رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

رپورٹنگ

راز، لیکس اور دریا: افریقہ میں سرحد پار تحقیقاتی صحافت

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

دنیا بھر میں اپنے ہم منصبوں کی طرح افریقی تحقیقاتی صحافی اور تنظیمیں بھی وسائل کے اشتراک، بڑے ڈیٹا کے ذخائر سے نمٹنے اور اپنی رپورٹنگ کے اثرات کو بڑھانے کے لیے سرحد پار شراکت داریوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ تحقیقاتی صحافیوں کے لیے دنیا کے سب سے مشکل اور خطرناک ماحول میں کر رہے ہیں۔

گزشتہ 10 برسوں کے دوران، پیچیدہ سرحد پار تحقیقات — جیسے سوازی سیکریٹس، مغربی افریقہ لیکس اور علاقائی ماحولیاتی رپورٹنگ منصوبے جیسے انفو کانگو اور انفو نیل — نے تقریباً ایک درجن افریقی ممالک کے صحافیوں اور محققین کو اکٹھا کیا ہے، چاہے وہ دیگر براعظموں کے میڈیا شراکت داروں کے ساتھ ہوں یا ان کے بغیر ہوں۔

افریقہ میں ایسی تنظیموں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جو تحقیقاتی تعاون کو آسان بنانے کے لیے کام کرتی ہیں۔ چاہے یہ تعاون مختلف پیشوں میں سائنسدانوں کو صحافیوں کے ساتھ منسلک کر کے ہو؛ سرحد پار ایک علاقائی نیٹ ورک کے طور پر خدمات فراہم کر کے ہو؛ تربیت کے ذریعے ہو؛ خطرناک ممالک میں اشاعت کے خطرات کو کم کر کے تحقیقاتی صحافیوں کی مدد کر کے ہو؛ یا فنڈز مہیا کر کے یا رپورٹروں کو فنڈ اکٹھے کرنے میں مدد کر کے ہو۔

جی آئی جے این (جی آئی جے این) نے ان تنظیموں اور صحافیوں سے بات کی ہے جو اپنے خطوں میں سرحد پار تحقیقاتی منصوبوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان میں جنوبی افریقہ، مشرقی افریقہ کی عظیم جھیلوں، دریائے نیل کا طاس اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ ان کے منصوبوں، تجربات، چیلنجزاور وہ اوزار جن سے وہ تعاون کرتے ہیں پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

سی ای این او زی او: مغربی افریقہ لیکس اور اس سے آگے  

۲۰۱۸ میں شائع ہونے والی مغربی افریقہ لیکس کی تحقیق — جس نے انکشاف کیا تھا کہ کس طرح مغربی افریقہ کی بڑی کارپوریشنز اور افراد اربوں کی دولت دوسرے ممالک میں چھپاتے ہیں — اب تک خطے میں صحافیوں کے سب سے بڑے تعاون کے ذریعے ممکن ہوئی ہے۔ یہ تحقیق آئی سی آئی جے کے بڑے ڈیٹا لیکس جن میں آف شور لیکس، پاناما پیپرزاور پیراڈائیز پیپرز شامل ہیں، کے 27.5 ملین دستاویزات کے مغربی افریقہ سے متعلق تمام مواد کے تجزیے پر مبنی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ آئی سی آئی جے نے کسی مخصوص خطے پر توجہ دی اور ۱۱ ممالک کے درجنوں صحافیوں کو شامل کرتے ہوئے ایک تعاون کو مربوط کیا۔

آئی سی آئی جے کے مغربی افریقہ میں شراکت داروں میں سے ایک برکنا فاسو میں قائم نوربرٹ زونگوسیل فار انویسٹیگیٹو جرنلزم ان مغربی افریقہ، یا سی ای این او زی او تھا، جو تحقیقاتی صحافیوں کی ایک علاقائی تنظیم ہے۔ ۲۰۱۵ میں قائم ہونے والا سی ای این او زی او جی آئی جے این کا ممبر ہے۔ یہ مغربی افریقہ کے ممالک میں صحافیوں کے لیے ایک نیٹ ورک مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ ان کی کہانیوں کو اس وقت شائع کرنے میں مدد دیتا ہے جب ان کے اپنے ممالک میں ایسا کرنا خطرناک ہو، انہیں اور تحقیقاتی تکنیکوں میں تربیت فراہم کرتا ہے۔

”ہمارے خطے میں صحافیوں کو درپیش سب سےبڑا چیلنج وسائل اور ان مہارتوں کی کمی ہے جو انہیں عوامی مفاد کے مسائل پر گہرائی سے تحقیقات کرنے کے لیے درکار ہیں،“ سی ای این او زی او کے پروگرام مینیجر اگناس سوسو کا کہنا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کی سب سے بڑی موجودہ تشویش مغربی افریقہ میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال، ذرائع تک رسائی میں ہوتی ہوئی کمی اور صحافیوں کی حوصلہ شکنی ہے۔ مغربی افریقہ میں، خاص طور پر ساحل کے علاقے میں، سیکورٹی اور سیاسی ماحول مشکل ہے جہاں مسلح دہشت گرد کئی ممالک میں سرگرم ہیں۔

سی ای این او زی او کے صحافیوں نے آئی سی آئی جے کے مربوط منصوبوں شیڈو ڈپلومیٹس، پینڈورا پیپرزاور فِن سین فائلز تحقیقات پر بھی کام کیا ہے۔ ۲۰۲۳ میں، سی ای این او زی او نے مغربی افریقہ میں تحقیقی صحافت کو مضبوط بنانے کے لیے ویژول اور ڈیٹا پر مرکوز غیر منافع بخش تنظیم سینٹر فار کولیبوریٹو انویسٹیگیٹو جرنلزم (سی سی آئی جے) کے ساتھ شراکت داری کی تھی۔

آئی جے ہب: جنوبی افریقہ میں رپورٹنگ کی حمایت  

سوازی سیکریٹس تحقیق آئی سی آئی جے کے مطابق کسی افریقی ملک کی مالیاتی انٹیلی جنس یونٹ سے لیک ہونے والی سب سے بڑی دستاویزات پر مبنی تھی۔ اس تحقیق نے ایک غیر قانونی علاقائی معیشت کے پیچھے کے لین دین اور کرداروں کو بے نقاب کیا تھا اور جنوبی افریقہ کے کچھ مشہور سیاسی اور کاروباری ناموں کے ملوث ہونے کا بتایا تھا۔

اسواتینی فنانشل انٹیلیجنس یونٹ (ای ایف آئی یو) کی ۸۹۰۰۰۰ سے زیادہ داخلی دستاویزات لیک ہوئیں اور غیر منافع بخش ڈسٹریبیوٹڈ ڈینائیل آف سیکرٹس نے انہیں حاصل کر کے آئی سی آئی جے اور سات میڈیا پارٹنرز کے ساتھ شیئر کیا تھا۔ ۱۱ ممالک — جن میں جنوبی افریقہ، نائیجیریااور زیمبیا شامل ہیں — کے ۳۸ صحافیوں نے اس کہانی پر کام کیا تھا۔

سوازی سیکریٹس کے لیے جنوبی افریقہ میں شراکت دار جی آئی جے این کا ممبر اما بھنگانے سینٹر فار انویسٹیگیٹو جرنلزم تھا، جو ایک آزاد غیر منافع بخش تنظیم ہے جس نے میل اینڈ گارڈئین اخبار کے تحقیقاتی یونٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا تھا۔

۲۰۱۹ میں، اما بھنگانے نے خطے میں تحقیقاتی نیوز رومز کی حمایت کے لیے آئی جے ہب کا آغاز کیا۔ اس کا مقصد صلاحیت سازی، ادارت کی مدداور فنڈ ریزنگ اور خطرات کے لیے مشترکہ وسائل فراہم کرنا تھا۔ ابتدائی طور پر اما بھنگانے میں ایک انکیوبیٹر  کے طور پر لگنے والے آئی جے ہب کو ۲۰۲۱ میں نیوز روم سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔  وہ اب چھ ممالک — جنوبی افریقہ، لیسوتھو، ایسواتینی، زیمبیا، ملاوی اور نمیبیا — میں سات ممبر سینٹرز پر مشتمل ہے۔

اس سال آئی جے ہب کے تین ممبران — اما بھنگانے، زیمبیا کے ماکانڈےاور اسواتینی کے اِن ہیل — نے سوازی سیکریٹس پر آئی سی آئی جے کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ انہوں نے جنوبی افریقہ کی سونے کی اسمگلنگ کی معیشت میں اسواتینی کے ممکنہ کردار کو بے نقاب کیا جس کی وجہ کمزور منی لانڈرنگ قوانین اور اس میں شامل جنوبی افریقی سیاست دانوں اور طاقتور افراد تھے۔ اس تحقیق میں دو فرضی سونے کی ریفائنریوں کا بھی انکشاف ہوا تھا جنہوں نے اسواتینی کے ذریعے دبئی میں لاکھوں ڈالر منتقل کیے۔

آئی جے ہب کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ٹروئے لنڈ نے وضاحت کی کہ سوازی سیکریٹس تحقیق نے صحافیوں کو ”ایک دوسرے کے وسائل کو مشترکہ کامیابی کے لیے استعمال کرنے“ کے قابل بنایا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے لیے سب سے بڑی مشکل معلومات تک رسائی تھی جو ان میں سے زیادہ تر ممالک میں ”تقریباً ناممکن“ ہے۔ مثال کے طور پر ایسواتینی میں — جو افریقہ کی آخری باقی ماندہ مطلق بادشاہت ہے — معلومات حاصل کرنا نہایت مشکل اور خطرناک ہے۔ ”آپ کو اس کا کوئی راستہ تلاش کرنا پڑتا ہےاور آپ کو ایسے صحافیوں کو تلاش کرنا ہوتا ہے جو بہت تجربہ کار ہوں اور اس عمل کو سنبھالنا جانتے ہوں،“ وہ وضاحت کرتی ہیں۔ سوازی سیکریٹس کے بعد ایسواتینی میں قانون سازوں نے مستقبل میں مزید لیکس کو روکنے کی کوشش میں پریس کی آزادی پر مزید سختی کی تھی۔

لُنڈ نے ایک مشترکہ کہانی کی ادارت بھی کی تھی جو ایک امریکی مسیحی این جی او کے بارے میں تھی۔ اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ خیراتی ادارے کے بانیوں نے ملاوی کے بچوں کے لیے مختص عطیات کو اپنی پرتعیش زندگی کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ کہانی ملاوی کے پلیٹ فارم فار انویسٹیگیٹو جرنلزم (پی آئی جے) نے تیار کی تھی۔ اس میں آئی جے ہب اور اوپن یو پی/افریقہ ڈیٹا ہب کی طرف سے ادارتی مدد شامل تھی۔ اس منصوبے میں شامل صحافیوں نے ملاوی اور امریکہ سے مالی دستاویزات اور ٹیکس ریٹرنز جمع کیے تھے۔

اس تحقیق کی اشاعت کے بعد ”ملاوی کی این جی او نگرانی اتھارٹی نے خیراتی ادارے کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں، جس کے نتیجے میں اس کی امریکی اسناد منسوخ ہو گئی تھیں اور ایک مجرمانہ تحقیقات کا آغاز ہوا تھا۔ کئی عطیہ دہندگان نے بھی اپنے عطیات واپس لے لیے تھے،“ لُنڈ بتاتی ہیں۔

لُنڈ وضاحت کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک مؤثر رپورٹنگ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مختلف تحقیقاتی یونٹس سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ایک خصوصی تحقیقاتی مدیر کے ساتھ منسلک کیا جائے۔

”خصوصی مدیر تحقیق کے مرکزی موضوع کو آگے بڑھاتا ہےاور وہاں مدیر کے ساتھ ہفتہ وار یا اس سے زیادہ بار میٹنگز ہوتی ہیں تاکہ تحقیقات پر نطر رکھی جائے اور ان کی رہنمائی کی جاسکے،“ لُنڈ کہتی ہیں۔ ”مدیر تجربہ کار ہوتا ہے اور اس پر گفتگو کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے اور معلومات کو کیسے سنبھالنا ہے۔“

انفو نیل: دریائے نیل کے طاس میں ”جیو جرنلزم“  

سرحد پار تحقیقی رپورٹنگ علم اور مہارتوں کو بڑھا سکتی ہے کیونکہ صحافی خیالات، وسائل اور اوزار شیئر کرتے ہیں — لیکن یہ صحافیوں کو موضوع کے ماہرین کے ساتھ بھی جوڑ سکتی ہے۔

انفو نیل جو نیل طاس کے مسائل پر رپورٹنگ کرتی ہے — یہ ایک ایسا خطہ ہے جو ۱۱ افریقی ممالک پر مشتمل ہے جن میں مصر، سوڈان، اریٹریااور ایتھوپیا شامل ہیں — یہ ۲۰۱۷ میں قائم کی گئی تھی اور اس میں "جیو جرنلسٹس کا سرحد پار گروپ” شامل ہے جو دنیا کی سب سے طویل دریا سے متعلق پانی کے مسائل پر اہم کہانیاں دریافت کرتا ہے اور محققین، سائنس دانوں، صحافیوں اور عوام کو آپس میں رابطے میں لاتا ہے۔

InfoNile investigation Sucked Dry land deals in Nile Basin

شریک بانی اینیکا مک گنیس نے نوٹ کیا کہ سرحد پار صحافت نے بین الاقوامی تجارتی راستوں کو بے نقاب کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔ ان کی تحقیق سوکھا ہوا: نیل ندی کے بیسن میں زمین پر قبضے اور پانی تک رسائی نے انکشاف کیا کہ کیسے غیر ملکی سرمایہ کار ایتھوپیا میں بڑے پیمانے پر زمین حاصل کرتے ہیں اور بڑے برآمدی منافع کے لیے پھول اگانے کے مقصد سے کمیونٹیز کو بے دخل کرتے ہیں۔ اس پروجیکٹ نے سات ممالک کے ۱۰ سے زائد مدیرز، رپورٹرز، ڈیٹا صحافیوں، ڈیزائنرزاور مترجمین کی ایک ٹیم کو اکٹھا کیا تھا اور ۲۰۲۰ کے فیٹی سوو جرنلزم ایوارڈز میں زبردست تحقیقی رپورٹنگ کے زمرے میں تیسرا انعام جیتا تھا۔

”سرحد پار تعاون ہی صحیح راستہ ہے،” مک گینیس زور دیتی ہیں۔ ”یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم ان سرحد پار مسائل کی حقیقت کو وسیع پیمانے پر بے نقاب کر سکتے ہیں اور بین الاقوامی تجارت کا سراغ لگا سکتے ہیں۔“

مک گینیس نے وضاحت کی کہ انفو نیل کا آغاز ایک تحقیقی منصوبے اوپن واٹر ڈپلومیسی لیب سے ہوا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ نیل بیسن میں میڈیا ادارے علاقائی پانی کے مسائل پر کیسے رپورٹ کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں پایا گیا کہ زیادہ تر ممالک میں رپورٹنگ ”بہت قوم پرستانہ زاویے سے“ کی گئی تھی اور سرحد پار کے نقطہ نظر کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ انفو نیل اس خلا کو پر کرنے کے لیے وجود میں آئی۔

اگرچہ انفو نیل نے ابتدا میں پانی کے مسائل پر توجہ مرکوز کی لیکن جلد ہی انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ نقطہ نظر خطے کے وسیع تر موضوعات کا احاطہ بھی کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انفو نیل نے جنوبی افریقہ کے ماحولیاتی ادارے آکس پیکرز انویسٹیگیٹو جرنلزم نیٹ ورک کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ جنگلی حیات کی اسمگلنگ کو کور کیا جا سکے اور بہت سی تحقیقی کہانیاں شائع کی ہیں۔

”جنگلی حیات اور ان سے حاصل ہونے والی مصنوعات کو ایک ملک سے دوسرے ملک غیر قانونی ذرائع سے لے جایا جا سکتا ہے اور بیرون ملک یا کسی دوسرے خطے میں برآمد کیا جا سکتا ہے۔ یہ بین الاقوامی تجارت ہے جسے ایک بین الاقوامی نقطہ نظر سے کور کرنے کی ضرورت ہے،“ مک گنیس کہتی ہیں۔

۲۰۲۲ میں، انفو نیل نے نیل ویل لانچ کیا، ایک ایسا پلیٹ فارم جو نیل بیسن میں ماحولیاتی صحافیوں اور محققین کا آپس میں رابطہ کرواتا ہے۔ اس میں ۲۳۳ محققین اور ۵۰۰ سے زیادہ صحافی رجسٹرڈ ہیں۔ انفونیل نے ایک ماہانہ پروگرام ویڈ نز ڈےسائنس بھی شروع کیا تھا۔ اس پروگرام میں ماحولیات یا پانی کے سائنس دان اپنے مطالعات صحافیوں کے نیٹ ورک کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ یہ اقدام صحافیوں کو کہانی کے خیالات فراہم کرتا ہے اور سائنس دانوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ کچھ سائنسی اصطلاحات کی وضاحت کر سکیں۔

”ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنس پر مبنی مہارت کی ضرورت ہےاور ہمیں اس مہارت سیکھنے اور ایک ایسے فارمیٹ میں تبدیل کرنے کے قابل ہوں جسے لوگوں کے لیے سمجھنا آسان ہو،“ مک گنیس کہتی ہیں۔

انفو نیل یوگنڈا میں قائم ہے لیکن ممکنہ طور پر پیش آنے والی زبان کی رکاوٹوں کو حل کرنے کے لیے، ان کے پاس نیل بیسن کے ہر ملک میں کوآرڈینیٹرز کی ایک ٹیم ہے جو ماحولیاتی اور تحقیقاتی صحافت میں ماہر ہیں، مقامی زبان بول سکتے ہیں اور اپنے ملک کے صحافیوں کے ساتھ جڑ سکتے ہیں اور انفو نیل کے پروگراموں جیسے کہ علاقے کی غالب زبان میں تربیت منعقد کروانے اور ان میں مقامی ماہرین کو مدعو کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

اے آئی اور ترجمے کے اوزار جیسے کہ گوگل ٹرانسلیٹ، انفو نیل کو کہانی کا مسودہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ”یہ مکمل نہیں ہے،“ مک گینیس تسلیم کرتی ہیں۔ ”لیکن یہ ہمیں زیادہ مشترکہ بنیادیں تلاش کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ہر ایک کی اپنی مشکلات ہیں جیسے کہ شاید وہ لہجوں کو ٹھیک طرح سے ترجمہ نہیں کر سکتے یا وہ ہمیشہ ہر چیز کو درست طریقے سے نہیں سمجھ سکتے۔ یہ اب بھی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ہم مسلسل بہتری کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔“

  
حفاظت، اوزار، تربیت

جب تحقیقاتی صحافی اپنے ملک میں دھمکیوں کا سامنا کرتے ہیں تو سرحد پار تحقیقات صحافیوں کی حفاظت بڑھا سکتی ہے اور خطرات کو کم کر سکتی ہیں — کیونکہ تحقیقات کو مختلف ممالک میں متعدد میڈیا اداروں میں شائع کیا جا سکتا ہے۔

سی ای این او زی او کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ایسے صحافیوں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جو حفاظتی وجوہات کی بنا پر اپنا نام استعمال نہیں کر سکتے یا جہاں ان کے مقامی اخبارات حساس موضوعات کی کوریج نہیں کریں گے۔

”اگر آپ اکٹھے ہوں گے تو آپ خطرے کو پھیلائیں گے،“ اوکویلی کولیشن کے بانی گلبرٹ بکیینیزا کہتے ہیں۔ ”ایک صحافی کو نشانہ بنانا زیادہ آسان ہے بجائے ایک سے زیادہ صحافیوں یا اداروں کو نشانہ بنانے کے،“ وہ مزید کہتے ہیں۔ اوکویلی کولیشن — جو کہ سواحلی زبان کے ایک لفظ سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب حقیقت یا سچ ہے — مئی ۲۰۲۳ میں مشرقی افریقہ خاص طور پر افریقی عظیم جھیلوں کے علاقے میں سرحد پار تحقیقی صحافت کو سہارا دینے کے لیے قائم کی گئی تھی۔

”عظیم جھیلوں کا علاقہ مشرقی افریقہ کا فرانکوفون حصہ ہے اور یہ آزادی صحافت اور صحافیوں کو سہارا دینے والے میڈیا منصوبوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ پیچھے ہے،“ بکیینیزا، جو ۱۲ سال سے صحافت کر رہے ہیں، وضاحت کرتے ہیں۔ ”اس خطے میں صحافی مالی بحران کا شکار ہیں۔ وہ نااہل ہیں۔“

جولائی ۲۰۲۴ میں، اوکویلی کولیشن نے افریقہ ان سینسرڈ کے تعاون سے برونڈی اور کانگو جمہوریہ کے ۱۰ صحافیوں کے لیے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا تھا — یہ کولیشن کے آغاز کے بعد کی پہلی سرگرمی تھی۔

ڈیجیٹل اوزار سرحد پار تعاون پر مبنی تحقیقاتی صحافتی منصوبوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، خاص طور پر صحافیوں کو وسیع تر آڈئینس تک پہنچانے میں مدد دینے میں۔

لُنڈ نے کہا کہ آئی جے ہب ممبر سینٹر اور افریقہ کے پہلے تحقیقی ماحولیاتی صحافت یونٹ، آکسپیکرز انویسٹیگیٹو انوائرنمنٹل جرنلزم، نے سرحد پار تحقیق کے اوزاروں کی ایک سیریز تیار کی ہے۔ ایک کلیدی آلہ #وائلڈ آئی ہے، جو دنیا بھر میں جنگلی حیات اور دیگر ماحولیاتی جرائم سے متعلق ضبطگی، گرفتاریوں، مقدمات اور سزاوں کو ”ٹریس“ کر سکتا ہے۔ دوسرا #پاور ٹریکر ہے، جو سب سہارا افریقہ میں قابل تجدید توانائی منصوبوں اور کوئلے کے پلانٹس کی بندش کو "ٹریس” کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

انفونیل کی مک گنیس کہتی ہیں کہ وہ فی الحال  کلاڈ فار شیٹس سیکھ رہی ہیں۔ یہ ایک اے آئی ٹول ہے جو گوگل شیٹس میں فارمولے لکھنے میں مدد دیتا ہے۔ "یہ بہت مفید ہے جب آپ کے پاس غیر منظم ڈیٹا ہو یا آپ کے ڈیٹا میں طویل متون لکھے ہوں اور آپ یہ تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ [یہ کس کے بارے میں ہے] اور اس سے کسی قسم کے منظم طریقے کو پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں،” وہ کہتی ہیں۔

اکثر تعاون پر مبنی رپورٹنگ عام رپورٹنگ سے زیادہ وقت لیتی ہے کیونکہ مختلف ممالک کے صحافیوں کو مختلف اوقات کے مطابق ایک دوسرے سے رابطہ کرنا ہوتا ہے اور چونکہ یہ اکثر طویل رپورٹس ہوتی ہیں، ان کو لکھنا اور ایڈیٹ کرنا زیادہ وقت لیتے ہیں۔

مک گنیس نے کہا کہ انفونیل تحقیقات پروجیکٹ کی نوعیت کے اعتبار سے تین ماہ، چھ ماہ یا یہاں تک کہ ایک سال تک جاری رہ سکتی ہیں۔ ”یہ تعاون پر مبنی رپورٹنگ کی نوعیت ہے۔ ہم کبھی بھی پہلے مسودے پر اکتفا نہیں کرتے۔ ہم ہمیشہ اپنے صحافیوں سے کہتے ہیں کہ وہ مزید گہرائی میں جائیں، مزید آگے بڑھیں،“ وہ کہتی ہیں۔

لُنڈ متفق ہیں۔ ”سرحد پار تعاون میں کافی وقت لگتا ہے اس لیے صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ مایوس کن حد تک پیچیدہ ہوتے ہیں۔ جب آپ کے ذہن میں اشاعت کی تاریخ ہو تو بعض اوقات آپ اسے ہفتوں یا مہینوں کے لیے ملتوی کر سکتے ہیں،“ وہ کہتی ہیں۔

مک گنیس اور لُنڈ نے خبردار کیا کہ سرحد پار تحقیقی صحافت کی نوعیت کثرت سے تربیت کی متقاضی ہوتی ہے۔ انفو نیل نے ۳۰۰ سے زیادہ صحافیوں کو تربیت دی ہے اور تقریباً ۲۰۰ صحافیوں کو امداد فراہم کی ہیں۔ آئی جے ہب نے پچھلے ۱۲ مہینوں میں ۳۴ ورکشاپس منعقد کیں، ۶۶۷ شرکاء کو تربیت فراہم کی اور تقریباً ۱۲ فیلوشپس دیں۔

”یہ ان کے ساتھ ایک بہت ہی عملی اور انٹرایکٹو تعلق ہے اور ہمارے تربیت کے مقصد یہ ہیں کہ انفرادی یا ٹیم کی ضروریات کو پورا کرنے والی حسبِ ضرورت اور عملی تربیت فراہم کریں اور ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنائیں،“ لُنڈ نے کہا۔ ”سرحد پار تعاون کے لیے بہت زیادہ امکانات ہیں اور یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر ہم مزید کام کرنا چاہیں گے جب تک کہ اس کے لیے فنڈنگ موجود ہے۔“


پیٹرک ایگو ایک نائیجیریا میں پیدا ہونے والے فری لانس صحافی ہیں جنہوں نے شکاگو، ٹورنٹو، جوہانسبرگ، برلن اور لاگوس سے کئی اشاعتوں جیسے کہ دا گلوب اینڈ میل، فارن پالیسی، این پی آر، ریسٹ آف ورلڈ، ڈیلی میوریک، ورلڈ پالیٹکس ریویو، امریکہ میگزین اور دیگر کے لیے رپورٹنگ کی ہے۔

 

ایکپالی سینٹ نائیجیریا میں مقیم ایک فری لانس صحافی ہیں۔ وہ موسمیاتی تبدیلی، زراعت، ماحولیات، مذہب، تعلیم اور دیگر ترقیاتی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ان کا کام الجزیرہ، اوپن ڈیموکریسی، فیئرپلانیٹ، افریقی آرگیومنٹس، امریکی میگزین، ریلیجین ان پلگڈ اور ڈائون ٹو ارتھ میں شائع ہو چکا ہے۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

smartphone TikTok videos misinformation

ٹک ٹاک پر مِس انفارمیشن: ڈاکیومنٹڈ نے مختلف زبانوں میں سینکڑوں ویڈیوز کا کیسے جائزہ لیا؟

ٹک ٹاک پر غلط معلومات کی تحقیق کے لیے، ڈاکیومنٹد کی ٹیم نے بڑی مقدار میں ڈاؤن لوڈ کی گئی ویڈیوز کو نقل کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے آے آئی کے استعمال کے لیے یہ طریقہ کار تیار کیا۔

Border grave Greece

یورپ کے سرحدی علاقوں میں تارکین وطن کی نامعلوم قبروں کی دستاویز سازی

اس تفتیش نے ان اہم سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جن کا کوئی حکومت جواب نہیں دے سکی: جب کوئی یورپ کی سرحدوں پر لاپتہ ہو جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ اور پورے یورپ میں کتنی تدفین کی جگہیں ہیں؟

Imagen: Joanna Demarco para GIJN

ٹپ شیٹ

صحافیوں کے لیے ٹِپ شیٹ: او سی سی آر پی کے ایلیف سے فائدہ کیسے اٹھائیں

تحقیقاتی صحافت میں معلومات کے مختلف نکات کو جوڑنا اکثر سچائی کو بے نقاب کرنے کے لیے اہم ۔ہوتا ہے۔ آن لائن اور آف لائن دستیاب معلومات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ صحافیوں کو دستاویزات، ریکارڈزاور ڈیٹا سیٹس کے وسیع مجموعوں کو دیکھنے اور استعمال کرنے کے لیے مؤثر طریقوں کی ضرورت ہے۔