

سٹیزن لیب کے ڈائریکٹر رون ڈیبرٹ، سویڈن کے گوتھنبرگ میں GIJC23 میں اپنی کلیدی تقریر کے دوران تفتیشی صحافیوں کو درپیش ڈیجیٹل سیکورٹی خطرات پر خطاب کر رہے ہیں۔
سائبر جاسوسی ایک وبا ہے جس کا سامنا دنیا بھر کے صحافیوں کو ہے
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
سویڈن میں منعقد ہونے والی تحقیقاتی صحافیوں کی اب تک کی سب سے بڑی کانفرنس میں دنیا بھر کے صحافیوں میں سائبر جاسوسی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آج کل صحافیوں کی جاسوسی نے ایک قسم کی وبا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سٹیزن لیب کے ڈائریکٹر رون ڈیبرٹ نے صحافیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل سیکورٹی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والے برے اداکاروں کو بے نقاب کرنے میں اب زیادہ جارحانہ ہوجائیں۔
سویڈن میں 13ویں گلوبل انویسٹی گیٹو جرنلزم کانفرنس (#GIJC23) میں کلیدی خطاب میں، ٹورنٹو یونیورسٹی میں سٹیزن لیب سائبرسیکیوریٹی ریسرچ یونٹ کے بانی اور ڈائریکٹر رون ڈیبرٹ نے خفیہ نگرانی کے خطرات کی وضاحت کی۔ آج ایک نئی صنعت ابھری ہےکارپوریٹ جاسوسی کی جس نے اب دنیا کے ہر آزاد صحافی اور ہر ذریعہ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے سٹیزن لیب کی جانب سے دنیا بھر میں بہت سے صحافیوں کی خفیہ جاسوسی کو بے نقاب کرنے کے لیے کیے گئے فرانزک کام کے اندرونی کام بھی بتائے۔ جس میں ایسے معاملات بھی شامل ہیں جہاں صحافیوں کے سمارٹ فون کیمرے خاموشی سے ہیک کر لیے گئے تھے۔ یہی خطرہ سول سوسائٹی یا حملے کا نشانہ بننے والے کسی دوسرے فرد پر لاگو ہوتا ہے۔
"پہلے آپ کو اپنے فون پر کسی بھی جاسوسی سافٹ ویئر کو چالو کرنے کے لیے ایک لنک پر کلک کرنا پڑتا تھا لیکن اب پیگاسس سپائی ویئر کے تازہ ترین ورژن کے ساتھ اس کی ضرورت نہیں ہے،” انہوں نے کہا۔ "ایک لمحہ آپ کا فون محفوظ ہے، اگلے ہی لمحے حکومت کی طرف سے کوئی آپ کی گفتگو سن رہا ہے، اور آپ کو اس کا علم تک نہیں ہے۔”
ڈیبرٹ نے مشورہ دیا کہ تفتیشی صحافی جن کے پاس آئی فون ہے انہیں فوری طور پر اس کا نیا "لاک ڈاؤن موڈ” آن کرنا چاہیے
ڈیجیٹل نگرانی کی صنعت کا سامنا
گلوبل انویسٹی گیٹو جرنلزم نیٹ ورک (GIJN)، لینیس یونیورسٹی کے فوزو میڈیا انسٹی ٹیوٹ اور دی ایسوسی ایشن آف ڈگنگ جرنلسٹس کے زیر اہتمام، گوتھنبرگ میں ہونے والی اس کانفرنس میں 132 ممالک کے 2,138 تحقیقاتی صحافیوں اور ایڈیٹرز نے شرکت کی۔ ان اعداد و شمار کے ساتھ یہ تحقیقاتی صحافیوں کی اب تک کی سب سے بڑی کانفرنس بن گئی ہے۔
ڈیبرٹ نے کہا کہ جاسوسی کی یہ صنعت اب بہت بڑی ہوتی جا رہی ہے۔ اس میں اکثر ریاستی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق آپریٹرز اور سافٹ ویئر ماہرین سے لے کر پرانے حربے استعمال کرنے والی چھوٹی "ہیکنگ فار ہائر” کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
سٹیزن لیب ٹارگٹڈ سنسرشپ اور سول سوسائٹی کی ڈیجیٹل نگرانی کے خلاف جنگ میں ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر ابھری ہے، اور اس کے فرانزک تجزیوں نے میکسیکو اور چین سے لے کر متحدہ عرب امارات اور یوکرین تک حملوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے پیگاسس اور سرکلز جیسے خفیہ نگرانی کے نظام کے عالمی پھیلاؤ کا انکشاف کیا۔
ڈیبرٹ نے آزاد، جلاوطن روسی نیوز آؤٹ لیٹ میڈوزا کی شریک بانی، گیلینا ٹمچینکو کی حالیہ سپائی ویئر ہیکنگ کی تحقیقات پر بھی ایک نظر ڈالی۔ 22 جون کو، ٹمچینکو کو ایپل کمپنی کی طرف سے ایک اطلاع موصول ہوئی کہ ریاست کے زیرِ اہتمام سائبر جاسوسوں نے ان کے آئی فون کو نشانہ بنایا ہے۔ ٹمچینکو نے ڈیجیٹل شہری حقوق کے گروپ ایکسیس ناؤ سے مشورہ طلب کیا، جس نے سٹیزن لیب سے رابطہ کیا۔
ڈیبرٹ نے انکشاف کیا کہ "ہم نے ان کے فون کے لاگز کا فرانزک تجزیہ کیا اور اس بات کا تعین کیا کہ ان کا فون پیگاسس کے ساتھ برلن میں میٹنگ میں شرکت سے صرف ایک دن پہلے ہیک کیا گیا تھا۔”
"اگرچہ ہم یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کس نے کیا، اب کسی نہ کسی ایجنسی کو معلوم ہے کہ اس جاسوسی کو جزوی طور پر بے نقاب کیا گیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا: "دریں اثنا، روس سے جلاوطن ہونے والے مزید صحافی رپورٹ کر رہے ہیں کہ انہیں ایپل سے بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ہم آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ان سے مذید جانیں گے۔”
ڈیبرٹ نے کہا کہ جرمن کیس اس تشویشناک حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ جاسوسی اب تقریباً ہر جگہ ایک پوشیدہ خطرہ ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ "لوگ جبر اور جبر سے بھاگ کر ایک لبرل جمہوری ملک کی طرف بھاگتے ہیں، لیکن وہ وہاں بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں پاتے،” انہوں نے خبردار کیا۔
ڈیبرٹ نے کہا کہ نگرانی کا نشانہ بعض اوقات بڑے پیمانے پر لوگوں کو بنایا جاتا ہے۔ کہ "الجزیرہ کے نیٹ ورک کے تقریباً پورے نیوز روم کو پیگاسس سے ہیک کیا گیا تھا، جس میں بہت سے صحافیوں کے ذاتی فون بھی شامل تھے،” انہوں نے کہا۔ "ایل سلواڈور میں ایل فارو ہے، جہاں ہم نے ڈھونڈا کہ 35 صحافیوں کے فون حکومت نے ہیک کیے تھے۔”
انہوں نے کہا کہ سب سے ریکارڈ کیے گئے پیگاسس حملوں میں سے ایک 2015 میں میکسیکو کی صحافی کارمین اریسٹیگوئی پر تھا اور یہ ٹارگٹڈ ہیکنگ کی انتھک محنت اور صحافیوں کو اپنے اہل خانہ کے فون کے بارے میں فکر کرنے کی مایوس کن ضرورت دونوں کو واضح کرتا ہے۔
"سپائی ویئر کے آپریٹرز ان کے آلے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس قدر تذبذب میں تھے کہ انن کو انہوں نے درجنوں سوشل انجینئرڈ پیغامات بھیجے اور کوشش کی کہ وہ کسی غلط لنک پر کلک کریں،”انہوں نے کہا۔ "جب یہ کام نہیں کیا، تو یہ ان کے بیٹے کی طرف پلٹے، ایک نابالغ بچہ جو امریکہ میں بورڈنگ اسکول میں پڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے امریکی سفارت خانے کی نقالی کی تاکہ اسے بے وقوف بنا سکیں اور لنک پر کلک کرنے کے لیے آمادہ کر سکیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قسم سے رشتہ دارو کو ہدف بنانا کافی عام ہے۔ لہٰذا آپ کو اپنے خاندانی نیٹ ورک اور اپنے سوشل نیٹ ورک میں موجود ہر فرد کی سلامتی کے بارے میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔”
ڈیبرٹ نے کہا کہ اس عالمی خطرے سے نمٹنے کے لیے کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ "سب سے پہلے، ہمیں اپنے آپ کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ تحقیقاتی رپورٹنگ، ذمہ دارانہ انکشافات اور دیگر کام جو ہم سب یہاں مل کر کرتے ہیں اس کا بہت بڑا اثر ہو سکتا ہے- ہمارا تعاون یقینی طور پر منانے کے لائق ہے،” انہوں نے کہا۔ ایپل نے سیکورٹی کے معاملے میں بہت ترقی کی ہے، آج کل انہوں نے جاسوسی کا شکار ہونے والے فون صارفین کو بھی آگاہ کرنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے لاک ڈاؤن موڈ متعارف کرایا ہے تاکہ آپ کا فون زیادہ محفوظ رہ سکے۔”
ڈیبرٹ نے کہا کہ یورپ اور شمالی امریکہ کی حکومتیں بھی تجارتی سائبر جاسوسی کے استعمال کو روکنے کے لیے اہم اقدامات کرنے لگی ہیں۔
"اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، لیکن حکومتوں کے مثبت اقدامات ایک مضبوط اشارہ دیتے ہیں۔ ہمیں اس کی مزید ضرورت ہے،” انہوں نے کہا۔ "بالآخر، ہمیں لبرل جمہوری اداروں کے زوال کو دور کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ آمریت کا پھیلاؤ بہت پریشان کن ہے، لیکن میرے لیے اتنا ہی پریشان کن ہے کہ لبرل جمہوری ادارے کس حد تک کمزور ہو رہے ہیں۔
روون فلپ GIJN کے رپورٹر ہیں۔ روون پہلے جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز کے چیف رپورٹر تھے۔ ایک غیر ملکی نامہ نگار کے طور پر، وہ دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک کی خبروں، سیاست، کرپشن اور تنازعات پر رپورٹ کر چکے ہیں۔