں پر تحقیقق ہو رہی ہے ان کے حقوق محفوظ رہیں۔
کوہن نے تجویز دی کہ صحافی مقامی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تحقیقی فنڈنگ سے منسلک ریکارڈ اور فنڈ دینے والوں کو واپس بھیجی جانے والی رقم کے بارے میں پوچھیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ایسی تنظیموں کا ڈیٹا بیس قائم رکھتی ہے جو بائیومیڈیکل میں تحقیق کرنے کے لیے وفاقی گرانٹ سے رقم وصول کرتی ہیں۔
”آپ جن اداروں پر رپورٹ کر رہے ہیں انہیں تھوڑا سا کھوجنا شروع کریں۔“ کوہن نے کہا۔
4۔ اپنے ایڈیٹرز سے مشورہ کریں کہ کیا آپ کو وسل بلورز اور ایسے ماہرین کی شناخت کی حفاظت کرنی چاہئے جو گم نام رہنا چاہتے ہیں اور آپ کو ایسا کیسے کرنا چاہیئے۔
بہت سے ماہرین جو پب پئیر پر تبصرے کرتے ہیں یا دوسرے آن لائن پلیٹ فارمز پر شائع ہونے والی تحقیق کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں وہ عرفی نام استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی شناخت عام ہو۔
”آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہر کوئی اپنے نام سے کام نہیں کرنا چاہتا، اس لیے ان میں سے کچھ ہر قسم کے نام استعمال کر رہے ہیں، گرچہ حال ہی میں ان میں سے کچھ لوگ اپنے اصل نام کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔” کوہن نے کہا۔ "لیکن ظاہری بات ہے اس سے آپ کو بہت سے مداح نہیں ملتے۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کے کام پر ہم تنقید کرتے ہیں وہ کبھی کبھی بہت غصہ ہو جاتے ہیں جو کہ سمجھ میں آتا ہے۔ ان میں سے کچھ نے ہم میں سے کچھ کے خلاف مقدمات چلائے ہیں یا ایسا کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔“
اورینسکی نے کہا کہ انہیں سائنسی جاسوسوں کو گم نام رہنے دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ اپنے خدشات تفصیل سے بتا سکتے ہیں اور صحافیوں کو ان کے ثبوت دکھا سکتے ہیں۔ کسی بھی ذرائع کی طرح، صحافیوں کو ضرورت ہے کہ وہ کسی گم نام ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کو رپورٹ کرنے سے پہلے اس کی جانچ کریں اور آزادانہ طور پر اس کی تصدیق کریں۔
”گم نام ذرائع جو خطرے کا شکار ہوں جیسے کہ ویسل بلور یا لیب میں کوئی ایسا شخص جو مسائل کی نشاندہی کر رہا ہو، خاص طور پر ایک جونئیر شخص۔ اگر آپ جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں، آپ کا ایڈیٹر جانتا ہے کہ وہ کون ہیں تو کافی ہے۔ یہی میرا اصول ہے“۔ انہوں نے کہا. ”ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی شناخت کیوں ظاہر نہیں کرنا چاہتے، لیکن وہ عام طور پر بالکل واضح ہوتا ہے۔“
یہ پوسٹ پہلے دا جرنلسٹ ریسورس نے شائع کی تھی اور یہاں ان کی اجازت کے بعد دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ اس تحریر میں اندازِ بیاں اور وضاحت کے لیے ہلکی سی ترمیم کی گئی ہے۔
اس تحریر کا اردو ترجمہ تحریم عظیم نے کیا یے اور اسے جی آئی جے این کی اردو ریجنل ایڈیٹر نے ایڈٹ کیا ہے۔
ڈینیس میری اورڈوے نے آرلینڈو سینٹینل اور فیلیڈیلفیا انکوائیرر سمیت امریکہ اور وسطی امریکہ میں اخبارات اور ریڈیو اسٹیشنوں کے رپورٹر کے طور پر کام کرنے کے بعد 2015 میں دا جرنلسٹ ریسورس میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا کام یو ایس اے ٹوڈے، دی نیویارک ٹائمز، شکاگو ٹریبیون، اور دی واشنگٹن پوسٹ جیسی اشاعتوں میں شائع ہو چکاہے۔