Illustration: Nyuk for GIJN
ایک عالمی گزرگاہ: جنوبی ایشیا میں انسانی ٹریفکنگ اور لوگوں کی اسمگلنگ کی تحقیقات
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
جنوبی ایشیا غیر محفوظ سرحدوں، غربت اور بے روزگاری کی بلند شرح اور قوانین کے کمزور نفاز کی وجہ سے اندرونی اور بین الاقوامی انسانی ٹریفکنگ اور اسمگلنگ کے لیے ایک بڑا ماخذ، گزرگاہ اور منزل ہے۔
۲۰۱۰کے بعد سے افغانستان، شام اور لیبیا میں ہونے والی جنگوں، سیاسی تشدد اور عدم استحکام نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے اور اسمگلنگ کے راستوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ معاشی مہاجرین ان پناہ گزینوں میں شامل ہو گئے ہیں جو تنازعات اور ان کے نتیجے میں ہونے والے ظلم و ستم کی وجہ سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ کرونا کی عالمی وبا اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری کی وجہ سے ان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۲۴ ایشیا میں مہاجرین کے لیے سب سے زیادہ مہلک سال تھا۔ اس سال کم از کم ۲۵۱۴ مہاجرین ہلاک ہوئے ۔ زیادہ تر ہلاکتیں میانمار میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے روہنگیا مسلمانوں اور خطے میں جاری عدم استحکام اور جبر سے بچنے کی کوشش کرنے والے افغانوں کی ہوئی تھیں۔
اگرچہ میڈیا رپورٹس اور پالیسی مباحثوں میں انسانی ٹریفکنگ اور اسمگکلنگ کو اکثر ایک ہی اصطلاح سمجھا جاتا ہے لیکن یہ دونوں مختلف تاہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے جرائم ہیں۔ انسانی ٹریفکنگ کا مقصد استحصال ہے۔ اس میں زبردستی، دباؤ یا دھوکے کےذریعے لوگوں کو جنسی استحصال یا جبری مشقت کے لیے بھرتی اور منتقل کیا جاتا ہے۔ اس کے متاثرین کی اکثریت خواتین اور بچے ہوتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کا مقصد ان لوگوں سے منافع کمانا ہے جو ہجرت کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا عموماً انہیں جھوٹے دستاویزات یا ہجرت کے وعدوں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں جرائم میں کئی پہلو مشترک ہیں جیسے ایسی وجوہات (جنگ، ظلم اور غربت) جو انہیں اس چکر میں شامل ہونے پر مجبور کرتے ہیں، متاثرین کے تجربات، اور ہجرت کے راستے۔ اکثر لوگ دونوں جرائم کا شکار بنتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں عام ہجرت کے راستوں میں اندرونی راستے شامل ہے جیسے دیہی علاقوں سے امیر ریاستوں اور شہروں کی طرف، سرحد پار جیسے بنگلہ دیش سے بھارت یا بین الاقوامی جیسے ایران اور ترکی کے راستے یورپ، شمالی افریقہ سے بحیرہ روم کے راستے یا خلیج بنگال سے جنوب مشرقی ایشیا۔ خلیجی ممالک قانونی ملازمت کے ساتھ ساتھ اسمگل شدہ افراد کے لیے ایک اہم منزل ہیں۔ اس کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا جاتے ہوئے تھوڑی دیر قیام کی جگہیں بھی ہیں۔
خطے کے تحقیقاتی صحافیوں نے انکشاف کیا ہے کہ اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کا آغاز عموماً مقامی بھرتی کرنے والوں سے ہوتا ہے۔ یہ دوست یا پڑوسی ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ منظم گروہوں کی شکل اختیار کرتے ہیں جو جعلی دستاویزات اور ملازمت کے معاہدوں کا استعمال کرتے ہوئے سرحد پار کام کرتے ہیں۔ وہ یہ کام اکثر سرحدوں پر تعینات محافظ، سفارت خانے کے عملے یا دیگر سرکاری اہلکاروں کی مدد سے سر انجام دیتے ہیں۔
جی آئی جے این نے پاکستان، بنگلہ دیش، اور بھارت میں ان مسائل پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور ماہرین سے بات کی جنہوں نے اپنے روابط بنانے میں سالوں صرف کیے، ٹریفکنگ سے بچ جانے والے متاثرہ افراد، انہیں بھرتی کرنے والے ایجنٹوں اور سہولت کاروں سے بات کی، اسمگلنگ کے راستوں اور طریقوں کا نقشے بنائے اور دنیا میں تیزی سے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی منظم جرائم میں سے ایک پر رپورٹنگ کرنے کے لیے افغان مہاجر کا خفیہ روپ اپنایا۔
پاکستان
پاکستان ٹریفکنگ اور اسمگلنگ دونوں کے لیے ماخذ اور گزرگاہ کا ملک ہے۔ مثال کے طور پر یہ افغانستان سے آنے والے ان تارکینِ وطن کے لیے ایک اہم راستہ ہے جو بلقان کے خطے کی طرف ایک طویل سفر پر جانے کے لیے کم آبادی والے جنوب مغربی صوبے بلوچستان اور ایران کی سرحد عبور کرتے ہیں۔ دو تحقیقاتی رپورٹس نے اس راستے کے خطرات اور ان وجوہات کو اجاگر کیا ہے جن کی بنا پر لوگ اس راستے پر سفر کرتے ہیں۔
"ڈنکی” روٹ
صحافی ساحر بلوچ کی 2023 کی رپورٹ "کوئٹہ:لوگوں کو کس طرح یورپ میں اسمگل کیا جا رہا ہے” میں ایک ایسے "ایجنٹ” کا انٹرویو شامل ہے جو بلوچستان سے لوگوں کو منتقل کرنے میں ملوث ہے۔
۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے دوران سحر بلوچ اسلام آباد میں بی بی سی اردو کے لیے براڈکاسٹ جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ وہ اس وقت ایران پاکستان سرحد پر پٹرول اور خوراک کی اسمگلنگ پر آڈیو رپورٹس پر کام کر رہی تھیں۔ اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ انسانی اسمگلر انہی راستوں کو تارکینِ وطن کو ملک سے باہر اسمگل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ راستہ مشرقِ وسطیٰ سے یورپ تک جانے کے لیے عام زبان میں "ڈنکی” (گدھا) روٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فروری ۲۰۲۳ میں ۲۰۰ افراد کو لے جانے والی ایک مہاجر کشتی اٹلی کے ساحل کے قریب الٹ گئی تھی جس کے نتیجے میں ۹۴ مسافر جاں بحق ہوئے تے۔ ان میں پاکستانی ہزارہ ہاکی کی کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل تھیں جو اپنے تین سالہ بیٹے کے طبی علاج کی تلاش میں بلوچستان سے روانہ ہوئی تھیں۔
رضا پر ویڈیو رپورٹ بناتے ہوئے سحر بلوچ نے انسانی اسمگلروں کے بارے میں معلومات تلاش کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چھانے۔ "میں ٹک ٹاک اور فیس بک دیکھ رہی تھی اور مجھے ایجنٹوں کے کئی ایسے اکاؤنٹس ملے جن میں وہ لوگوں کو ایران، ترکی، یونان وغیرہ لے جانے کے لیے ’وی آئی پی پیکیجز‘ کی پیشکش کر رہے تھے،” بلوچ نے وضاحت کی۔
"یہ سب کچھ کھلے عام ہو رہا تھا اور اسے ایک ’ایڈونچر‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، "انہوں نے مزید کہا۔ "کچھ تارکینِ وطن یورپ پہنچننے پر اپنی کامیابی کی ویڈیو اپلوڈ کرتے تھے اور اس میں اپنے بھائی (ایجنٹ) کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ تب میں نے سوچا: آخر یہ ایجنٹس کون ہیں؟”
انہوں نے ایک ایسے ایجنٹ سے رابطہ کیا جس نے کہا کہ وہ بیلجیم میں ہے ("اس کا نمبر اس کے پیج پر ہی موجود تھا، ایسا نہیں تھا کہ وہ چھپنے کی کوئی کوشش کر رہا تھا”)۔ بلوچ نے خود کو یورپ جانے کا خواہشمند ظاہر کیا۔ اس نے انہیں بتایا کہ وہ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ پہنچیں کیونکہ اس کی "سروسز” کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے اور پیسے ساتھ لائیں۔
مگر کوئٹہ پہنچنے سے کچھ دیر پہلے انہوں نے ایجنٹ کو فون کیا اور سچ بتا دیا کہ وہ انسانی ٹریفکنگ پر رپورٹ کرنے والی ایک صحافی ہیں۔ اس نے فوراً کال کاٹ دی۔ "میرے اردگرد سب ہنسنے لگے اور کہا: ’کوئی تم سے بات کیوں کرے گا؟‘” اس واقعے نے انہیں ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے سب سے دلچسپ مگر بے چین کرنے والے انٹرویوز دلائے۔
ان کے پاس کوئٹہ میں خبر تلاش کرنے کے لیے صرف دو دن بچے تھے۔ انہوں نے ایک پرانے سورس سے رابطہ کیا جس نے ان کا پنجپائی کے ایک "ایجنٹ” سے رابطہ کروایا۔ پنجپائی کوئٹہ سے تقریباً ۵۰ سے ۵۵ کلومیٹر (۳۱ سے ۳۴ میل) دور ایک وسیع اور ویران زمین کا ٹکڑا ہے۔ بلوچ کو اس انٹرویو کے ہونے کا یقین نہیں تھا لیکن وہ ایک ڈرائیور اور ویڈیو جرنلسٹ خیر محمد کے ساتھ وہاں پہنچ گئی تھیں۔ وو دونوں براہوی زبان بولتے تھے جو بلوچستان کی مقامی زبانوں میں سے ایک ہے۔
انہیں حیرانی ہوئی کہ اس ایجنٹ نے جس کا چہرہ ویڈیو میں چھپا دیا گیا تھا، انتہائی کھلے اور بے تکلف انداز میں بات کی۔اس نے بتایا کہ کس طرح تارکینِ وطن کو "پنجرہ نما” وینوں میں بھر دیا جاتا ہے اور کوئٹہ اور مچھ جیسے علاقوں میں لوگوں سے بھری بسوں کی نیلامی ایجنٹس کے درمیان کی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ بعض نسلی گروہوں مثلاً ہزارہ برادری کے افراد جو سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ملک چھوڑتے ہیں، ان سے پنجابیوں کے مقابلے میں زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے۔ کچھ مسافر خود اس بات پر راضی ہوتے ہیں کہ انہیں بس کے ڈِگی میں ٹھونس دیا جائے۔ اور ایجنٹس کو سرحدوں پر تعینات نیم فوجی اہلکاروں کو رشوت دینی پڑتی ہے۔ اگر اہلکار اسی گاؤں کا ہو تو تقریباً ۵۰۰۰ روپے (تقریباً ۵۶ امریکی ڈالر) رشوت دینی پڑتی ہے اور اگر گائوں سے باہر کا ہو تو ۳۰۰۰۰ روپے (تقریباً ۳۳۸ امریکی ڈالر) تک دینے پڑتے ہیں۔
"کچھ لوگ سرحد تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ پیاس یا تھکن کی وجہ سے فوراً مر جاتے ہیں۔ کیونکہ بلوچستان کا علاقہ بہت سخت ہے۔ وہاں سڑکیں اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں،“ بلوچ وضاحت کرتی ہیں۔ ”یہ ایک خوف پیدا کرنے والا علاقہ ہے۔”
’ایک وسیع دھندا‘
روزنامہ ڈان کے صحافی محمد اکبر نوتیزئی نے بھی اسمگلنگ کے اس راستے کی تحقیقات کی ہیں۔ انہوں نے اس سفر کے دیگر خطرات کا بھی جائزہ لیا جیسے چور جو بندوق کے زور پر مسافروں کو لوٹتے ہیں اور ایرانی سرحدوں کے محافظوں کی طرف سے فائرنگ کے خدشے کو بھی دیکھا۔ اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے لیے انہوں نے ایک افغان مہاجر کا روپ دھار کر بلوچستان افغانستان سرحد پر واقع علاقے دُک سے ایران تک ایک پک اپ ٹرک میں سفر کیا تھا۔
ڈان کی انسانی اسمگلنگ پر یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی جب نوتیزئی نے خود اس نیٹ ورک کا حصہ بن کر اندر سے اس نظام کو سمجھنے کی کوشش کی۔
"میں نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا حتیٰ کہ اپنے گھر والوں کو بھی نہیں،” انہوں نے جی آئی جے این سے بات
کرتے ہوئے کہا۔ صرف ایک انسان جانتا تھا جس نے ان کا ایک اسمگلر سے رابطہ کروایا تھا۔ ”اگر مجھے کچھ ہوتا تو اسے ہی میرے گھر والوں اور ڈان کےساتھیوں کو اطلاع کرنی تھی۔”
اکبر کا تعلق بلوچستان اور ایران کی سرحد پر موجود ضلع چاغی سے ہے۔ وہ ۲۰۱۸ میں بھی ڈان انویسٹیگیشنز کے لیے انسانی اسمگلنگ پر رپورٹنگ کر چکے ہیں جس میں انہوں نے ایف آئی اے کے افسران، تارکینِ وطن اور ان کے اہلِ خانہ سے انٹرویوز کیے گئے تھے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں جنگ اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بھاگنے والے افغان مہاجرین اور پنجاب کے چھوٹے قصبوں سے معاشی حالات کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے افراد پر زیادہ توجہ رکھی تھی۔
"پنجاب میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال بیٹھا ہوا ہے کہ یورپ بہتر ہے،” اکبر کہتے ہیں جو اپنی رپورٹ میں ان مہاجرین کو "خوابوں کے تعاقب کرنے والے” کہتے ہیں۔ "میں نے ان سے کہا تھا کہ میرے پاس صرف قلم اور کاغذ ہے۔ کیمرا نہیں ہے تو وہ مجھ سے کھل کر بات کرنے لگے۔” وہ رپورٹنگ سالوں بعد چھپنے والی ان کی خفیہ تحقیقات کی بنیاد بنی۔
تیاری کے لیے انہوں نے ان تمام مقامات کا دورہ کیا جن سے گزر کر انہیں بارڈر تک پہنچنا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے کوئٹہ سے ۵۰۰ سے ۷۰۰ کلومیٹر (۳۱۰ سے ۴۳۵ میل) دور علاقوں کا سفر کیا، اپنا فون اور سم کارڈ تبدیل کیے تاکہ وہ ٹریس نہ کیے جا سکیں اور اپنے کردار میں مزید مضبوط نظر آنے کے لیے دری زبان سیکھی۔ "میں نے اسے ایک عوامی خدمت سمجھا اور یہی جذبہ خطرات کے باوجود میری حوصلہ افزائی کرتا رہا،“ انہوں نے کہا۔
"۲۰۱۸سے پہلے بہت سے لوگ بلوچستان میں انسانی اسمگلنگ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے،” اکبر کہتے ہیں، حالانکہ کہا جاتا ہے کہ یہ راستہ ۱۹۷۰ کی دہائی سے فعال ہے جب بنگالی اور سری لنکن شہری تنازعات اوران کے نتیجے میں ہونے والے ظلم کی وجہ سے اپنے ممالک چھوڑ رہے تھے۔ "رپورٹنگ سے کچھ فرق تو پڑتا ہے۔ کچھ عرصے کے لیے پابندیاں سخت کر دی جاتی ہیں لیکن یہ اتنا بڑا دھندا ہے کہ اسے مکمل طور پر ختم کرنا بہت مشکل ہے۔”
بنگلہ دیش
شرفالاسلام حسن نے ملک کے نمایاں اخبارات میں سے ایک پروتھوم آلو کے لیے ایک دہائی سے زائد عرصے تک بنگلہ دیش کے سب سے اہم مسائل جیسے ہجرت اور انسانی اسمگلنگ پر رپورٹنگ کی ہے۔
ان کے سامنے آنے والے چند ناقابلِ فراموش کیسز میں سے ایک کیس ایسے بنگلہ دیشی مہاجروں کے بارے میں تھا جنہیں لیبیا میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا دبئی میں بیچ دیا گیا یا سعودی عرب میں جنسی استحصال کا نشانا بنایا گیا۔
۲۰۱۷ سے وہ دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز میں سے ایک بنگلہ دیش رورل ایڈوانسمنٹ کمیٹی (بی آر اے سی) میں مائیگریشن اینڈ یوتھ پلیٹ فارم کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
"فی الحال بنگلہ دیشی لیبیا کے راستے یورپ جانے کے لیے وسطی بحیرہ روم کا راستہ اپنانے والے سب سے بڑےگروہ ہیں،” وہ وضاحت کرتے ہیں۔ مثلاً جنوری میں ۲۳ بنگلہ دیشی شہریوں کی لاشیں لیبیا کے ساحل پر ملی تھیں جب ایک مہاجر کشتی اس سے چند دن پہلے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
"اس کاروبار میں تین سے چار تہیں ہیں،” حسن بتاتے ہیں۔ "پہلی تہہ میں کوئی مقامی کمیونٹی سے ہی ہوتا ہے جو متاثرین کو یورپ میں خوابوں جیسی زندگی کا جھانسہ دیتا ہے۔ وہ لوگوں کو کہتے ہیں کہ وہ ایک بڑی کشتی پر یورپ جا سکتے ہیں۔ لیکن پھر وہ لیبیا پہنچتے ہیں جہاں انہیں یرغمال بنا کر رکھا جاتا ہے، ان پر تشدد کیا جاتا ہے اوران کے خاندانوں سے تاوان مانگا جاتا ہے۔ اگر خاندان پیسے نہ دے سکیں تو انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی اسمگلرز کبھی گرفتار نہیں ہوتے۔”
"جب میں نے [ان موضوعات پر رپورٹنگ کی] شروعات کی تو (اس سے متعلقہ) کوئی قانون یا ضابطہ موجود نہیں تھا،” انہوں نے نشاندہی کی۔ ” ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۵ کے درمیان روہنگیا کی اجتماعی قبریں دریافت ہونے کے بعد حکومت نے خلیج بنگال سے تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور ملیشیا وغیرہ کے غیر قانونی راستوں کو روکنے کے طریقوں پر غور کرنا شروع کیا۔”
۲۰۱۲سے بنگلہ دیش نے ان عوامل کی روک تھام کے لیے دو بڑے قوانین منظور کیے ہیں۔ یہ قانون انسانی اسمگلنگ کی تمام اقسام کو جرم قرار دیتا ہے اور متاثرین کی بحالی کے لیے اقدامات بھی فراہم کرتا ہے۔
بھارت
بھارت کے شمال مشرقی خطے کی سرحدیں نیپال، بھوٹان، چین، بنگلہ دیش اور میانمار سے ملتی ہیں۔ اس خطے میں خاص طور پر آسام کی ریاست انسانی اسمگلنگ کے "بڑے گڑھوں میں سے ایک” ہے، دہلی میں مقیم آزاد صحافی پری سائقیہ کہتی ہیں۔
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والی صائقیہ نے اپنا پورا کیریئر بھارت میں انسانی اسمگلنگ پر رپورٹنگ کرتے ہوئے گزارا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بھارت اسمگلنگ کے لیے "عالمی گزرگاہ، منبع اور منزل تینوں ہے” اس کے علاوہ اس کی اپنی سرحدوں میں بھی انسانی اسمگلنگ عام ہے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کی جنہیں جبری مشقت یا جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انہیں پہلی دفعہ اس مسئلے کا علم تب ہوا جب وہ صحافت کی طالبہ تھیں۔ ان کے والد ایک مقامی پولیس افسر تھے۔ ان کے والد نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اسسمگلنگ کی کچھ متاثرہ لڑکیوں سے ملیں جنہیں دہلی اور نوئیڈا میں تشدد آمیز حالات سے بچایا گیا تھا۔ انہیں جعلی بھرتی ایجنسیوں نے گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے کے لیے فروخت کیا تھا۔
"وہاں 22 لڑکیاں تھیں۔ کچھ کی عمر صرف 12، 13 یا 14 سال تھی، کچھ کے جسم پر سگریٹ کے نشان تھے اور کئی لڑکیاں غذائی قلت کا شکار لگ رہی تھیں،” انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
وہ ان کی پہلی خبر تھی اور وہ کہتی ہیں کہ وہ ان کے لیے فیصلہ کن لمحہ بن گیا۔ اگرچہ اب اس بارے ان کےاحساسات ملے جلے ہیں۔ "جب آپ ایک مسئلے پر ایک لمبے عرصے تک رپورٹنگ کرتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ چکر بغیر کسی بڑی تبدیلی کے دہرا رہاہے تو آپ خود سے پوچھتے ہیں: تحقیق کا کیا فائدہ اگر اس نے کوئی تبدیلی نہیں لانی؟” انہوں نے کہا۔ "پھر بھی میں ہار ماننے سے انکار کرتی ہوں۔”
۲۰۲۴ میں انہوں نے ایک طویل تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی جس میں انہوں نے ایک مہاجر (’سنگھ‘) کے ۵۰۰ دن کے ہولناک سفر کو بیان کیا تھا جسے بھارتی پنجاب سے پرتگال کے راستے "ایک بار اسمگل اور دو بار غیر قانونی طور پر منتقل” کیا گیا تھا۔ یہ راستہ حالیہ برسوں میں رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنے کے نسبتاً آسان عمل کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے کئی مہاجرین کے لیے ایک عام داخلے یا منزل کا مقام بن چکا ہے۔
"عارضی رہائشی کارڈ (ٹی آر سی) کے ساتھ مہاجرین شینجن خطے کے زیادہ تر حصے میں مختصر مدت کے لیے سفر کر سکتے ہیں جس سے اسمگلروں کے لیے ملازمتوں کے جعلی وعدوں کے عوض لوگوں کو غیر قانونی طور پر سرحدوں کے پار اٹلی، جرمنی یا اسپین منتقل کرنے کی ایک منڈی بن جاتی ہے ،” سائقیہ نے وضاحت کی۔ "لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ یہ آسان ہوگا۔ انہیں طویل زمینی راستوں، سردی، خطرات یا اس حقیقت کے بارے میں نہیں بتایا جاتا کہ پہنچنے کے بعد انہیں غیر قانونی طور پر کام کرنا پڑے گا یا زندہ رہنے کے لیے بھتہ دینا ہوگا۔”
وہ یورپ میں پنجابی خواتین کی زندگیوں پر مضامین کی ایک سیریز پر کام کر رہی تھیں جب انہیں مہاجرین اور ان کے خاندانوں کے فون آنے لگے جن میں ’سنگھ‘ بھی شامل تھا۔ اس نے بتایا کہ ڈونکرز (اسمگلروں کے لیے عام بول چال میں استعمال ہونے والا لفظ) کے پاسپورٹ ضبط کرنے کے بعد وہ قبرص میں پھنس گئے تھے۔
وہ سربیا کے راستے ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے جزیرے پر پہنچے تھے جہاں اس وقت بھارتی شہریوں کو ویزا فری داخلے کی اجازت حاصل تھی۔ اپنے سفر کے دوران وہ جن اسمگلروں سے ملے تھے ان میں سے زیادہ تر جنوبی ایشیائی تھے جو خصوصاً مہاجرین کی اسمگلنگ کے لیے چھوٹے گیسٹ ہاؤسز اور نیٹ ورکس چلا رہے تھے۔ ’سنگھ‘ نے بتایا کہ ان کے خاندان نے اسمگلروں کی فیس ادا کرنے کے لیے اپنی زمین بیچ دی تھی اور انہوں نے خالی ہاتھ گھر واپس جانے سے انکار کر دیا تھا۔
"میں نے تین سال تک اس کیس کی پیروی کی،” سائقیہ نے یاد کرتے ہوئے کہا۔ "اس نے مجھے کہا کہ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک جا رہا ہے اور اگر مجھے اس سے ۴۸ گھنٹوں کے اندر کوئی خبر نہ ملے تو میں سفارت خانے کو اطلاع کر دوں۔”
اسمگلر ہجرت کو ایک کاروبار کی طرح بیچتے ہیں۔ "وہ دو پیکج دیتے ہیں: ایک یورپ کے لیے اور ایک امریکہ کے لیے،” انہوں نے وضاحت کی ۔ "یورپی راستہ سستا پڑتا ہے، جبکہ امریکی راستہ ۶۰ لاکھ روپے (۶۸۰۰۰ امریکی ڈالر) تک جا سکتا ہے۔”
اگرچہ بحیرہ روم میں کشتیوں کے ڈوبنے یا زمینی راستوں پر مہاجرین کی ہلاکتوں کی مزید رپورٹس سامنے آ رہی ہیں لیکن ایشیا بھر میں بھرتی اور اسمگلنگ کے نیٹ ورکس خود کو ڈھالتے جا رہے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا، جعلی بھرتی ایجنسیوں اور زبانی وعدوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
"اسمگلر جانتے ہیں کہ لوگ کیا سننا چاہتے ہیں،” انہوں نے کہا۔ "وہ امید بیچتے ہیں۔ اور جب ملک میں مواقع اتنے محدود ہوں تو اس امید کو رَد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔”
سما فاروقی پاکستان کے شہر کراچی میں مقیم ایک فری لانس صحافی ہیں۔
السٹریشن: نیوک ۲۰۱۰ میں جنوبی کوریا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ابھی سیول کی ہانیانگ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اپلائیڈ آرٹ ایجوکیشن میں زیرِ تعلیم ہیں۔ وہ وہاں بطور السٹریٹر بھی کام کر رہے ہیں۔2021 میں ہِڈن پلیس میں نمائش کے بعد سے وہ متعدد السٹریشن نمائشوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویروں میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ان کی فنکارانہ دنیا کی قدر کی نمائندگی کرتی ہیں۔

