نیوز رومز اے آئی چیٹ بوٹس کو کس طرح اپنی رپورٹنگ بڑھانےاور اعتماد قائم کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
عالمی تیل کی قیمتوں کو کس طرح متاثر کیا؟” تو آپ کو پر اعتماد سنائی دینے والے اعداد و شمار، سائٹ لنکس اور رحجانات کی ایک لمبی فہرست مل جائے گی۔ مثلاً [اس سوال کے لیے] چیٹ جی پی ٹی کا طویل جواب کچھ یوں شروع ہوتا ہے: "برینٹ کروڈ کی قیمت عارضی طور پر ۳ فیصد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور تقریباً ۸۱ تا ۸۲ ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی ہے جو جنوری کے بعد سب سے زیادہ قیمت ہے۔”
یہی سوال نیوز روم کے اندرونی چیٹ بوٹ جیسے کہ واشنگٹن پوسٹ کے "آسک دا پوسٹ اے آئی” سے پوچھیں تو آپ کو عمومی مگر اہم جواب ملے گا جو سادہ اور زیادہ محتاط ہوگا۔ اس کے نیچے اس میں درج مضامین کے تھمب نیل بھی ہوں گے: "اب تک تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نظر آیا ہے۔ عالمی کروڈ کی قیمت تقریباً ۱ فیصد تک کم ہوئی ہے لیکن صورتحال اب بھی غیر یقینی ہے۔”
لیکن بڑا فرق ان جوابات کے لیے استعمال ہونے والے معلوماتی ذرائع کی قابلِ اعتماد ہونے میں ہے۔ لارج لینگویج ماڈل (ایل ایل ایم) پر مبنی اے آئی چیٹ بوٹس تقریباً پورے انٹرنیٹ پر جواب تلاش کرتے ہیں جن میں غیر مصدقہ ذرائع بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس دوران پچھلے چند برسوں میں فلپائن سے برطانیہ تک کئی بڑے نیوز رومز نے اپنے اندرونی جنریٹو اے آئی چیٹ بوٹس متعارف کروائے ہیں جو قارئین کے سوالات کے جوابات صرف اپنی ویب سائٹ کی رپورٹس اور مصدقہ زرائع کے ڈیٹابیسز سے دیتے ہیں۔ وہ سخت ہدایات کے تحت کام کرتے ہیں تاکہ بیرونی ذرائع سے شامل ہونے والی غلط معلومات یا تعصب سے بچ سکیں۔
ان سمارٹ نیوز انٹرفیسز کی نمایاں مثالوں میں فلپائن میں ریپلر کا راے ٹول، فنانشل ٹائمز کا آسک ایف ٹی، فوربز کا ایڈیلیڈ چیٹ اور آسک دا پوسٹ اے آئی شامل ہیں۔
(نوٹ: یہ دا وال اسٹریٹ جرنل، بلومبرگ اور یاہو نیوز جیسے نیوزرومز کے متعارف شدہ خبروں کا خلاصہ کرنے والے اے آئی ٹولز سے مختلف ہیں۔ وہ ٹولز قارئین کے سوالات کے جواب نہیں دیتے بلکہ مصروف قارئین کو ایک ٹیب پر کلک کرکے خبر کے اے آئی سے بنائے گئے بلٹ پوائنٹس جاننے میں مدد دیتے ہیں۔)
ان تمام چیٹ بوٹ ٹولز کو "تجرباتی” اور غلطی کرنے کے اہل قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ ایل ایل ایمز کے ڈیجیٹل ڈھانچے پر بنے ہوئے ہیں جو تعصب، غلطی اور "ہیلوسینیشنز یعنی خیالی باتوں” کے لیے بدنام ہیں۔
لیکن چونکہ وسیع تر انٹرنیٹ تلاشوں میں گمراہ کن معلومات، غلط حوالہ جات، بے ماخذ آراء اور جانبداری جیسے مسائل پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ (چیٹ بوٹس) ایک اعلیٰ مقصد رکھتے ہیں۔ یہ قارئین کو قابلِ اعتماد معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ایسی معلومات جن پر قارئین پہلے ہی اعتماد کرنے کا رجحان رکھتے ہیں کیونکہ وہ اُن معلومات کو نشر کرنے والے میڈیا اداروں کے وفادار ہیں۔
یہ جوابات نیوزروم کے آرکائیو میں موجود مکمل رپورٹ شدہ اور ایڈیٹ شدہ کہانیوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اے آئی چیٹ بوٹس کی ممکنہ خامیوں کے باوجود ماہرین محتاط انداز میں پر امید ہیں کہ یہ چیٹ بوٹس نیوز رومز کو قارئین کی زیادہ شمولیت، نوجوان طبقے تک رسائی اور حتیٰ کہ سبسکرپشن پر مبنی آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کرنے کے کچھ طریقے بتا سکتے ہیں۔
ریپلر کا راے کم خطرے کے حامل تجربے کے طور پر شروع ہوا تھا۔ وہ ریپلر کے ایک چیٹ روم جو کہ قدرے محفوظ جگہ ہے میں فوکس گروپ ڈسکشنز میں اے آئی موڈریٹر کے طور پر شروع ہوا تھا۔ اکتوبر ۲۰۲۴ میں یہ ریپلر کی ایپ پر ایک مزید بہتر ٹول کے طور پر سامنے آیا: خلاصہ کرنے والے ٹول کی بجائے ایک گفتگو کرنے والا بوٹ۔ یہ بوٹ ابھی صرف ریپلر کی ۴۰۰۰۰۰ سے زائد شائع شدہ خبروں اور مصدقہ ڈیٹاسیٹس میں موجود معلومات پر مبنی جوابات دیتا ہے۔ ریپلر کی ڈیجیٹل سروسز کی سربراہ جیما مینڈوزا کے مطابق ان میں ۲۰۱۱ میں ریپلر کے قیام سے شائع ہونے والے ۳۵۰۰۰۰ سے زائد مضامین، اس کے پیش رو نیوز بریک میگزین کی دس سال کی تحقیقاتی خبروں اور فلپائن میں پچھلے پنچ قومی اور مقامی انتخابات کے نتائج، امیدواران اور ووٹرز کی فہرستوں کے ڈیٹا سیٹ بھی شامل ہیں۔
مینڈوزا کہتی ہیں کہ راے کو لانچ کرنے کا ایک بنیادی مقصد قارئین کو ریپلر کی موبائل ایپ "ریپلر کمیونٹیز” ڈاؤن لوڈ کرنے اور استعمال کرنے کی ترغیب دینا تھا۔
"سوشل میڈیا نے خبروں کی حقیقتاً ترجیح دینا چھوڑ دیا ہے تو آپ اپنی آڈئینس کو کس طرح متوجہ کریں گے۔ آپ کیسے پائیدار ٹریفک بنائیں گے اور اپنی آڈئینس کو اپنے مواد کے ساتھ تعلق میں رکھیں گے؟” وہ سوال کرتی ہیں۔ "اس تعلق کو قائم رکھنے کا دوسرا طریقہ نیوز لیٹرز ہیں جن کا یہاں فلپائن میں رواج نہیں ہے۔ ہمارے اپنی ایپ کے لیے بہت بلند اہداف ہیں اور راے ہمارے مواد کو زیادہ بامعنی انداز میں پیش کرنے اور اس کے ساتھ تعامل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔”
اس سسٹم کے پیچھے موجود "نالِج گراف” ڈیٹابیس ہر ۱۵ منٹ بعد اپنی پرانی محفوظ شدہ خبروں اور ذرائع کے ڈیٹا سیٹس میں تازہ ترین رپورٹس اور تحقیقات شامل کرتی ہے۔ اور پھر راے ایپ صارفین کو باخبر اور نسبتاً تازہ ترین جوابات متعدد متعلقہ خبروں کے لنکس کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔
"اے آئی کے ساتھ عمومی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہر جگہ سے معلومات لیتا ہےاور ہر نکتے کو ایک جیسا سمجھتا ہے،” مینڈوزا کہتی ہیں۔ "ریپلر میں ہم اپنی خبروں کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ ہم حقائق کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور یہی راے کی بنیاد ہے۔”
لیکن نیوز رومز کے پاس اتنی بڑی ڈیٹا انجینئرنگ ٹیمیں نہیں ہوتیں جیسی کمرشل فراہم کنندگان ان پیچیدہ نظاموں کو سنبھالنے کے لیے بھرتی کرتے ہیں۔ نیوز روم کے گفتگو کرنے والے بوٹس کے اس تجرباتی دور میں میں ناکامیاں اب بھی عام ہیں۔ مثال کے طور پر جولائی میں کئی ہفتوں تک راے اپنے اپ ڈیٹ فنکشن میں ایک مسئلے کی وجہ سے تازہ ترین خبریں شامل نہیں کر رہا تھا تو کچھ جوابات پرانے مواد پر ہی مبنی تھے۔
مینڈوزا کہتی ہیں کہ ایل ایل ایم کے ڈھانچے پر مبنی ہونے کے باوجود راے کا تازہ ترین اور خصوصی بنوایا ہوا ورژن ایسے جدید اور نہایت سخت حفاظتی اصولوں کی پیروی کرتا ہے جو بیرونی معلومات کو اس کے نتائج میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔
جیسا کہ ایپ کے وضاحتی نوٹ میں لکھا ہے: "یہ دوسرے چیٹ بوٹس کی طرح نہیں ہے جن کے ڈیٹا ذرائع میں کوئی بھی ویب سائٹس شامل ہوتی ہیں اور جن کا مواد لازمی طور پر تصدیق شدہ نہیں ہوتا۔ آپ کچرا اندر ڈالیں گے تو کچرا ہی باہر نکلے گا۔”
"یہ واقعی بات چیت کرتا ہے۔ ہم نے موجودہ ایل ایل ایمز کے اوپر ایک انفراسٹرکچر بنایا ہے۔ یہ غیر جانبدار ہے۔ اس لیے اگر ہمیں ضرورت پڑی تو ہم اسے دوسرے ایل ایل ایمز پر منتقل کر سکتے ہیں۔” انہوں نے وضاحت کی۔ "جوابات شائع شدہ خبروں اور منظم ڈیٹا سے لیے جاتے ہیں۔”
مینڈوزا مزید کہتی ہیں: "ہم ان شعبوں پر توجہ دیتے ہیں جن میں ریپلر واقعی مضبوط ہے جس کی شروعات سیاست سے ہوتی ہے۔”
چیٹ بوٹ کی حدود
صرف "ایف ٹی پروفیشنل” سبسکرائبرز کے لیے دستیاب آسک ایف ٹی جنریٹیو اے آئی ٹول اپنے جوابات فنانشل ٹائمز کے ۲۰۰۴ سے موجود آرکائیو سے لیتا ہے۔
مئی میں کولمبیا جرنلزم سکول کے پروفیسر آف پروفیشنل پریکٹس بل گرویسکِن نے اس چیٹ بوٹ کو آزمایا اور دیکھا کہ اگرچہ اس کے حقائق صحافتی طور پر تصدیق شدہ ہیں لیکن کچھ جوابات جلد ہی اس کے ڈیٹا بیس کی کمیاں ظاہر کر دیتے ہیں، جیسے کہ "یہ ایسے سوالات کا جواب نہیں دے سکتا کہ ۲۰۲۴ میں ٹیسلا نے کتنی گاڑیاں بیچیں؟”
تاہم، اگرچہ وہ خود باقاعدہ اے آئی صارف نہیں ہیں گرویسکِن نے اس چیٹ بوٹ میں کئی فوائد پائے۔
"انٹرفیس سادہ ہے،” وہ کہتے ہیں۔ "ایک باکس ہے جس میں آپ اپنا سوال ٹائپ کرتے ہیں جیسے ’چین/امریکہ تجارتی جنگ پر تازہ ترین معلومات کیا موجود ہیں؟‘ اور چند سیکنڈز میں یہ ایک سوچا سمجھا درست جواب کا خلاصہ پیش کر دیتا ہے، ساتھ ہی فوٹ نوٹس اور ایف ٹی کہانیوں کے لنکس بھی دیتا ہے جن پر اس کا جواب مبنی ہوتا ہے۔”
جی آئی جے این کے ساتھ ایک انٹرویو میں گرویسکِن کہتے ہیں کہ نیوز روم کا اے آئی ماڈل خبروں میں شمولیت، بہتر طور پر باخبر عوام اور کہیں زیادہ مؤثر آرکائیو تلاش کرنے کا ایک عاجزانہ وعدہ کرتا ہے۔
"مجھے یہ خیال عمومی طور پر پسند آیا ہے،” وہ وضاحت کرتے ہیں۔ "ایک وجہ یہ ہے
کہ زیادہ تر خبروں کی ویب سائٹس کے
سرچ انجن ناقص ہیں۔ حتیٰ کہ بڑے ادارے بھی: وہ آپ کو خراب نتائج دیتے ہیں۔ وہ آپ کو تاریخ کے لحاظ سے چھانٹنے نہیں دیتے۔ مجھے کہیں بہتر نتائج اس وقت ملتے ہیں جب میں سرچ ٹرمز کو گوگل میں ڈال کر ساتھ ‘site:nytimes.com’ لکھ دیتا ہوں۔ اگر اے آئی اس تجربے کو بہتر بنا دے اور جوابات ایک بنیادی ڈیٹا بیس سے آئیں جس میں ایسی ایڈٹ شدہ خبریں شامل ہوں جو پہلے شائع ہو چکی ہیں اور اگر رپورٹر نے کوئی غلطی کی تھی تو اس کی بعد کی اصلاح بھی موجود ہو تو یہ بہترین ہے۔”
انہوں نے مزید کہا: "یہ اس صورت میں ہے جب آپ یہ کام اس طرح کر سکیں کہ اے آئی خیالی اقتباسات اور من گھڑت حقائق شامل نہ کرے۔”
ہارورڈ کینیڈی اسکول میں پبلک انٹرسٹ ٹیک لیب کی سربراہ ڈاکٹر لاٹانیا سوینی کہتی ہیں کہ نیوز روم چیٹ بوٹس کے ساتھ ایک ممکنہ مسئلہ یہ ہے کہ محدود ڈیٹا بیس کے علاوہ یہ اے آئی پروگرام ماضی کی کوریج کی بنیاد پر غیر ارادی طور پر گمراہ کن جوابات دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سرکاری شعبے کے بارے میں جوابات اُس موضوع پر ہونے والے تنازعات کی معلومات سے بگڑ سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کچھ نیوز روم انٹرفیس ٹولز بالآخر ایک درمیانی راستہ تلاش کر سکتے ہیں جہاں ایک ہی نیوز آرکائیو کی سخت ڈیٹا کی حدود اور وسیع تر انٹرنیٹ جس میں آزاد نیوز رومز کے درمیان آرکائیو تعاون کے درمیان توازن موجود ہو۔
"اگر آپ کی آرکائیو میں مضامین کسی ایک موضوع پر بہت محدود اور مخصوص ہوں اور صرف اس کے ایک حصے پر بات کرتے ہوں تو جواب بھی صرف اسی زاویے سے آئے گا،” وہ وضاحت کرتی ہیں۔ "باہر اس کا زیادہ درست اور بہتر حوالہ جات کے ساتھ جواب موجود ہو سکتا ہے۔ صرف اپنی آرکائیو پر انحصار کرنے ایک سخت فیصلہ ہے۔ اس لیے [اے آئی کے جوابات بنانے کے لیے] معتبر صحافتی آرکائیوز کا ایکو سسٹم بنانا بہت اچھا ہوگا۔”
ماہرین کہتے ہیں کہ بیرونی ویب سائٹس کے خلاف ان کا ڈیجیٹل فائر وال ان اندرونی چیٹ بوٹس کی طرف سے گھڑے ہوئے حقائق کے خطرے کو کافی حد تک کم کرتا ہے لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کرتا۔
رائے سے آنے والے جوابات ریپلر کی عام ادارتی درستگی کی پالیسی کے تحت آتے ہیں۔ قارئین کو چیٹ رومز میں یا ای میل میں کسی بھی ممکنہ غلطی کی نشاندہی کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ ادارہ بیان کرتا ہے: "ہم غلطی کے سبب کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو اصل مواد درست کریں گے۔”
بہت سے صارفین کے لیے نیوز روم چیٹ بوٹس کی سب سے بہتر اور اعتماد پیدا کرنے والی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ بعض اوقات ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں: "میں نہیں جانتا۔” اگر آپ پوچھیں کہ "1922 میں لندن میں سر ہنری ولسن کے قتل کا حکم کس نے دیا تھا؟” تو پوسٹ کا چیٹ بوٹ تسلیم کرتا ہے: “معاف کیجیے، ہم جواب نہیں ڈھونڈ سکے۔” لیکن چیٹ جی پی ٹی اعتماد سے جواب دیتا ہے: "شاید اس کا حکم آئرش آزاد ریاست صوبائی حکومت کے رہنما مائیکل کولنز نے دیا تھا۔” اگرچہ یہ ایک انتہائی متنازعہ اور اختلاف پیدا کرنے والا دعویٰ ایک ایسے واقعے کے بارے میں ہے جس نے آئرش خانہ جنگی کو جنم دیا تھا۔
"اے آئی کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے چاہے اس کے پاس ان کے جواب دینے کے لیے تصدیق شدہ ڈیٹا موجود نہ ہو۔ اس لیے حفاظتی اقدامات ضروری ہیں. مینڈوزا خبردار کرتی ہیں۔ اس لیے رائے جانتا ہے کہ اسے کس طرح کہنا ہے کہ ’میں یہ نہیں جانتا‘۔ اکثر اس لیے کہ اسے اعتماد نہیں تھا کہ وہ سوال کو صحیح طرح سے سمجھ پایا ہے۔”
رائے کے لانچ پر ریپلر کے ہیڈ آف ڈیٹا اینڈ انوویشنز ڈان کیون ہیپل نے کہا کہ یہ قدم غیر منافع بخش نیوز رومز کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہے: "رائے کے ساتھ ہم صرف ایک اور اے آئی ٹول لانچ نہیں کر رہے۔ ہم یہ طے کر رہے ہیں کہ نیوز رومز کس طرح ڈیٹا اور اے آئی کو استعمال کر کے عوامی اعتماد پیدا کر سکتے ہیں۔ رائے کو ریپلر کی صحافتی دیانت کے ساتھ جوڑ کر ہم یہ دکھا رہے ہیں کہ گمراہ کن معلومات کے مقابلے میں اے آئی کو ذمہ داری کے ساتھ سچ کو سہارا دینے کے لیے ضم کیا جا سکتا ہے۔”
جنریٹیو اے آئی کے آنے سے پہلے کچھ تحقیقاتی نیوز رومز نے خبروں کے جوابی انٹرفیس ایسے نظام پر مبنی فراہم کیے تھے جو انٹریکٹو فیصلہ سازی درخت استعمال کرتے تھے۔
ایک نمایاں مثال چلی کا لابوٹ تھا جہاں ۲۰۱۷ سے ۲۰۲۳ کے درمیان صارفین ٹیلی گرام یا فیس بک میسنجر کے ذریعے ٹیبز استعمال کر کے گفتگو کے انداز میں جوابات حاصل کر سکتے تھے جو ان کے اپنے نیوز روم کی رپورٹنگ پر مبنی ہوتے تھے۔ ان ٹیبز میں وہ صحافیوں کے لکھے گئے پہلے سے متوقع سوالات میں سے انتخاب کر سکتے تھے۔
لا بوٹ کی شریک بانی فرانسسکا اسکوک نک کہتی ہیں کہ اس تجرباتی چیٹ بوٹ کی مقبولیت قارئین کی حقائق کے حوالے سے مختصر اور معتبر گفتگو کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے۔
"میرے خیال میں ان [نیوز روم اے آئی] چیٹ بوٹس کی ضرورت سمجھ آتی ہے کیونکہ زیادہ تر وقت لوگوں کے پاس پورے مضامین پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا، لیکن وہ خبروں کے ایک معتبر ادارے سے مخصوص جواب چاہتے ہیں۔ خاص طور پر اگر وہ ادارہ کسی ملک کے موجودہ حالات پر جامع اور مصدقہ معلومات فراہم کرتا ہو جیسے ریپلر،” اسکوک نک کہتی ہیں۔ "لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ ٹولز زبردستی جواب دینے کی بجائے ’مجھے نہیں معلوم‘ کہنے کے قابل ہوں۔ چیٹ بوٹس خبروں کے مقابلے میں ایک جذباتی تعلق پیدا کر سکتے ہیں۔”
اندرونی استعمال اور ترقی
مینڈوزا کہتی ہیں کہ چیٹ بوٹ ریپلر کے رپورٹرز کو خبروں کی تیاری میں بھی مدد کر چکا ہے۔
"ہماری ایڈیٹوریل ٹیم اسے بہت زیادہ استعمال کرتی رہی ہے،” وہ کہتی ہیں۔ "مثلاً ہمارا مذہبی رپورٹر اپنی خبروں کے لیے بنیادی کام خود کرتا ہے لیکن بیک اپ کے طور پر وہ ایسی سیاق و سباق والی خبریں کرتا ہے جنہیں رائے اس کے لیے آسان بناتا ہے، اس لحاظ سے کہ وہ ریپلر کے پہلے سے موجود علم کو یکجا کر دیتا ہے۔”
وہ مزید کہتی ہیں: "رائے کا ایک استعمال یہ ہے کہ یہ ان موضوعات پر مدد کرتا ہے جنہیں آپ ہر وقت نہیں دیکھ رہے ہوتے۔ [سابق صدر] ڈوٹیرٹے کے خفیہ فنڈز پر کئی میراتھن سماعتیں ہوئیں۔ آپ کو اپ ٹو ڈیٹ رہنے کی ضرورت ہے اور آپ راے سے تازہ ترین معلومات پوچھ سکتے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس فنڈز پر کیا خدشات تھے؟ بجٹ کیوں کم کیا گیا؟ خبروں میں نظر آنے والا یہ نیا کردار کون ہے؟ آپ راے سے پوچھ سکتے ہیں۔”
دوسرے نیوز رومز جو اپنے اے آئی چیٹ بوٹس لانچ کرنے پر غور کر رہے ہیں، مینڈوزا خبردار کرتی ہیں کہ صحافیوں کا اس کے ڈیزائن کے مقاصد میں براہِ راست شامل ہونا نہایت ضروری ہے۔
"جی ہاں، آپ کو ڈیٹا انجینئرز اور ڈویلپرز کی ضرورت ہے اور ان ٹولز کو مرحلہ وار متعارف کرانا ہوگا،” وہ وضاحت کرتی ہیں۔ "لیکن یہ بھی اہم ہے کہ انجینئرز کو ہی سارا کام کرنے کے لیے نہ چھوڑ دیا جائے۔ آپ کو انجینئرنگ اور مواد کے درمیان مضبوط انضمام کی ضرورت ہے۔ آپ کو ان بوٹس کی تیاری کے طریقۂ کار میں اداریاتی ذہنیت کی ضرورت ہے۔”
مینڈوزا مزید کہتی ہیں کہ نیوز رومز کو سب سے پہلے ممکنہ چیٹ بوٹ کا مقصد طے کرنا چاہیے اور یہ واضح سمجھ پیدا کرنی چاہیے کہ یہ ٹیکنالوجی کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں کر سکتی۔
"خلاصہ بنانے والے ٹول تو سیدھے سیدھے لگا کر فوراً استعمال کیے جا سکتے ہیں، لیکن گفتگو کرنے والے چیٹ بوٹس ایسے نہیں ہوتے، وہ وضاحت کرتی ہیں۔ ”یہ بہت اہم ہے کہ وہاں گارڈ ریل آرکیٹیکچر موجود ہو ورنہ وہاں چیزیں گھڑ لینے کا امکان موجود ہو سکتا ہے۔”
روان فلپ جی آئی جے این کے عالمی رپورٹر اور امپیکٹ ایڈیٹر ہیں۔ وہ جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز کے سابق چیف رپورٹر ہیں۔ وہ دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک سے خبروں، سیاست، بدعنوانی اور تنازعات پر رپورٹنگ کر چکے ہیں۔ اور وہ برطانیہ امریکہ اور افریقہ میں نیوز رومز کے لیے اسائنمنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔


