کورونا سے ہونیوالی اموات چھپانےکے عمل کو کیسے بےنقاب کیا جائے؟
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
کورونا سے ہونے والی اموات کو چھپایا جا رہا ہے اس بارے کھوج لگانے کیلئے پڑھیئے مختلف ممالک کے رپورٹرز کیطرف سے دی جانے والی تجاویز
تحریر: روآن فلپ
26 مئی 2020
صومالیہ کے شھر موگاڈیشو میں کام کرنے والے فری لانس صحافی عبداللہ احمد مومن کو خیال آیا کہ کیوں نہ وہ شھر کے ایمبولینس ڈرائیوروں سے انٹرویو کرے ۔ مسئلہ یہ تھا کہ سرکاری اعداد شمارکے مطابق شھر میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد ناقابل یقین حد تک کم تھی۔ مومن کو اسی وقت شک ہو گیا تھا جب اسے پتہ چلا کہ ایمبولنسوں میں لے جائی جانے والی لاشوں کی تعداد گذشتہ دو ہفتوں کے مقابلے میں چار گناہ ہو گئی ہے جسکی کی عکاسی سرکاری اعدادوشمار میں نہیں ہو رہی تھی۔
اسی دوران نائجیریا کے شھر کانو میں بھی انگریزی روزنامہ دی گارڈین کے دو رپورٹر ایسے ہی مخمصے کا شکار تھے، شھر کی انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ مرنے والوں کی تعداد حیران کن طور پر کم بتائی جا رہی تھی، دونوں رپورٹروں نے ایک انوکھا طریقہ اپنایا انہوں نے قبرستان جا کر قبریں کھودنے والے گورکنوں کے انٹرویوز کرنے شروع کر دئیے(حفاظتی لباس، ماسک اور فاصلے کے ساتھ)، ان انٹرویوز میں انکشاف ہوا کہ اصل میں مرنے والوں کی تعداد سرکاری طور پر بتائی جانے والی اوسط تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے جو سینکڑوں میں ہے، ستم ظریفی یہ ہوئی کہ خود گورکن بھی بڑی تعداد میں ایک دوسرے کی قبریں کھودتے رہے اور وہ خود بھی کسی گنتی میں نہ تھے۔
جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اسی وقت امریکی ریاست میشی گن میں تحقیقاتی صحافت کرنے والی ویب سائٹ پرو پبلیکا (ProPublica) کے لئے کام کرنے والے اعداد شمار کے ماہر دو صحافیوں کے للئے بھی اموات کی تعداد سے متعلق ناکافی سرکاری اعدادوشمار معمہ بن چکے تھے، ان کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ شھر ڈیٹروائٹ میں ھسپتالوں یا بوڑھوں کی دیکھ بھال کے مراکز کے علاوہ دوسری جگہوں پر (جیسے گھروں میں) مرنے والوں کی تعداد کیسے معلوم کی جائے، ان کے ذہن میں دلچسپ خیال آیا، انہوں نے ایمرجنسی سروس نائن ون ون پر موصول ہونے والی ایمرجنسی فون کالوں کے ڈیٹا ریکارڈ تک رسائی حاصل کی جہاں انھیں "مرا ہوا بندہ دیکھا گیا” ( Dead man observed ) کے عنوان سے فائل مل گئی جسکے مطابق گذشتہ صرف دس دنوں میں گھروں میں ہونے والی معمول کی اموات کی تعداد ایک سو پچاس ہو چکی تھی جبکہ گذشتہ کئی سال سے اسی عرصے یہ تعداد محض چالیس تھی۔
شھر ڈیٹروائٹ سے تقریباً ساڑھے تین ھزار میل جنوب میں پیرو کے شھر لیما میں آئی ڈی ایل رپورٹروس کے صحافیوں نے مشاہدہ کیا کہ شھر کی مختلف شمشان گھاٹوں (جہاں وہ اپنے عقیدے کے مطابق جلا دیتے ہیں) میں لائی گئی لاشوں کی تعداد میں معمول سے تین گنا اضافہ دیکھا گیا ہے، محکمہ صحت کو آخری رسومات ادا کرنے والی کمپنیوں سے خصوصی ٹھیکے کرنے پڑے اور ان شمشان گھاٹوں میں رکھے گئے ان کمپنیوں کے رجسٹروں میں اموات کی وجہ کورونا بتائی گئی ہے۔
پوری دنیا میں تحقیقاتی صحافی بالواسطہ اور بلاواسطہ کورونا سے مرنے والوں کی تعداد سے متعلق تصویر کو واضح کرنے والے آلات اور طریقہ کار سے آگاہی حاصل کر رہے ہیں، اسکی وجہ ان اعداد شمار کو مرتب کرنےمیں حکومتوں کی محدود صلاحیت بھی ہے جو قابل فہم ہے۔ اس صلاحیت میں کمی کی وجہ روزانہ کی بنیاد پر کورونا ٹیسٹوں کی تعداد میں انتہائی کمی، سرکاری اعدادوشمار کے اجرا میں تاخیر، موت کی سند پر ممکنہ وجہ موت کا معیار مقرر نہ ہونا، اور بعض مرتبہ جان بوجھ کر اموات کو چھپانا اور انکی تعداد کم ظاہر کرنا ہے۔
اس تمام صورت حال میں کورونا سے مرنے والوں کے تعداد کم ظاہر کرنے کا مسئلہ پوری دنیا کو درپیش ہے، جسکے باعث وسائل کی تقسیم، عوام کے پیسے کا استعمال اور حکومتی احتساب کے عمل کے لیئے سنگین نتائج ہونگے۔ تحقیقاتی صحافی اپنے کام سے ان حکومتوں کی مدد کر رہے ہیں۔
چینی میڈیا کے ادارے Caixian کے صحافیوں نے سب سے پہلے متاثر ہونے والے شھر ووہان میں کفن دفن کا انتظام کرنے والے مراکز سے رابطہ کیا اور لاش کی راکھ والے برتنوں کے ملنے والے آرڈرز کا جائزہ لیتے ہوئے کورونا سے مرنے والوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگایا، تصاویر میں دکھایا گیا کہ ایک ٹرک میں اڑھائی ھزار ایسے برتن سپلائی کئے گئے اور ڈرائیور کا کہنا تھا کہ ایک دن پہلے ہی اتنے ہی برتن سپلائی کئے گئے تھے۔
نائجیریا سے روزنامہ گارڈین کے رپورٹر ایمانیول اکینووٹو نے جی آئی جے این کو بتایا، "قابل اعتباراعدادوشمار کی عدم موجودگی میں لوگوں سے سنی گئی کہانیاں کافی مددگار ثابت ہوتی ہیں، مگر ایسے میں قصہ سنانے والا خود کو معلوم حقائق تک محدود رکھے تو معلومات پہنچانے کے اس طریقے سے معلومات ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔ اکینووٹ کہتے ہیں انہوں نے کانو شھر میں تین قبرستانوں کے گورکنوں سے بات کی اور ان سب نے بتایا کہ اموات میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا، ایک ہفتے میں معمول سے کئی سو زیادہ اموات ہوئیں اور اسکے باوجود کانو شھر میں کورونا سے مرنے والوں کی سرکاری تعداد چھبیس بتائی جا رہی تھی”
اعدادوشمار کے ماہر پروپبلکا ( ProPublica) کے رپورٹر جیک گیلم کہتے ہیں، “ہمارے لئے باعث تشویش یہ بات تھی کہ لوگوں سے سنے گئے واقعات سے لگ رہا تھا کہ اموات کی تعداد کم بتائی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف گھروں میں ہونے والی اموات کی تعداد معلوم کرنا تھا ، ہم اس فرق کو دور کرنے کے لئے مزید اعدادوشمار اکٹھے کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہماری ریاست مشی گن نے درست اور تازہ ترین اعدادوشمارفراہم نہیں کئے، اور اسی باعث ہم نے ایمرجنسی سروس کے فون ڈیٹا سے رجوع کیا”
جی آئی جے این کے ایک مخصوص سوالنامے کے ساتھ جب ماہرین اور صحافیوں سے انکی رائے مانگی گئی تو ایسے بارہ طریقے اور چھ آلات دریافت ہوئے جو حکومتی اعداد و شمار سے ہٹ کر اس وبا سے ہونے والے نقصان کا مکمل شمار کرنے میں انتہائی موثر ثابت هو رہے ہیں
حکومتی اعدادوشمار سے ہٹ کے اموات کی گنتی کے بارہ طریقے
۱۔ اپنے شھریوں کی معمول کی اموات کا نسبتا قابل اعتبار دستاویزی ریکارڈ رکھنے والے ممالک میں یہ طریقہ کامیاب ہے، وبا کے دوران ہونے والی ھر قسم کی اموات (کورونا اور تمام دوسری وجوہات) کے اعدادوشمار کا موازنہ گذشتہ سال (کورونا سے پہلے) کے اسی عرصے میں ہونے والی اموات کے اعدادوشمار سے کیا جائے۔ اور یہی کچھ اس سال اپریل کے آخر میں موقر انگریزی روزنامہ فنانشل ٹائمز نے چودہ ممالک میں بھی کیا۔ اور جن ممالک کے سرکاری اعدادوشمار تازہ ترین معلومات پر مبنی نہیں صحافی یہ بات اپنی رپورٹ میں ضرور بتائیں کیونکہ اس کے باوجود بھی صحافی کل اموات میں غیر معمولی اضافہ ثابت کر سکتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران معمول کی اموات کے سرکاری اعدادوشمار میں بھی کئی گنا زیادہ اضافه ہوا ہے قطع نظر اسکے کہ یہ اموات ایکواڈور میں هوئی یا نیو جرسی میں
۲۔ سرکاری ذرائع کی عدم دستیابی پر “بالواسطہ ذرائع” کے استعمال سے بھی زیادہ اموات کو معلوم کر کے انھیں رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ذرائع کو انگریزی میں PROXY SOURCES کا نام دیا گیا ہے۔ ان میں طبی عملہ ، کفن دفن کے منتظم حکام، آخری مذھبی رسومات کرنے والے، گورکن، اور ایمبولنسوں کے ڈرائیور حضرات شامل ہیں جن کا انٹرویو کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ نجی کاروباری افراد جن کو سرکاری طور پر مرنے والوں کے کفن دفن کا ٹھیکہ دیا گیا ہے ان سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مقامی انتظامیہ لاشوں کو حوالے کرتے وقت دستاویزات میں ان اموات کی کیا وجہ بتاتی ہے۔ آئی ڈی ایل رپورٹراس کو یہ معلوم ہوا کہ پیرو کے طبی حکام کفن دفن کرنے والی نجی کمپنیوں کے رجسٹر میں کورونا کی وبا کو برملا طور پراموات کی وجہ لکھ رہے تھے۔
۴۔ مقامی انتظامیه کے خفیہ سرکاری ریکارڈ کے افشا ہونےپر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ کچھ شھروں کے مقامی حکام سرکاری ھسپتالوں میں کورونا کی اموات سے متعلق اپنے محکمے میں ایک خاموش سروے کروا رہے ہیں جن کے نتائج سے مرکزی حکومتوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ مرکزی حکام کبھی کبھی پروپیگنڈا مقاصد کیلئے ان اعدادوشمار کو عوام سے چھپا لیتے ہیں۔ مگر ان اعدادوشمار کے مقامی ذرائع سے بس لیک ہونے کی دیر ہوتی ہے۔ آٹھ مئی کو دی نیویارک ٹائمز کو معلوم ہوا میکسیکو شھر میں اموات کی حقیقی تعداد وفاقی حکومت کے جاری کردہ اعدادوشمار سے تین گناہ زیادہ ہے، ایسا تب ممکن ہوا جب شھر کی میئر کلاڈیا شین بام کے حکم پر ایک خفیہ گنتی کی گئی جس کی تین مختلف ذرائع نے تصدیق کر دی تھی۔ صرف ایک هفتے بعد ہی سکائی نیوز کی تحقیقات میں اموات کی تعداد اور بھی زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا جسکی معلومات انہیں درجنوں ھسپتالوں کے دورے، کفن دفن تیار کرنے والے مراکز اورمقامی ذرائع کی تصدیق سے ملی۔
۵۔ ایمرجنسی مدد کے لیئے کی جانے والی فون کالوں کی آڈیو بھی انٹرنیٹ پر عوامی ذرائع سے دستیاب معلومات کی مدد سے ہو سکتی ہے، اگر ملکی قوانین اجازت دیں تو صحافی ایمرجنسی سروس کی ان فون کالوں سے حاصل معلومات کی بنیاد پر متاثرہ افراد کے گھروں کی نشاندہی بھی کر سکتے ہیں۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ایسی فون گفتگو میں مختلف نوعیت کی اموات کے لیئے استعمال ہونے والے مخصوص یا خفیہ الفاظ کیا ہیں۔
۶۔ اہم محکموں میں اہم ذمہ داری نبھانے والے کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ذاتی دلچسپی یا مفاد کے باعث کورونا سے ہونے والی اموات کی درست تعداد کے کھوج میں ہوتے ہیں، صحافیوں کو ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا چاہیے۔ دی نیویارک ٹائمز نے روس میں ایک ایسے ماہر آبادیات کو ڈھونڈ نکالا جس نے ایک انتہائی غیر معروف علاقے سے ماسکو کے لیے سترہ سو اضافی اموات کا پتہ چلایا۔ ان اموات کو سرکاری طور پر شمار ہی نہیں کیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے روس کو بھی کورونا سی کم متاثرہ ممالک میں شمار کیا جا رہا تھا۔
۷۔ سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ زبانوں میں کورونا کی اموات کی خبروں ، بلاگز اور کمنٹس کو سرچ کیا جائے۔ لواحقین سے رابطہ کر کے ان سے کی گئی کسی قسم کی سرکاری خط وکتابت کے ریکارڈ کے حصول کیلئے بھی درخواست کی جائے۔
۸۔ ان شھروں یا اضلاع پر خصوصی توجہ دیں جہاں اموات کی تعداد سرکاری طور پر بہت کم بتائی جارہی ہے جبکہ انکے پڑوس میں یا اتنی ہی آبادی والے علاقوں میں متاثرین کی زیادہ تعداد مصدقہ یا تسلیم شدہ ہو۔
۹۔ ایک چھوٹے ضلع میں احتیاطی تدابیر کیساتھ ہر دروازے پر جا کر سروے کیا جائے جس سے ہمارے سامنے اموات کا ایک تناسب آ جائیگا جسکو بڑے اضلاع یا علاقوں میں اموات کے رجحان کو سمجھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
۱۰۔ عمومی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ خام ڈیٹا ( Raw data ) تک رسائی ہو جیسا کہ پولیس کال وغیرہ نہ کہ محدود یا سرکاری طور پر منتخب شدہ مواد یا تجزیات۔ ProPublica کے گیلم کا ماننا ہے کہ اموات کے حوالے سے براہ راست کمپیوٹر سے حاصل شدہ معلومات زیادہ قابل اعتبار ہوتی ہیں۔
۱۱۔ کفن دفن کے سامان بنانے والی کمپنیاوں کو ملنے والے راکھ کے برتنوں اور تابوتوں سے متعلق بڑے سپلائی آرڈروں پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔
۱۲۔ کورونا کے باعث نہ سہی مگر اس وبا کے باعث دوسرے امراض کے لیے سہولیات میں کمی سے غیر کورونا اموات کو سمجھنا اور جاننا بھی صحافتی تحقیقات کے لیے ضروری ہے۔ برطانیہ کے شھر آکسفورڈ میں کورونا سے متعلق شواہد اکٹھا کرنے والی سروس کمپنی نے دریافت کیا کہ انگلینڈ اور ویلز میں جو معمول سے زیادہ اموات ہوئی ان میں ایک تہائی کی وجہ کورونا نہیں تھی۔
اکٹھے کیے گئے شواہد کے کمزور پہلو کو تسلیم کرنا
ماہرین کی رائے میں رپورٹروں کو مشاہدات پر مبنی لوگوں کی کہانیوں اور اموات میں غیرمعمولی اضافے کی معلومات کے بلواسطہ ذرائع سے حصول کے طریقوں کے کمزور پہلووں کو بھی عوام کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے۔ یہ بھی بتانا چاہیے کہ ان معلومات کے درست ہونے کا کتنا امکان ہے اور یہ کہ معلومات دینے والے لوگ یا ذرائع کورونا سے جڑی اموات کی وجوہات کے بارے میں کتنا جانتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ دستیاب شدہ معلومات کی بنیاد پر ان ذرائع نے نتائج کیسے اخذ کیے۔ اس کے برعکس کچھ شہ سرخیوں کی زینت بننے والی خبریں محض ان اعداد شمار کا گورکھ دھندہ ہوتی ہیں جن میں کورونا سمیت تمام دوسری بیماریوں کے باعث ہونے والی اموات کی معلومات چھاپ دی جاتی ہیں۔
مرنے والوں سے متعلق شائع ہونی والی انکی زندگی کی کہانیاں بھی معلومات کا اہم ذریعہ ہیں تاہم دی سٹی نامی نیوز ویب سائٹ اور کولمبیا جرنلزم انویسٹیگیشن کے مطابق نیویارک میں کورونا سے مرنے والوں میں سے صرف پانچ فیصد لوگوں کی زندگی کی کہانیاں اخبارات کی زینت بنی، جن میں زیاده تر دولت مند اور نوجوان لوگ شامل تھے۔ اور جبکہ بین القوامی سطح پر تسلیم شدہ ’سند برائے وجہ موت‘
(Medical Certificate of Cause of Death)
اموات کی نوعیت کو سمجھنے کیلیے ایک مددگار راہنما کتابچہ ہے ایشیا اور بحر الکاہل کے لیے اقوام متحدہ کے معاشی اور سماجی کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ (اموات کی سرکاری طور پر اطلاع دینے والے ) ان خطوط پر صرف انتیس فیصد اموات کے لیے یہ سند یا سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا ہے۔
پیرو میں قائم آئی ڈی ایل ریپورٹراس کے ڈائریکٹر گوستاوو گوریتی نے جی آئی جے این کو بتایا کے انہیں اس وقت ایک بڑی کامیاب ملی جب انکے صحافیوں کو پتہ چلا کہ شھری انتظامیہ نے کورونا سے مرنے والوں کی آخری رسومات کا انتظام کرنے والی نجی کمپنیوں سے لاشیں اکٹھی کرنے کے لیے بھی کہہ دیا ہے۔ اس کی وجہ وہ نئے قواعد تھے جن کے تحت جن لوگوں کی موت کی وجہ کورونا قرار دی جانی تھی انکی آخری رسومات جلد از جلد کرنا لازمی تھا۔
گوریتی کے مطابق سرکاری ھسپتالوں میں مرنے کی صحیح وجہ صرف ہاتھ سے لکھے کچھ رجسٹروں میں ہی درج کی جا رہی تھی، آئی ڈی ایل ریپورٹراس کے صحافهی جو لاشوں کو اکٹھا کرنے والی کمپنیوں کے عملے کے پیچھے پیچھے سفر کرتے تھے وہ ہر موت کی معلومات نوٹ کر لیتے۔ چھبیس اپریل تک صرف لیما اور کیلاو کی کفن دفن کا انتظام کرنے والی دو کمپنیوں نے ایک ھزار تہتر لاشیں وصول کی جن کی وجہ موت سرکاری طور پر کورونا قرار دی گئی تھی جبکہ ان دو شھروں میں حکومت کی اعلان کردہ تعداد اموات بوجہ کورونا تین سو تیس تھی۔
گوریتی نے بتایا ، “ہمیں معلوم ہوا کہ بہت سی اموات کی آخری رسومات کا بے تحاشہ بوجھ ایک ہی نجی کمپنی پر ڈال دیا گیا تھا جس کے کارکن کام کی زیادتی کا شکار ہو گئے اور ویسے بھی یہ ایک انتہائی اداس کر دینے والا اور ذہنی دباوٴ کا حامل کام تھا”
اس کا کہنا تھا کہ ہم نے ہاتھ کے تحریر شدہ رجسٹروں سے معلومات نوٹ کی اور جب ان کا موازنہ سرکاری اعدادوشمار سے کیا تو ان میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ گوریتی کیمطابق ان کی خبروں پر حکومتی ردعمل اچھا نہ تھا۔
معمول کی شرح اموات میں غیر معمولی اضافے کا جائزہ لینا
برطانیہ کہ طبی ماہر کارل ھنیگان کے مطابق ایک خاص عرصے میں معمول کی شرح اموات میں غیر معمولی اضافے کا مشاہدہ وبا کی افراتفری میں کھوج لگانے والوں کیلیے معلومات کا قابل اعتبار ذریعہ ہے، اسکی سادہ سی وجہ ہے کہ موت ایک حقیقت ہے اور لاشوں کی درست گنتی آسان۔
کارل ھنیگان نے ایک گلوبل انویسٹیگیٹو جرنلزم نیٹ ورک کے ایک ویبی نار (آن لائن سیمینار) میں کہا کہ صحافیوں کو یہ تصور نہیں کر لینا چاہیے کہ سال ۲۰۲۰ کے بیشتر مہینوں میں اموات کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے کی وجہ صرف کورونا ہی ہو سکتی ہے کیونکہ سال دو ھزار سترہ اور اٹھارہ کی سردیوں کے دوران انگلینڈ اور ویلز میں بھی اموات کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا جو کسی وبا کی وجہ سے نہ تھا۔ ھنیگان کیمطابق تاہم اس وبا کے دوران صرف چند ہفتوں میں اموات کی تعداد کا بڑھ جانا کورونا کے سے ہونے والے نقصانات کا درست اندازہ لگانے میں مددگار ہو گا۔
بہت سے لوگ کورونا کے علاوہ دوسری بیماریوں سے بھی مر رہے ہیں یا پھر اس وبا کے باعث دوسری بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا بروقت علاج نہ ہونے سے ۔ اسکی وجہ سرکاری طور پر نافذ شھروں کا لاک ڈاوٴن بھی ہے، بھارت میں وسطی ممبئی اور احمدآباد جیسے شھروں میں معمول کی اموات بہت کم تھیں، مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسکی وجہ لاک ڈاوٴن ہے کیونکہ گاڑیوں اور ریل گاڑیوں کے بن ہونے سے حادثات کے ساتھ ساتھ گھناوٴنے جرائم میں بھی کمی آئی ہے۔
تمام ممالک میں معمول کی اور کورونا کے باعث اموات کے اعدادوشمار پر اعتماد کی سطح مختلف ہوتی ہے، ترقی پذیر ممالک کے صحافی دوسرے علاقوں کے قابل اعتبار اعدادوشمار سے ظاہر رجحانات کی راہنمائی لیتے ہوئےاپنے شھر کے متاثرہ علاقوں میں تحقیقات کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر انگلینڈ میں دیکھ بھال سے عاری جگہوں، ھسپتالوں اور دیکھ بھال کے مراکز میں دوسری بیماریوں سے مرنے والوں کی معلومات کے درست اندراج پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دی جاتی ہے،۔
ھینیگان کا کہنا ہے، “ مجھے صرف ایک کام کرنا ہے، میں آپ کے ملک میں ہر قسم کی اموات کے بارے میں جانوں گا اور پھر یہ کہ ان اموات کا ریکارڈ سرکاری طور پر کیسے مرتب کیا جاتا ہے، ان اعدادوشمار کا دوسرے دیگر سال سے موازنہ کرونگا اور پھر میں دوسرے سوال اٹھاوٴں گا (وجہ اموات سے متعلق)”
چھپائی گئی اموات کا کھوج لگانے کے ذرائع
شھری انتظامیہ کی عوامی معلومات کیلیے مخصوص ویب ویب سائٹس (ڈیٹا پورٹلز) : دنیا کے بیشتر شھروں میں بشمول کچھ ترقی پذیرممالک کے شھری انتظامیہ عوامی معلومات کیلیے مخصوص ویب سائٹس (ڈیٹا پورٹلز) تیار کرتی ہے جهاں سے شھری معلومات حاصل بھی کر سکتے ہیں اور خود ان میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں، انکی مدد سے صحافی حضرات “گھروں میں ہونے والی اموات” اور ہنگامی مدد کے لیے کی گئی فون کالز کا ریکارڈ میں معلوم کر سکتے ہیں۔ ڈیٹروائٹ شہر کا ڈیٹا پورٹل ایک عمدہ مثال ہے مگردوسرے شھروں میں ایسی اموات کے لیے خاص الفاظ استعمال کرتے ہیں جیسے کہ “ایک لاش دیکھی گئی ہے”
( DEAD PERSON OBSERVED)
اور ایسے الفاظ مختلف اعدادو شمار کے بیچ درج ہوتے ہیں، ان سائٹس پر شھروں کے نام جیسے بیونس ائرس یا سان فرانسیسکو لکھ کر سرچ کیا جاسکتا ہے، کچھ سائٹس پر تمام مخصوص الفاظ کیپیٹل الفاظ میں لکھنا ضروری ہے جبکہ کچھ شھروں جیسے شکاگو کی سائٹس پر آپکو ہنگامی مدد کی فون کالوں کے ریکارڈ کے لیے آن لائن درخواست کرنا پڑتی ہے
کمپیوٹرایپ جو پولیس اور ہنگامی عملہٴ صحت کو موصول فون کالوں کو نشر کرتیں ہیں
وہ کمپیوٹرایپس جو پولیس اور ہنگامی عملہٴ صحت کو موصول فون کالو کو نشر کرتیں ہیں اور ریکارڈ میں محفوظ بنا لیتی ہیں۔ امریکہ میں براڈکاسٹیفائی ( BROADCASTIFY ) نامی لائسنس یافتہ ایک ایپلیکیشن کورونا کے شکار مریضوں کے انجام اور حتی کہ انکے گھروں کے پتے معلوم کرنے میں بہت مدد کی۔
انشورنس کمپنیوں کے اعداد وشمارگزشتہ تاریخوں کی اموات کے ریکارڈ کی درستگی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں
شواہد اکٹھا کرنے والی ایک سروس کمپنی
( EVIDENCE SERVICE)
کے مطابق اموات کی کم تعداد ظاہر ہونے کی ایک وجہ معلومات کا ریکارڈ دیر سے متعلقہ حکام تک پہنچنا بھی ہے، انشورنس کمپنیوں کے آن لائن دستیاب ریکارڈ میں کورونا سے ہونے والی خاص تاریخوں کی اموات کی تعداد میں روزانہ تبدیلی یا اضافہ ہوتا رہتا ہے، کینکہ صحت کےحکام سے اموات کی تصدیق میں وقت لگ جاتا ہے،
ٹویٹر اور فیس بک کی مدد سے اموات کے بارے میں معلومات لینا
معروف سوشل میدیا پلیٹ فارم ٹویٹر پر ٹویٹ ڈیک ( TweetDeck ) سروس اور فیس بک پلیٹ فارم پر "ہو پوسٹڈ وٹ” (WHO POSTED WHAT) کی مدد سے صحافی حضرات مخصوص علاقوں میں مخصوص تاریخوں پر کورونا اموات پر کس نے کیا کہا یا شئیر کیا کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کا ڈیٹا ڈاٹ ورلڈ (data.world ) پلیٹ فارم اس ویب ڈیٹا پورٹل پر کورونا سے متعلق زیادہ تر امریکی اور یورپی ویب پورٹلز کو یکجا کیا گیا ہے اور یہ پلیٹ فارم صحافیوں کو نہ صرف بلا معاوضہ رسائی دیتا ہے بلکہ نقشوں کی مدد سے اعداد و شمار بھی فراہم کرتا ہے۔
سیٹیلائٹ سے بنائی تصویریں فراہم کرنے والا پلیٹ فارم
اس پلیٹ فارم نے تحقیقاتی صحافیوں کی ہمیشہ سے بہت مدد کی ہے، یہ کمپنی کورونا کے زمین پر ہونے والے اثرات خلا سے لی گئی تصویروں کے ذریع نمایاں کرتی ہے، جیسے کہ کھودی گئی اجتمائی قبریں یا پھر لاوارث لاشیں، یہ ویب سائٹ تحقیقاتی صحافت کے لیے دستیاب سیٹیلائٹ کے وسائل اور دیگر خدمات کےحوالے سے بہت راہنمائی کرتی ہے۔ خاص کر خبررساں اداروں کے نیوزرومز کو سیٹیلئٹ کی بلامعاوضہ تصاویر فراہم کی جاتیں ہیں، اس کا لنک جی آئی جے این پر بھی دستیاب ہے
صحافتی تحقیقات کے لیے کچھ نئے طریقے
ھسپتالوں اور نرسنگ ھومز سے باہر وفات پانے والے کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کو منظرعام پر لانے والی سب سے پہلی تحقیقات میں پروپبلیکا کی رپورٹ کیمطابق نیویارک، مشی گن کے کچھ علاقوں، میساچوسٹ اور واشنگٹن اسٹیٹ میں گھروں میں هونے والی اموات میں یکدم اضافہ دیکھا گیا.
تین رپورٹروں کی ایک ٹیم نے اہم ریکارڈ کے حامل مقامی محکموں، صحت کے اداروں اور ہنگامی مدد نائن ون ون کے کال سینٹرز سے ڈیٹا حاصل کیا. انہوں نے ہنگامی مدد کے لیے کی جانے والی فون کالوں کو ایک آرکائونگ ایپ کی مدد سے سنا،جس دوران ہنگامی عملے کے معنی خیز الفاظ سے بھی آگاہی ہوئی جیسا کہ “ احتیاطی تدابیر اپنا لو”
( Use you precautions here )
جب بھی پولیس نے کال میں بتایا کی “موقعے پر ایک شخص مرا پڑا ہے”
( For the dead on scene )
گیلم نے بتایا کے موت کی اطلاع دینے کے عمل سے بھی اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد سے متعلق ان اہم اشاروں اور طریقوں کو جاننے میں مدد ملی جن کو محض وقت میں کمی کے باعث کبھی استعمال میں نہ لایا جا سکا۔ ان میں سے ایک اشارہ “طبی معائنہ کار” ( medical examiner ) اورپھر “آخری منزل” ( final disposition ) کے الفاظ تھے جن کا شھروں کے ڈیٹا رجسٹروں میں استعمال اچانک ہی بڑھ گیا ۔ ان الفاظ سے اموات میں تیزی سے اضافے کا پتہ چل سکتا تھا مگر ان الفاظ کے معانی کی تصدیق کے لیے صحافیوں کے پاس کبھی وقت ہی نہیں تھا۔
گیلم نے کہا، “ اگر میں سن فرانسسکو بے ایریا کا مقامی رپورٹر ہوتا تو میں یہ جاننا چاہتاکہ ان الفاظ کا مطلب کیا ہے.” گیلم کی رائے میں اس حوالے سے صحافیوں کی رپورٹنگ میں کچھ خامیاں نمایاں ہیں۔
کچھ دوسرے صحافیوں کو ایک اشارہ اس وقت ملا جب پروپبلیکا کی ٹیم کو فون کال ریکارڈ سے یہ معلوم ہوا کہ بیشتر شھروں میں ہنگامی طبی امداد کے لیے کی جانے والی کل فون کالوں میں پچیس فیصد کمی آ گئی ہے ، کیا اسکا یہ مطلب تھا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب ھسپتال کے خوف سے ( کورونا کے باعث) یا طبی عملے سے میل جول کے ڈر سے ہنگامی مدد مانگتے ہی نہیں؟ اور کیا اسی وجہ سے کورونا کے علاوہ دوسری بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے؟ گیلم کے مطابق یہ وہ سوالات تھے جو صحافتی تحقیقات کے ساتھ جوابات کے متقاضی تھے اور یہ دوسرے ممالک کے لیے بھی اہم سوالات ہیں۔
افریقہ میں برطانوی اخبار گارڈین کے نامہ نگار جیسن برک کا کہنا ہے کہ افریقی صحافیوں کو اموات کی گنتی کیلیے دو چیزوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے : یہ بیانیہ غلط ہونے کا زیادہ امکان ہے کہ افریقہ میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد واقعی بہت کم ہے اور یہ کہ پورے براعظم میں خاندان والے اس لیے وبا کے باعث مرنے والوں کی اطلاع نہیں دیتے کہ ان کے رشتہ داروں کی آخری رسومات وبا سے متعلق حکومتی پابندیوں کا نشانہ نہ بنیں۔
جیسن برک کے مطابق یه بیانیه، جسکو عالمہ ادارہ صحت کی حامیت حاصل ہے، کہ نوجوانوں کی بڑی آبادی ہونے کے باعث افریقہ بال بال بچنے میں کامیاب ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ احمقانہ بات ہے۔ افریکی ممالک کی افریقی یونین کا اس حوالے سے بدترین کردار رہا ہے جس نے گذشتہ ہفتے بنیادی طور پر یہ پیغام دیا کہ وبا کیلیے ٹیسٹنگ اور اس سے جڑے نتائج دونوں ہی زبردست رہے، ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا اور یہ بات تو افریکی ممالک کے بارے کچھ زیادہ نہ جاننے والوں کو بھی معلوم ہے۔ “اب صحافیوں کے لیے چیلنج ہے کہ ایسے بیانیے کو گمراہ کن کیسے ثابت کیا جائے”
جیسن برک پورے افریقہ میں پھیلے اپنے سٹرنگرز کے نیٹ ورک کو بتاتا رہا ہے کہ اموات کی حقیقی تعداد کو جاننے کے لیے “بالواسطہ ذرائع” ( Proxy Sources ) پر توجہ دیں جیسے کہ ایمبولنس ڈرائیور، تابوت بنانے والے اور گورکن۔ برک کیمابق اسکی کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ برکینا فاسو، ذمبابوے اور برونڈی جیسے ممالک میں آئندہ ہونے والی ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر اموات کی تعداد کو چھپایا جا سکتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف ابتدا میں جمہوریہ کانگو سے متعلق انکی رائے تھی کہ ہہاں اموات کی تعداد اندازوں سے کئی زیادہ ہو گی مگر حالات یہ بتاتے ہیں که وہاں کی حکومت کے اقدامت اور اعداد و شمار اکٹھے کرنے کا نظام ایسی ہی دوسری قوموں سے بہتر ہے۔
جیسن برک کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابھی تک ایسا نہیں دیکھا کہ کنشاسہ (Kinshasha ) میں بڑے پیمانے پر ہونے اموات ہوئی ہوں اور ان کے اعداد و شمار اکٹھے نہ کیے گئے ہوں. برک کی رائے میں (اس حوالے سے) کانگو حیران کن طور پر زبردست (ملک) ہے، اس لیے نہیں کی یہاں کے وبائی امراض کہ ماہرین یا وبا سے مقابلہ کرنے کا نظام ذبردست ہے بلکہ اس لیے کہ یہاں ایک کے بعد دوسری وبا کا آنا ایک معمول رہا ہے۔
اکینوووٹو کے مطابق نائجیریا کے شھر کانو میں اموات کی تعداد سے متعلق تحقیقات کرنے والے انکے ساتھی صحافی مصطفی ھدی نے ماسک پہن کر اور فاصلے سے تین گورکنوں سے بات کی. ان میں ان میں پچہتر سالہ موسی ابو بکر نے بتایا کہ قبرستان کے عملے کو دستانے اور ماسک فراہم نہیں کیے گئے، اور یہ کہ اس نے کبھی زندگی میں اتنی بڑی تعداد میں اموات نہیں دیکھی۔ مقامی مذھبی راہنما اور آخری رسومات ادا کرنے والے بھی ان صحافتی تحقیقات میں مددگار ثابت ہوئے
وبا کے باعث سفری پابندیوں کیوجہ سے اکینوووٹو خود بھی لندن میں پھنس کر رہ گیا تھا، اس نے کچھ فون ملائے اور کانو شھر میں ذاتی حفاظتی لباس اور مقامی زبان جاننے والے ایک شخص سے کہا کہ وہ چند دوسرے قبرستانوں میں گورکنوں سے سوالات کیلیے اسکا رابطہ کار بنے۔ اکینوووٹو کا کہنا تھا کہ اپریل کے مہینے میں شھر میں ٹیسٹ کی سہولت میں شدید کمی آ گئی جسکے باعث لوگوں کے ذاتی مشاہدات اور تجربے کو جاننے کیلیے زیادہ بڑے پیمانے پرانٹرویوز کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
اکینوووٹو نے بتایا کہ اموات کی بڑھتی تعداد کی تحقیقات کیلیے وہ آئیندہ فیس بک میسنجر کا بھرپور استعمال کرینگے کیونکہ اسکے ذریعے آپکو اجنبی لوگوں سے بھی معلومات حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے، مسئلہ صرف ایک ہے کہ “میں صرف انگریزی اور یوروبا (Youruba ) زبانیں جانتا ہوں۔”
نوٹ:
روآن فلپ جی آئی جے این کے لیے بطور کام کرتے ہیں، آپ جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز کے سابق چیف رپورٹر بھی رہے ہیں، بطور غیر ملکی نامہ نگار روآن نے دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک سے سیاست، بدعنوانی اور تنازعات سے متعلق رپورٹس کی ہیں