رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

رپورٹنگ

بی بی سی اوپن سورس صحافی غزہ سے معلومات کی تحقیق، تجزیہ، اور تصدیق کیسے کرتے ہیں

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

8 اکتوبر کے حملے کے بعد آنے سرخیوں — جب حماس اور دیگر شدت پسند گروہوں کے اتحاد نے اسرائیل پر مربوط مسلح حملہ کیا، جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے اور سینکڑوں کو اغوا کر لیا گیا — نے اسے ایک ”اچانک“ حملہ قرار دیا تھا۔

تاہم، اگلے مہینے بی بی سی نیوز کی رپورٹ ”اسرائیل پر حملوں کے لیے حماس کی تربیت کا انکشاف“ نے دکھایا کہ یہ تیاریاں انتہائی منظم تھیں، دیگر دھڑوں کے ساتھ مربوط تھیں، کم از کم تین سال سے جاری تھیں — اور سب کے سامنے ہو رہی تھیں۔

اس انکشاف کے پیچھے صحافیوں کی ایک ٹیم کا حصہ تھے جو بی بی سی عربی کے ڈیجیٹل فارنزک یونٹ اور بی بی سی ویریفائی جو 2023 میں فیکٹ چیک، ویڈیو مواد کی تصدیق اور غلط معلومات کے خلاف کام کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ اوپن سورس طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے 2020 تک کے حماس کے تربیتی سیشنز کی فوٹیج کا تجزیہ کیا، غزہ میں حملے کی مشقوں کے لیے استعمال ہونے والی 14 جگہوں کی نشاندہی کی اور تربیتی مشقوں اور 7 اکتوبر کے حملے میں شامل دیگر شدت پسند گروہوں کی بھی نشاندہی کی۔

یہ ٹیم ابھی بھی 7 اکتوبر اور اس کے بعد کی فوٹیج اور تصاویر کو جمع، تجزیہ اور تصدیق کر رہی ہے جس میں یرغمالیوں سے متعلق خبروں کا سراغ لگانا اور ان کی تصدیق کرنا بھی شامل ہے۔

اس کہانی کے لیے جی آئی جے این نے اس ٹیم سے بات کی — عبد الرحیم سعید، بینڈکٹ گارمن، رچرڈ ارون-براؤن، ایما پینگلی، جیمی رائن، اور الیکس مَری — جنہوں نے تربیتی ویڈیو کی تحقیقات اور یرغمالیوں کی نشاندہی کے منصوبے کے بارے میں ان کے رپورٹنگ کے طریقوں اور آلات پر روشنی ڈالی۔

ٹیلیگرام — ‘آپریشن اسٹرونگ پِلر’

اکتوبر 2023 کے اوائل میں بی بی سی عربی کے اوپن سورس تحقیقات کے ایڈیٹر سعید ایک نئی ڈیجیٹل فارنزک ٹیم لانچ کرنے کی تیاری کر رہے تھے جب حماس کے حملے کی خبریں آئیں۔

"صورتحال کے پیش نظر لانچ میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی تھی،“ سعید نے بی بی سی ورلڈ سروس کے ایک ایونٹ میں جو کہ براڈکاسٹر کے ڈیجیٹل فارنزک اور اوپن سورس جرنلزم کے استعمال کے بارے میں تھا، میں وضاحت کی۔ ”ہم نے چند ہی گھنٹوں میں کام شروع کر دیا۔”

"جیسے ہی جنگ شروع ہوئی، سب کی نظریں میدان میں ہونے والے روزمرہ واقعات پر مرکوز ہو گئیں،“ انہوں نے جی آئی جے این کو بتایا۔ ”پھر کچھ اشارے آنے لگے کہ حماس اس کی تیاری کر رہا تھا۔“ درحقیقت، ٹیم کو جلد ہی پتہ چل گیا کہ حماس اور دیگر اتحادی گروہ حملے سے کئی سال پہلے سے اپنے تربیتی مشقوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے تھے۔ "اگر آپ جانتے ہوتے کہ کہاں دیکھنا ہے تو نشانیاں موجود تھیں۔”

"میں اپنے تجربے سے جانتا ہوں کہ شدت پسند گروہ پوسٹ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں اور وہ عام استعمال ہونے والے سوشل میڈیا سائٹس جیسے ایکس اور فیس بک کے مقابلے میں ٹیلی گرام پر زیادہ منظم اور مستحکم ہونے کا رجحان رکھتے ہیں،“ سعید نے وضاحت کی۔ یہ پیغام رسانی کا پلیٹ فارم مسلح گروہوں میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ وہاں انہیں کم نگرانی کا سامنا ہوتا ہے اور ان کے معطل ہونے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔

لہٰذا، سعید نے حماس کے چینلز کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ ”ایسا نہیں ہے کہ ٹیلیگرام پر یہ گروہ تصدیق شدہ ہوتے ہیں… اس لیے ہمیں حماس کے بیانات کو کراس ریفرنس کرنا پڑا اور یہ دیکھنا پڑا کہ آیا انہوں نے ماضی میں اپنی ویب سائٹ سے پہلے ٹیلیگرام چینلز کا حوالہ دیا ہے یا نہیں،“ انہوں نے کہا۔

جیسے ہی ٹیم کو یقین ہو گیا کہ یہ سرکاری حماس چینلز ہیں — مرکزی سیاسی حماس چینل اور اس کے مسلح ونگ، عزالدین القسام بریگیڈز کا چینل ہے — انہوں نے دیکھنا شروع کیا کہ ان کی منصوبہ بندی کی پوسٹس کتنی پرانی ہیں۔ ”ایک فلسطینی میڈیا نے اس ہیش ٹیگ کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی تھی، جو تربیتی سیشنز کا کوڈ نام تھا… آپریشن اسٹرونگ پِلر۔“ خاص طور پر، پہلی پوسٹس میں انہیں #StrongPillar4 کا ہیش ٹیگ ملا تھا۔

"جب میں نے وہ دیکھا تو میں نے کہا، اگر ہمارے پاس چار ہیں، تو لازماً تربیتی سیشنز تین، دو، اور پہلا بھی ہونا چاہیے،“ انہوں نے کہا۔ اس کے بعد انہوں نے ہیش ٹیگ کے پچھلے ورژن کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ ”پھر یہ ہوا کہ حماس اور حماس القسام چینلز تمام ویڈیوز سامنے لائے۔”

سعید اور ان کی ٹیم نے معلوم کیا کہ تین سالوں میں چار بڑے تربیتی سیشنز ہوئے تھے۔ یہ مشقیں دسمبر 2020 میں شروع ہوئی تھیں اور آخری مشق 7 اکتوبر کے حملے سے صرف 25 دن پہلے ہوئی تھی۔ ان تربیتی سیشنز میں فوجی طرز کی مشقیں شامل تھیں جن میں حماس نے عمارتوں پر قبضہ کیا، اسرائیلی دیہاتوں اور ٹینکوں کے ماڈلز پر حملے کیے، سرحدی دیوار کی نقول کو تباہ کیا، یرغمال بنانے کی مشقیں کیں، اور زمین، سمندر اور ہوا سے جوابی حملوں کی تیاری کی۔ ان تمام مشقوں کی ویڈیوز ٹیلیگرام پر عوامی سطح پر پوسٹ کی گئی تھیں۔

"حماس کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ اپنی مشقوں کو ایڈٹ کر کے چھوٹے کلپس کی شکل میں تقسیم کر دیتے ہیں تاکہ وہ مستقل بنیادوں پر پراپیگنڈا مواد فراہم کر سکیں،“ بی بی سی ویریفائی کے سینئر براڈکاسٹ جرنلسٹ ریچرڈ ارون-براؤن نے اضافہ کیا۔ نتیجتاً، رپورٹنگ ٹیم کو غیر ایڈیٹ شدہ ویڈیوز کو گھنٹوں چھاننے کی ضرورت نہیں پڑی؛ ویڈیوز پہلے ہی ایک منٹ طویل اور آسانی سے شئیر ہونے والے حصوں میں تقسیم کی ہوئی تھیں۔

جیو لوکیشن: پزل کے دو سرے

ٹیم نے تربیتی مشقوں کے مقامات کی نشاندہی کرنے کی بھی کوشش کی، اس کے لیے انہوں نے ٹیلیگرام پر پوسٹ کی گئی سیکڑوں ویڈیوز کا جائزہ لیا۔

"میری ذاتی حکمت عملی یہ ہے کہ میں ٹیلیگرام پر ایک مخصوص کہانی سے متعلق بہت سارے چینلز کو فالو کرتا ہوں اور انہیں فولڈرز میں منظم کرتا ہوں۔ پھر جب آپ ٹیلیگرام کی ڈیفالٹ عالمی تلاش کا استعمال کرتے ہوئے تلاش کرتے ہیں تو نتائج ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں،“ بی بی سی ویریفائی کے تفتیشی صحافی بینڈکٹ گارمن نے وضاحت کی۔ ”میں ٹیلیگرام پریمیم بھی استعمال کرتا ہوں کیونکہ اس میں آٹو ٹرانسلیٹ جیسی خصوصیات شامل ہیں اور وہ زیادہ چیٹس/چینلز کو فالو کرنے اور انہیں منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔”

سیٹلائٹ امیجری اور گوگل ارتھ جیسی دیگر ذرائع کے ساتھ، ٹیم نے آخرکار غزہ کے شمالی اور جنوبی حصوں میں 9 مقامات پر 14 تربیتی مراکز کی جیو لوکیشن کی۔ ان میں ایک فرضی اسرائیلی گاؤں بھی شامل تھا جو اسرائیل کے ساتھ ایریز بارڈر کراسنگ سے صرف ایک کلومیٹر (0.6میل) کے فاصلے پر بنایا گیا تھا۔ ٹیم نے گوگل ارتھ کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیو کے شائع ہونے کے وقت کے قریب تاریخی سیٹلائٹ امیجری تلاش کی۔ ”تاریخی امیجری اسی تربیتی علاقے یا ماحول کی شکل کو برقرار رکھتی ہے، اس لیے آپ اسے کراس ریفرنس کر سکتے ہیں،“ ارون-براؤن نے وضاحت کی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ غزہ میں گوگل اسٹریٹ ویو نہیں ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک چھوٹا علاقہ ہے وہ ویڈیو فوٹیج میں گوگل ارتھ کی انفرادی خصوصیات کی نشاندہی کر کے مقامات کی شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جیسے کہ چھت کے بغیر عمارتیں، باڑ اور فرضی رن ویز جو رہائشی علاقوں کے قریب نہیں تھے۔ ”پھر ہمیں ان مقامات سے متعلق ویڈیوز تلاش کرنی پڑیں۔ یہ ایسا تھا جیسے پزل کے دو سرے موجود ہوں اور انہیں ساتھ جوڑنا شروع کیا جائے،“ ارون-براؤن نے کہا۔

"میرے خیال میں جیو لوکیشن میں ایک چیز جو اکثر کم استعمال ہوتی ہے وہ ہے حوالہ جاتی فوٹیج اور عمومی طور پر کراس ریفرنسنگ،“ گارمن نے مزید کہا۔ مثال کے طور پر انہوں نے اقوام متحدہ کے امدادی ایجنسی کے تقسیم مرکز سے ایک کلومیٹر (0.6 میل) سے بھی کم فاصلے پر شدت پسندوں کے تربیتی مقامات دریافت کیے۔ یہ مقامات دسمبر 2022 میں اقوام متحدہ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک پروموشنل ویڈیو کے پسِ منظر میں نظر آ رہے تھے۔

ہیڈ بینڈز اور یونیفارمز پر موجود نشانات اور علامتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بی بی سی ٹیم نے کم از کم پانچ مسلح گروہوں کی بصری شناخت بھی کی جنہوں نے حماس کے ساتھ تربیت حاصل کی تھی اور حملے میں شرکت کا دعویٰ کرتے ہوئے ویڈیوز پوسٹ کی تھیں، جو ٹیلی گرام چینلز کے ان بیانات جن میں وہ کہہ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کس نے شمولیت اختیار کی ہے، کی بصری تصدیق کر رہی تھیں۔ ان گروہوں میں فلسطینی اسلامک جہاد (پی آئی جے)، دا مجاہدین بریگیڈز، دا الاقصیٰ شہداء بریگیڈز، دا ابو علی مصطفیٰ بریگیڈز، اور دا عمر القاسم فورسز شامل ہیں۔ (تربیتی مشقوں میں کئی اضافی گروہوں نے بھی شرکت کی تھی۔) شدت پسند دھڑوں کے اس ڈھیلے اتحاد کی نگرانی "جوائنٹ آپریشن روم” کر رہا تھا، جو 2018 میں غزہ کے مسلح دھڑوں کو مرکزی کمانڈ کے تحت مربوط کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور اس کا بھی ایک مخصوص ٹیلیگرام چینل تھا۔

"زیادہ تر کوریج حماس پر مرکوز ہوتی ہے اور ایک حد تک بطور دوسرے گروہ فلسطینی اسلامک جہاد کی بھی۔ البتہ ہماری رپورٹنگ میں ہم یہ ثابت کرسکے تھے کہ صرف یہی دو گروہ نہیں تھے۔ ان کے ساتھ کئی دیگر گروہوں نے بھی تربیت حاصل کی تھی اور ان میں سے کچھ گروہ اسرائیل میں بھی داخل ہوئے تھے،“ ارون-براؤن نے وضاحت کی۔

ہمیشہ میٹا ڈیٹا چیک کریں

سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت کچھ پوسٹ کرنے کے باوجود شدت پسند گروہوں نے اپنی تربیت کے بارے میں کچھ مخصوص تفصیلات چھپانے کا خیال کیا۔ لیکن کبھی کبھی وہ اپنے ڈیجیٹل نشانات کو چھپانے میں لاپروائی برتتے تھے۔

"ایک دفعہ ایک فائل میں تمام میٹا ڈیٹا موجود تھا جس میں یہ بھی شامل تھا کہ یہ کہاں اپ لوڈ کیا گیا ہے،“ ارون-براؤن نے بتایا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ٹویٹر امیجز کا میٹا ڈیٹا ختم ہو جاتا ہے اور واٹس ایپ کا میٹا ڈیٹا اوور رائٹ ہو جاتا ہے لیکن ٹیلیگرام کچھ میٹا ڈیٹا محفوظ رکھتا ہے — یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ یہ پلیٹ فارم پرائیویسی کے لحاظ سے بہت مضبوط ہے۔

"کبھی کبھی وہ خیال نہیں رکھتے کیونکہ اب یہ ایک عام بات سمجھی جاتی ہے کہ میٹا ڈیٹا ختم ہو جاتا ہے، لیکن ٹیلیگرام اسے زیادہ تر [پلیٹ فارمز] کی نسبت بہتر طریقے سے محفوظ رکھتا ہے،“ انہوں نے مزید کہا۔

"ہم نے تصور کیا کہ شاید یہ شخص حماس یا پی آئی جے میں نیا ہوگا جسے بس یہ مواد اپ لوڈ کرنے کا کہا گیا ہوگا اور اس نے ڈیٹا کو ختم نہیں کیا ہوگا — آپریشنل سیکیورٹی کی ناکامی،“ ارون-براؤن نے کہا، انہوں نے مزید بتایا کہ جس شخص نے اسے اپ لوڈ کیا تھا اس نے ویڈیو میں استعمال کی گئی موسیقی کی ایم پی ۳ فائل کا نام بھی ویسے ہی چھوڑ دیا تھا (جو ”کال آف ڈیوٹی“ ویڈیو گیم سے لیا گیا تھا)۔ اس قسم کا میٹا ڈیٹا آپ کو بہتر اندازہ دے سکتا ہے، اشاعت کی تاریخوں سے آگے، چیزیں کب ہوئی ہوں گی۔ ارون-براؤن نے کہا۔

یرغمالیوں کا سراغ لگانا

ٹیم اب بھی 7 اکتوبر اور اس کے بعد کی فوٹیج کا تجزیہ کر رہی ہے تاکہ باقی ماندہ 100 سے زائد یرغمالیوں کے مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں — جن کی قسمت کسی بھی تنازع کے حل کے لیے کلیدی ہے۔

7 اکتوبر سے، ایما پینگلی اور جیمی ریان — جو ارون-براؤن کے ساتھ یوزر-جنریٹڈ کنٹینٹ (یو جی سی) حب میں کام کرتے ہیں، بی بی سی ویریفائی میں صحافیوں کی ایک ٹیم جو صارف کے تیار کردہ مواد کو حاصل کرنے اور اس کی تصدیق کرنے میں مہارت رکھتی ہے — نے ہر اس شخص کی جامع فہرست بنائی ہے جسے اغوا کیا گیا تھا۔ ”جب بھی یرغمالی کی خبر آتی ہے، وہ بی بی سی میں سب کو بتانے والے کچھ لوگوں میں سے پہلے ہوتے ہیں کہ اس سے ہماری معلومات کے مطابق جو لوگ یرغمال بنائے گئے ہیں جو فضائی حملوں میں مارے گئے ہیں، جو ویڈیوز میں دیکھے گئے ہیں، کی تعداد تبدیل ہوئی ہے،“ ارون-براؤن نے بتایا۔

"ہمارے پاس ایک ٹیم ہے جو تمام یرغمالیوں کے بارے میں اپ ڈیٹس کا سراغ لگاتی ہے، جو ہم بی بی سی کی نیوز ٹیموں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں،“ بی بی سی ویریفائی کے تصدیق کے سربراہ ایلکس مَری نے کہا۔ ”اس کا مطلب ہے کہ معلومات کا سراغ ہمیشہ ایک ہی ذریعہ سے آتا ہے اور ہمیں یقین کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ ہم کیسے کچھ جانتے ہیں۔”

"معلومات کو منظم کرنے کا طریقہ ہمیں لندن میں 2017 میں گرینفل ٹاور کے آتشزدگی اور کرونا کی عالمی وبا جیسی بڑی خبروں کے دوران سیکھے گئے اسباق سے ملا،“ مَری نے کہا، جہاں انہوں نے صارف کے تیار کردہ میڈیا کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ ”یہ ضروری ہے کہ ہم نقل سے بچیں اور اپنی کوششوں کو مرکوز رکھیں۔ اس لیے معلومات کو ایک جگہ رکھنے اور اس پر نگران ایک چھوٹی ٹیم کا مطلب ہے کہ ہم اسے مؤثر طریقے سے تقسیم کر سکتے ہیں،“ انہوں نے مزید کہا۔

شناختوں کی تصدیق کرنا

پینگلی اور ریان نے یرغمالیوں کی شناخت کو ٹریک کرنے اور تصدیق کرنے کے لیے مختلف اوپن سورس طریقوں اور آلات کا استعمال کیا اور کسی بھی نئی معلومات کا تجزیہ جاری رکھا۔

"ہم نے عوامی اسرائیلی فیس بک صفحات کو جوائن کیا؛ تہوار کے لیے، مختلف کیبٹسیم کے صفحات، اسرائیل کے مختلف شہروں میں رہنے والے لوگوں کے صفحات، کیونکہ لوگ اپنے پیاروں کے بارے میں مدد اور معلومات کے لیے بے حد بے چینی کے ساتھ اپیلیں پوسٹ کر رہے تھے،“ یو جی سی حب کے سینئر صحافی ریان نے کہا۔ ”ہم بعض صورتوں میں حماس کی پوسٹ کی گئی فوٹیج کو ان [فیس بک] تصاویر یا ویڈیوز سے ملانے میں کامیاب رہے — اگر ان میں کوئی نمایاں خصوصیات تھیں جیسے کہ ٹیٹو۔”

"7 اکتوبر کو ٹیلیگرام، ایکس، ٹک ٹاک، اور انسٹاگرام پر اغوا کی فوٹیج کی بھرمار تھی،“ تحقیقات اور یو جی سی ہب کے صحافی پینگلی نے وضاحت کی۔ ”کچھ واقعات میں، خاندان کے افراد نے ویڈیوز میں اپنے پیاروں کو پہچان لیا تھا… پھر ویڈیو کی تصدیق کا عمل ویڈیو کے فلمائے جانے والے مقام تک آگیا تھا جس کے لیے اس مقام کو سیٹلائٹ تصاویر میں نظر آنے والی سڑکوں، عمارتوں، جنکشنز اور درختوں سے میچ کیا گیا تھا۔

"اگر کسی کا نام سرکاری حکومتی ذرائع سے شائع نہیں ہوا تھا تو ہم نے مہم کے گروپوں یا کیبٹسیم کے ذریعہ تیار کی گئیں ناموں کی اوپن سورس فہرستوں کے ذریعے اس کی شناخت کی تھی،“ پینگلی نے کہا۔ ایک دفعہ جب انہیں کوئی نام مل جاتا تو وہ انگریزی اورعبرانی میں اس کے بارے میں گہرائی سے سوشل میڈیا پر تلاش کرتے تھے تاکہ قریبی خاندانی رشتہ داروں کی شناخت کی جا سکے جو یہ یقین رکھتے تھے کہ ان کے عزیز کو یرغمال بنایا گیا ہے۔ ”ہم نے اپنی سوشل میڈیا چیکنگ کو اس شخص کے اغوا کیے جانے کی تصدیق کے لیے دیگر معتبر ذرائع سے کراس ریفرنس کیا۔ مثال کے طور پر ایک مقامی اخبار نے ان کے خاندان کا انٹرویو کیا،“ پینگلی نے کہا۔

انہوں نے یہ بھی جانچا کہ آیا ویڈیو نئی ہے یا نہیں، اس کے لیے ویڈیو کو کئی کی فریموں میں تقسیم کیا گیا اور ہر ایک کو ریورس سرچ کیا: ”بنیادی طور پر انٹرنیٹ سے پوچھا کہ کیا اس نے ۷ اکتوبر سے پہلے کوئی کی فریم دیکھا ہے،“ پینگلی نے کہا۔

"دیگر عوامل میں دن اور مقام سے مطابقت رکھنے والے تاریخی موسمی اعداد و شمار کی جانچ کرنا اور سائے کی لمبائی کو ناپ کر سورج کی پوزیشن اور اس طرح دن کے وقت کا اندازہ لگانا شامل تھا،“ انہوں نے مزید کہا۔

"۷ اکتوبر کے بعد سے غزہ میں یرغمالیوں کی بہت کم ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں،“  پینگلی نے کہا۔ اسرائیلی اور غیر ملکی یرغمالیوں کے کیمرے کے سامنے دباؤ میں بولنے کی حماس سے منسلک ٹیلیگرام چینلز پر جاری کی گئی فوٹیج میں کوئی ایسی خصوصیات نہیں ہیں جس سے انہیں جغرافیائی یا وقت کے حساب سے نشاندہی کرنے میں مدد دیں۔

"ہم جو امید کر رہے تھے، مثالی طور پر، ہم کہہ سکتے تھے، ان تمام دھڑوں میں سے جو پی آئی جے اور حماس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، ہمیں بالکل معلوم ہے کہ ان میں سے ہر ایک کہاں گیا اور اس لیے انہوں نے کن یرغمالیوں کو پکڑا اور وہ کس راستے سے واپس غزہ آئے،“ ارون-براؤن نے کہا۔ ”ہمارے پاس ایک نامکمل خاکہ ہے، جہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایکس اس نقطہ سے داخل ہوا، اور اس سڑک کے جنکشن پر دیکھا گیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں سے غزہ واپس آیا لیکن یہ مکمل نہیں ہے۔”

’معلومات کا میدانِ جنگ’

غزہ سے معلومات حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ غزہ کے اندر کام کرنے والے مقامی صحافی رپورٹنگ کے دوران شدید خطرات اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور وہاں تقریباً کوئی بین الاقوامی صحافی موجود نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں بی بی سی کی ٹیم کو ہر سمت سے آنے والی غلط معلومات کے بارے میں چوکس رہنا پڑتا ہے۔

"سب جانتے ہیں کہ اس تنازع میں معلومات کی کیا اہمیت ہے اور سب کچھ سخت قابو میں ہے،“ ارون-براؤن نے مشاہدہ کیا۔ ”کوئی بھی چیز اس وقت غلطی سے باہر نہیں آتی نظر نہیں رہی۔ اور اگر کوئی چیز غزہ کے ذرائع سے آتی ہے یا اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) سے آتی ہے تو آپ کو اس کے لیے محتاط رہنا ہوگا،“ انہوں نے خبردار کیا۔

"غزہ کی غلط معلومات کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ، میری رائے میں، یہ ہے کہ ویڈیوز اور تصاویر سامنے آتی ہیں اور اکثر فوٹیج حقیقی ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ دیے گئے کیپشنز ایسی کہانی بیان کرتے ہیں جو میڈیا کے بیانیے کی حمایت نہیں کرتے،“ گارمن نے مزید کہا۔

"ہم سب کے بیانات کی دوبارہ جانچ کر رہے ہیں کیونکہ یہ صرف زمین پر لڑی جانے والی جنگ نہیں ہے۔ یہ معلومات کا میدانِ جنگ ہے،“ سعید نے کہا۔ ”بی بی سی عربی میں ہمارے اہم مقاصد میں سے ایک، میرے فارنزک یونٹ میں اور مرکزی نیوز روم میں بی بی سی ویریفائی کے ساتھ کام کرتے ہوئے، شفافیت ہے۔ ہم نہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے کسی چیز کی تصدیق یا تردید کیسے کی بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہم نے یہ کیسے کیا۔ ہم اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟ اس لیے ہماری مین اسٹوری میں آپ کو ہماری سرخی نظر آئے گی لیکن ہم آپ کواپنی کہانی کے ذریعے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہم نے یہ جِگسا کیسے حل کیا۔”

گارمن نے مزید کہا کہ اس کہانی کا ایک اہم پہلو جو نظر انداز ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں ایسی ویڈیوز یا انہیں پوسٹ کرنے والے گروہوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ”یہ آسان ہے کہ ہم ایسے گروہوں کی پروپیگنڈا ویڈیوز کو نظر انداز کر دیں، یہ سوچ کر کہ یہ کبھی نہیں ہوگا، یا یہ اتنا عام ہے کہ اسے کبھی ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی،“ انہوں نے وضاحت کی۔ ”اس کہانی نے ہمیں دکھایا کہ یہ تربیتی مشقیں کسی نہ کسی انجام کی طرف جا رہی ہیں۔”


الیکسا وین سِکل جی آئی جے این کی ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں اور ایک صحافی اور ایڈیٹر ہیں انہیں آن لائن اور پرنٹ صحافت، اشاعت اور برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں تھنک ٹینکس کا تجربہ حاصل ہے۔ جی آئی جے این میں شمولیت سے پہلے وہ غیر ملکی خبر رسانی کے میگزین روڈز اینڈ کنگڈمز کی سینئر ایڈیٹر تھیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

Imagen: Joanna Demarco para GIJN

ٹپ شیٹ

صحافیوں کے لیے ٹِپ شیٹ: او سی سی آر پی کے ایلیف سے فائدہ کیسے اٹھائیں

تحقیقاتی صحافت میں معلومات کے مختلف نکات کو جوڑنا اکثر سچائی کو بے نقاب کرنے کے لیے اہم ۔ہوتا ہے۔ آن لائن اور آف لائن دستیاب معلومات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ صحافیوں کو دستاویزات، ریکارڈزاور ڈیٹا سیٹس کے وسیع مجموعوں کو دیکھنے اور استعمال کرنے کے لیے مؤثر طریقوں کی ضرورت ہے۔

راز، لیکس اور دریا: افریقہ میں سرحد پار تحقیقاتی صحافت

تحقیق کے لیےس سرحد پر تعاون کا رہجان پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے۔ اس تحریر میں جی آئی جے نے این افریقہ میں اس طرح شراکت داریوںکو فروغ دینے والی کچھ تنظیموں پر روشنی ڈالی ہے، کہ انہیں کس قسم کی مشکلات کا سامنا رہا ہے