رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

Craig Silverman, editor de medios de BuzzFeed, considera CrowdTangle, Hoaxy, DNSlytics y hasta las búsquedas simples en Facebook como parte de sus herramientas clave. Imagen: Canva

رپورٹنگ

موضوعات

بزفیڈ نیوز کے میڈیا ایڈیٹر کریگ سلورمین کے پسندیدہ ٹولز

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

English

کریگ سلورمین

2016ء میں امریکا میں صدارتی انتخابات سے چند روز قبل سلورمین ایک تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر لائے تھے جس کے بعد میں بہ کثرت حوالے دیئے گئے تھے انھوں نے اس میں یہ انکشاف کیا تھا کہ مقدونیہ میں واقع ایک چھوٹا سے قصبہ کیسے سیاسی غلط اطلاعات (ڈس انفارمیشن) کی فیکٹری بن گیا تھا اس قصبے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے حق میں ایک سو سے زیادہ ویب سائٹس چلائی جارہی تھیں مقدونیہ کے لڑکے  بڑی کامیابی سے امریکی ووٹروں کی ایک قابل ذکر تعداد تک رسائی حاصل کررہے تھے اور ان پر اثرانداز ہورہے تھے

اس سال سلورمین نے ان کاروباری بیوپاریوں کواپنی تحقیقی صحافت کا موضوع بنایا ہے جو کووِڈ-19 کی وَبا سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں انھوں نے حال ہی میں عالمی نیٹ ورک برائے تحقیقاتی صحافت (جی آئی جے این) کے زیر اہتمام ’’کووِڈ-19 کی ڈس انفارمیشن کی رپورٹنگ‘‘ کے موضوع پر ویبی نار میں گفتگو کی ہے انھوں نے رپورٹروں پر زوردیا کہ وہ اوپن سورس انٹیلی جنس کا علم رکھتے ہیں یا نہیں انھیں جدید ٹولز (آلات) کو بروئے کار لانے سے پہلے اپنے سامنے موجود ویب صفحات اور ان میں پیش کردہ تحقیقات بارے میں سوچنا چاہیے،غور کرنا چاہیے

ان کے بقول فیس بُک کے صفحات کسی ایک خاص صفحہ کی تخلیق کے بارے میں مفید معلومات فراہم کرسکتے ہیں اس ضمن میں صفحہ کے ٹرانسپیرنسی باکس، متعلقہ صفحہ کی تجاویز،  سائیڈ بار آئٹمز، مشمولہ یو آر ایل URLs اور پہلے سے کسی خاص صفحہ پر اپ لوڈ کی گئی تصاویر شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ’’دراصل بہت سے ٹولز صحافیوں کے لیے نہیں بنائے گئے ہیں کیونکہ نیوز رومز کے پاس بھاری رقوم نہیں ہوتی ہیں چناںچہ بہت سے ایسے ٹولز جو میں استعمال کرتا ہوں وہ مارکیٹنگ کرنے والوں یا انفارمیشن سکیورٹی سے وابستہ افراد کے لیے بنائے گئے تھے اس لیے صحافیوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمیں اکثر ایسے ٹولز استعمال کرنا ہوں گے جو دوسرے مقاصد کے لیے بنائے گئے تھے اور اب انھیں ہمیں اپنے مفید استعمال کے مطابق ڈھالنا ہوگا‘‘

سلورمین کا کہنا ہے کہ فیس بک کے صفحات جیسا کہ ٹرانسپیرنسی باکس وغیرہ سے گمراہ کن پروپیگنڈے بارے کافی معلومات تک رسائی ہوتی ہے

مئی میں سلورمین سوشل میڈیا کی غلط اطلاعات سے متعلق شکایات کی تحقیقات کے لیے سوشل میڈیا کے ٹول کراؤڈ ٹینگل CrowdTangle کو بروئے کار لا رہے تھے،اس دوران میں انھیں فیس بُک پر بڑی تعداد میں شیئر کی گئی ایک پوسٹ کوپڑھنے کا موقع ملا اس کو ریاست ایریزونا میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں کام کرنے والے ایک مرد نرس نے لکھا تھا اس میں ایرک سارٹوری نے بیان کیا تھا کہ انھیں اور ان کے ساتھی مرد وخواتین نرسوں کو کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے کی پاداش میں آن لائن دھمکی آمیز مہم میں نشانہ بنایا جارہا ہے۔حتیٰ کہ انھیں موت کی بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں یہ سب کچھ محض اس افواہ کی بنیاد پر کیا جارہا ہے کہ کرونا وائرس کا تو دراصل کوئی وجود ہی نہیں ہے سارٹوری پر غلط طور پر ’’بحرانی کردار‘‘ ہونے کا بھی الزام عاید کیا گیا تھا

یہ کہانی پڑھنے کے بعد سلورمین نے کچھ بنیادی نوعیت کی معلومات پر کام کیا انھوں نے پہلے تو آن لائن اس امر کی تصدیق کی کہ آیا فی الواقع یہ شخص ایک نرس ہے بھی یا نہیں یا کوئی فرضی کردار ہے انھوں نے پہلے مسینجر کو استعمال کیا اور پھر فون پر انٹرویو کیا سلور مین کی یہ اسٹوری کوئی زیادہ تہلکا خیز تو ثابت نہیں ہوئی تھی مگر وہ ذاتی طور پر اس کیس میں ڈرانے دھمکانے کے ہتھکنڈوں پر مشوش تھے

 ’’میری نظر میں یہ سوچ ہی بڑی دل دہلا دینے والی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قابل اعتماد پیشے، نرسنگ پر اس انداز میں حملے کئے گئے کہ اب اس پیشے سے وابستہ افراد کو اپنے تحفظ کی فکر لاحق ہو گئی تھی۔ انھیں غلط اطلاعات کی بنیاد پر ہدف بنایا جارہا تھا اور یہ بہت ہی پریشان کن بات تھی۔‘‘ سلورمین

انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:’’ اچانک ہی لوگوں نے نرسوں کو جھوٹا قرار دینا شروع کردیا تھا ایک نرس کے لیے تو یہ مکمل طور پر پریشان کن صورت حال تھی میرے خیال میں اس اسٹوری نے غلط اطلاعات کے انبار کے رد میں تریاق کا کام کیا اور اس کے مضراثرات کو کم کیا یہ ڈس انفارمیشن امریکا میں ایک ایسے پیشہ ور لوگوں کے بارے میں تاثر کو غلط طور پر تبدیل کرسکتی تھی جو گذشتہ سترہ سال سے سب سے زیادہ قابل اعتماد سمجھا جارہا تھا

سلورمین کے ڈیجیٹل تحقیقات کے لیے نمایاں ٹولز

ویڈیو کا تجزیہ :یو ٹیوب ڈیٹا ویور اور اِن وڈ تصدیق

ویب سائٹ کا تجزیہ :ڈومین بِگ ڈیٹا ، ہوازیالوجی اور ویو ڈی این ایس۔Domain Big Data, Whoisology, and ViewDNS.

سوشل میڈیا پر تلاش کے لیے: فولر ڈاٹ می، فالوور وونک اور ٹویٹرونومی (ٹویٹر اینالیٹکس کے لیے) کس نے کیا پوسٹ کیا؟( فیس بُک پر کلیدی الفاظ سے تلاش) اور گرامپسی ( انسٹاگرام سرچ کے لیے) Foller.me, Followerwonk, and Twitonomy (Facebook keyword searches), and Gramspy.

آن لائن لوگوں کی تلاش کے لیے: Pipl. (صرف امریکا میں کارآمد) Name2Email, Spokeo  آن لائن اشتہارات کا تجزیہ : Moat.

تصاویر کا تجزیہ:

    TinEye اور Yandex.

آن لائن تاریخ : وے بیک مشین  Wayback Machine.

میڈیا پر کنٹرول اور من چاہے مقاصد کے لیے استعمال کی تحقیقات کے لیے نمایاں ٹولز

کراؤڈ ٹینگل CrowdTangle

سلور مین کہتے ہیں کہ ان ٹولز میں سرفہرست تو کراؤڈ ٹینگل ہی کو ہونا چاہیے کیونکہ یہ مفت ہے لیکن اس کے لیے آپ کو اپنا اکاؤنٹ بنانا ہوگا آپ مختلف معیار اور انتخاب کے ذریعے اپنی چھان بین کرسکتے ہیں مثلاً وقت اور ملک کے فلٹر کو استعمال کرکے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ انسٹاگرام ، فیس بُک اور ریڈ ڈٹ Reddit پر کیا شیئر کررہے ہیں یہ کسی بھی مواد کی تلاش اور دریافت کے لیے بہت مددگار ہے یہ درحقیقت سیدھا تلاش کا ٹول ہے یہ فیس بُک اور ٹویٹر پر تلاش کے لیے اب تک سب سے بہترین ٹول ثابت ہوا ہے اگر یہ 2016ء میں موجودہ شکل میں ہوتا تو پھر کیا ہی بات تھی

سلورمین کا کہنا تھا کہ ’’میں ٹویٹ ڈیک TweetDeck بھی تجویز کروں گا کیونکہ اس کے ذریعے آپ کسی مخصوص ہیش ٹیگ یا جگہ کی تلاش کے لیے بہت خاص فلٹر استعمال کرسکتے ہیں یہ نگرانی (مانیٹرنگ) کے لیے ایک بنیادی ٹول ہے اگر آپ کے علاقے میں فیس بُک کے استعمال کنندگان ٹویٹر پر بھی فعال ہیں تو آپ ٹویٹ ڈیک اور کراؤڈ ٹینگل کو استعمال کرکے بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں

ڈی این سلائٹکس DNSlytics

’’ اگر آپ اس بات کی تلاش میں ہیں کہ آیا ایک ویب سائٹ کسی بڑے نیٹ ورک کا حصہ ہے تو ڈی این سلائٹکس ڈاٹ کام آپ کی اس ضمن میں مدد کرسکتی ہے کہ اس نیٹ ورک کو کون صاحب چلا رہے ہیں یہ ویب سائٹ بالخصوص مالیاتی کرداروں کا سراغ لگانے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے یہ پتا چل سکتا ہے کہ آیا گوگل کی اشتہاری شناخت ( آئی ڈی) دوسری ویب سائٹس پر بھی موجود ہے‘‘

’’یہ ایک حد تک مفت بھی ہے لیکن یہ کوئی زیادہ مہنگا ٹول نہیں ہے آپ ماہانہ 27 ڈالرز کے عوض اس ویب سائٹ سے پاس حاصل کرسکتے ہیں آپ اس میں کسی ڈومین کا اندراج کریں تو آپ کے سامنے IP کی کچھ معلومات آجائیں گی اس کے ساتھ ان دوسری سائٹس کی معلومات بھی سامنے آجائیں گی جو ایک ہی گوگل اینالیٹکس کوڈ اور آئی پی ایڈریس استعمال کررہی ہیں اس ویب سائٹ کے ایک ڈومین سے دوسری سائٹس سے رابطے کے لیے بعض بڑے حیران کن ٹولز ہیں آپ AdSense ID یا ڈومین کا اندراج کریں تو یہ اس سے وابستہ جگہوں کو ظاہر کردے گی اس وقت چند ایک ہی ایسی آن لائن خدمات دستیاب ہیں لیکن ان میں، میں نے اس کو سب سے بہتر پایا ہے اور یہ ایک اچھا معیاری ڈیٹا بیس فراہم کرتی ہے‘‘

ہوآکسی Hoaxy

ہوکسی ٹویٹس اور نفوذ نیٹ ورک کے تجزیے کیلئے کارآمد ہے

’’ہو آکسی انڈیانا یونیورسٹی کا ایک منصوبہ ہے اس کے ذریعے آپ ٹویٹر پر مکالموں اور گفتگوؤں کی تصویر کشی کرسکتے ہیں اگر آپ یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ ٹویٹر پر ایک ہیش ٹیگ یا کوئی خاص گفتگو کب شروع ہوئی تھی یا اس گفتگو میں سب سے بااثر لوگ کون ہیں تو پھر ہوآکسی کا ٹول آپ کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوسکتا ہے اس میں زیادہ ترانگریزی زبان میں ڈیٹا بیس ہے لیکن آپ عربی ، بنگلہ ، فارسی ،چینی اور فرانسیسی سمیت دس زبانوں میں مواد تلاش کرسکتے ہیں رپورٹروں کی ایک کثیر تعداد اس کے بارے میں نہیں جانتی ہے مگر یہ تحقیقات کے لیے ایک اچھا ٹول ثابت ہوسکتا ہے

اشتہاربازی کی نگرانی کے ٹولز

’’اگر آپ کرونا وائرس کے جعلی علاج اور مصنوعات کی دھوکے بازی اور دھندے کی تحقیقات کررہے ہیں تو پھر آپ کو حقیقی معنوں میں اشتہاربازی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے ذریعے ہی جعلی ادویات اور عطائیوں کے ڈھونگ علاج کی تشہیر کی جارہی ہے لوگ ویب سائٹس پر، ای میل کے ذریعے اور بہت سی دوسری جگہوں پر اپنی جعلی مصنوعات کی تشہیر کرتے ہیں آپ کو ان کا سراغ لگانے کے لیے خودکار مدد کی ضرورت ہو گی اس مقصد کے لیے ایک اچھا ٹول ایڈ بیٹ ڈاٹ کام Adbeat.com ہے اس کے ذریعے جعل سازوں کے اشتہارات کو پکڑا جاسکتا ہے کیونکہ ان میں وابستہ کاروباریوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہوتی ہے مگر یہ بہت مہنگے ہوتے ہیں ایڈ بیٹ کی ماہانہ لاگت 250 ڈالر ہے پھر اس جیسا بالکل ایک اور ٹول بھی ہے اس کا نام WhatRunsWhere ہے اس کی ماہانہ لاگت 300 ڈالر ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رووان فلپ ،عالمی نیٹ ورک برائے تحقیقاتی صحافت (جی آئی جے این) کے لیے رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔وہ اس سے پہلے جنوبی افریقا کے اخبار سنڈے ٹائمز کے چیف رپورٹر تھے۔وہ دنیا بھر میں پچیس، تیس ممالک میں غیرملکی نامہ نگار کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔وہ عمومی خبروں کے علاوہ سیاسیات ، بدعنوانیوں اور تنازعات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

ٹپ شیٹ رپورٹنگ تجاویز اور ٹولز ماحول

ماحولیاتی تبدیلی کے وعدوں کی تحقیق اور اپنی حکومت کو جوابدہ رکھنا

اس مختصر ورژن میں،جی آئی جی این ہماری تازہ ترین رپورٹنگ گائیڈ سے تجاویز پیش کرتا ہے، کہ کس طرح صحافی اپنے ملک کے ماحولیاتی تبدیلی کے وعدوں کی تحقیق کر سکتے ہیں اور حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرا سکتے ہیں۔

خبریں اور تجزیہ رپورٹنگ تجاویز اور ٹولز

ویب سائٹس کی تحقیق کے لیے تجاویز

دو ڈیجیٹل ماہرین مشتبہ ویب سائٹس اور ان کے مالکان کی تحقیقات کرنے کے لیے تجاویز اور تکنیکوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

رپورٹنگ تجاویز اور ٹولز طریقہ کار

تحقیقاتی صحافت میں تعلیمی تحقیق کے استعمال کے لیے 5 نکات

تعلیمی تحقیق معاشرتی مسائل کی چھان بین اور طاقتوروں کو جوابدہ بنانے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ پلٹزر انعام یافتہ تفتیشی صحافی نیل بیدی، ماہرِ جرم ریچل لوول، اور دی جرنلسٹ ریسورس کے ڈینس-میری آرڈوے تحقیقاتی صحافت میں علمی تحقیق کے استعمال کے بارے میں عملی مشورے دیتے ہیں۔