رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

رپورٹنگ

موضوعات

سورج اور سایوں کی مدد سے تصاویر اور ویڈیوز کے جغرافیائی محل وقوع کا کیسے پتا چلایا جاسکتا ہے

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

تصاویر اور ویڈیوزکی اصلیت کی تصدیق کرنے والے بہت سے لوگ پہلے ہی ’سن کالک‘ نامی ٹول سے ضرور آگاہ ہوں گے۔ اس کے ذریعے کسی ویڈیو یا امیج کے تاریخی محل وقوع کا پتا چلایا جاسکتا ہے۔ اب تک جو بات زیادہ معروف نہیں، وہ یہ کہ سائے اور سورج ایک ویڈیو یا امیج کے جغرافیائی محل وقوع کا پتا چلانے میں نہایت مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

جو لوگ نہیں جانتے، ان کی معلومات کے لیے یہ عرض ہے کہ ایپ سن کالک (SunCalc) کی مدد سے سائے اورسورج کی پوزیشن کا کسی بھی متعیّن تاریخ اور وقت میں پتا چلایا جاسکتا ہے۔ آپ اس ایپ پر کسی ایک تاریخ کا انتخاب کریں، پھرکسی ایک مقام پر زوم اِن کریں۔ جیسے میڈرڈ میں پیورٹا ڈیل سول کا علاقہ ہے۔ اب آپ صفحہ پر سب سے اوپر سورج کے آئیکون پر کلک کرسکتے ہیں اور اس کے بعد کسی مخصوص وقت میں سورج کی پوزیشن کو دیکھ سکتے ہیں۔ سن کالک کے مذکورہ بالا سکرین شاٹ میں 22 نومبر2020ء کودوپہر کے وقت پیورٹا ڈیل سول پر سورج کی پوزیشن کو دیکھاجاسکتا ہے۔ مزید برآں جب استعمال کنندگان کسی چیز کی بلندی کا انتخاب کرتے ہیں تو الگورتھم سے اس کے سائے کی لمبائی بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

کرونولوکیشن بہ ذات خود ایک فن ہے۔ یہ ٹویٹر کے صارف اور او ایس آئی این ٹی کےماہر@Sector035  کا ٹیوٹوریل ہے۔ اس میں بعض مفید نکات فراہم کیے گئے ہیں۔ بلینگ کیٹ کے نِک واٹرس نے گذشتہ سال آذربائیجان کی مسلح افواج کے ہاتھوں ناگورنو قراباغ میں دوامریکیوں کے قتل کی تحقیقات میں اس تکنیک کو استعمال کیا تھا۔

کرونولوکیشن جغرافیائی محل وقوع کا تعیّن کرنے کے لیےسن کالک کو استعمال کرتے وقت ایک اورچیزکو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔یہ کیمرے کی سمت ہے، حالانکہ یہ تکنیک تلاش کے علاقہ کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی کے لیے بہت مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ یوں کہ غلط پازیٹوز کو حذف کردیا جائے اور اس امر کا تعیّن کیا جائے کہ کسی خاص فریم میں کیمراکس سمت کی نشان دہی کررہا ہے۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس کو کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

درج ذیل ویڈیو انسٹاگرام کے ایک صارف نے 22 نومبر 2020ء کو اپ لوڈ کی تھی۔

اس کو ایک اسٹوری کے طور پر اپ لوڈ کیا گیا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ اس شخص کے پروفائل سے 24 گھنٹے کے بعد غائب ہوگئی تھی۔ اس کے مصنف نے بیلنگ کیٹ کو تعلیمی مقاصد کے لیےاس کی فوٹیج شائع کرنے کی اجازت دی۔

اس ویڈیو پر وقت کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اس میں واضح طور پر سورج اور سائے ظاہر ہورہے ہیں۔ یہ پہلا اشارہ ہے۔ دوسرا اشارہ یہ ہے کہ اس کا صارف پرتگیزی زبان بول  رہا ہے۔

بہ الفاظ دیگر اس بات کا امکان ہے کہ یہ ویڈیو کسی لوسوفون ملک میں فلمائی گئی ہوگی۔۔۔ یہ ملک شاید برازیل ہے، پرتگال ہوسکتا ہے یا پھر افریقا کا کوئی ایسا ملک ہوسکتا ہے جہاں پرتگیزی زبان بولی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ چلنے والا گانا برازیلی گلوکار (ژینڈ آوی آؤ کا گانا سرا ڈی کاما) کا گایا ہوا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو دراصل پرتگال میں فلمائی گئی تھی۔

اس کا کیسے پتا چلا؟

اس ویڈیو پر مہر شدہ وقت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ ویڈیو شام چار بج کر31 منٹ پر فلمائی گئی تھی۔ مزید برآں جب انسٹاگرام پر ایک اسٹوری کھولی جاتی ہے تو قاری کو یہ پتا چل جاتا ہے کہ یہ اسٹوری کب اپ لوڈ کی گئی تھی(مثلاً 25 منٹ پہلے)۔ وقت کی دونوں مہریں پرتگال کے حقیقی وقت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ ویڈیو سہ پہر چار بج کر31منٹ (یو ٹی سی) پراپ لوڈ کی گئی تھی۔ تاہم اگر وقت کی مہر نہ بھی ہو تو ایک عام مبصر اس فوٹیج کو دیکھ کر یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ ڈھلتی سہ پہر کے وقت بنائی گئی تھی۔

یہ معقول مفروضہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے کہ یہ ویڈیو لزبن میں بنائی گئی تھی کیونکہ وہ پرتگال کا سب سے بڑا میٹروپولیٹن شہر ہے۔ اس میں سمندر واضح طورپر نظرآرہا ہے۔ اس سےاس بات کا امکان ظاہرہوتا ہے کہ یہ ویڈیو درمیانے یا کسی بڑے شہرہی میں فلمائی گئی تھی۔

یہ سب کچھ ‘سن کالک’ ایپ کو بروئے کار لاکر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کیس میں صفحہ کو کھولنے کے بعد اگر  22نومبر 2020 کی تاریخ کا انتخاب کیا جائے اور اس کو عین 4:31 بجے دیکھاجائے تو یہ لنک مذکورہ بالا متغیّرات کے عین مطابق ’سن کالک‘ کو کھول دے گا۔

جیسا کہ تصویر سے ظاہر ہوتا ہے، اس وقت سورج غروب ہونے کے قریب تھا اور وہ شہر کے جنوب مغرب میں ڈوب رہا تھا۔ ویڈیو میں سورج سمندر کے عین اوپر نظرآرہا ہے اور فلم بنانے والے شخص کے دائیں طرف ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ یہ فوٹیج ایک چار رویہ ایونیو کے پاس واقع ایک اپارٹمنٹ سے بنائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ وسط میں زیریں جانب کجھور کے درختوں کی ایک قطار ہے۔ پھر ایک بڑا گول چکر ہے اور  بظاہر لگتا یہ ہے کہ وہ حال ہی میں بنایا گیا ہے۔

چناںچہ اب تک ہمیں یہ پتا چلا کہ یہ ویڈیو سہ پہر 4 بج کر 31 منٹ ہی پر بنائی گئی تھی۔ اس وقت سورج کی سمت جنوب مغرب کی جانب تھی۔ اس بنا پر ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ ویڈیو فلمانے والے شخص کا چہرہ جنوب کی سمت تھا اور ایونیو کی سمت مشرق سے مغرب کی جانب تھی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سمندر یا اس کا ساحل اس مقام سے جنوب کی جانب تھا۔ اس تمام تفصیل کی روشنی میں یہ رف سا خاکا بنایا جاسکتا ہے۔

اگر سمندر یا جھیل کو جنوب کی سمت ہی ہونا چاہیے تو اس صورت میں کئی ایک جگہیں اس میں شامل نہیں ہوں گی۔ اس میں نہ صرف مزید برّی علاقہ شامل ہوگا بلکہ گریٹرلزبن کا کوئی علاقہ بھی شامل نہیں ہوگا اور یہ علاقے ٹیگس دریا کے جنوب میں واقع ہیں۔ مزید برآں ایونیو نہ صرف مشرق سے مغرب کو جاتا ہے بلکہ یہ ساحلی پٹی کے متوازی بھی ہے۔ ہم دریائے ٹیگس کے دہانے پر واقع بہت سے جگہیں بھی اس میں سے نکال سکتے ہیں اور یہ لزبن کے شمال مشرق میں واقع ہیں۔

اس سے وسطی لزبن سے مغرب میں ساحل کے ساتھ ساتھ کاسکیس کی سمت راستے میں واقع ممکنہ جگہوں کا بھی پتا چلتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دریا ٹیگس کے دہانے کی دوسری سمت فوٹیج میں نہیں دیکھی جاسکتی۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ ویڈیو اس مغربی حصے سے مزید آگے فلمائی گئی تھی جہاں دریا ٹیگس  سمندر کے ساتھ ملتا ہے یا وہ بحراوقیانوس (اٹلانٹک) کے ساتھ ساتھ بہتا ہے۔

اگر ساحل سمندر کے ساتھ مشرق سے مغرب تک علاقہ کو سرچ کیا جائے اور وسیع تر ایونیوز کو دیکھا جائے جنھیں ایک گول چکر کے نزدیک کجھور کے درختوں کی ایک قطار تقسیم کررہی ہے تو اس سے کئی ایک مثالیں نظرآئیں گی۔ اگر آپ گوگل نقشے استعمال کررہے ہیں یا گوگل ارتھ کی سیٹلائٹ امیجری کو استعمال کررہے ہیں تو پھر یہ ممکن ہے کہ آپ کو بڑاگول چکر سرے سے نظر ہی نہیں آئے لیکن اس کے باوجود اویراس میں واقع ایوینڈا دا ری پبلکا کو چار رویہ شاہراہوں اور کجھور کے درختوں کی قطار کے ساتھ نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ اس علاقے میں اس طرح کی اور کوئی شاہراہیں موجود نہیں ہیں۔

ایک مفید شارٹ کٹ

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، اس تکنیک کو اکثرنظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر اس کو سیکھ لیا جائے تو بہت زیادہ وقت بچایا جاسکتا ہے۔ مجھے اس جگہ کو تلاش کرنے میں صرف پانچ سے دس منٹ لگے تھے۔ میں نے اس کا آغاز اپنی چھٹی حس کی نشان دہی پر کیا تھا کہ یہ فوٹیج پرتگال میں بنائی گئی ہوگی اور وہاں بھی دارالحکومت لزبن میں۔ عمومی سوجھ بوجھ کے بغیر ریسرچر اپنا بہت سا قیمتی وقت غلط پازیٹوز کو دیکھنے میں ضائع کرسکتے ہیں۔(مثال کے طور پر وہ اہم جگہوں کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ اس کیس میں یہ سمندر ہے)۔ دوسری صورت میں وہ ان مقامات کو اپنی سرچ میں فی الفور ہی نکال باہر کرسکتے ہیں۔ اس کیس میں لزبن کے جنوبی یا شمال مشرقی ساحلی علاقے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ آپ کی ریسرچ میں یہ معلومات ایک مفید ٹوٹکا ثابت ہوں گی۔ اگراورکچھ نہیں تواس تکنیک کی بدولت آپ اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے ایک شاندار منظر کی ویڈیو یا تصویر پوسٹ کرنے سے قبل دو مرتبہ ضرور سوچیں گے۔

_________________________________________________________

یہ مضمون پہلے بیلنگ کیٹ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا اور اس کو یہاں مجاز اجازت کے بعد شائع کیا جارہا ہے۔

________________________________________________________

یوری وان دیروید بیلنگ کیٹ کے لیے ایک اوپن سورس ریسرچراورٹرینر کے طور پر کام کرتے ہیں۔وہ مختلف متنوع موضوعات پر کام کرچکے ہیں۔ان میں افریقا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ، مشرقی بحرمتوسط کے خطے میں نقل مکانی ، یورپی یونین کے رکن ممالک کی جانب سے اسلحہ کی برآمدات اور نئے اوپن سورس ریسرچ ٹولز اور طریق ہائے کار کے بارے میں تحقیق شامل ہے۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

Karachi Sewerage and Water Board corruption investigation, Dawn newspaper

‎کراچی کی واٹر سپلائی چین میں کرپشن اور ’ٹینکر مافیا‘ پر تحقیقات

کراچی کے پانی کی فراہمی کے بحران کی تحقیق کرنت والی ٹیم نے جی آئی جے این کو بتایا کہ انہوں نے یہ کہانی کیسے کی — اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں تحقیقاتی صحافت کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے