

Ilustración: Nodjadong Boonprasert para GIJN
نجی اور سرکاری ملکیتی کمپنیاں
فوسل فیول کمپنیاں جن میں سے کچھ نے دہائیوں تک عوام میں ماحولیاتی ہنگامی صورتحال سے متعلق غلط معلومات پھیلائی ہیں، اب خود کو عالمی ماحولیاتی رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
بڑی نجی کمپنیاں جیسے کہ ایکسن، شیل، بی پی اور شیورون اور ریاستی ملکیتی کمپنیاں جیسے سعودی آرامکو، برازیل کی پیٹروبراس اور ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (اے ڈی این او سی) نے حالیہ برسوں میں کارپوریٹ سسٹین ایبیلیٹی کے منصوبے متعارف کرائے ہیں جن میں وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ 2050 تک دنیا کو "نیٹ زیرو” کاربن اخراج کے ہدف کے حصول میں مدد دیں گی۔ اس ہدف میں انسانوں کی جانب سے خارج کردہ گرین ہاؤس گیسوں کا خاتمہ یا ان کے اثرات کو زائل کرنا شامل ہے۔
ان بڑے بڑے دعووں کے ساتھ کئی وعدے بھی کیے گئے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی تیل اور گیس پیدا کرنے والی کمپنیاں کہتی ہیں کہ وہ نیٹ زیرو حاصل کرنے کے لیے اپنے ادارہ جاتی کاربن اخراج کو کم کریں گی یا اس کا ازالہ کریں گی، قومی معیشتوں کو کوئلے کے انحصار سے نکالیں گی، کاربن کی مقدار کو کم کرنے کے لیے "کاربن کیپچر” جیسے طریقے اپنائیں گی، میتھین کے اخراج کو ختم کریں گی اور فوسل فیول کی پیداوار اور نکالنے کے عمل کی کاربن شدت کو کم کریں گی۔
یہ وعدوں، دعووں اور عبوری اہداف کی ایک چکرا دینے والی فہرست ہے اور ان میں سے تقریباً سبھی رضاکارانہ طور پر کیے گئے ہیں۔ ایک پرانی ڈیٹا تجزیاتی تنظیم انرجی انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی ہنگامی صورتحال کے مرکز میں موجود اس صنعت کے ان بلند اہداف کے باوجود دنیا بھر میں فوسل فیولز کا استعمال اور توانائی سے جڑے مضر گیسوں کے اخراج 2023 میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے تھے۔ ایسے لگتا ہے کہ کارپوریٹ سطح پر بنائی گئی ماحولیاتی حکمتِ عملیاں اب تک ان عملی اقدامات میں نہیں ڈھل سکیں جو زمین کو خطرناک حد تک گرم ہونے سے بچانے کے لیے ناگزیر ہیں۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ صحافی فوسل فیول انڈسٹری کے ماحولیاتی منصوبوں اور اس کی حقیقی کاروباری پالیسیوں کے درمیان فرق کو عوام کے سامنے لائیں۔ اگر کوئی کمپنی مضر گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے جراتمندانہ اقدامات کے وعدے کر رہی ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ فوسل فیولز کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر اضافے کا منصوبہ بھی بنا رہی ہو تو قارئین کو یہ بتانا حقیقتاً درست ہو گا کہ اس کمپنی کے ماحولیاتی منصوبے میں سنجیدہ مسائل موجود ہیں۔ اس رہنما کتاب کا یہ باب وضاحت کرے گا کہ ایسا کیوں ہے۔
سب سے بڑھ کر صحافیوں کو تیل اور گیس پیدا کرنے والی کمپنیوں کی ماحولیاتی دعوؤں پر غیرمعمولی حد تک شکوک و شبہات رکھنے چاہئیے۔ انفلوئنس میپ کی جانب سے شائع کردہ 2024 کاربن میجرز ڈیٹا بیس کے مطابق شیل فوسل فیول پیدا کرنے والی 10 بڑی گرین ہائوس گیسوں کا اخراج کرنے والوں میں شامل ہے۔ یہ اس حوالے سے ایک شاندار مثال ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی عام عوام کے لیے ایک جانا پہچانا موضوع بننے سے بہت پہلے شیل اس موضوع پر تحقیق کے لیے امداد فراہم کر رہا تھا۔ اس نے 1972 میں یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا میں کلائمیٹک ریسرچ یونٹ کے قیام میں مدد کی تھی اور 1988 میں ایک خفیہ رپورٹ شائع کی تھی جس میں اس نے خود اپنے عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں کردار کو مقداری طور پر بیان کیا تھا۔شیل کی امریکی شاخ شیل آئل 1989 سے 1998 کے درمیان ایک انڈسٹری گروپ گلوبل کلائمٹ کوآلیشن کی رکن تھی۔ یہ گروہ امریکی عوام کو یہ قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی ایک غیر مصدقہ سائنسی مفروضہ ہے۔ یوں وہ اس خطرے کی شدت کو کم دکھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ بعد ازاں شیل نے ان ہتھکنڈوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور پچھلی دو دہائیوں سے خود کو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں ایک "نیک نیتی پر مبنی” شراکت دار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی ان کوششوں کی انتہا 2020 میں اس اعلان پر ہوئی کہ وہ 2050 تک ایک نیٹ زیرو کاربن کمپنی بن جائے گا۔ تاہم، فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں شیل نے اپنی نیٹ زیرو حکمت عملی پر نظرِ ثانی کی تھی اور 2030 کے لیے طے کردہ کاربن شدت کے ہدف کو کمزور کر دیا تھا۔ اسی سال اس نے سرمایہ کاروں کو بتایا کہ وہ قدرتی گیس کے کاروبار کو وسعت دے گی۔ کمپنی کے سی ای او، وائل سوان، نے دلیل دی تھی کہ یہ تبدیلیاں ماحولیاتی اہداف کے حصول کو "کم نہیں بلکہ زیادہ ممکن” بنائیں گی۔ ماحولیاتی تنظیموں نے ان کے اس موقف کی شدید تنقید کی تھی۔
دیگر تیل اور گیس پیدا کرنے والی کمپنیوں کی بھی یہی کہانی ہے۔ وہ دنیا کی صنعتی آلودگی کے بڑے حصے کی ذمہ دار ہیں۔ پہلے تو زیادہ تر تیل اور گیس کمپنیوں نے ماحولیاتی ایمرجنسی کو رد کیا، نظر انداز کیا یا اس کا انکار کیا۔ پھر حالیہ برسوں میں انہوں نے ماحولیاتی تحفظ سے متعلق کچھ بلند و بانگ دعوے کیے۔ اور اب ان وعدوں کے باوجود یا شاید انہی کی وجہ سے ان کی فوسل فیولز کی پیداوار نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ اس باب میں چند عملی طریقے اور ڈیٹا کے ذرائع فراہم کریں گے جو صحافیوں کو اس صنعت کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق رویے کو سمجھنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ ہم آپ کو دکھائیں گے کہ کسی ایک کمپنی کے ماحولیاتی منصوبوں کے بارے میں تفصیلی معلومات کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں، کارپوریٹ سطح پر مضر گیسوں کے اخراج کے وعدوں کا تجزیہ کیسے کیا جائے اور آپ کو ایک موضوع جو کبھی کبھار بہت پیچیدہ نظر آ سکتا ہے، کے بارے میں مؤثر اور واضح کہانی سنانے کے انداز کی مثالیں دکھائیں گے۔
کارپوریٹ ماحولیاتی وعدے کہاں تلاش کریں
ڈرلڈ اور دیگر ذرائع کے مطابق تیل و گیس کی کمپنیاں مارکیٹنگ اور اشتہارات کے میدان میں ماہرین میں سے ایک ہیں۔ اسی وجہ سے آپ جب بھی کسی کمپنی کے ماحولیاتی منصوبے کی تحقیق کر رہے ہوں تو سب سے پہلے یہ بات سمجھیں کہ وہ منصوبہ عوام کے سامنے کس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے آسان نقطۂ آغاز کسی فوسل فیول کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود "سسٹین ایبیلیٹی یا پائیداری” کے حصے پر جانا ہے۔ یہ آپ کو کمپنی کے بنیادی وعدوں اور اہداف کے متعلق معلومات دے گا۔ کمپنی کی ویب سائٹس پائیداری کی ویب سائٹس سے بھی منسلک کرتی ہیں، جن میں مزید تفصیلات ہوتی ہیں جیسے کہ قانونی کیسوں کی معلومات۔ آگے، یہ جاننا اہم ہو سکتا ہے کہ ایک کمپنی اپنی اشتہاری مہم میں اپنے ماحولیاتی منصوبے کے کن پہلوئوں پر زور دے رہی ہے۔ اس کے لیے ایک مؤثر ذریعہ گوگل کا ایڈ ٹرانسپرینسی سینٹر ہے۔ اگر آپ ایک ملک کا انتخاب کریں اور کسی ایک فوسل فیول کمپنی کا نام تلاش کریں تو وہ آپ کو گوگل پر اس کمپنی کے اشتہارات کی حالیہ مثالیں دکھائے گا۔ اس تحقیق کے لیے ایک اور مفید ذریعہ فیس بک کی ایڈ لائبریری ہے جو فیس بک پر چلنے والی اشتہاری مہمات کی تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے۔
یہ جاننا کہ کوئی کمپنی اپنے ماحولیاتی وعدوں کو عوام کے کیسے سامنے کیسے پیش کر رہی ہے، آپ کی خبروں کے لیے ایک اہم آغاز ہو سکتا ہے۔ آپ اس ابتدائی تحقیق سے سیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایکسون نے اپنے "کم کاربن ہائیڈروجن” کے منصوبے کو فروغ دیا یا بی پی امریکہ نے کاربن کیپچر اینڈ سٹوریج کے متعلق اشتہارات بنائے۔ اب آپ ان ،منصوبوں پر بڑے سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ یہ کمپنی ایک ماحولیاتی حل کو دوسرے پر کیوں ترجیح دے رہی ہے؟ وہ کس چیز پر زور نہیں دے رہی؟ اسے مالیاتی طور پر کیا حاصل کرنا ہے؟ اس کی مارکیٹنگ کی خصوصیات جاننا بھی آپ کو آپ کی تحقیق میں مزید باریک بین ہونے میں مدد دے سکتا ہے۔ کمپنی اپنے ترجیحی حل کے لیے کس قسم کے وسائل صرف کر رہی ہے؟ اور کیا اس حوالے سے وہ آگے بڑھ رہی ہے؟
کارپوریٹ وعدوں کی گہرائی سے تحقیق کیسے کریں
فوسل فیول کمپنیاں اپنے ماحولیاتی وعدوں کو عوام کے سامنے اکثر وسیع، مبہم اور پرامید انداز میں پیش کرتی ہیں۔ لیکن چونکہ ان منصوبوں کے مالیاتی اور پالیسی اثرات ہوتے ہیں، اس لیے کمپنیوں کو سرمایہ کاروں اور ریگولیٹری اداروں کے ساتھ معاملات کرتے وقت کہیں زیادہ مخصوص ہونا پڑتا ہے۔ ان مواصلاتی پیغاموں تک رسائی آپ کو کارپوریٹ وعدوں کی اصل نوعیت کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتی ہے—مثلاً وہ وعدے کتنے مکمل ہیں، ان کی مدت کیا ہے اور مضر گیسوں کے اخراج کس طرح کم ہوں گے۔ اس سلسلے میں ایک بہترین نقطہ آغاز کاربن ڈسکلوئیر پراجیکٹ (جو اب سی ڈی پی کے نام سے جانا جاتا ہے) ہے۔ یہ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو کئی دہائیوں سے بڑی کمپنیوں، شہروں اور خطوں کی ماحولیاتی رپورٹس کو محفوظ اور جانچتا چلا آ رہا ہے۔
یہ ایک آن لائن ڈیٹا بیس رکھتا ہے جہاں کمپنیاں رضاکارانہ طور پر اپنی رپورٹس جمع کرواتی ہیں جن میں وہ انہیں درپیش ماحولیاتی خطرات، فعال داخلی ماحولیاتی اہداف، ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ان کی ترقی اور ان کے حقیقی کاربن اخراج سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ سی ڈی پی کے مطابق کمپنیاں ایسا کئی قسم کی وجوہات کی بنیاد پر کرتی ہیں جن میں اپنی ساکھ کو محفوط رکھنا اور بہتر بنانا اور سرمائے تک رسائی حاصل کرنا ہے۔
ان رپورٹس کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو پہلے سی ڈی پی کے ساتھ رجسٹرہونا پڑے گا اور پھر آپ کمپنی کے نام سے تلاش کر سکتے ہیں۔ ہر کمپنی کی رپورٹ کو سی ڈی پی ایک درجہ دیتی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کمپنی نے کتنی معیاری اور جامع معلومات عوام کے لیے فراہم کی ہیں اور اس کے ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لیے اس کی کارپوریٹ کوششیں کیا ہیں۔ صحافی ان درجہ بندیوں کی درستگی اور دیانت داری پر معقول حد تک اعتماد کر سکتے ہیں کیونکہ سی ڈی پی ایک خودمختار ادارہ ہے جس کی درجہ بندی کا طریقہ کاربین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ماحولیاتی رپورٹنگ کے معیارات کے مطابق ہے۔ اگرچہ سی ڈی پی پر پروفائلز بنیادی طور پر نجی کمپنیوں کے لیے ہیں لیکن اس ڈیٹا بیس میں پیٹروبراز اور ملائیشیا کی پیٹروناز جیسی ریاستی ملکیتی کمپنیوں کی رپورٹس بھی شامل ہیں۔ آپ جس کمپنی پر تحقیق کر رہے ہیں اسے اس ڈیٹا بیس میں تلاش کریں۔ ہو سکتا ہے آپ سامنے آنے والے نتائج سے حیران ہوں۔
اکثر اوقات آپ ایک متاثر کن کہانی صرف اس تضاد کو اجاگر کرکے بھی بنا سکتے ہیں جو کسی تیل و گیس کمپنی کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق عوامی دعوؤں اور اس کی سی ڈی پی رپورٹس میں موجود تفصیلات کے درمیان پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سنکور پاتھ ویز الائینس نامی ایک کینیڈین صنعتی گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ پاتھ ویز الائینس میں ملک کے چھ بڑے آئل سینڈز پیدا کرنے والے ادارے شامل ہیں۔ آئل سینڈز پیٹرول کی کاربن سے بھری ہوئی شکل ہے۔ کئی سالوں سے پاتھ ویز دس سالوں میں کینیڈین آئل سینڈز صنعت سے سالانہ 2 کروڑ 20 لاکھ ٹن کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے منصوبے کو فروغ دے رہا ہے۔ لیکن اس باب کے مصنف نے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق میڈیا ادارے ڈی سموگ کے لیے سنکور کی ایک سی ڈی پی رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے دریافت کیا، سنکور "آئندہ 5 سے 10 سالوں میں ہماری خام تیل اور ریفائنڈ مصنوعات کے لیے نئی بین الاقوامی مارکیٹ” کی فعال طور پر تلاش کر رہا ہے اور سرمایہ کاروں کو یقین دلا رہا ہے کہ اگر شمالی امریکہ میں تیل کے متبادل صاف ذرائع مقبول ہو جاتے ہیں تو کمپنی کی فوسل فیول مصنوعات کو "آسانی سے عالمی منڈیوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔” یہ اہم ہے کیونکہ سنکور کینیڈا کی دوسری سب سے بڑی تیل پیدا کرنے والی کمپنی ہے۔ اپنے ملک میں مضر گیسوں کے اخراج کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کے ساتھ بیرونِ ملک اپنے ماحولیاتی اثرات کو بڑھانا، سنکور کے پاتھ ویز کے ماحولیاتی منصوبے کی اس کے ماحولیاتی وعدوں کی ساکھ پر سنجیدہ سوال اٹھاتا ہے۔ سنکور اور پاتھ ویز الائینس نے ڈی سموگ کے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
سی ڈی پی رپورٹس کو استعمال کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ کمپنی کی طرف سے مضر گیسوں کے اخراج کی رپورٹس کا تجزیہ کرنے کے لیے اس کی مختلف سالوں کی رپورٹس کا باہم موازنہ کیا جائے۔ بعض اوقات کمپنیاں اپنے کارپوریٹ کاروبار اور آپریشن کے مختلف پہلوئوں سے مضر گیسوں کے اخراج کے متعلق مخصوص اعداد و شمار فراہم کرتی ہیں۔ پرو پبلکا اور دا آریگونئین/آریگون لائیو کی مشترکہ تحقیق نے اسی طریقہ کار کی مدد سے نائیکی کی فوسل فیول سے جڑے مضر گیسوں کے اخراج پر ایک زبردست رپورٹ تیار کی تھی۔ آنے والے سالوں میں کپڑوں کی بڑی کمپنی نے ڈیٹا ظاہر کیا جس نے دکھایا کہ کارپوریٹ جیٹس سے اس کے اخراج میں نمایاں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس تحقیق کے نتیجے میں بننے والی خبر کا عنوان تھا "نائیکی کی قیادت کے ماحولیاتی اقدامات کے بعد اس کے کارپوریٹ جیٹس اُڑتے رہے اور آلودگی پھیلاتے رہے۔” کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ جیٹس "پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں اور اعلیٰ افسران کی سیکیورٹی ضروریات پوری کرتے ہیں۔” جہاں تک کاربن آلودگی کی بات ہے، کمپنی نے کہا کہ وہ "نائیکی کی سب سے زیادہ اثر ڈالنے والی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے” جو کہ اس کے کپڑوں اور جوتوں کے لیے درکار مال کی پیداوار ہے۔
جب آپ فوسل فیول کمپنیوں کی رپورٹس کا جائزہ لیں تو دیکھیں کیا آپ ان کے عوام کے لیے جاری کردہ اعداد و شمار میں کوئی اہم رجحان ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اگر ایک تیل اور گیس کی کمپنی کے کاروبار کے کسی مخصوص عنصر سے باوجود اس کے ماحولیاتی وعدوں کے مضر گیسوں کے اخراج نمایاں طور پر بڑھ رہے ہیں تو یہ ایک اچھی خبر بن سکتی ہے۔مثال کے طور پر دا گارڈئین اور فلڈ لائٹ نے ایکسون موبل کے متعلق 2021 کی ایک تحقیق میں رپورٹ کیا کہ کمپنی گویانا میں قدرتی گیس کو بڑے پیمانے پر جلا رہی تھی جس کے نتیجے میں 770,000 میٹرک ٹن گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہو رہا تھا۔ یہ کمپنی کے حکومت سے اس وعدہ کے برعکس تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ اس کام کو ختم کرے گی۔ ایکسن سے جب خبر کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ "ہمارا کام اور حکومتِ گویانا کی حمایت ایک طویل مدتی باہمی فائدے پر مبنی تعلق کی بنیاد ہیں جس نے گویانا کے عوام کے لیے پہلے ہی خاطر خواہ قدر پیدا کرنا شروع کر دی ہے۔”
ایسی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے کمپنیاں ایک جانب ماحولیاتی وعدے کرتی ہیں اور دوسری جانب انہی وعدوں کی خلاف ورزی کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو صحافیوں کے لیے تحقیقی امکانات کے دروازے کھولتی ہے۔
مضر گیسوں کے اخراج میں کمی کی مختلف اقسام کو سمجھنا
جب آپ کسی کمپنی کے ماحولیاتی پائیداری منصوبے کا جائزہ لیں تو یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کمپنی کس قسم کے مضر گیسوں کے اخراج پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ہر ایک کو بغور دیکھنا چاہیے۔
ایک کمپنی کے مضر گیسوں کے اخراج کو تین وسیع اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- اسکوپ 1 اخراج سے مراد وہ گرین ہاؤس گیسز ہیں جو کمپنی کی اپنی سرگرمیوں کے نتیجے میں خارج ہوتی ہیں۔ اس کی مثال کمپنی کے ڈرلنگ رِگز اور ٹرانسپورٹ ٹرکوں سے نکلنے والے دھواں ہے۔
- اسکوپ 2 اخراج وہ بلاواسطہ اخراج ہوتے ہیں جو کمپنی کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ وہ بجلی سے پیدا ہونے والے اخراج ہو سکتے ہیں جو کمپنی اپنے آئل ریفائنری میں روشنی کے لیے خریدتی ہے۔
- اسکوپ 3 کے اخراج اُن صورتوں سے پیدا ہوتے ہیں جب صارفین کسی کمپنی کے تیار کردہ حیاتیاتی ایندھن کو استعمال کرتے اور جلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب بھی آپ پیٹرول سے چلنے والی گاڑی چلاتے ہیں تو آپ اپنی گاڑی کے سائلنسر سے اسکوپ 3 کے اخراج کر رہے ہوتے ہیں۔
مختلف اسکوپس اور ان کے مفہوم کا ایک جامع اور آسان جائزہ لینے کے لیے توانائی کے مصنف ڈیوڈ رابرٹس اور غیر منافع بخش تنظیم سیریس کی لاورا ڈراکَر کے درمیان ہونے والی گفتگو دیکھیں۔
ان فرق کو جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ تقریباً تیل اور گیس کی تمام صنعت کے ماحولیاتی منصوبے اسکوپ 3 کے بجائے اسکوپ 1 اور 2 کے اخراج پر توجہ دیتے ہیں۔ یہ ایک سنگین نظر اندازی ہے کیونکہ صنعت کے ماہرین جیسے ڈیٹا اینالٹکس کمپنی ووڈ میکینزی کے مطابق تیل اور گیس کی کمپنی سے منسلک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا 95 فیصد تک حصہ اسکوپ 3 میں آتا ہے۔لہٰذا جب کوئی تیل یا گیس کی کمپنی “نیٹ زیرو” حاصل کرنے یا مضر گیسوں کے اخراج کم کرنے والے دیگر وعدے کرتی ہے تو یہ دیکھیں کہ وہ اخراج کی کن اقسام کی بات کر رہی ہے۔ ایک منصوبہ جو محض کمپنی کے آپریشنل اخراج (اسکوپ 1 اور 2) کو کم کرتا ہے جبکہ اس کی مصنوعات کے جلنے سے پیدا ہونے والے اخراج کو کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا تو وہ منصوبہ کمپنی کو مجموعی طور پر اس کی کاربن آلودگی بڑھانے کی اجازت دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر مجموی طور پر زیادہ تیل اور گیس کو بیچ کر جبکہ پیداواری عمل کو قدرے صاف بنا کر ماحولیاتی بہتری حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
اسکوپ 3 کے اخراج کی پیمائش بلاشبہ اسکوپ 1 اور 2 کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں طویل اور پیچیدہ عالمی سپلائی چینز کا حساب شامل ہوتا ہے۔ اس میں ایسے عوامل بھی ہوتے ہیں جو ایک فوسل فیول کمپنی کے دائرہ اختیار سے باہر ہو سکتے ہیں جیسے کسی مخصوص ملک یا ریاست میں گاڑیوں کی فیول مائلیج کے لیے سخت یا نرم قوانین کا نفاذ ہو سکتا ہے۔ تاہم، فوسل فیول کمپنیوں نے ان مشکلات سے نبٹنا شروع کر دیا ہے جیسا کہ گزشتہ چند سالوں میں متعدد بڑی یورپی تیل و گیس کمپنیوں کی طرف سے اسکوپ 3 اہداف مقرر کرنے کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے۔ البتہ ان اہداف کو حقیقت میں حاصل کرنے کی پیش رفت اب تک مشکل رہی ہے۔ اسکوپ 3 کے اخراج کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، اس پر جاری بحث رپورٹنگ کے لیے ایک اہم موضوع بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، فروری 2024 میں جب ایک تیل و گیس کمپنی کے نمایاں ایگزیکٹو نے صارفین کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ پٹرول کے اخراج سے آگاہ نہ ہیں اور ان اخراج کو کم کرنے سے متعلقہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تو دا گارڈئین نے اس معاملے پر رپورٹ کی تھی۔ انہوں نے اس میں کولمبیا بزنس اسکول کے ماحولیاتی ماہرِ معیشت، جرنوٹ ویگنر کا حوالہ دیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ "یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی منشیات فروش اپنے علاوہ سب کو منشیات کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرائے۔”
اگر کوئی کمپنی واقعی اپنے کاروبار کے اسکوپ 3 ماحولیاتی اثرات کو حل کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنے پورے کاروباری ماڈل کی ازسرِ نو تشکیل دے گی۔ ڈیٹا اینالٹکس کمپنی ووڈ میکنزی نے چند ابھرتے ہوئے طریقوں کی نشاندہی کی ہے جن کے ذریعے کمپنیاں اسکوپ 3 کے اخراج سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہیں جن میں "قابلِ تجدید توانائی اور کم اخراج والے ایندھن کی طرف جارحانہ منتقلی” شامل ہیں۔ لہٰذا عمومی طور پر یہ سمجھنا درست ہے کہ اگر کسی کمپنی کے منصوبے کے نتیجے میں فوسل فیول کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے تو وہ منصوبہ ماحولیاتی تبدیلی کے بنیادی اسباب، یعنی تیل، گیس اور کوئلے پر انحصار کرنے والی عالمی معیشت کو حل کرنے کی کوئی مؤثر کوشش نہیں کر رہا۔ جیسا کہ آپ آگے اس باب میں دیکھیں گے، تیل اور گیس کمپنیوں کے ماحولیاتی منصوبے جو صرف اسکوپ 1 اور اسکوپ 2 کے اخراج پر توجہ دیتے ہیں ماحولیاتی بحران کو بد تر بنا سکتے ہیں۔
جیسے یہ سب پہلے ہی پیچیدہ نہیں تھا، صحافیوں کو اس پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ کمپنیاں کس قسم کے اخراج میں کمی کے وعدے کر رہی ہیں۔ اکثر جب کمپنیاں رضاکارانہ طور پر ماحولیاتی اہداف مقرر کرتی ہیں تو یہ اہداف مجموعی اخراج میں کمی کی بجائے اخراج کی شدت میں کمی سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ ایک اہم فرق ہے۔ کاربن شدت سے مراد کسی کمپنی کی پیداوار اور اس کے اخراج کے درمیان تناسب ہوتا ہے۔ تو اگر کوئی تیل کمپنی ہر بیرل تیل پیدا کرنے پر X مقدار میں اخراج کرتی ہے اور پھر اس عمل کو زیادہ مؤثر بناتی ہے تو اس کی کاربن شدت میں کمی واقع ہو گی۔ لیکن اگر وہ کمپنی اسی مدت میں زیادہ بیرل تیل پیدا کرتی ہے تو اس کے مجموعی مضر گیسوں کے اخراج درحقیقت بڑھ سکتے ہیں۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے لندن اسکول آف اکنامکس کی اس پوسٹ کا مطالعہ کریں۔
جب کوئی کمپنی صرف ایک شدت کا ہدف مقرر کرتی ہے تو یہ تحقیق کا ایک اہم پہلو بن سکتا ہے۔ کیونکہ اگر کمپنی مزید اضافی اقدامات نہ کرے تو اس کے نتیجے میں اس کے مجموعی مضر گیسوں کے اخراج بڑھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کمپنی 2030 تک اپنی کمپنی میں گرین ہاؤس گیس کی شدت میں 20 سے 30 فیصد تک کمی حاصل کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو اس کے صرف اسکوپ 1 اور اسکوپ 2 کے اخراج پر لاگو ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بیرل تیل کی پیداوار کا عمل 30 فیصد تک زیادہ صاف ہو جائے گا۔ لیکن بیرل کی کل تعداد جو ایک کمپنی پیدا کرتی ہے، اس پر کوئی حد نافذ نہیں ہے۔ اور کمپنیں تیل کے نئے ذخائر پر کام کرتی رہتی ہیں۔ اس اضافی تیل کو جلانا ماحولیاتی تبدیلی کو مزید بڑھائے گا چاہے اس کی پیداوار کا عمل ماحولیاتی طور پر نسبتاً کم نقصان دہ کیوں نہ ہو۔
حکومتوں کو جمع کروائے گئے دستاویزات تلاش کریں
ان تفصیلات کو سمجھنے میں مدد حاصل کرنے کے لیے کسی کمپنی کی حکومتی اور ریگولیٹری اداروں کو جمع کروائی گئی سرکاری دستاویزات کو دیکھنا مفید ہو سکتا ہے۔
اگر آپ کسی سرکاری ملکیتی کمپنی کی تحقیق کر رہے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے آبائی ملک میں ریگولیٹرز یا پالیسی سازوں کے ساتھ اپنی ماحولیاتی وعدوں کے بارے میں معلومات ظاہر کرے گی۔ ایک اور طریقہ یہ دیکھنا ہے کہ آیا اس سرکاری کمپنی کی کوئی بین الاقوامی ذیلی کمپنی موجود ہے، مثال کے طور پر امریکہ میں۔
بعض اوقات، یہ جاننا نہایت اہم ہوتا ہے کہ کمپنیاں نئی ماحولیاتی قانون سازی پر سماعتوں کے دوران اپنے بیانات میں کیا کہتی ہیں۔ اگر کوئی ممکنہ قانون فوسل فیول انڈسٹری کو متاثر کر رہا ہو تو امکان ہے کہ کمپنیاں یا ان کی تجارتی تنظیمیں عوام کے لیے دستیاب تفصیلی تبصرے فراہم کریں گی۔ ایک اور مثال یہ ہو سکتی ہے کہ کمپنی کے نمائندوں کی سرکاری انکوائریوں میں دی گئی تقاریر کا تحریری ریکارڈ یا نئے منصوبوں کے لیے ماحولیاتی منظوری حاصل کرنے کے لیے دی گئی درخواستیں دیکھی جائیں۔ بعض اوقات، یہ دستاویزات حکومتی ویب سائٹس پر کمپنی کے نام سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔ فریڈم آف انفارمیشن کی درخواستیں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
انہیں تلاش کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ مجوزہ قومی یا صوبائی سطح کے ماحولیاتی قوانین پر عوامی مباحثوں کے ریکارڈ تلاش دیکھے جائیں۔ بعض اوقات یہ دستاویزات کمپنی یا تجارتی گروپ کی ویب سائٹ پر "نیوز روم” یا "میڈیا” کے حصے میں عوام کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔
اگر آپ کسی سرکاری ملکیتی کمپنی کی تحقیق کر رہے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے آبائی ملک میں ریگولیٹرز یا پالیسی سازوں کے ساتھ اپنی ماحولیاتی وعدوں کے بارے میں معلومات ظاہر کرے گی۔ ایک اور طریقہ یہ دیکھنا ہے کہ آیا اس سرکاری کمپنی کی کوئی بین الاقوامی ذیلی کمپنی موجود ہے، مثال کے طور پر امریکہ میں۔ یہ ذیلی کمپنی اپنے ملک کے مقابلے میں جہاں اس کا ہیڈ کوارٹر واقع ہے، زیادہ عوامی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔
حکومتوں اور ریگولیٹرز کو جمع کروائے گئے دستاویزات رپورٹرز کے لیے قیمتی وسائل ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ زیادہ تر خطوں میں جہاں تیل اور گیس کی کمپنیاں کام کر رہی ہوتی ہیں، وہاں کسی قسم کا قانون قومی یا صوبائی ماحولیاتی ہدف نافذ ہوتا ہے۔ اپنی دستاویزات میں کمپنیاں عموماً پالیسی سازوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ان کےرضاکارانہ ماحولیاتی منصوبے حکومت کے اہداف کے مطابق ہیں۔ بعض اوقات یہ کمپنیاں اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے عوامی ٹیکس کی امداد کی درخواست کرتی ہیں یا ایسی سرکاری پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہیں جو ان کی تیل اور گیس کی پیداوار پر پابندیاں عائد کرتی ہیں۔ یہ رپورٹنگ کے لیے زرخیز میدان ثابت ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر ڈی سموگ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے لیے اس باب کے مصنف نے پاتھ ویز الائینس کی جانب سے کینیڈین حکومت کو جمع کروایا ایک دستاویز دریافت کیا۔ اس دستاویز میں تجویز دی گئی تھی کہ اس کی نیٹ زیرو حکمتِ عملی، جو زیادہ تر اسکوپ 1 اور اسکوپ 2 کے اخراج پر مرکوز ہے، ممکنہ طور پر اسکوپ 3 کے اخراج میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ پاتھ ویز نے جمع کروائے گئے دستاویز میں کہا "جیسے ہمارا شعبہ کاربن سے پاک ہوتا جائے گا، ہم سمجھتے ہیں کہ آئل سینڈز کینیڈا اور دنیا کے لیے توانائی پیدا کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کر سکیں گے۔” یہ اس امکان کی طرف اشارہ تھا کہ کینیڈا کے آئل سینڈز — جنہیں "ٹار سینڈز” بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں بھاری تیل ریت اور دیگر مواد کے ساتھ ملا ہوتا ہے — کے لیے صاف پیداوار کا عمل کینیڈا کو زیادہ تیل بیرونِ ملک برآمد کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔ جیسے ڈی اسموگ نے ایک ماحولیاتی کارکن دعویٰے کا حوالہ دیا کہ یہ نتیجہ "ہمارے ماحولیاتی اہداف کے لیے موت کی گھنٹی” ظاہر کرے گا۔
دوسری جانب، امریکہ میں سرکاری طور پر رجسٹرڈ کمپنیوں کی جانب سے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کو جمع کروائے گئے دستاویزات کو تلاش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پر جمع کروائے گئے دستاویزات بھی دیکھیں۔
کمپنی کے توسیعی منصوبوں کی تشخیص کیسے کی جائے
کسی کمپنی کے ماحولیاتی وعدے کی سب سے اہم آزمائش ہے کہ کیا وہ حقیقی طور پر فوسل فیول (تیل و گیس) کی پیداوار پر پابندیاں عائد کر رہی ہے یا نہیں۔ کیا نیٹ زیرو کے وعدے تیل و گیس کی فراہمی کی حکمتِ عملیوں کو متاثر کر رہے ہیں، جانچنے کا بہترین طریقہ اس مواد کا جائزہ لینا ہے جو کمپنیاں اپنے سرمایہ کاروں کو فراہم کرتی ہیں۔
اس مواد تک رسائی کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی کمپنی کی ویب سائٹ پر "انویسٹر ریلیشنز” کے سیکشن پر جائیں۔ یہ بعض اوقات "انویسٹرز” یا اس طرح کے کسی اور نام سے بھی موجود ہوتا ہے۔ وہاں پر عموماً کمپنی سہ ماہی رپورٹس کی پریزنٹیشنز، ارننگ کالز فراہم کی ہوتی ہیں جن میں سرمایہ کار کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں سے توسیعی منصوبوں اور پائیداری سے متعلق فیصلوں پر سوالات کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی کمپنی بڑے پیمانے پر نئی تیل و گیس کی دریافتوں کے وعدے کر رہی ہے تو وہ ایک اہم معلومات ہے جب آپ اس کمپنی کے ماحولیاتی وعدوں پر تحقیق کر رہے ہوں۔ معلومات کا ایک اور اہم ذریعہ بانڈز یا قرضوں کی شرائط سے متعلق دستاویزات ہو سکتے ہیں جن میں فوسل فیول انڈسٹری سے متعلق معاہدوں کی شرائط اورتفصیلات شامل ہوتی ہیں۔
آپ کو صنعت سے متعلق ویب سائٹس پر بھی قیمتی معلومات مل سکتی ہیں۔ اشاعت آئل پرائس ڈاٹ کام پر بہت سا مفید اور معلوماتی مواد موجود ہے اور ایسے ہی ورلڈ آئل پر بھی بہت سا مفت مواد دستیاب ہے۔ آئل اینڈ گیس جرنل جیسے خصوصی میگزین اپنا زیادہ تر مواد پیڈ سبسکرپشن کے بعد پڑھنے دیتے ہیں لیکن بعض اوقات لیگزیس نیکسس جیسے ڈیٹا بیسز کے ذریعے ان تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ آزاد تحقیقاتی ادارے جیسے کہ ریسٹاڈ انرجی بھی مفید ڈیٹا شائع کر رہے ہیں۔ (کمپنی کی ویب سائٹ پر بہت سے مفت مضامین موجود ہیں لیکن ہر کمپنی کا مزید تفصیلی ڈیٹا عموماً مفت نہیں ہے)۔ اس سلسلے میں ایک برطانوی تحقیقاتی اور ڈیٹا کنسلٹینسی ڈیٹا ڈیسک کو بھی دیکھیں۔ یہ ماحولیاتی بحران میں مہارت رکھتی ہے۔ گلوبل انرجی مانیٹر اپنے گلوبل کول پلانٹ ٹریکر کی مدد سے دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں سے متعلق معلومات رکھتا ہے۔
ماحولیاتی اہداف میں بلند دعووں اور صنعت پر نظر رکھنے والوں کی جانب سے پیش کیے گئے کاروباری ڈیٹا کے درمیان تضاد مؤثر خبروں کی بنیاد بن سکتا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے مارچ 2024 میں رِیسٹاڈ انرجی کے ڈیٹا پر رپورٹ کی تھی جس میں دکھایا گیا کہ پیٹروبراس سالانہ تقریباً اتنا ہی خام تیل پیدا کر رہی ہے جتنا ایکسون پیدا کرتی ہے اور یہ کمپنی 2030 تک دنیا کی تیسری بڑی تیل پیدا کرنے والی کمپنی بن سکتی ہے۔ اس رپورٹ نے بتایا کہ وہ رجحان برازیلی حکومت کی ایمیزون کے تحفظ اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے کی کوششوں کے ساتھ “نمایاں تضاد” میں تھا۔ رپورٹ میں کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ژاں پال پراتیس کا بیان بھی لکھا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا "ہمیں تیل، گیس اور ان کے مشتقات کے حوالے سے مارکیٹ کی توقعات پر پورا اترنا ہے اور پیٹروبراس آخری تیل کے قطرے تک جائے گا، بالکل اسی طرح جیسے سعودی عرب یا امارات کریں گے۔”
کسی کمپنی کے کاروباری منصوبے کے ماحولیاتی اثرات سے متعلقہ مخصوص معلومات کو جاننے کی کوشش بعض اوقات الجھن کاباعث بن سکتی ہے کیونکہ موجودہ دور میں صنعت اکثر فوسل فیول کی توسیع کو ماحولیاتی حل کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ رجحان خاص طور پر لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی تیزی سے بڑھتی ہوئی عالمی مارکیٹ میں زیادہ نمایاں ہے۔ جب گیس کو بجلی بنانے کے لیے جلایا جاتا ہے تو یہ کوئلے کے مقابلے میں کم گرین ہاؤس گیسز خارج کرتی ہے۔ کوئلہ ماحولیاتی حوالے سے سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والا فوسل فیول ہے۔ اسی وجہ سے تیل اور گیس کی کمپنیاں اکثر اپنی ایل این جی برآمدات میں توسیع کے منصوبوں کو ماحولیاتی پیش رفت کے طور پر پیش کرتی ہیں اور دعویٰ کرتی ہیں کہ گیس ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو کوئلے سے دور کرنے میں مدد دے گی۔ شیل کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے مارچ 2024 میں کہا تھا مثال کے طور پر چین "کاربن اخراج کو کم کرنے کے لیے کوئلے سے گیس کی طرف منتقل ہونے کا خواہش مند ہے” اور اس لیے، "گیس کو دنیا کے سب سے بڑے کاربن اخراج اور مقامی فضائی آلودگی کے ذرائع میں سے ایک سے نمٹنے کے لیے ایک بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ شیل 2024 کی توانائی منتقلی حکمتِ عملی کے مطابق منصوبہ رکھتا ہے کہ وہ 2022 کے مقابلے میں ہمارے ایل این جی کاروبار کو 2030 میں 20 سے 30 فیصد تک بڑھائے گا۔”
تحقیقاتی صحافیوں کو قدرتی گیس کے ماحولیاتی فوائد سے متعلق کسی بھی دعوے کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔مارچ 2024 میں نیچر میں شائع ہونے والی ایک پیئر ریویوڈ تحقیق کے مطابق گیس کا جلنا کوئلے کے مقابلے میں نسبتاً صاف ہو سکتا ہے لیکن اس کی پیداوار اور ترسیل کے دوران میتھین گیس کے اخراج موسمیاتی تبدیلی میں ایک سنگین کردار ادا کرتے ہیں۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کی رپورٹ کے مطابق بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے نشاندہی کہ ہے کہ میتھین کے اخراج مختصر مدت میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں 84 سے 86 گنا زیادہ گلوبل وارمنگ کا سبب بنتے ہیں۔ درحقیقت، بہت سے سائنس دان اتفاق کرتے ہیں کہ میتھین کے اخراج کو اکثر کم گنا جاتا ہے حالانکہ عالمی سطح پر فضا میں میتھین گیس کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آئی ای اے کے مطابق میتھین کے اخراج کا تقریباً ایک تہائی حصہ توانائی کے شعبے سے آتا ہے جس میں تیل، گیس اور کوئلہ شامل ہیں۔ دی نیویارکر میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تجزیے کے مطابق ماضی میں نظرانداز کیے گئے میتھین کے اخراج اس بات کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ گیس ماحول کے لیے درحقیقت کوئلے سے بھی زیادہ نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
اسی وجہ سے صحافیوں کے لیے فائدہ مند ہے کہ وہ کسی کمپنی کے ماحولیاتی وعدوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے میتھین فوٹ پرنٹ کے بارے میں ضرور پڑھیں، خاص طور پر اگر وہ کمپنی اپنے ایل این جی آپریشنز میں خصوصی توسیع کے منصوبے بنا رہی ہو۔ ان اخراج سے متعلق شفافیت کا فقدان ہوتا ہے لیکن گلوبل انویسٹی گیٹیو جرنلزم نیٹ ورک نے میتھین کی پیمائش اور رپورٹنگ کے لیے ایک گائیڈ شائع کی ہے۔ کمپنی کے امریکی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی جیسے ریگولیٹرز کے لیے بیانات کو دیکھنا بھی فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے خصوصاً جب یہ ریگولیٹرز ضوابط کو مزیدسخت کر رہے ہیں۔
کمپنیاں اور ریگولیٹری ادارے اس مسئلے سے واقف ہیں اور حالیہ برسوں میں بہت سے تیل اور گیس کے بڑے پیداواروں نے اپنی سپلائی چین میں میتھین کے اخراج کو کم کرنے کے رضاکارانہ وعدے کیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اقدامات مؤثر طریقے سے لاگو کیے جانے پر قدرتی گیس کی پیداوار کے عالمی ماحولیاتی اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ لیکن تحقیقاتی صحافیوں کو یہ اہم سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا یہ کارپوریٹ ماحولیاتی منصوبے فوسل فیول کی مجموعی پیداوار کو بڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایکسون نے جنوری 2024 میں وعدہ کیا تھا کہ وہ 2030 تک اپنے کارپوریٹ سطح پر میتھین کے اخراج کی شدت کو 80 فیصد تک کم کرے گی۔ تاہم، مارچ 2024 کی رائٹرز کی ایک رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ کمپنی اسی وقت اپنے عالمی ایل این جی فورٹ فولیو کو دوگنا کرنے کے منصوبے میں پہلے ہی طے شدہ اہداف سے آگے بڑھ چکی تھی۔ اس میں کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدے دار کا بیان بھی شامل تھا "مارکیٹ وسیع ہو رہی ہے اور 2050 تک دنیا کی 75 فیصد توانائی کی طلب ایشیا پیسفک میں ہوگی۔ اس لیے ہم اس خطے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔”
اپنے گیس کے کاروبار کو دوگنا کرتے ہوئے اگرچہ ایکسون ساتھ ہی ساتھ اپنے میتھین کے ہدف کو پورا کر لیتی ہے تب بھی اس کا مجموعی اثر موسمیاتی تبدیلی پر منفی ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گیس جو کوئلے کے مقابلے میں صاف ہو سکتی ہے (بشرطیکہ میتھین کے مضر گیسوں کے اخراج مکمل طور پر ختم کیے جائیں) بہرحال ایک فوسل فیول ہے۔ اور پاور پلانٹس میں اسے جلانے سے ہوا اور شمسی توانائی جیسے قابلِ تجدید ذرائع کے مقابلے میں کہیں زیادہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) نے 2021 کی اپنی تاریخی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ عالمی ماحولیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے “نئے کوئلے، تیل اور قدرتی گیس میں سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے۔”
جب ایک کمپنی اپنے ایل این جی منصوبوں میں بڑے پیمانے پر توسیع کی بات کرتی ہے تو یہ جاننا فائدہ مند ہو سکتا ہے کہ وہ گیس اصل میں کہاں سے نکالی جائے گی۔ اس سے آپ کمپنی کے ان دعوؤں کی حقیقت جان سکتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایل این جی کی برآمد سے ماحول پر سنجیدہ اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر سرمایہ کار اور ریاستی ملکیتی کمپنیوں کی ایک انجمن جس میں شیل، پیٹروناز، پیٹرو چائنہ، میٹسو بیشی کارپوریشن اور کے او جی اے ایس شامل ہیں، ایل این جی کینیڈا کے نام سے برٹش کولمبیا کے مغربی ساحل پر ایک 40 ارب ڈالر مالیت کے گیس برآمدی منصوبے کی تعمیر کر رہی ہے۔ وہ یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ قدرتی گیس دنیا کو “کم کاربن مستقبل کی طرف منتقلی” میں مدد دے گی۔ لیکن یہ گیس مغربی کینیڈا میں مونٹنی پلے نامی ایک بڑے ذخیرے سے حاصل کی جائے گی، جس کے گیس کے وسائل اگر نکال کر جلائے جائیں تو تقریباً 14 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر سکتے ہیں۔ یہ کینیڈا میں مضر گیسوں کے ممکنہ نئے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا۔ سی بی سی نیوز نے اپنی 2023 کی تحقیقاتی رپورٹ "سٹنگ آن آ کاربن بم” میں اس ڈیٹا پر توجہ مرکوز کی تھی۔ لیو اِٹ ان کی گرائونڈ انی شی ایٹو (ایل آئی این جی او) نے دنیا بھر کے 425 ایسے "کاربن بموں” کی فہرست شائع کی ہے، جو ایسے تحقیقاتی صحافیوں کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے جو مخصوص گیس برآمدی منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں۔ کمپنیوں نے صحافیوں کی طرف سے انٹرویو کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ایک سچے ماحولیاتی وعدے کی ایک واضح پہچان یہ ہے کہ کیا ایک کمپنی نے اپنے فوسل فیول کی پیداوار کو کم کرنے یا مرحلہ وار ختم کرنے کے باقاعدہ منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس کی مثالیں بہت کم ہیں لیکن مکمل طور پر ناپید نہیں ہیں۔ 2009 میں ڈنمارک کی توانائی کمپنی ڈی او این جی انرجی نے یہ ہدف مقرر کیا تھا کہ وہ2040 تک اپنی 85 فیصد پیداوار کو کوئلے سے قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر منتقل کر لے گی۔ سمندر میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں جارحانہ سرمایہ کاری کر کے کمپنی جس نے اپنا نیا نام آرسٹڈ رکھا ہے، نے 2019 تک اپنی بجلی کی پیداوار میں 86 فیصد حصہ قابل تجدید توانائی سے حاصل کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس طرح اس نے اپنا ہدف 21 سال پہلے ہی پورا کر لیا۔
کچھ کمپنیوں نے تیل اور گیس کے حوالے سے یہ منظرنامہ پیش کرنے کی ایک معمولی سی جھلک دکھائی ہے۔ شیل نے2021 میں کہا تھا کہ کمپنی کی تیل کی پیداوار 2019 میں عروج پر پہنچنے کے بعد ہر سال 1 سے 2 فیصد کی شرح سے کم ہوگی جبکہ بی پی نے 2019 کی سطح کے مقابلے میں 2030 تک تیل اور گیس کی پیداوار میں 40 فیصد کمی کا وعدہ کیا تھا۔
رپورٹرز کے لیے کارپوریٹ اداروں کے موسمیاتی وعدوں کے تجزیہ کرنے کے لیے وسائل اور ٹولز
حالیہ برسوں میں فوسل فیول کمپنیوں کی جانب سے نیٹ زیرو منصوبوں کے تیزی سے پھیلاؤ کے باوجود ابھی تک ایسا کوئی عالمی سطح پر تسلیم شدہ درجہ بندی کا نظام موجود نہیں ہے جو یہ تصدیق کر سکے کہ کون سے منصوبے واقعی قابلِ اعتبار ہیں اور کون سے نہیں۔ یہ صورتحال تیل اور گیس کی کمپنیوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ بلند و بانگ دعوے کر سکتی ہیں بغیر اس کے کہ انہیں ویسی سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے جیسی انہیں مالیاتی بیانات کے معاملے میں کرنی پڑتی ہے۔ تاہم، جوابدہی کو فروغ دینے کے لیے اس سمت میں کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سالاتا انسٹیٹیوٹ فار کلائمیٹ اینڈ سسٹین ایبلیٹی کی ایک ٹیم "ٹولز اور طریقۂ کار جن کے ذریعے یہ جانچا جا سکے کہ آیا کارپوریٹ اہداف اخراج میں کمی لا رہے ہیں جو امریکی گرین ہاؤس گیس کے اہداف سے مطابقت رکھتی ہو” تیار کر رہے ہیں۔ رپورٹرز اپنی کہانیوں خصوصاً امریکہ زاویے والی خبروں کے لیے ذرائع حاصل کرنے کے لیے اس ادارے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
متعدد رپورٹس موجود ہیں جو کارپوریٹ نیٹ زیرو وعدوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایم ایس سی آئی ای ایس جی ریسرچ نے 2021 میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں قابلِ اعتبار منصوبوں کے اہم اجزاء پر ایک رہنما گائیڈ فراہم کی گئی ہے۔ منصوبہ جامع ہونا چاہیے یعنی وہ کمپنی کے زیادہ تر گرین ہاؤس گیس اخراج پر مرکوز ہونا چاہیے۔ چونکہ گرین ہاؤس گیس کے زیادہ تر اخراج کا تعلق گاڑی کے انجن یا پاور پلانٹ میں فوسل فیول جلانے سے ہوتا ہے (جنہیں اسکوپ 3 اخراج کہا جاتا ہے)، اس لیے ایک ایسا منصوبہ جو صرف آپریشنل اخراج (یعنی اسکوپ1اور 2) تک محدود ہو، اس میں ماحولیاتی لحاظ سے خاطر خواہ فوائد موجود نہیں ہوگا۔ گائیڈ کے مطابق منصوبے کو پرعزم ہونا چاہیے۔ اگر کوئی کمپنی صرف 2050 کا ہدف مقرر کرے لیکن اس دوران واضح اور قابلِ پیمائش عبوری اہداف نہ رکھے تو یہ معیار پر پورا نہیں اترے گا۔ علاوہ ازیں، منصوبہ قابلِ عمل ہونا چاہیے اور اس کی بنیاد پہلے ہونے والی میٹنگوں یا طے شدہ سے بھی آگے تک حاصل کیے گئے ماحولیاتی اہداف پر ہو۔ وہ کمپنیاں جو جارحانہ سنائی دینےوالے اہداف متعین کرتی ہیں اور سالوں بعد ان سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں یا انہیں ترک کر دیتی ہیں، وہ حکومتی اداروں، سرمایہ کاروں اور عوام میں اعتماد پیدا نہیں کر پاتیں۔
ایک اور مفید ذریعہ اقوام متحدہ کے غیر ریاستی اداروں کے خالص صفر اخراج وعدوں پر بنائے گئے اعلیٰ سطحی ماہر گروپ کی جانب سے شائع کردہ 2022 کی رپورٹ ہے۔ اس گروپ نے دنیا بھر کی 500 سے زائد تنظیموں کے ساتھ درجنوں مشاورتیں کیں اور تقریباً 300 تحریری آراء موصول کیں۔ اگرچہ یہ رپورٹ خصوصی طور پر فوسل فیول کمپنیوں پر مرکوز نہیں تھی لیکن رپورٹ کی اہم ترین سفارشات میں سے ایک براہِ راست تیل اور گیس کے کاروباری ماڈل سے متعلق ہے: "غیر ریاستی ادارے نئے فوسل فیول ذخائر کی تعمیر یا سرمایہ کاری جاری رکھتے ہوئے نیٹ زیرو ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ کوئلہ، تیل اور گیس عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیس کے 70 فیصد سے زائد اخراج کے ذمہ دار ہیں۔ نیٹ زیرو کا تصور فوسل فیول میں جاری سرمایہ کاری کے ساتھ بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔” اقوامِ متحدہ کے اس گروپ کی جانب سے جاری کردہ ایک مختصر نیٹ زیرو چیک لسٹ مزید رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ نیٹ زیرو منصوبوں کو نئے تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش کا خاتمہ کرنا چاہیے، موجودہ ذخائر کی توسیع کو روکنا چاہیے اور تیل و گیس کی پیداوار کا بتدریج خاتمہ کرنا چاہیے۔ تجزیے کی طرف کے ذرائع کے لیے نیو کلائمیٹ انسٹیٹیوٹ، کاربن مارکیٹ واچ، نیٹ زیرو ٹریکر، کولمبیا سینٹر آن سسٹین ایبل انویسٹمنٹ، کلائمیٹ ایکشن 100+ اور سائنس بیسڈ ٹارگٹس انیشی ایٹو کو دیکھیں۔
کارپوریٹ ماحولیاتی منصوبوں کو تسلیم کرنے اور ان کی تصدیق کرنے کے لیے کوئی بین الاقوامی طور پر منظورشدہ طریقہ کار کی غیر موجودگی میں صحافیوں کو تیل اور گیس کی صنعت کی جانب سے اخراج میں کمی کے وعدوں کو زیادہ سے زیادہ بس خواہشاتی بیانات سمجھنا چاہیے اور بدترین صورت میں، عوام کو گمراہ کرنے اور حکومت کی جانب سے لازم ضوابط کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے کی دانستہ کوششیں تصورکریں۔ اس کے باوجود، گزشتہ چند برسوں میں بڑے پیداواری اداروں کی جانب سے اعلان کردہ رضاکارانہ ماحولیاتی منصوبے صحافیوں کے لیے اہم ہیں۔ کیونکہ صنعت کے رہنماؤں نے اخراج میں کمی کے واضح اہداف اور ان کی تکمیل کے لیے اوقات کا تعین کیا ہے۔ اب صحافیوں کے پاس ایک معیار موجود ہے جس کی بنیاد پر وہ ان کمپنیوں کے ماحولیاتی تبدیلی کو کم کرنے میں عملی کردار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
اس باب میں پیش کیے گئے فریم ورک کو بنیاد بناتے ہوئے آپ کی رپورٹنگ ان تضادات کو واضح کرنے میں مدد دے سکتی ہے جو کمپنیوں کے ماحولیاتی اقدامات کے عوامی وعدوں اور عملی طور پر تیل اور گیس کے منصوبوں کی جارحانہ توسیع کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک فوری نوعیت کی خبر ہے جسے دنیا بھر میں مقامی زاویوں سے رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ اقوام متحدہ کے غیر ریاستی اداروں کے خالص صفر اخراج وعدوں پر بنائے گئے اور اب تحلیل شدہ اعلیٰ سطحی ماہر گروپ کی سربراہ کیتھرین مکینا نے بتائی ہے، "ہمارا سیارہ مزید تاخیر، بہانوں یا گرین واشنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔”
جیف ڈیمبکی تحقیقاتی میڈیا ادارے ڈی سموگ کے گلوبل مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ کی سال کی بہترین کتاب “دا پیٹرولیم پیپرز” کے مصنف ہیں۔ اس کتاب کو ڈرامائی ٹی وی سیریز میں ڈھالا جا رہا ہے۔