رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

رپورٹنگ

موضوعات

کورونا سے متعلق اور دیگر مواد کی آن لائن تلاش بارے مفید مشورے

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

English

جی آئی جے این کی پال مائرس کے ساتھ ایک ماسٹر کلاس

رووان فلپ

آن لائن تحقیقات کے ماہر پال مائرس کی جی آئی جے این کے ویبی نار کے دوران لی گئ تصویر : نینا وے مان شلز

مئی 2020ء کے آخر میں برطانوی حکومت کے ایک سینئر مشیر نے کھلے عام یہ دعویٰ کیا کہ 2019ء میں کرونا وائرس کے خطرے سے متعلق ایک تحریری انتباہ جاری کیا گیا تھا

بظاہر اس انتباہ کا واضح ثبوت تو اس مشیر کے 4 مارچ 2019ء کو تحریر کردہ ایک بلاگ میں موجود تھا کیونکہ وہاں اس نے لفظ ’’کرونا وائرس‘‘کا واضح طور پر حوالہ دیا تھا

لیکن جب بی بی سی نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ مذکورہ بلاگ کی اصل پوسٹ میں لفظ ’’کرونا وائرس‘‘ تو موجود ہی نہیں تھا نیز اس میں 9 اپریل 2020ء تک وَبا کا کوئی شائبہ موجود نہیں تھا،الّا یہ کہ تب تک کرونا وائرس کی وَبا اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔

پال مائرس کیطرف سے جی آئی جے این کی محتلف کانفرسوں میں پیش کئے جانے والے ٹپس آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں

بی بی سی کی انٹرنیٹ ریسرچ ٹیم کے سرکردہ ماہر پال مائرس کے بقول اس وقت ایسے بہت سے مؤثر وسائل اور تیکنیکیں موجود ہیں جن کی مدد سے رپورٹر ڈیجیٹل ماضی کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ان میں وے بیک مشین شامل ہے جس سے اس بات کا پتہ چلایا گیا کہ برطانوی حکومت کے اس مشیر نے بلاگ کو شائع کرنے کے کافی عرصے بعد اس میں ترمیم کی ایک اور ٹیکنالوجی ہے جسے ’’گوگل اسٹریٹ ویو‘‘ کہتے ہیں اس کی مدد سے رپورٹر حضرات ماضی کے مناظر کا تفصیلی جائزہ لے سکتے ہیں

گذشتہ ماہ آن لائن ماسٹر کلاس میں 94 ممالک سے تعلق رکھنے والے 700 سے زیادہ صحافیوں نے شرکت کی تھی اس میں پال مائرس نے کھلے ذرائع کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کیلئے دستیاب وسائل و طریقہ کار ،قواعد و زبان (سینٹیکس) کے نکات اور کووِڈ-19 کی وَبا سے متعلق سوشل میڈیا کی پوسٹوں ، مبہم مواد اور تصاویر میں سے سراغرسانی کے لیے تحقیقی تیکنیکوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا یہ جی آئی جے این کی کرونا کی وبا بارے تحقیقات کے سلسلے میں دسواں ویبی نار تھا۔

لیکن بدقسمتی سے ہم اس سیشن کو کچھ وجوہات کی بنا پر دوسرے ویبی ناروں کی طرح ریکارڈ نہیں کرسکے تھے۔ اس وبا پر ہمارے دوسرے ویبی ناروں کی تفصیل جی آئی جے این کے یوٹیوب چینل پر دستیاب ہے ۔ہم نے اس میں بعض چیدہ چیدہ نکات اخذ کیے ہیں۔یہ دراصل قواعد وگرامر کے بعض ایسے سادہ مگر غیر معروف طریقے ہیں جنھیں گوگل اور ٹویٹر پر عام سراغرسانی کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔یہ کوئی ایڈوانس یا سب سکرپشن پر مبنی تلاش وجتسجو کے طریقے نہیں ہیں۔اس بارے میں آپ مزید تفصیل جی آئی جے این کے آرکائیو یا مائرس کی اپنی ویب سائٹ ریسرچ کلینک پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر کتنے رپورٹر ہیں جو اس بات سے آگاہ ہیں کہ اگر کسی واحد لفظ کے اردگرد قوسین لگادی جائیں یا غیرمطلوب فاعل سے پہلے منفی کی سادہ علامت لگا دی جائے تو اس سے غیر مطلوب نتائج کے انبوہ کثیر سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے؟ یا بڑے حروف میں انگریزی لفظ ’’OR‘‘ کے استعمال سے آپ اپنے تحقیقی نتائج کے حادثاتی طور پر ضیاع سے بچ سکتے ہیں؟ یا لفظ ’’سائٹ‘‘ کے سابقہ کے استعمال سے آپ اپنی تحقیق کو صرف اس ڈومین تک محدود کرسکتے ہیں جس میں سے آپ کچھ تلاش کرنا چاہتے ہیں؟

مائرس اس وقت بی بی سی کے معاونتی منصوبہ برائے اکادمی تحقیقات کے سربراہ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انھوں نے صحافیوں کو یہ دعوت دی تھی کہ وہ آئیں اور سوچیں کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کو حقیقت میں کہاں تک استعمال کیا جارہا ہے۔چنانچہ ،مثال کے طور پر اگر ہم انسٹاگرام کو دیکھیں تو اس کا تحقیقی عمل بہت ہی کمزور ہے۔اس کے استعمال کنندگان میں نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے دوسرے صارفین سے زیادہ اپنے محل وقوع کو ٹیگ کرتے ہیں۔اس لحاظ سے خبری وقوعات پر موجود لوگوں کے بارے میں جاننے کے خواہاں رپورٹروں کے لیے انسٹاگرام بڑی اہمیت کی حامل ہے۔وہ اس معاملے میں صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ کمیونٹیوں کے زیر استعمال ہیش ٹیگ الفاظ کو بروئے کار لائیں۔

انھوں نے اس 90 منٹ کے سیشن کے دوران میں ایک درجن سے زیادہ مختلف طریقوں اور حربوں کا حوالہ دیا تھا وہ قبل ازیں جی آئی جے این کی بہت سی پریزینٹیشن میں ان کے سِوا آلات اور طریقوں کا ذکر کرچکے ہیں۔ مائرس نے اس بات پر زوردیا تھا کہ تحقیقی سوچ آن لائن انٹیلی جنس ریسرچ کے لیے ایک بنیادی اثاثہ ہے

پال مائرس کا کہنا تھا کہ ’’ بہت سے لوگ گوگل پر فطری زبان کے ذریعے تلاش کرتے ہیں لیکن بعض اوقات وہ آپ کے (تحقیقی) سوال کو غلط سمجھتا ہے اس لیےمیرے خیال میں گوگل کو منطقی اور خصوصی طریقوں کے ساتھ کنٹرول کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔‘‘

وہ اس بات کی یہ وضاحت کرتے ہیں کہ’’ بہت سے لوگ گوگل پر فطری زبان میں مطلوبہ مواد تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ ایک فرد کا سا معاملہ کرتے ہیں۔یہ انداز احسن طریقے سے کام کرسکتا ہے لیکن بعض اوقات سرچ انجن گوگل آپ کے سوال کو مکمل طور پر غلط سمجھ سکتا ہے۔ گوگل یہ نہیں جانتا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ایک مؤثر اور کارآمد تلاش کے لیے آپ کو ایک حکمتِ عملی اپنانے اور تلاش کے درست کلیدی الفاظ کے انتخاب کی ضرورت ہوتی ہے۔کچھ تلاش کرنا تو بہت آسان ہے لیکن کارآمد مواد کی تلاش کارِمشکل ہے۔ہر مرتبہ جب آپ کوئی تلاش کریں تو ایک اصولی معاملہ کے طور پر یہ ملاحظہ کریں کہ کتنے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔اگر یہ بہت زیادہ ہیں تو پھر آپ کو مزید تفصیل کی ضرورت ہے‘‘

مائرس نے منطقی ذہنی ساخت کی وضاحت کے لیے قتل کے مشہور واقعات کے درمیان موازنے کی تلاش کی مثال دی ہے۔اگر’’ کینڈی‘‘ اور ’’لینن‘‘ کی اصطلاحیں تلاش کے لیے داخل کی جائیں تو اس سے کثیر نتائج سامنے آجائیں گے۔ ان دونوں ناموں سے مراد جان ایف کینڈی اور جان لینن ہیں لیکن تحقیقی نتائج میں برطانیہ کی ایک فٹ بال ٹیم کی سائٹ بھی سامنے آجائے گی۔البتہ اگر لفظ ’’ سیزر‘‘ کا اضافہ کردیا جائے تو تلاش اچانک صرف قتل کے موازنے تک مرتکز ہوکر رہ جائے گی۔مائرس اس کی یہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’’ وہ تینوں الفاظ ایک ہی صفحے پر کیوں ہوں گے؟ کیونکہ منطق نے ہماری سرچ کی رہ نمائی کی ہے اور ہمارے نتائج کو مختلف خصوصیات فراہم کردی ہیں۔

سوشل میڈیا پرموجود افراد کے بارے میں اگر ہم تحقیق وجستجو کرنا چاہتے ہیں تو ایک منٹ کی منطقی سوچ کے ساتھ ہی ہمیں کسی لڑکے کے بارے میں ٹِک ٹاک یا انسٹاگرام ایسے پلیٹ فارم پر تلاش کا عمل شروع کردینا چاہیے، چہ جائیکہ لنکڈ اِن پر کسی بڑی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر( سی ای او) کے بارے میں تلاش کا عمل شروع کیا جائے۔جہاں تک ٹویٹر کا تعلق ہے تو زیادہ مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ایسے الفاظ کا استعمال کیا جائے جو بالعموم بیشترصارفین استعمال کرتے ہیں کیونکہ کریکٹر کی تحدید کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، جیسے ’’ انفارمیشن‘‘ کے بجائے’’ انفو‘‘ کا استعمال، وغیرہ۔

پال مائرس نے اپنے سامعین کے سامنے جن کلیدی نکات اور اشاروں کو بیان کیا،ان کی کچھ تفصیل حسبِ ذیل ہے:

سرچ انجنوں کے استعمال کے رہ نما طریقے

یادرکھیں گوگل ہر چیز ویب پر نہیں دیکھتا ہے۔وہ صرف ان ویب صفحات ہی کی نقل اتارتا ہے جنھیں وہ دیکھ سکتا ہے بعض صفحات پے والز کے پیچھے پوشیدہ ہوتے ہیں جبکہ بعض روبوٹ ٹیکسٹ صفحات میں پوشیدہ ہوتے ہیں

آپ جو چاہتے ہیں، وہ تلاش نہ کیجیے اس کے بجائے ان الفاظ کا کھوج لگائیے جو کسی ویب صفحے یا سوشل میڈیا کی پوسٹ میں نمایاں طور پر استعمال کیے گئے ہیں

اپنی سرچ کے لیے کسی واحد لفظ کے گرد قوسین کے استعمال پر توجہ دیجیے اس سے گوگل کو یہ ہدایت ملے گی کہ وہ ہم معانی یا مترادف الفاظ کا کھوج نہیں لگائے گا یا پھر سرچ لفظ یا اصطلاح سے قبل منفی کی علامت استعمال کیجیے

آپ اپنے تحقیقی نتائج کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے لچک دار الفاظ کا اضافہ کرسکتے ہیں وہ یوں کہ آپ اپنے آپشنز (الفاظ) کے درمیان انگریزی کے بڑے حروف میں لفظ ’’OR‘‘ لکھ دیجیے

اگر ضرورت ہوتو آپ اپنی سرچ کو کسی خاص ڈومین تک محدود کرنے کے لیے ’’:site‘‘ کا سابقہ استعمال کرسکتے ہیں اور اس کے بعد کوئی خالی جگہ نہ چھوڑی جائے

گوگل کے ٹیبز ، ٹولز اور سرچ کی ایڈوانس فعالیتوں کو بروئے کارلائیں ان میں متعیّن تاریخوں کا اندراج بھی شامل ہے

اوّل توآپ یقینی الفاظ کا استعمال کریں اور پھر’’may be‘‘ ایسے الفاظ استعمال کریں

حذف شدہ صفحات کو ملاحظہ کیجی بالخصوص سوشل میڈیا کی پوسٹوں کو archive.org اور archive.is میں تلاش کیجیے

الفاظ جیسا کہ ext:pdf کے استعمال سے صرف pdf فائلوں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔جب حذف شدہ مواد کی تلاش کی جائے تو اس کی صرف چُھپی یا ذخیرہ شدہ قسموں کو ملحوظ رکھا جائے۔اگر آپ اس مواد یا دستاویز میں استعمال شدہ بعض الفاظ کے بارے میں جانتے ہیں توانھیں قوسین لگا کر گوگل میں تلاش کیجیے اور یہ دیکھیے کہ آیااس مواد کا کوئی اور مآخذ بھی ہے

سرچ انجن بِنگ بعض ایسے کام کرسکتا ہے جو گوگل نہیں کرسکتا۔مائرس کے الفاظ میں ’’یہ طائرانہ جائزے کا موقع فراہم کرتا ہے اور آپ کو باڑ کے اوپر سے بھی دیکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے‘‘ اس میں آپ کسی ڈومین نام کے بجائے آئی پی پتے کے ذریعے بھی تلاش کرسکتے ہیں۔مائرس کہتے ہیں کہ ’’ یہ اس صورت میں تو بہت مفید ہے جب ایک ہی کمپیوٹر پر 50 مختلف ڈومین نام موجود ہوں لیکن گوگل کو بروئے لاتے ہوئے تلاش کے لیے ہمارے پاس شاندارآلات موجود ہوں‘‘

سوشل میڈیا پر سرچ کیلئے مفید معلومات

آپ اگرچہ مخصوص سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے باہر بھی مواد تلاش کرسکتے ہیں اپنے داخلی سرچ باکسز کو کسی مخصوص پلیٹ فارم پر بروئے کار لائیں اس کے اپنے ڈیٹا بیس کے ساتھ براہ راست کونیکشنز ہوں گے اور اس کے ذریعے تازہ ترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں

جب افراد کے بارے میں تلاش کی جارہی ہو تو اوّل ان کے ای میل ایڈریس کی شناخت کی کوشش کیجیے ای میل ایڈریس اپنے کچھ اہم اشارے دیتے ہیں یہ منفرد تشخیص کنندہ ہیں یہ اکثر استعمالی ناموں کی طرح دُہرے ہوسکتے ہیں اور یہ pipl.com ایسے ڈیٹابیس میں لوگوں کی تلاش کے عمل میں مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں

کسی کمپنی کا نام email-format.com میں داخل کیجیے یہ ممکنہ طور پر آپ کو کسی بھی مطلوبہ فرد کے ای میل پتے کے لیے کارپوریٹ فارمیٹ فراہم کردے گا اس کے بعد آپ ان افراد کے ناموں سے انفرادی پتے تلاش کرسکتے ہیں

کسی مخصوص علاقہ میں لوگ کسی خاص موضوع کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں اس مقصد کے لیے آن لائن نقشوں میں خودکار طریقوں سے جن شخصیات کی نشان دہی ہوئی ہے ان سے استفادہ کیجیے ان نمبروں کو ٹویٹر پر کاپی کیجیۓ انھیں پھر ’’جیوکوڈ‘‘ کے سابقے کے ساتھ ملا کر لکھیں اور ان میں کوئی خالی جگہ نہیں ہونی چاہیے پھر آپ اپنے مطلوبہ رداس میں جہاں تک نمبر چاہتے ہیں ان کا اندراج کیجیے مثال کے طور پر’’1KM‘‘( ایک کلومیٹر)

یوٹیوب کو پہلے گوگل کے ذریعے سرچ کریں اس میں ویب گاہ کا پورا پتہ ’’youtube.com‘‘ لکھیں یا اس کے ویڈیو ٹیب میں تلاش کریں

ہر پلیٹ فارم کی بعض اوقات غیر روایتی ترجیحات کو استعمال میں لائیں مثال کے طور پرانسٹاگرام پر کامیاب تلاش ہائفن (ڈیش، سیدھی لکیر)کے بجائے انڈرسکورز اور مرکب الفاظ کے استعمال پر مبنی ہوسکتی ہے۔انسٹاگرام سے تصاویر کو کاپی نہیں کیا جاسکتا ہے مگر ان سے ایسی مفید معلومات مل سکتی ہیں جنھیں مزید تلاش کے عمل میں بروئے کار لایا جاسکتا ہے

Picbabun ایک ایسی ویب گاہ ہے جس کے ذریعے انسٹاگرام کے مواد کی مؤثر انداز میں تلاش کیا جاسکتا ہے اس کے ذریعے انسٹاگرام کی تصاویر کو کاپی کیا جاسکتا ہے اور انھیں مکمل سائز میں کھولا جاسکتا ہے

Echosec ایک صحافی دوست ویب سائٹ ہے اور اس سے ٹویٹر کے ذریعے بھیجی گئی انسٹاگرام کی پوسٹوں کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اس میں سرچ کے فنکشن زیادہ بہتر ہیں

ٹویٹر کمیونٹی میں ایسے ہیش ٹیگز کو شناخت کے ذریعے شامل کیا جاسکتا ہے جو وہ کمیونٹیاں استعمال کررہی ہیں ان پیش ٹیگز کی hashtagify.me پر الفاظ سے شناخت کیجیے مثال کے طور پر اگر فضائی کمپنی کے کیبن عملہ کے زیراستعمال کسی ہیش ٹیگ کی تلاش کی جائے تو یہ پتا چلے گا کہ #crewlife اس کمیونٹی کا ایک بڑا ہیش ٹیگ ہے۔’پلگڈ بیک اِن ٹو ٹویٹر‘ کی اصطلاح استعمال کی جائے تو اس سے فوری طور پر ائیر لائن کے اہل کاروں کی پوسٹیں سامنے آجائیں گی

’’اِن ٹائٹل (:intitle)‘‘ کے سابقے کے استعمال سے سوشل میڈیا پر پوسٹوں کے ٹائٹل میں استعمال شدہ الفاظ سامنے آجائیں گے

اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ کسی نے فیس بُک پر پوسٹ میں کچھ ایڈٹ کردیا ہے تو بالکل اوپر دائیں تین چھوٹے نقطوں ( ڈاٹس) پر کلک کریں،پھر ‘edit history’ دیکھیں تو آپ اس پوسٹ کی سابقہ شکلوں کو ملاحظہ کرسکیں گے

اگر آپ کو یہ شُبہ ہے کہ ایک پوری پوسٹ کو ماضی کی شکل میں واپس لے آیا گیا ہے تو فیس بُک پوسٹ کے بالکل مابعد چھوٹے کلک آئی کان (icon) پراپنا کرسر (cursor) لے جائیں تو اس سے اس تاریخ کا پتا چل جائے گا جب اس کو شامل کیا گیا تھا

دوسری ویب سائٹس کے ساتھ مربوط ٹویٹر کی پوسٹوں کی تلاش کے لیے ’’url:‘‘ کا سابقہ استعمال کریں مثال کے طور پر اگر آپ ایسے لوگوں کو تلاش کرنا چاہتے ہیں جو امازون پرفیس ماسک بیچنے کا حوالہ دے رہے ہیں تو آپ انھیں url:amazon میں تلاش کرسکتے ہیں

Followerwonk کی مدد سے آپ ٹویٹر پر لوگوں کی سوانح عمریاں تلاش کرسکتے ہیں نیز اس سے دو مختلف اکاؤنٹس کے ایک ہی جیسے فالوورز کو تلاش کیا جاسکتا ہے

فیس بُک کا تلاش کا فنکشن ایک طرح سے بالکل غیر معاون ہے اس پر کلیدی الفاظ بشمول کمپنی کے نام کے ذریعے تلاش کی جاسکتی ہے یوں آپ کسی فرد کو ابتدائی طور پر اس کے نام کو جانے بغیر بھی تلاش کرسکتے ہیں

فیس بُک اپ لوڈ کی گئی تصاویر میں شامل الفاظ اور اعداد کو بھی پڑھ سکتی ہے چنانچہ کاروں کے رجسٹریشن نمبروں کی ممکنہ طور پر تلاش کی جاسکتی ہے

جن ویب سائٹس کی مدد سے فیس بُک کے مواد کی قابل اعتبار ایڈوانس سرچ کی جاسکتی ہے ان میں FBsearch اور Graph.tips شامل ہیں

فیس بُک میں تلاش کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک اکاؤنٹ بنائیے اس میں کوئی دوست نہیں ہونا چاہیے اور ذاتی زندگی کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں ہونی چاہییں اپنی کوکیز کو کلیئر کیجیے اس میں آپ کو شخص نویسی سے احتراز کرنا چاہیے

ایک بہت ایڈوانس سرچ سائٹ Social Links ہے لیکن یہ فیس وصولتی ہے یہ مالٹیگو پروگرام کے اندر کام کرتی ہے مائرس کہتے ہیں:’’ اس پر لاگت تو آتی ہے، رقم خرچ ہوتی ہے لیکن میں نے اس سے بہت سے کام لیے ہیں آپ مختلف سوشل نیٹ ورکس پر چہرے کی شناخت پر مبنی تلاش کرسکتے ہیں ٹیگ پوسٹوں یا ٹیگ تصاویر کی سرچ کرسکتے ہیں بہت سے رپورٹروں کو فیس بُک کے گراف سرچ فنکشن کو استعمال کرنے کی صارف کی صلاحیت کی تنسیخ کے فیصلے سے مایوسی ہوئی تھی لیکن آپ جو کام گراف سرچ کے استعمال کے ذریعے کرسکتے ہیں وہی کام آپ اب مالٹیگو کی ایک کاپی سے کرسکتے ہیں اور اس پر سوشل لنکس استعمال کرسکتے ہیں‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رووان فلپ، عالمی نیٹ ورک برائے تفتیشی صحافت (جی آئی جے این) کے لیے رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔وہ اس سے پہلے جنوبی افریقا کے اخبار سنڈے ٹائمز کے چیف رپورٹر تھے۔وہ دنیا بھر میں پچیس، تیس ممالک میں غیرملکی نامہ نگار کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔وہ عام خبروں کے علاوہ ، سیاسیات ، بدعنوانیوں اور تنازعات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

ٹپ شیٹ رپورٹنگ تجاویز اور ٹولز ماحول

ماحولیاتی تبدیلی کے وعدوں کی تحقیق اور اپنی حکومت کو جوابدہ رکھنا

اس مختصر ورژن میں،جی آئی جی این ہماری تازہ ترین رپورٹنگ گائیڈ سے تجاویز پیش کرتا ہے، کہ کس طرح صحافی اپنے ملک کے ماحولیاتی تبدیلی کے وعدوں کی تحقیق کر سکتے ہیں اور حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرا سکتے ہیں۔

خبریں اور تجزیہ رپورٹنگ تجاویز اور ٹولز

ویب سائٹس کی تحقیق کے لیے تجاویز

دو ڈیجیٹل ماہرین مشتبہ ویب سائٹس اور ان کے مالکان کی تحقیقات کرنے کے لیے تجاویز اور تکنیکوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

رپورٹنگ تجاویز اور ٹولز طریقہ کار

تحقیقاتی صحافت میں تعلیمی تحقیق کے استعمال کے لیے 5 نکات

تعلیمی تحقیق معاشرتی مسائل کی چھان بین اور طاقتوروں کو جوابدہ بنانے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ پلٹزر انعام یافتہ تفتیشی صحافی نیل بیدی، ماہرِ جرم ریچل لوول، اور دی جرنلسٹ ریسورس کے ڈینس-میری آرڈوے تحقیقاتی صحافت میں علمی تحقیق کے استعمال کے بارے میں عملی مشورے دیتے ہیں۔