صحافیوں کیلئے ہنگامی امداد
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
شعبہ صحافت سے وابستہ لوگ پوری دنیا میں مختلف قسم کے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں سنہ 1992 سے اب تک 1000 سے زائد صحافی قتل ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہیں جن پر حملے ہوئے، ڈرائے دھمکائے گئے، جیل ہوئی یا اور طریقوں سے ظلم و ستم کا شکار ہوئے
اس صورتحال کے پیش نظر خطرات میں گھرے صحافیوں کو ہنگامی امداد فراہم کرنیکے کیلئے کچھ ادارے موجود ہیں جو طبی و قانونی امداد فراہم کرتے ہیں اور جن کی زندگی خطرے میں ہو انکی بیرون ملک منتقلی میں معاونت کرتے ہیں اگر آپ واقعی خطرے میں ہیں تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہم سے رابطہ کریں آپکو مدد ملے گی
نیو یارک میں واقع کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ایک ادارہ ہے جس کا صحافیوں کی معاونت کے لیے ایک پروگرام ہےجو قانونی، طبی امداد کے علاوہ خطرات میں گھرے صحافیوں کی بیرون ملک منتقلی کا انتظام کرتے ہیں علاوہ ازیں قتل ہونے والے اور جیلوں میں قید صحافیوں کے اہل خانہ کو امداد بھی فراہم کرتے ہیں۔ آپ ان سے رابطہ یا انہیں صحافت کی آزادی کی خلاف ورزی کی اطلاع آپ یہاں دے سکتے ہیں۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈر نامی ایک ادارہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہے یہ صحافیوں، انکے اہل خانہ اور صحافتی اداروں کی مالی امداد کرتا ہے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکیں مزید تفصیلات کیلئے انکا ہیلپ ڈیسک چیک کریں فری لانس صحافیوں کیلئے انشورنس بارے معلومات یہاں دستیاب ہیں۔ جرمن ار ایس ایف برانچ دنیا بھر میں صحافیوں کی مدد کرنے کے پروگرام چلاتی ہے۔ ہیلپ ان ایگزائل پروگرام ایسے صحافیوں کی مدد کرتا ہے، جنہیں ٹریکنگ اور جبر کی وجہ سے اپن املک چھوڑنا پڑے۔ ہیلپ ان نیڈ پروگرام ان لوگوں کو مدد فراہم کرتا ہے جنہیں ایک محفوظ میزبان ملک تلاش کرنے کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنی جان کے خوف کے بغیر اپنے صحافتی کیریئر کو جاری رکھ سکیں۔
فری پریس ان لمیٹیڈ: ایمسٹرڈیم میں واقع میڈیا ڈویلپمنٹ کی اس این جی او نے رپورٹرز رسپانڈ کے نام سے ایک انٹرنیشنل ایمرجنسی فنڈ قائم کیا ہوا ہے جو براہ راست صحافیوں اور صحافتی اداروں کو مالی مدد فراہم کرتا ہے کوشش کی جاتی ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر اسطرح کی درخواستوں پر جواب دیا جائے اس مقصد کیلئے ای میل reportersrespond@freepressunlimited.org کی جا سکتی ہے یا درج ذیل نمبر پر 400 8000 20 31+ پر فون کر سکتے ہیں
انٹرنیشنل وومن میڈیا فاونڈیشن : یہ ادارہ قانونی، طبی اور محفوظ جگہ پر منتقلی کیلئے ان کل وقتی یا فری لانس صحافی عورتوں کی مدد کرتا ہے جو پرنٹ، براڈکاسٹ یا آن لائن میڈیا میں کسی بھی ملک میں کام کر رہی ہیں امداد کے خواہشمند وہ امیدوار غیر مستحق تصور کئے جائیں گے جو کسی ایسے ادارے کیساتھ وابستہ ہوں جس کی صحافت بنیادی ترجیح نہ ہو۔ آئی وبیو ایم ایف نے خواتین اور مرد دونوں صحافیوں کے لیے یونائیٹڈ سٹیٹس جرنلزم ایمرجنسی فنڈ اور بلیک جرنلسٹس تھیراپی ریلیف فنڈ بھی قائم کیا ہے، جو ان سیاہ فام صحافیوں کے لیے کی مالی مدد کرتا ہے جو مالی مشکلات کی وجہ سے جو ذہنی صحت کی امداد نہیں لے سکتے۔
لائف لائن فنڈ: یہ ادارہ سول سوسائٹی کے ان اداروں اور صحافتی تنظیموں کی مالی معاونت کرتا ہے جن کو خطرناک صورتحال کا سامنا ہو لائف لائن کو 17 حکومتوں اور فاونڈیشنز کا تعاون حاصل ہے مختصر المدتی ایمرجنسی گرانٹس دی جاتی ہیں اور انکا مقصد طبی اور قانونی صورتحال سے نمٹنے، محفوظ جگہ منتقلی اور ضروری آلات کی خریداری میں مدد فراہم کرنا ہے موصول شدہ درخواستوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ امیدواروں کا پس منظر اور انکی انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے جدوجہد بارے جانچ پرکھ کرتے ہیں
میڈیا ڈیفنس لیگل پروگرام: لندن میں واقع یہ تنظیم صحافیوں، بلاگروں اور آزاد میڈیا کو مشکل حالات میں قانونی امداد فراہم کرتی ہے علاوہ ازیں آزادی صحافت پر کام کرنیوالی تنظیموں کو بھی قانونی مدد فراہم کی جاتی ہے
روری پیک ٹرسٹ: لندن میں قائم یہ ٹرسٹ فری لانس صحافیوں اور انکے اہل و عیال کو فری لانس اسسٹنس پروگرام کے ذریعے مدد فراہم کرتا ہے
ریسٹ اینڈ رفیوج فیلوشپ: یہ ان ممالک کے صحافیوں کیلئے ہیں جو خانہ جنگی یا کسی اور بحران کا شکار ہیں آر ایس ایف اور تاز پینٹر فاونڈیشن کے تعاون سے چلنے والے اس پروگرام کے تحت منتحب شدہ امیدواروں کے سفری اور برلن میں تین ماہ کے رہائشی اخراجات ادا کئے جاتے ہیں
یورپین سنٹر فار پریس اینڈ میڈیا فریڈم نے خواتین صحافیوں کیلئے ایک الارم سنٹر قائم کیا ہے وہ ادھر اپنے پر ہونیوالے حملے اور درپیش خطرات سے آگاہ کرکے راہنمائی اور مدد لے سکتی ہیں۔
دوحہ سنٹر فار میڈیا فریڈم مالی، طبی اور قانونی معاونت فراہم کرتا ہے اسکی ایمرجنسی ٹیم کیساتھ 24 گھنٹوں میں کسی بھی وقت ای میل، فون یا ٹویٹر کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس،آئی ایف جے کا سیفٹی فنڈ چلاتا ہے "ان صحافیوں کی مدد کرتا ہے جو تشدد، ایذا رسانی، اور دھمکیوں کا سامنا کر رہے ہیں یا انہیں طبی علاج کی ضرورت ہے۔