رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش
An OSMP page filtered for spent munitions in Ukraine. Image: Screenshot
An OSMP page filtered for spent munitions in Ukraine. Image: Screenshot

An OSMP page filtered for spent munitions in Ukraine. Image: Screenshot, Airwars

رپورٹنگ

شہریوں پر بمباری کی تحقیقات کے لیے نئے اوپن سورس ٹولز اور تجاویز

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

ستمبر 2024 میں برطانوی آئیپیپر کی ایک تحقیق نے انکشاف کیا کہ ایک خاص امریکی ساختہ ”پریسیژن“ بم ماڈل غزہ میں اسکولوں اور خیمہ بستیوں پر اسرائیلی حملوں میں استعمال ہوا تھا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس ویب سائٹ نے ایسے شواہد بھی پیش کیے جو ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے اتحادیوں میں جی بی یو-۳۹ بم کے استعمال کی ترجیح نے اسرائیل کو شہری علاقوں میں مزید بمباری پر اُکسایا تھا اور اس سے ممکنہ طور پر زیادہ شہری ہلاکتیں ہوئیں۔

رپورٹر تازعلی نے ایک جدید ڈیٹا بیس اوپن سورس میونیشن پورٹل (او ایس ایم پی) پر انحصار کیا تھا جو تنازعہ زدہ علاقوں میں دھماکہ خیز مواد کی باقیات کی شناخت کرتا ہے اور ان کے ساتھ منسلک تفصیلات اور شہری نقصان کی کچھ رپورٹس فراہم کرتا ہے۔

صحافیوں کے لیے اسلحے پر تحقیق کرنے کے دیگر بہترین اور زیادہ تفصیلی وسائل بھی موجود ہیں جن میں جامع سی اے ٹی – یو ایکس او غیر پھٹے اسلحے کا ڈیٹا بیس شامل ہے۔ تاہم، جو چیز او ایس ایم پی کو تحقیقاتی صحافیوں کے لیے انتہائی مفید بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اسلحے کے نظام کی (اس صورت میں) شناخت کرنے میں مدد دیتا ہے جس طرح صحافی اور زیادہ اہم بات یہ کہ متاثرین اور میڈیا ذرائع عام طور پر ان کا سامنا کرتے ہیں: دھماکہ خیز مواد کے گڑھوں کے قریب بکھرے ہوئے اسٹیل کے پر، جلی ہوئی تاریں یا سیاہ ہوئے سلنڈر۔

او ایس ایم پی ایک مشترکہ منصوبہ ہے جسے برطانیہ کی غیر منافع بخش تنظیم ائیر وارز جو شہری نقصان پر نظر رکھتی ہے اور تکنیکی انٹیلیجنس کنسلٹنسی آرمامینٹ ریسرچ سروسز (اے آر ای ایس) نے تخلیق کیا ہے۔ این جی اوز کی تصاویر اور ایک ای میل اکائونٹ سے براہِ راست تعاون کے علاوہ،او ایس ایم پی کی بہت سی تصاویر خاص طور پر عربی اور یوکرینی زبان میں سوشل میڈیا پر تلاش کے ذریعے جمع کی جاتی ہیں اور پھر متعدد تصدیقی مراحل سے گزر کر ماہرین کی جانب سے جانچی جاتی ہیں۔ اس ٹول کی ابتدائی لائبریری میں موجودہ تنازعہ زدہ علاقوں میں استعمال ہونے والے اسلحے کی اقسام کی تقریباً 600 تصاویر شامل ہیں اور یہ منصوبہ حتمی طور پر ہزاروں مزید تصاویر اور میزائلوں اور بموں کی 3-ڈی رینڈرنگز شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ صحافی دریافت شدہ حصوں کے منبع کو زمین پر تصور کر سکیں۔

آزاد ادارے ڈان واچ نے پہلے دکھایا تھا کہ غزہ میں فضائی حملے کرنے والے ایف-35 لڑاکا طیارے ڈینش فوجی سامان استعمال کر رہے تھے لیکن انہوں نے اپنی رپورٹنگ میں یہ تسلیم کیا کہ وہ کسی خاص حملے میں ان طیاروں کی شمولیت کو دستاویز نہیں کر سکے۔ تاہم، وہ پہلی بار1 ستمبر کی رپورٹ میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی جزوی وجہ او ایس ایم پی کے شواہد اور اے آر ای ایس کی ماہرین کے تجزیے تھے جس سے یہ ظاہر ہوا کہ 13 جولائی کو غزہ کے ”محفوظ زون“ مواسی میں 2000 پاؤنڈ کے بموں کے استعمال میں ڈنمارک کا کردار تھا۔

ڈان واچ کی رپورٹر شارلٹ آگارڈ نے جی آئی جے این کو بتایا: ”او ایس ایم پی نے مجھے ایک اہم ثبوت فراہم کیا جو میری کہانی کے لیے بہت اہم تھا۔ یہ ثبوت ڈینش ایف-35 طیاروں کے ایسے فضائی حملے میں ملوث ہونے کے بارے میں تھا جو ممکنہ طور پر جنگی جرم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ اس اسلحے کے حصے نے ثابت کیا کہا آئی ڈی ایف نے بہت بڑے پیمانے پر اسلحے کا استعمال کیا، اقوام متحدہ کے مطابق اس کا استعمال گنجان آباد علاقوں میں نہیں کیا جانا چاہیے“

اسٹیل کے جان لیوا ٹکڑوں کا ڈیٹا بیس بنانا

جی آئی جے این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ایئر وارز کے تحقیقات کے سربراہ اور او ایس ایم پی کے شریک تخلیقِ کار جو ڈائک نے بتایا کہ اس پورٹل کو صرف رپورٹرز کو گولہ بارود کے باقیات کو احتسابی کہانیوں کے لیے بطور ثبوت استعمال کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا بلکہ صحافیوں کو اس تکنیکی میدان جو عام طور پر ان کے لیے ناقابل رسائی ہوتا ہے میں تعلیم دینے کے لیے بھی بنایا گیا ہے۔

”زیادہ تر صحافیوں کے پاس گولہ بارود کے ماہرین بطور روابط موجود نہیں ہوتے، اس لیے ہم نے یہ تصور پیش کیا کہ اگرچہ کسی گولہ بارود کی 100% تصدیق کے لیے اب بھی ماہر کی ضرورت ہوگی، ہم ایک قابل رسائی پورٹل کے ذریعے ہر رپورٹر کی معلومات میں تھوڑا سا اضافہ کر سکتے ہیں اور اسے حقیقی دنیا کے واقعات سے جوڑ سکتے ہیں،“ ڈائک نے یاد کیا۔ یہ احتساب اور رسائی پر ہماری توجہ اور خرچ شدہ گولہ بارود کی شناخت کے بارے میں اے آر ای ایس کی مہارت کو  اکٹھا کر رہا ہے۔

انہوں نے اضافہ کیا کہ اصل دنیا کا مبنی بصری ڈیٹا بیس بنانا ضروری تھا جو یہ دکھا سکے کہ استعمال کے بعد گولہ بارود زمین پر پڑا کیسا لگتا ہے۔  "بطور صحافی ہم ہمیشہ دوربین کے دوسرے سرے پر ہوتے ہیں – ہم مکمل حالت میں گولہ بارود سے نہیں نمٹ رہے،“ انہوں نے وضاحت کی۔“ ہم نہیں چاہتے کہ [ٹول میں موجود اشیاء] فرضی ہوں۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو، ہم انہیں مخصوص واقعات، خاص طور پر عام شہریوں کو نقصان پہنچانے والے واقعات سے جوڑنا چاہتے ہیں۔”

Found in the Palestinian Territories this year, this Korean War-era “demolition bomb” is the kind of high-explosive “dumb” munition that could provoke critical questions about military bombing strategy and potential war crimes. Image: Screenshot, via OSMP

 

ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) کے  نامہ نگار کے طور پر بیروت، رملہ، اور یروشلم جیسے علاقوں میں تنازعات کی رپورٹنگ کے سالوں کے تجربے کے باوجود، ڈائک کو یہ احساس ہوا کہ ان کے پاس گولہ بارود کی باقیات میں فرق کرنے علم نہیں تھا، مثلاً مارٹر شیلز اور آرٹلری شیلز خرچ کیے گئے اور یہ کہ صحافیوں کے لیے ایسے وسائل بہت کم دستیاب ہیں جو ان کی مدد کر سکیں۔

”اگر آپ کو یہ شبہ ہو کہ سوشل میڈیا پر موجود کوئی باقیات، مثال کے طور پر، ہیلفائر میزائل کی ہو سکتی ہیں تو آپ او ایس ایم پی میں ‘ہیلفائر’ پر کلک کر سکتے ہیں اور ہمارے پاس پہلے سے دستاویزی شکل میں موجود ہیلفائر کی تمام باقیات دیکھ سکتے ہیں، وہ وضاحت کرتے ہیں۔ ”ہمارے پاس صرف جی بی یو-39 کی باقیات کی 31 تصاویر موجود ہیں، جو زیادہ تر غزہ میں حالیہ چند مہینوں کی ہیں اور کچھ یوکرین سے بھی ہیں۔”

انہوں نے اضافہ کیا، ”ہم اب اس پیج کے لیے اس ہتھیار کے ماڈل کا ایک تھری ڈی ماڈل بنانے جا رہے ہیں تاکہ جب آپ فِن پر کرسر رکھیں تو آپ کو فِن کی وہ تصاویر نظر آئیں گی جو تنازعات کے علاقوں میں نظر آتی ہیں۔”

جدید فلٹرز میں بنیادی بصری خصوصیات شامل ہیں جو سراغ کے طور پر کام کر سکتی ہیں – جیسے ”بنیادی رنگ“ اور ”مارکنگ اسکرپٹ“ (مثال کے طور پر سیریلیک، چینی، یا عددی اسکرپٹ)۔ ابتدائی تلاشوں کو گولہ بارود کی قسم یا مقام کے لحاظ سے بھی فلٹر کیا جا سکتا ہے۔

An F-15 jet carrying MK84 bombs converted with JDAM guidance kits. Image: via OSMP.

او ایس ایم پی اور ائیر وارز کو ایک ساتھ استعمال کرنا  

ایئر وارز اپنی دو بنیادی خدمات کے ذریعے پہلے ہی کئی تحقیقاتی اثرات پیدا کر چکی ہے۔ پچھلی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ کے مکمل تصدیق شدہ غیر جنگجو شہریوں کی 73,000 ہلاکتوں کا ڈیٹا بیس اور بڑے واقعات پر شہری نقصانات کی ابتدائی تحقیقات جس کے لیے انہوں نے بڑے میڈیا اداروں کے ساتھ شراکت کی ہے۔

”ایئر وارز اصل میں ایک دستاویز کی تنظیم تھی،“ ڈائک وضاحت کرتے ہیں۔ ”لہٰذا، اگر آپ بطور رپورٹر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایکس تاریخ اور وائے تاریخ کے درمیان شام میں روسی فضائی حملوں سے کتنے شہری ہلاک ہوئے تو ہم آپ کے لیے اپنے شہری نقصانات کے ڈیٹا بیس سے یہ معلومات نکال سکتے ہیں۔ لیکن 2020 میں ہم نے ایک تحقیقاتی یونٹ بھی قائم کیا تھا کیونکہ ہمیں معلوم ہوا کہ صرف دستاویز بندی تمام اثرات تک رہنمائی نہیں کر رہی تھی کیونکہ صحافی مختلف موضوعات کور کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اور ہمیں اکثر انہیں کہانی تلاش کرنے میں بھی مدد دینا پڑتی ہے تاکہ وہ اس میں زیادہ دلچسپی لیں۔ ہم ایک طرح سے ابتدائی مرحلے میں موجود کہانیاں اپنے میڈیا شراکت داروں تک لے کر جاتے ہیں اور وہ انہیں اس مرحلے سے آگے لے کر جاتے ہیں۔“

ڈائک کا مشورہ یہ ہے: رپورٹرز ایئر وارز کے حوالہ جات والے صفحات کا جائزہ لے کر کہانیاں تجویز کر سکتے ہیں۔ ایک اور تجویز یہ ہے کہ رپورٹرز او ایس ایم پی اور ایئر وارز کے شہری نقصانات کے واقعات کی رپورٹس کو ایک ساتھ استعمال کرسکتے ہیں، جیسے تاز علی نے کیا تھا۔ انہوں نے او ایس ایم پی سے جی بی یو-39 باقیات کے شواہد کو ایئر وارز کے 10 اگست کو غزہ کے علاقے الدرج میں واقع التابعین اسکول پر فضائی حملے کی ایک کیس اسٹڈی کے ساتھ مربوط کیا تھا۔ اس واقعے کی رپورٹ میں، ایئر وارز نے اس حملے میں ہلاک ہونے والے 89 افراد کے ناموں کی نشاندہی کی تھی۔ آئی-پیپر کی کہانی نے او ایس ایم پی کے ڈیٹا اور دفاعی انٹیلیجنس فرم جینز کے ذرائع کے ذریعے اس بم کے بڑھتے ہوئے استعمال کی تصدیق کی تھی۔

ڈین واچ کی آگارڈ کہتی ہیں کہ دفاعی محکموں اور ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی گولہ بارود کی تحقیقات میں حیرت انگیز طور پر مددگار ثابت ہورہے ہیں۔ ”کیونکہ دونوں وہ اپنی فوجی کامیابیوں، حاصل کردہ معاہدوں، یا اپنی مصنوعات کی تکنیکی برتری کے بارے میں اکثر شیخی بگھارتے ہیں۔”

آگارڈ تسلیم کرتی ہیں کہ فضائی حملوں کے احتساب سے متعلق کہانیوں میں کئی تحقیقاتی مشکلات موجود ہیں۔ ”ایک اس بارے میں یقین دہانی کرنا ہے کہ اوپن سورس ویڈیوز یا تصاویرصحیح طریقے سے جغرافیائی محل وقوع کے ساتھ منسلک کی گئی ہیں اور کسی خاص حملے سے بغیر کسی شک کے منسوب کی جا سکتی ہیں،“ وہ وضاحت کرتی ہیں۔

"دوسرا یہ  جاننا ہے کہ کس طیارے یا کس قسم کے طیارے نے یہ مخصوص گولہ بارود گرایا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ گولہ بارود کی باقیات کی تصاویر یا ویڈیوز کو دستاویزات کے ساتھ منسلک کیا جائے جو بتاتی ہیں کہ اس قسم کا گولہ بارود عام طور پر اس خاص طیارے کے ذریعے استعمال ہوتا ہے یا کہیں لے جایا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یہ دستاویزی شکل دی جائے کہ حملے کے وقت یہ خاص قسم کا طیارہ فضا میں موجود تھا۔“

او ایس ایم پی ٹول میں شامل کئی گولہ بارود ایئر وارز کی ان واقعاتی رپورٹس سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کا ڈیٹا، جغرافیائی محل وقوع کی معلومات، اور سوشل میڈیا ذرائع شامل ہیں جو صارفین کو گرافک مواد کے لیے ”ان بلر“ آپشن فراہم کرتے ہیں۔

او ایس ایم پی ڈیٹا استعمال کرنے کے لیے تجاویز  

"ریسرچ آرگنائزیشن“ فلٹر کی مدد سے مزید تصاویر تلاش کریں

رپورٹرز اس فلٹر کے ذریعے بیلنگ کیٹ جیسے اوپن سورس تحقیقی گروہوں کی ہتھیاروں کی اضافی آزادانہ تحقیقات دریافت کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سیتو میں میزائل اور بم کے حصوں کی مزید بہت سی تصاویر حاصل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر،  آپ آر ایکس9  خفیہ کائنیٹک میزائل — جو دھماکہ نہیں کرتا بلکہ مہلک بلیڈ استعمال کرتا ہے — کے حصوں کی نایاب تصاویر حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے پہلے پورٹل فلٹر کا استعمال کریں اور پھر بیلنگ کیٹ رپورٹ پر کلک کریں۔

اہم معلومات دینے والے فیچرز کو دریافت کریں  

پورٹل میں وسائل کے صفحات شامل ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہر قسم کے گولہ بارود کے لیے زمین پر کن حصوں کو ڈھونڈنا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ وضاحت کرتا ہے کہ  فضائی بمباری کے بعد ملنے والے حصوں میں ”ٹیل اسمبلیز“ اور بم کو طیارے سے جوڑنے والے ”سسپنشن لگز“ اہم حصے ہوتے ہیں۔:  اور یہ بھی بتاتا ہے کہ پھٹنے کے بعد کون سے حصیں بچیں گے، ڈائک وضاحت کرتے ہیں۔ ”چناچہ، مورٹرز کے ساتھ آپ ٹیل فِنز وغیرہ کی بھی تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔”

بصری شواہد کو استعمال کریں تاکہ مزید تحقیقی سوالات کو ابھارا جا سکے 

مثال کے طور پر کچھ 2000 پاؤنڈ وزنی ایم کے 84 ”میگا بمز“ کو اکثر جوائنٹ ڈائریکٹ اٹیک میونیشن (جے ڈی اے ایم) کٹس سے لیس کیا جاتا ہے جو چلانے کے بعد اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے رہنمائی کرتی ہیں۔ لہٰذا اگر ان کٹس کے مخصوص ”اسٹریکس“ کسی تباہ شدہ اسپتال یا اسکول کے قریب دریافت ہوتے ہیں تو ایک سوال یہ ہو سکتا ہے: کیا جے ڈی اے ایم کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اس عمارت کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا تھا؟

احتساب کے لیے متعلقہ تحقیقات تلاش کریں

اس پورٹل میں ایکسٹرنل ریسرچ سائیڈ بارز شامل ہیں جو متعلقہ تحقیقات کی مدد سے نقصان کی ذمہ دار جماعتوں کے متعلق سراغ فراہم کرتی ہیں۔ جیسا کہ یہ سی این این کا آرٹیکل ایک شہری علاقے میں امریکی ساختہ اسلحے کے استعمال کو دکھاتا ہے۔

اسلحے کے متبادل ناموں سے محتاط رہیں

پورٹل کے تجزیہ کاروں کے مطابق، رپورٹروں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ افواج اور اسلحہ بنانے والے ایک ہی بم یا میزائل کے لیے مختلف نام استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً، امریکی فضائیہ اور کچھ اتحادی افواج ”جی بی یو-39“ استعمال کرتی ہیں، جب کہ اسے بنانے والے ”سمال ڈائیامیٹر بم“ یا ”ایس ڈی بی“ کا استعمال کرتے ہیں۔

غلط معلومات اور پروپیگنڈہ دعوؤں کا تجزیہ کاروں کے نوٹس سے مقابلہ کریں

او ایس ایم پی میں شامل کئی چیزوں میں اے آر ای ایس ماہرین کی طرف سے اضافی تفصیلات اور وضاحتیں موجود ہیں جو غلط دعوؤں اور عام غلط فہمیوں کو رد کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ جولائی میں اسرائیل میں ملنے والی چھوٹی، زیادہ ریویٹڈ نوک کی تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے، ڈائک اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ٹول اور او ایس ایم پی ڈیٹا بیس میں شامل اس کی تاریخ کیسے بتاتی ہے کہ وہ کہاں سے آیا اور زمین پر صورتحال کو غلط سمجھنے سے بچاتی ہے۔

"مثلاً اگر آپ اسے ابھی اسرائیل میں زمین پر دیکھیں تو شاید آپ یہ سمجھیں کہ یہ حزب اللہ کی طرف سے داغا گیا ہے،“ ڈائک کہتے ہیں۔ ”میں ذاتی طور پر سمجھتا کہ وہ کسی قسم کے آنے والے راکٹ کا اگلا حصہ ہے اور آپ اکثر لوگ اس قسم کی تصاویر کو محلے پر حملوں کے ثبوت کے طور پر پوسٹ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت میں [اسرائیلی دفاعی فورسز] کی طرف سے داغا گیا ایئر ڈیفنس میزائل تھا۔”

ساتھ شامل تجزیہ کار نوٹ میں کہا گیا ہے: ”یہ تصویر ایک اسرائیلی تامیر سطح سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل کی نوک دکھاتی ہے۔ یہ جزو اکثر میزائل کے کام کرنے کے بعد بطور باقیات پایا جاتا ہے۔”

او ایس ایم پی کو کراؤڈ سورس میپنگ ٹولز کے ساتھ استعمال کریں

رپورٹرز دور دراز علاقوں میں فضائی حملوں کے واقعات کی تصدیق ( لائیو یونیورسل اویرنیس میپ) لائیو یو اے میپ جیسے کراؤڈ سورسڈ پورٹلز اور سی اے ٹی – یو ایکس او جیسے ماہر ڈیٹا بیس سے کر سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے نوٹس کو حقائق کی جانچ کے رہنما کے طور پر استعمال کریں

او ایس ایم پی کی لائبریری ایڈیٹرز اور حقائق کی جانچ کرنے والوں کو استعمال ہونے والے اسلحوں کے متعلق ابتدائی دعووں کی تصدیق میں مدد دے سکتی ہے کیونکہ زمین پر موجود سرکاری ذرائع بھی باآسانی غلطی کر سکتے ہیں۔ جیسے وہ ایک ٹینک کے گولے کو توپ خانے کے گولے کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ تاہم، یہ نوٹ کریں کہ او ایس ایم پی کی باقیات کی شناخت بھی حتمی نہیں ہوتی اور ماہرین ہمیشہ انہیں ”عارضی“ شناخت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جو رپورٹروں کو شفافیت کے لیے آڈئینس کے سامنے واضح کرنا چاہیے۔

Visual catalog of different types of muntions. Image: Screenshot, OSMP

 

او ایس ایم پی کو تربیت اور سیکھنے کے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کریں  

صرف خرچ شدہ گولہ بارود کی تصاویر اور تجزیے صحافیوں کو نئے بصری شواہد کے لیے تیار کرسکتے ہیں۔ گرچہ وہ زور دیتے ہیں کہ رپورٹروں کو گولہ بارود کے ماہر بننے کی ضرورت نہیں ہے، ڈائک کہتے ہیں کہ تنازع کی تحقیق کرنے والے صحافیوں کو گولہ بارود کی بنیادی اقسام، جیسی نیچے موجود تصویر میں دکھائے گئی ہیں، کے متعلق بنیادی سمجھ کے لیے او ایس ایم پی جیسے ٹولز کا استعمال کرنا چاہیے۔

دونوں او ایس ایم پی لائبریری اور ائیر وارز کی تحقیقات ایک اہم تحقیقاتی اصول کو واضح کرتی ہیں جس کی گونج امریکی انتخابات میں خیانت کرنے والے عہدہ داروں کے متعلق جی آئی جے این کی حالیہ کہانی میں بھی سنائی دیتی ہے: کہ کہانیوں کو ”جامع“ ہونے کی ضرورت میں تاخیر کا شکار ہونے یا رک جانے کی اجازت نہ دیں۔

اس کی بجائے جیسے جیسا ڈائک کہتے ہیں ”جو دستیاب ہے، اسی کے ساتھ آگے بڑھیں لیکن آڈئینس کو کہانی کی حدود کے متعلق بتائیں اور پہلی اشاعت کے بعد مواد کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔”

"جیسے کہ ہماری ڈائریکٹر [ایملی ٹرپ] ہمیشہ نشاندہی کرتی ہیں، ہم یہ دعویٰ نہیں کر رہے کہ ایکس کسی واقعے کے بارے میں حتمی معلومات کا مجموعہ ہے،“ ڈائک کہتے ہیں۔ ”اگر مہینوں بعد کوئی یہ ثبوت لے کر آئے کہ درحقیقت اس واقعے میں مزید تین شہری مارے گئے تھے — یا جنہیں ہم نے ریکارڈ کیا، ان میں سے کچھ دراصل جنگجو تھے — تو ہم اپنے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کریں گے۔ ہم قانونی فیصلے نہیں کرتے یا کسی چیز کو جنگی جرم قرار نہیں دیتے: ہم ایک قانونی تنظیم نہیں ہیں۔ بلکہ ہم دستاویزی ریکارڈ تیار کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں، اور ہماری واقعات کی رپورٹس دیگر محققین کے لیے استعمال کے لیے ایک نقطہ آغاز ہو سکتی ہیں۔”


روان فلپ جی آئی جے این کے سینئر رپورٹر ہیں۔ وہ جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز کے چیف رپورٹر رہ چکے ہیں۔ بطور غیر ملکی نامہ نگار وہ دنیا کے دو درجن سے زیادہ ممالک سے خبروں، سیاست، بدعنوانی، اور تنازعات پر رپورٹنگ کر چکے ہیں۔

اگلی کہانی پڑھیں

راز، لیکس اور دریا: افریقہ میں سرحد پار تحقیقاتی صحافت

تحقیق کے لیےس سرحد پر تعاون کا رہجان پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے۔ اس تحریر میں جی آئی جے نے این افریقہ میں اس طرح شراکت داریوںکو فروغ دینے والی کچھ تنظیموں پر روشنی ڈالی ہے، کہ انہیں کس قسم کی مشکلات کا سامنا رہا ہے