رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

رپورٹنگ

مافیا ریاستیں اور کلیپٹوکراسی کی تفتیش: او سی سی آر پی کے ڈریو سولیون کے ساتھ انٹرویو

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

ایڈیٹر کا نوٹ: جی آئی جے این نے منظم جرائم کی تحقیقات کے لیے صحافیوں کے لیے عالمی گائیڈ مرتب کی ہے۔ دنیا کے چند سرکردہ کرائم رپورٹرز کی لکھی گئی، ہینڈ بک 10 ابواب پر مشتمل ہے، ہر ایک مختلف عنوانات جیسے کہ مجرمانہ مالیات، منشیات، نوادرات کی اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ، سائبر کرائم اور ماحولیاتی جرائم پر مشتمل ہے۔ ہم پہلے ہی آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (OCCRP) کے پال راڈو کے، اور دو بار پلٹزر پرائز جیتنے والی مارتھا مینڈوزا کے، انسانی سمگلنگ پر، مجرمانہ مالیات پر ابواب جاری کر چکے ہیں۔ مکمل ہدایت نامہ اس عالمی تحقیقاتی صحافتی کانفرنس میں یکم تا 5 نومبر کو جاری کیا گیا ہے۔

ابواب میں سے ایک وہ ہے جسے ہم مافیا ریاستیں کہتے ہیں – وہ ممالک جو بنیادی طور پر ایک مجرمانہ کارٹیل کے طور پر کام کرتے ہیں اور ریاست کے معاملات کو اسی طرح چلاتے ہیں جیسے ایک کرائم سنڈیکیٹ ریکیٹ چلاتا ہے۔ اس موضوع کو دریافت کرنے کے لیے، ہم نے GIJN کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوص ای کاپلن، OCCRP میں راڈو کے  شریک بانی اور، تجربہ کار ایڈیٹر اور رپورٹر ڈریو سولییون کا انٹرویو کرنے کو کہا۔ کپلن نے 30 سال سے زائد عرصے سے جرائم اور بدعنوانی پر لکھا ہے اور وہ بین الاقوامی جرائم پر تین کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں "یاکوزا” بھی شامل ہے، جسے جاپانی مافیا پر وسیع پیمانے پر حتمی کام سمجھا جاتا ہے۔ سلیوان OCCRP کے پبلشر ہیں، جنھوں نے اپنی قیادت میں سابق کمیونسٹ ممالک اور پوری دنیا میں منظم جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے اہم کام کیا ہے۔ 2005 میں OCCRP کے آغاز کے بعد سے، اس کی کہانیوں سے $7.3 بلین جرمانے اور رقم ضبط کرنے میں مدد ملی ہے۔ 100 سے زیادہ استعفے اور برطرفیاں؛ اور سینکڑوں گرفتاریاں اور فرد جرم۔

سلیوان کے ساتھ انٹرویو لمبا رہا – اس سے پتہ چلا کہ دونوں صحافیوں کے پاس اس موضوع پر بہت کچھ کہنے کو تھا۔ اس لیے ہم یہاں ایک لمبا ورژن شائع کر رہے ہیں۔ گفتگو مافیا ریاستوں اور کلیپٹو کریسی سے لے کر کارپوریٹ جرائم کی طرف جاتی ہے، اور ان ٹولز پر ایک نظر ڈالنے کے ساتھ ختم ہوتی ہے جن کی ہمیں صحافیوں کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ آج جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ کیا ہو سکتا ہے۔ ہمیں بتائیں کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔

ڈیوڈ کاپلان (ڈی کے): 2012 سے، او سی سی آر پی نے ‘پرسن آف دا ایر‘ ۔ کے ایوارڈ کی تشکیل دی ہے جو کے بنیادی طور ہر منظم جرائم اور بدعنوانی کو حکومتی اسٹائل بنانے کے لئیے ہے۔ اگر آپ جیتنے والوں کے سارے ممالک کا شمار کریں تو یہ انسانیت کا دس فیصد ہے۔ اور یہ وہ ہیں جو آپ نے خود چنے ہیں۔ یہ حکومتی انداز کتنا پھیلا ہوا ہے؟ دنیا میں 195 ممالک ہیں، ان میں سے کتنوں کو ہم مافیا ریاستیں کہ سکتے ہی؟

ڈریو سولییون (ڈی ایس): بزات خود مافیا ریاستیں تو بہت کم ہیں۔ اگر آپ کا اشارہ کلیپٹوکریسی کی طر ہے تو وہ بہت عام ہے۔

ڈی کے: کلیپٹوکریسیس ۔ دوسرے الفاظ میں چوری سے حکومت

ڈی ایس: جی، یہ کافی عام ہے۔ کئی کلیپٹوکریسیس ہیں۔ بدقسمتی سے یہ تیسری دنیا میں اکثریت میں ہیں۔ مافیا ریاستیں کم ہیں ۔ شاید چھ یا سات ہونگی اس لحاظ سے کے انکا مشن بنیادی طور پر مافیا کی طرح کی تنظیم ہونا ہے۔ انکی نیت ہوتی ہے ریاست کو ایک مجرمانی انٹرپرائز کے طور پر چلائیں تاکہ انکے مجرمانہ دلچسپیاں بڑھائی جاسکیں۔

بڑے مافیا ریاستوں میں شاید کوسووہ، مونٹنیگرو شامل ہے ۔ مالٹا بھی کافی قریب ہے۔ آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ روس بھی مافیا ریاست ہے۔ حالانکہ روس کی اپنی ہی ایک کلاس  ہے۔ اور ایکوٹوریل گینیا۔ شاید میکسیکو بھی۔

ڈی کے: افغانستان کے بارے میں کیا خیال ہے؟  یہ ایک ملک ہے جو کے ایک گروپ کے ساتھ ہے جس کو دہشت گرد کا برینڈ دے دیا گیا ہے، جس کو یقینا ہتھیار کا ڈیلر بننا ہے، ہیروؐن سپلائیر اور ایک مکمل بد معاش ریاست ہے۔

ڈی ایس: میں اسکو مافیا اسٹیٹ نہیں کہوں گا کیونکہ جو غالب ہوئے گروپ طالبان، ایک مذہبی دلچسپی کا مجموعہ ہے، آئی ایس ایس اور کوئی اور جنگجو۔ طالبان اپنے اوپیم کے کاروبار کے بارے میں کافی کھلے ہیں لیکن یہ کافی پریگمیٹک فیصلہ تھا۔ کاروبار کے راستے بچھے ہیں اور وہاں کچھ کم ہی جو بین الاقوامی مارکٹوں کی دلچسپی کا ہے، تو وہ بک جائے گا، لیکن اس کے منافع ہمیشہ ہی قانونی طور پر مسئلہ ہوں گے۔

ڈی کے: اور وینیزیلا؟

ڈی ایس: وینیزیلا کافی مافیا ریاست ہے کیونکہ وہ حکومت چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ سیاسی امیر لوگ اور فوج اپنی طاقت ملکی سیکیورٹی اور تعلیم بہترکرنے میں نہیں لیکن آف شورز اور منشیات کی ڈیلز بنانے میں لگے رہتے ہیں۔

آزربائجان کلیپٹوکریسی ہے۔ یہ بدترین، آمرانہ حکومت ہے۔ یہ لوگوں کو دبتے ہیں، لیکن زیادہ تر چوری کی ہویئ رقم دوسرے لوگوں کو کنٹرول کرنے میں لگائی جاتی ہے تاکہ وہ حکومت کی فیملی کے لئیے خطرہ نہ بنے۔ وہ ہر چیز چوری کرتے ہیں اس لئیے نہیں کینوکہ انکو پیسے کی ضرورت ہے۔ وہ بس یہ نہیں چاہتے کہ کسی پاس اتنا پیسہ ہو کے انکے خلاف ہو۔ =

ڈی کے: یہ بہت زبردست فرق ہے۔۔۔ جب آپ امریکی قانون نافز کرنے والوں کو منظم جرائم کے یچھے جاتا دیکھتے ہیں، وہ اینٹی ریکٹیرئینگ کے تحت کیس بناتے ہیں جس میں گروپ پر فرد جرم مسلسل جرائم اینٹرپرایز” کے تحت کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ ہی تعریف لاگو کریں، ہم زیادہ تر دنیا پر فرد جرم لگادیں۔

ڈی ایس: جی بلکل

ڈی کے: تو یہ ایک ذاویہ ہے، ہے نا؟ ہم بدعنوانی کی دنیا میں رہتے ہین جہاں پر کھربوں ڈالرغیر قانوںی طور پرہرسال ہاتھوں میں تبدیل ہورہے تھے۔

ڈی ایس: بلکل ۔ اور ایک بڑا ٹرینڈ جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ بدونوانی کو قانونی بنانا ہے۔ جبھی ہم نے رومانوی پارلیمنٹ کو اوسی آر پی کا پرسن آف دا یر ووٹ کیا کیونکہ وہ بنیادی طور پر یہ کہنا چاہتے تھے کہ مجرم ہونا ٹھیک ہے۔ جب تک آپ پارلیمنٹ سے وابسطہ ہیں آپ پر کسی قسم کا چارج نہیں لگ سکتا۔ اور یہ سچ ہے روس جیسی جگہوں کا جہاں پردوما کے ممبران کو کسی جرم مین چارج نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بہت برا اشارہ ہے۔

ڈی کے: تو ہم کچھ ممالک کی بات کررہے ہیں جو بلکل ہی مافیا ریاستیں ہیں، جو کہ بدمعاش، جرائم پیشہ اینٹرپرائز ہیں اور ریکٹس پر مبنی ہیں۔ ان لوگوں کی انگلیاں ہر جگہ ہوتی ہیں اور تشدد سے مدد ملتی ہے ۔ وہ ہی عناصر جن کو ہم مافیا سے مطلوب کرتے ہیں۔ صحیح، تو یہ تو ایک طرف ہے۔ دوسری طرف ہیں یہ کلیپٹوکریسیس جہاں پر حکومت چوری کی ہیں اور یہ تقریبا سب ہی ہیں علاوہ سنگاپور اور اسکینڈنویا؟

ڈی ایس: یہ سب ہر جگہ ہے جہاں پر مضبوط جمہوریت نہیں ہے۔ انڈونیشیا کی مثال لیں ۔ وہاں فوج زیادہ ترانڈسٹری کنٹرول کرتی ہے، وہ قوانین تبدیل کرتے ہیں۔ اور پروسیکیوشن سے پیچھا چھراتے ہیں؟ کیا یہ کلیپٹوکریسی ہے؟ جی ہاں، جزوی طور پر،لیکن وہ جزوی جمہوریت بھی ہے۔ تو آپ کے پاس یہ ممالک ہیں جو کہ بیچ میں ہیں۔ لیکن باقی کئی خالص کلیٹوکریسی ہیں۔ افریقہ زیادہ تر آمریت میں ہے، مثال کے طور پر۔ ووٹ کے ساتھ ہیرا پھیری ہوتی ہے، لوگوں کو پیسے کھلائے جاتے ہیں۔ یہ کافی حد تک سر پرستی کا سسٹم ہے۔

ڈی کے: ہم صحافیوں کو تجزیاتی فریم ورک دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے ملک کو دیکھیں۔ کیا وہ ایک مستقل جرائم پیشہ اینٹرپرائز میں رہتے ہیں؟ یا یہ تھوڑا زیادہ ہے اور کچھ درجن ممالک کے لئیے چلتا ہے؟

ڈی ایس: نہیں یہ زیادہ نہیں ہے۔ یہ ایک تسلسل ہے شفاف جمہوریت سے لے کر ایک منظم جرائم پیشہ ریاست کا، اور یہ دونوں رجہان آگے پیچھے ہوتے رہتے ہین ایک ہی لکیرپر۔  یہ بنیادی طور پرسچ ہے کہ زیادہ ترحکومتیں جمہوریت نہیں ہوتیں اور ان میں بڑی مقدار میں بدعنوانی پائی جاتی ہے۔ اصل مسئلہ اس وقت ہے جب ریاست تحویل میں آ جائے۔ سوال اٹھتا ہے کہ آپ کے پاس ایسے لوگوں کو باہر پھینکنے کی طاقت ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر آپ کی ریاست تحویل میں ہے اور آپ یا توآمریت کے قریب ہیں یا کلیٹوکریسی کے۔ ان جگہوں پر جہاں پر جمہوریتیں ہیں جیسے کہ پولینڈ اور چیک ریپبلک وہ بھی پیچھے ہٹ رہی ہیں۔

ڈی کے: لیکن یہ ایک جرائم کے مسئلے سے زیادہ سیاسی مسئلہ ہے۔

ڈی ایس: درست۔ لیکن بعض اوقات لوگ سیاسی اداکاری کرتے ہیں جب کے وہ ہوتے نہیں ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ سارے سیاستدان عظیم لیڈر بننے کی جستجو مین ہوتے ہیں؟ کیا پتا انکا ارادہ جمہویت کو استعمال کرتے ہوئے ریاست کو تحویل میں لینا ہو؟ یہ کئی سیاستدانوں کا مقصد ہوتا ہے اوراس میں امریکہ کی ریپبلکن پارٹی بھی شامل ہیں لیکن ہم پہر بھی غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں اور انکو عزت دیتے ہیں۔ میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو پیوٹن سے مزاکرات کے لئیے نہیں بھیجونگا۔ میں ایف بی آئی کو بھیجوں۔

ڈی کے: میرا خیال ہے اینٹی ریکٹیریئنگ قانوں کو گورنمنٹ کا تجزیہ کرنے کی لئیے استعمال کرنا دیگر کارپوریشنز پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ایسی کئی کمپنیاں ہیں جواس مسلسل جرائم پشہ اینٹرپرائز کی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔ میں تمباکو نوشی کی کمپنیاں اور دوائیوں کی کمپنیوں کا سوچ سکتا ہوں۔ آپ اس کو بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں پر کیسے لاگو کریں گے؟

ڈی ایس: خاص کر کے کچھ کمپنیاں جوآمرانہ ممالک میں کام کرتی ہیں۔ آپ کئی ترکی کی کمپنیاں دیکھیں گے جو تعمیراتی انڈسٹری میں ہوں گی یا پھر کمپنیاں جو قدرتی وسائل کے استحصال کے بزنس میں ہوں گی۔ یہ سیدھا ملکوں میں جاتے ہیں، رشوت اور ہیرا پھیری سے جو چاہتے ہیں لے لیتے ہیں۔ آپ ایکوٹوریل جینیا میں حکومتی فیملی کے ساتھ رشوت دئیے بغیر ڈیل نہیں کرسکتے۔ جیسی جیسی کلیپٹوکریٹک حکومتیں ہوتی رہتی ہیں، لوگ جو کامیاب ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ بدعنوان کاروباری لوگ ہوتے ہیں۔

ڈی کے: یہ اچھی تفصیل بتائی آپ نے کہ ان کمپنیوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے جو مارکٹ شئیر اوروسائل کے لئیے ادائیگیوں میں مصروف ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے علاوہ ایک اور قسم ہے، مثال کے طور پر دوائیوں کی انڈسٹری کی، اس لحاظ سے کہ اس سے امریکہ میں اوپیٹ کے اپیڈینک کو فروغ ملا۔ بنیادی طور پر ہہ نارکوٹک کے حامی کا کردار ادا کر رہے تھے۔

ڈی ایس: قانونی منشیات ڈیلر، جی۔

ڈی کے: تمباکونوشی کی انڈسٹری نے ایک بار پھر مارکٹ شئیر بنانے کے لئیے اسمگلروں کو فروغ دیا ۔ یہ اربوں ڈالر کی بلیک مارکٹ ہیں جن کو یہ فروغ کررہے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ چلنے والی بدعنوانی کی حرکات کو بھی۔

ڈی ایس: جی، تمباکو نوشی کی انڈسٹری ہر طرح کی چیزیں کرتی ہے۔ انڈسٹری منافع کا کا زیعہ ہے چاہے وہ ایک بدعنوان حکومت ہو یا ایک منظم مجرموں کا گینگ ۔ 20 سے 50 سینٹس میں ایک پیک بنتا ہے اور قانونی سگریٹوں میں اسکے درمیان میں سب کچھ سیل پرائس یا تو ٹیکس ریونیو ہوتا ہے اور اسمگل ہوئے سگریٹ میں مجرموں کو منافع کی صورت میں جاتا ہے۔ تو، جی ہاں، یہ جرائم پیشہ اینٹرپرائز ہیں۔

کئی کاروباروں میں مجرمانہ سازشیں ہوتی رہتی ہیں کیونکہ جیسے ہی آپ عالمی مارکٹ میں جاتے ہیں، کوئی عالمی قانون نہیں ہے۔ ملکوں کے درمیان بس کمزور معاہدے ہیں اور پروٹوکول ہیں۔ قانون کی نفاز ملکوں کی قومی سرحد سے وابسطہ ہوتی ہے۔ انفرادی ملکوں کے انفرادی قانون لاگو ہوتے ہیں لیکن آب سرحدوں سے چیزیں لے کر جاسکتے ہیں جو کے اتنے عرصے سے آف شور کمپنیاں کرتی آرہی ہیں۔  آف شور انڈسٹری کی مجرمانہ سروسز نے یہ سب بہت منافعہ بخش بنایا ہے۔ آپ بی وی آئی پر زور لگا سکتے ہیں کہ وہ پس پردہ کو فاش کرے لیکن آپ روس، چین اور ترکی کو زور نہیں لگا سکتے۔ لہزا، کسی طرح کے نفاز سے بچنا آسان ہے۔

ڈی کے: کیا کچھ ایسی انڈسٹریاں ہیں جو مجرمانہ انٹرپرائز میں دوسروں سے بڑھ کر ملوس ہوتی ہیں؟ مثال کے طور پر، میں نہیں سمجھ سکتا کہ صحت اور تعلیم اتنا ہوگی لیکن وسائل، بینکنگ اور شپنگ میں ہوگی

ڈی ایس: یہ زخیروں کے گرد زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ آمرانہ ملکوں کی فنگشننگ معیشیت نہیں ہوتی، ان کے پاس صرف قدرتی وسائل ہوتے ہیں۔ امریکہ سینیٹر جان مکین نے مشہور بات کہی تھی کہ روس ایک بڑا سا گیس اسٹیشن جو ملک کی طرح بنا رہتا ہے اور اس میں کافی سچ ہے۔ تو اسکے قدرتی وسائل کے استحصال: ٹمبر، تیل اور گیس، معدنیات۔ اور پھر چلنے والی گاڑیاں جو ان وسائل کو ملک میں ہلا سکیں جیسے کے ژپنغ کیونکہ انکو چھپا کے رکھنا ہوتا ہے۔

ڈی کے: ایک تفتیشی رپورٹر جو کے اسٹوریز ڈھونڈرہا ہو وہ کونسا بدعنوانی اور ریکٹیرینگایک سویئٹ سپاٹ ہے۔ یہ قومی ریاست انڈسٹری سے کہاں ملتی ہے؟ کیا یہ وسائل ہے یا ٹرانسپورٹ ہے؟

ڈی ایس: پیسے کو فالو کریں۔ یہ دراصسل چیزیں ہیں جن کی اپنی قیمت ہوتی ہے۔ جب آپ زمیں کھودیں یا ایک درخت کاٹ دیں، اسکی قیمت ہے۔ کوئی بھی قدرتی وسائل ایسی انڈسٹری ہے جو آپ دیکھنا چاہیں گے کیونکہ صرف وہ ہی چیز ہے کو آمریا مافیا ریاست اس سے پیشہ بنائیں گی۔

ڈی کے: سروسز سے زیادہ اشیا میں؟

ڈی ایس: جی، ایک سروس ایریا جہاں آپ پیسے بنا سکتے ہیں وہ منی لانڈرنگ ہے۔

ڈی کے: لیکن یہ اشیا کہ سروس میں ہے، ہیں نا؟

ڈی ایس: لیکن یہ خود ایک انڈسٹری ہے۔ تو دبئی جیسی جگہیں منی لانڈرنگ کے سینٹرز بن گئے ہیں اور سونے اور ہیرے کو ڈیل کر کے انکو لانڈر کرتے ہیں اور ذخیروں کو چھپاتے ہیں۔ اور اب آزربائجان میں کو وائٹ سٹی وہ بنا رہے ہیں وہ دوسرا دبئی ہوگا۔ ہر کوئی اپنا دبئی بنانا چاہتا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں بین لاقوامی قانون نافز کرنے والے کوئی معلومات نہ نکل واسکیں۔ یہ شعبہ بزات خود ایک مجرمانہ اینٹرپرایز بن گیا ہے۔

ڈی کے: کیا لندن کی مالیاتی انڈسٹری مجرمانہ انٹرپرایز ہےَ؟

ڈی ایس: جی، جزوی طور ہر۔ آفشور پیسہ اکثریت کا پیسہ ہوسکتا ہے جو کہ شہر پر لگتا ہو اور اس میں سے کافی مجرمانہ ہے۔ اس ہی وجہ سے کئی روسی اولیگارچ بریگزٹ پربہت خوش تھے۔

ڈی کے: روایتی منی لانڈرنگ کے ہاٹ سپاٹ جیسے کہ پنامہ یا بی وی آئے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ڈی ایس: زیادہ تر یہ آف شور مقامات مجرمانہ اینٹرپرائز نہیں ہیں۔ یہ بس اس کاروبار سے پیشے کما رہی ہیں۔

ڈی کے: امریکہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ امریکہ بھی منی لاندڑنگ میں بہت جارحانہ سزا نہین دیتا۔

 ڈی ایس: صحیح۔ یہ بدعنوانی کو قانونی شکل دینا ہے، انہوں نے بدعنوانی کے کچھ شعبوں کو قانونی بنا دیا ہے کیونکہ لوگ اس سے پیسے کما رہے ہیں۔ اس لحاظ سے ہیج فنڈا شاید اس دینا کا سب سےبڑی گاڑی ہوگی جس سے مجرمانوں کاموں میں سرمایہ کاری ہورہی ہے۔

ڈی کے: کیا آپ ایسے ملکوں کی مثال سے سکتے ہین جن کو آپ مافیا ریاست کہیں گے؟

ڈی ایس: مونٹینیگرو ایک اچھی مثال ہے۔ یہ 6 لاکھ لوگوں کا چھوٹا سا ملک ہے اور اس کو ایسا شخص چلا رہا تھا جس کی پہلی نوکری وزیراعظم کی تھی۔ ان کے اپنے بھائی کے زریعے منظم جرائم میں تعلقات تھے تو انہوں نے تنباکو کا غیر قانونی کاروبار شروع کیا اور ریاست اس کام میں شامل تھی۔ ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ ان نظام کو دریافت کیا جوانہوں نے اس کے لئیے سیٹ اپ کئیے تھے۔ وزیراعظم نے ایک بینک کو اپنے خاندان کے لئیے نجکاری کروائی اور اس میں بڑے پیمانے کا حکومت کا پیسہ انڈیلتے رہے اور ایسے شرائط اختیار کئیے کہ اگر لوگوں کو کوئی ڈیل کرنی ہوئی تو ان کو ہر صورت اس ہی بینک سے کرنی ہوتی۔ پھر انہوں نے اس بینک سے خود کو، دوستوں کو اور منثم جرائم کے لئیے قرضے دینے شروع کئیے۔ جب اس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے انہوں نے ٹیکس پئیر کے پیسوں سے بری کروایا۔

ڈی کے: ایک اور کوئی مافیا اسٹیت کی کیس اسٹڈی بتائیں؟

ڈی ایس: کوسووہ کافی شفاف مثال ہے۔ اس کے لیڈران پرانے پیک مافیا ہیں۔  سربیا مجرمانہ گروہ کے ساتھ کام کرتے ہیں جو انکی حکومتی پارتی کو فنڈ کرتے ہیں۔ مالٹا کو دیکھ کر بھی لگتا جیسے کہ وہ جرائم پیشہ گروپوں کے جگہ پر کام کرتا ہے۔ اور ایکوٹورئیل گینیا أ ٹیوڈورو اور اس کا غروپ، اوبیانگ منشیات کے ٹرانسشپمنٹ کا ایم مرکش رہا ہے۔

ڈی کے: ڈوٹرٹے کے فلیپین کے بارے میں کیا جہاں پر ماورائے عدالت قتل منظم طریقے سے ہوتے ہیں؟

ڈی ایس: یہ بدعنوانی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، لیکن ڈوٹرٹے کے جرائم کی تقل و حرکے سے چھوٹے تعلق ہیں، وہ اپنے آپکو اور ارد گرد کے لوگوں کو مالا مال کرتے رہیں لیکن جہاں تک ہمیں پتا ہے  یہ جرائم سے زیادہ سیاسی مقصد ہیِں۔

ڈی کے: سب سے ظاہری مثال جو مجھے یاد ہے وہ جنوبی کوریا کی ہے جس کے بارے میں نے 20 سال پہلے لکھا تھا۔  ممجھے یاد ہے جب میں رپورٹنگ کررہا تھا تو کیس نے سمجھایا کہ جم ایک مافیا گورنمنٹ کو اپنی لپیٹ میں لیکتی ہے وہ نیچے سے اوپر کا نظام ہوتا ہے۔ یہ پورا ہی اوپر سے نیچے تھا۔

ڈی ایس: صحیح۔ لیکن اس کی ایک وجہ ہے۔ بینالاقوامی کرنسے تک رسائی ہے۔ ان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں غیر ملکی زر مبادلہ چاہئیے ہئ۔ لیکن وہ کچھ نہیں بیچتے اوربین الاقوامی کمیونٹی میں بے دخل ہیں۔ تو یہ ڈالروں کی جعل سازہ کرتے ہوئے منشیات بیچتے ہیں۔

ڈی کے: انکی سفارتیاں بھرتیوں کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ وہ جعلی سی ڈی اور تمباکو اسمگل کررپہے تھے اپنا بجت بنانے کے لئیے۔

ڈی ایس: یہ مشرقی یورپ میں سچ تھا۔ سرد جنگ کے دوران بیشتر ممالک نے اپنے منظم جرائم کے اعداو شمار برآمد کئیے۔اسی وجہ سے سارے سر بئین سوئیڈن میں اور باقی جگہوں پر تھے ، بنیادی طور پر پیسے کمانے کے لئیے۔ رومانیہ کی ریاست غیر ملکی زر مبادلہ کے لئیے منشیات کی اسمگلنگ کرتی رہی ۔ یہ ایک بہت مقبول طریقہ کار تھا۔ یہ وہ ہی ماحول ہے جہاں پر پیوٹن بڑے ہوئے جہاں پر وہ ایف ایس بی میں تھے۔ انہیں یہ اندازہ ہوا ہے ” اوہ ہمیں یہ ریاست کہ بھلائی کی لئیے کرنا ہے۔ ” لیکن اس نے یہ تاثر پیدا کیا کہ ریاستیں مجرمانہ انٹر پرایز کے ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں کیونکہ ان کو دلچسپی ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ آگے بڑھایا گیا ہے۔

ڈی کے: جی، ایک حد تک اگر آپ انٹیلیجنس کے بزنس میں ہیں اور آپ کو کام کروانے ہیں تو پھرآپ کو معلوم ہونا چاہئے کے انڈر گراوؐنڈ مارکٹس کیا ہیں، ٹیاننمین اسکوائر کے بعد جب لوگوں کو چین میں سے اسمگل کروایا گیا تھا تو سی آئی اے نے ٹرائڈ کنیکشن کو استعمال کرتے ہوئے مینلینڈ میں سے نکالا تھا۔

ڈی ایس: پیوٹن بھی استعمال کرتے ہیں انہوں کئی بڑے منظم جرائم پیشہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور پھر چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ معاہدہ یہ ہے کہ آپ اب ہمارے لئیے کام کریں۔ قتل کرنے والے اکثرمنظم جرائم کرنے والے لوگ ہوتے ہیں جو روس کی طرف سے کام کرتے ہیں۔

ڈی کے: اب زرا ٹپس اور ٹول کی طرف ہو لیتے ہیں۔ کیا مافیا ریاست کی تفتیش کرنا ایک جرائم کارٹیل سے مختلف ہے؟

ڈی ایس: یہ کئی طریقوں سے آسان ہت۔ کیونکہ آپ کے پاس ریاستی ریکارڈ، دستاویزات، ٹینڈر، کمپنیان ہیں، آپ کے پاس معلومات ہے۔

ڈی کے: آپ کو ریاست چلانی ہے اور اس میں سے کچھ عوامی ہوگا۔

ڈی ایس: بلکل۔ ریاست ایک زیادہ شفاف اینٹٹی ہے نسبتا ایک منظم جرائم پیشہ گروہ کے۔ ایک تنظیم کی آپ درجہ بندی اسی  طرح کریں گے جیسے کہ ایک جرائم پیشہ گروہ کی۔ حکومتوں میں غیررسمی نیٹورک اکثر رسمی نیٹورکوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔  توآپ یہ دیکھ لیتے ہیں کہ آپ کے لئیے اہم کیا چیز ہے۔ آپ یہ دیکھ لیتے ہیں  کون زیادہ امیر ہے، کس کا اچھا گھر ہے، کون صدر کے قریب  ایک خوبصورت سے مصافات میں۔

ڈی کے: یہ آپ کیسے کر رہے ہیں؟ کیا آپ نیٹورکنگ انالیسز سافٹوئیر کا استعمال کررہے ہیں؟ کیا آپ یہ سب ایک سفید بورڈ پر لکھ رہے ہیں۔ کیا آپ کے پاس پرانے کاپ ٹی وی شوزکے طرح لوگوں کی تصویروں کا بلیٹن بورڈ ہے؟

ڈی ایس: جو آپ نے کہا وہ سب کچھ ۔ یہ ایک بیٹ ہے اور آپ کو صبر کے ساتھ سارہ معلومات کو جزب کرنا ہوگا۔ ہم ایک معلومات کا مینیجمنٹ سسٹم کا استعمال کرتے ہین تاکہ سارے ڈیٹا کو کنیکٹ کرسکیں اور یہ دیگر سافٹوئیر کے ساتھ بھی جڑ تا ہے۔ پھر آپ پیسے کو فالو کرتے ہیں۔

منظم جرائم میں پیسہ غیر قانونی تجارت کا رخ اختیار کرتا ہے جیسے منشیات کرتا ہے۔ حکومت میں یہ ریاستی معاہدے ہوں کے۔ کس پاس تین کی ڈرلنگ کا اختیار ہے؟ کس کے پاس درخت کاٹنے کا اختیار ہے؟ کس کے پاس فون کمپنی ہے؟ اس سے اُپکو مافیا اسٹیٹ کے پسندیدہ لوگوں کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ لیکن پھراگلا قدم اہم ہے: زخیروں کا بتانا۔

ڈی کے: صحیح۔ ذخیرے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ڈی ایس:  بلکل، کیونکہ آپکو نہیں معلوم ہوتا کی پیسوں کی ہیرا پھیری میں اصل میں کیا ہوتا ہے ۔ لیکن آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پیسہ کہاں پہنچا، اور کبھی کبھار یہ بھی کہ زخیرہ کب اور کہاں خریدہ گیا اور پھر آپ حساب لگا سکتے ہیں کہ گورمنٹ کانٹریکٹ میں پیسہ کہاں سے آیا۔  ہر فرد کے ساتھ لوگوں کا چھوٹا گروپ ہوتا ہے جو کہ ان ذخیروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ آپ کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اسٹرا پارٹیز کون ہیں، ان کے وکیل کون ہیں، ان کی فیملی ممبران کون ہیں اور پھر ان ذخیروں کو ان ناموں میں دیکھیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کا وہ بھروسہ رکھتے ہوں گے۔

ڈی کے: آپ کس طرح کے ریکارڈ استعمال کررہے ہیں؟ کارپوریٹ ریجسٹریز؟

ڈی ایس: کارپوریٹ ریجسٹریز، لینڈ ریکارڈ، پراپرٹی ریکارڈز۔ فرانس نے ابھی حال ہی میں اپنے پراپرٹی ریکارڈ عوامی کئیے ہیں ہم اس میں کافی دلچسپ نام دیکھ رہے ہیں۔ بینکوں کا بہت لیک ہوا ڈیٹا باہر گھومتا ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کس کے پاس پیسہ ہے اور کہاں ہے۔ آپ کو کنیکٹ کرنا ہوگا آئی سی آئی جے، او سی سی آر پی اور دیگر تنظیموں ست جنہوں نے لیک ڈیٹا  کی ڈیٹا بیس بنائی ہوتی ہیں۔ اگر وہ 10 یا 15 سال پرانی ہیں تب بھی قیمتی ہے۔ پرانے ڈیٹا بیس میں ایک دم سے نئی پراکسی مل جاتی ہے۔

ڈی کے: ایک پیشرفت جس نے ہمارے لوگوں کی مدد کی ہے وہ ہے ہمارا بڑے پیمانے پرلیکس کے دور میں ہونا  جہاں پر آپ کو پوری کمپنی کے ریکارڈ ایک تھمب ڈرائو پرمل جاتا ہے۔ اس طرح کی تفتیشوں میں یہ کتنا اہم ہے؟ کیا آپ کوگ اس پر منحصر ہیں؟

ڈی ایس: ہمارے لئیے یہاں تک پہنچا ہے کہ اتنے لیکس ہوگئے ہیں کہ یہ ڈیٹا اپ رپورٹنگ کا بڑا حصہ بن گیا ہے۔ ہمارا کافی ٹائم اب ان لیکس کو آپس میں کنیکٹ کر کے پیسے کو فالو کرنا ہوتا ہے۔

ڈی کے: جب آپ ایک پراجیکٹ شروع کرتے ہیں کیا آپ ہفتے گزاردیتے ہیں ذرائع کے پیچھے اس امید میں کہ وہ آپ کو بہت سارے دستاویزات دیں گے؟

ڈی ایس: جی ہاں، ہم ایسا کرتے ہیں، ہم مسلسل معلومات اکھٹا کرنے میں لگے رہتے ہیں اور جو کچھ ملتا ہے وہ ضروری نہیں کہ لیک کیا گیا ہو جیسے کہ ہیک، رینسموئیر، یا اسکریپ ۔ ہم سیکڑوں کئ تعداد میں دیٹا سیٹس اسکریپ کررہے ہوتے ہیں ۔ لوگوں کو رینسموئیر انڈسٹری میں بہت قیمتی معلومات مل رہی ہوتی ہے کینوکہ بہت سے کمپنیاں جب تاوان نہیں دیتیں انکی معلومات لیک ہوجاتی ہے۔

ڈی کے: جو مواد غیر قانونی طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اسکے استعمال کرنے کی اخلاقیات کیا ہیں؟

ڈی ایس: یہ سوال کے قابل ہے، لیکن ہم اس قسم کی چیزیں نہیں لے رہے۔ ہم کسی سے نہیں کہ رہے کہ وہ ہمیں دیں۔ ہم وہ مواد لے رہے ہیں کو عوامی طور پر دستیاب ہے۔ اور ہم تبھی استعمال کرتے ہیں جب اس میں بہت عوامی دلچسپی ہو۔

ڈی کے: یہ ساری تفتیشیں صرف بڑے پیمانے کی لیکس پر تو منحصر نہیں ہیں۔

ڈی ایس: نہیں

ڈی کے: کام کا کتنا حصہ لٹریچر میں تحقیق، پیٹرن کو سمجھنا، عوامی ریکارڈ کے پیچھے جانا اور انٹرویو مین نکلتا ہے؟ دوسرے الفاظ میں رپورٹنگ۔۔۔

ڈی ایس: رپورٹنگ والا حصہ بلکل بھی تبدیل نہیں ہوا ہہے ہم ابھی بھی اتنی ہی کررہے ہیں۔ ہم ذرائع کی ڈیولپمنٹ پر بھی کارم کررہے پیں اور ہم ابھی بھی عوامی ریکارڈ کی درخواست کررہے ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ۔ ہم بہت زیادی اوپن سورسز تحقیق بھی کررہے ہیں۔ ہماری کافی اسٹوری ٹوٹی ہوئی ہیں کیونکہ گرل فرینڈ انکے بوٹ ٹرپ کی تصاویر ٹک ٹاک پر ڈال دیتی ہیں۔

ڈی کے: آمنے سامنے ذرائع کی ڈیولپمنٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ اب کتنی اہم ہے؟

ڈی ایس: یہ اب بھی اہم ہے۔ تفتیشی رپورٹنگ تبدیل نہیں ہئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نئے لوگوں کو پرانی مہارتیں آتی نہیں ہیں۔

ڈی کے: انکو آمنے سامنے انٹرویوز کرنے نہیں آتے؟

ڈی ایس: بللکل۔ وہ نہیں کرتے۔ انکو لگتا وہ سب کچھ آنلائن کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس رپورٹر ہیں جو خاص کر کے روایتی رپوتٹنگ کے طریقوں میں مہارت رکھتے ہیں اور کچھ جو آنلائن میں اچھے ہیں۔ ہم دونوں کو ساتھ رکھتے ہیں۔

ڈی کے: او سی سی آر پی کس طرح کی سوفٹوئیر کا استعمال کرتی ہیں ایسی پیچیدہ تفتیش کرنے کے لئیے؟ ہم اسکولنک انالیسز کہتے تھے ۔ سارے تعلقات کو بنانے میں اور اس میں پیسہ، زخائراور اکاونٹس شامل کرتے تھے۔ آپ ان سب کو ڈیجٹل کر کے کیسے سنبھالتے ہیں؟ کیا آپ کچھ ایسا لیتے ہیں جو آپ کی ملکیت ہے یا بلکل ہٹ کے ہے؟

ڈی ایس: الیف ہمارا ایک بڑا ٹول ہے جس کو ہم نے خود ڈیزائن کر کے بنایا ہے۔ ہم نے اپنسا سارا ڈیٹا اس میں ڈالا ہے۔ الیف لینکیوریس کے ساتھ جڑا ہے جس سے ہم ڈیٹا کو لے کر نیٹورک میپ بناتے ہیں۔ اس میں ٹائم لائن بنانے کا فنکشن ہے تو آپ ٹائم لائن بنا سکتے ہیں۔ اس میں کراس ریفرنسنگ بھی ہے تو آپ ڈیٹا سیٹ کو ائک دوسرے کے ساتھ رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ آئی ٹو جیسے ٹولذ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں لیکن وہ مہنگا ہوتا ہے جس وجہ سے ہم نے بھی اتنا استعمال نہیں کیا۔ کبھی سوشل نیٹورک انالیسز ٹولز ہیں جن میں سے کئی فریوئیر ہیں۔ لیکن ان کے لئیے ایسے شخص کی ضرورت ہے جن کے پاس بہت تیکنیکی مہارت ہو۔ الیف مفت ہے اور اس کے ساتھ آپ کو لنکیوریس تک رسائی بھی ہوسکتی ہے۔

ڈی کے: کمیونیکیشن کے بارے میں کیا؟

ڈی ایس: ہم ایک وکی سسٹم استعمال کرتے ہیں جس میں معلومات شئیر کرتے ہیں اور اسٹوریز پر تعاون کرتے ہیں۔ آپس کے محفوظ تبادلہ خیال کے لئیے ہم سگنل کا استعمال کرتے ہیں ۔ تو چیزیں کافی آسان ہیں۔ اس سے بہتر ٹولز ہونے چاہئیے ہیں لیکن سگنل، وکی اور الیف کے درمیاں ہم اپنے پروجیکٹ میں تعاون کرتے ہیں اور یہ سب ہر رپورٹر کو دستیاب ہوتے ہیں۔

ڈی کے: ٹیم میں کام کرنے کی اہمیت کیا ہے؟۔ یہ کافی بڑے ٹارگٹ ہیں، ڈرا دینے والے۔ قوموں کا کافی کچھ داوؐ پے لگا ہوتا ہے، یہ ایف انفرادی رپورٹر کو کچل دیں۔ اس سے کیسے ڈیل کرتے ہیں؟

ڈی ایس: ساری بڑی اور منظم جرائم کی اسٹوریز اب کراس بارڈر ہیں۔ تو پہلے سے زیادہ اب ایسی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہہے جس کے پاس بہت سے مہارت ہو۔ اپ کو مقامی رپورٹر چاہئیے ہیں ۔ سائبر سیکورٹی رپورٹر۔ ریسرچر، سوشل میڈیا ایکسپرٹ۔ ڈیٹا کت لوگ جو ان لیکس کو مائن کرسکیں۔ ہم ایک نیٹورک ہیں اور ہم اس نیٹورکنگ سے ایک دوسرے کے قابلیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔  اس ہی وجہ سے ہم کئی ساری اسٹوریز کرتے ہیں اور جلدی کرلیتے ہیں۔ اگر آپ کی ان لوگوں کے ساتھ تنظیم نہیں ہے ، آپ کو جے آئی جے این جیسے تنظیموں کے ساتھ مل کر یہ تعلقات بنانے چاہئیے ۔

ڈی کے: اگر آپ ایک انفرادی رپورٹر ہیں اور ایک بدعنوانی حکومت میں رہتے ہیں اور آپ یہ سب ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو کیا کرین؟

ڈی ایس: ہم ترکمنستان جیسے ملکوں کے رپورٹر کے ساتھ کام کرتے ہیں جہاں پر وہ ہم سے بات کرتے بھی دکھائی نہیں دے سکتے۔  لیکن وہ بہت کام کرسکتے ہین دیگر رپورٹروں کے ساتھ تعلقات رکھ کر۔ آپ اپنے ملک کے اندرشاید نہیں دیکھ سکتے لیکن باہر دیکھ سکتے ہیں جہاں پر زخائر ہیں۔

ڈی کے: کیا آپکو لگتا ہے آج کل حکومتوں کے لئیے راز رکھنا مشکل ہے؟

ڈی ایس: جی اس لئیے کیونکہ رابطہ کرنا بہت آسان ہے۔ اور کیونکہ حکومتیں اتنی کرپٹ ہیں لوگ اب پریشان ہوتے ہیں۔ اور یہاں سے پھر لیکنگ شروع ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ ٹول ہے جو حکومتیں استعمال کرتی ہیں، جتنی بھی بڑی لیکس ہوئی ہیں وہ حکومتوں نے خود کی ہیں۔

ڈی کے: اس کے بارے وضاحت کیجئیے۔ اپکو لگتا ہے کہ بڑے پیمانے کی لیکس میں انٹیلجنس سروسز ملوس ہیں؟

ڈی ایس: جی، میرا خیال میں معلومات کو نکلوانا کچھ ملکوں کے مفاد میں ہوتا ہے ۔ کئی ممالک معلومات کو نکالتی ہیں جو انکے مفاد میں ہوتا ہے تاکہ دوسرے ملکوں یا لوگوں کو نقصان ہو۔

ڈی کے: صحافی اپنے آپ کو ایسے استعمال ہونے سے کیسے بچائیں؟

ڈی ایس: آپ کے پاس آپ کی اخلاقیات ہیں اور آپ ںظر رکھیں کے آپ جو اسٹوریز کررہے ہیں وہ عوام کے بہترین مفاد میں ہیں۔  میرا خیال ہے کہ یہ اہم ہے۔ ہم یہ مسلسل آپس میں بحث کررہے ہوتے ہیں کہ کیا عوام کے لئیے اس کو جاننا ضروری ہے؟ ہم اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ہم جو بھی کررہے ہوتے ہیں وہ بدعنوانی کی وضاحت کرے یا حکومتیں، کاروبار اور منظم جرائم کس طرح کام کرتی ہیں تاکہ عوام بہتر فیصلے کرسکیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔

_______________________________________________

ڈیوڈ ای کپلان گلوبل انویسٹی گیٹو جرنلزم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے 35 سال سے منظم جرائم کے بارے میں لکھا ہے اور وہ یاکوزا کے شریک مصنف ہیں، جسے بڑے پیمانے پر جاپانی مافیا پر حتمی کام سمجھا جاتا ہے۔ کپلان نے دو درجن ممالک سے رپورٹ کیا ہے، 25 سے زیادہ ایوارڈز جیتے ہیں، اور غیر منفعتی نیوز رومز، تحقیقاتی ٹیموں، اور سرحد پار رپورٹنگ کے متعدد پروجیکٹس کا انتظام کیا ہے۔

ڈریو سلیوان آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ کے شریک بانی اور پبلشر ہیں۔ ان کی ہدایت پر، OCCRP نے متعدد ایوارڈز جیتے ہیں، جن میں گلوبل شائننگ لائٹ ایوارڈ، ٹام رینر ایوارڈ برائے کرائم رپورٹنگ، اور یورپی پریس پرائز شامل ہیں۔ اس سے پہلے، اس نے ٹینیسی اخبار اور ایسوسی ایٹڈ پریس کی اسپیشل اسائنمنٹ ٹیم کے لیے ایک تفتیشی رپورٹر کام کیا۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

Karachi Sewerage and Water Board corruption investigation, Dawn newspaper

‎کراچی کی واٹر سپلائی چین میں کرپشن اور ’ٹینکر مافیا‘ پر تحقیقات

کراچی کے پانی کی فراہمی کے بحران کی تحقیق کرنت والی ٹیم نے جی آئی جے این کو بتایا کہ انہوں نے یہ کہانی کیسے کی — اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں تحقیقاتی صحافت کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے