رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش
Border grave Greece
Border grave Greece

A makeshift graveyard in Greece for migrants who died. Image: Courtesy of Daphne Tolis

رپورٹنگ

یورپ کے سرحدی علاقوں میں تارکین وطن کی نامعلوم قبروں کی دستاویز سازی

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

ملٹی میڈیا صحافی ٹینا ژو پہلی بار نے جب پہلی بار لیسبوس میں ایک تارک وطن کی بے نشان قبر  دیکھی تو حیران رہ گئیں۔ لیسبوس ایک یونانی جزیرہ اور بحیرہ روم عبور کر کے یورپ آنے والے افراد کے لیے ایک اہم مقام ہے۔

"اس منظر نے مجھ پر بہت گہرا اثر چھوڑا… کچھ قبروں پر کتبے ہیں جن پر صرف ‘نامعلوم’ لکھا ہوا ہے، کچھ پر کوئی نشان نہیں ہے۔ کچھ قبروں پر سرے سے کوئی کتبہ ہی نہیں ہے، بس ایک پتھر ہے اور کچھ پر تو وہ بھی نہیں ہے، صرف ایک لکڑی کا ٹکڑا رکھا ہوا ہے،” وہ جی آئی جے این کو بتاتی ہیں۔

"جب میں نے یہ سب دیکھا تو سوچنے لگی، ’یہاں لوگوں کی آخری یادیں محفوظ ہیں۔ اگر ان کے رشتہ دار انہیں ڈھونڈنے آئیں تو وہ انہیں کیسے پہچانیں گے؟‘”

اس سوال نے ٹینا ژو کو ملٹی میڈیا اور تحقیقاتی صحافی گیبریلا رامیرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کا رستہ دکھایا۔ جلد ہی یورپ کی سب سے خطرناک سرحدوں پر کام کرنے والے صحافیوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم بن گئی جس نے اس مسئلے کی تحقیق کے لیے امداد کی درخواستیں جمع کروانی شروع کر دیں۔

یہ وہ بنیادی سوالات تھے جن کے جوابات ٹیم تلاش کر رہی تھی: یورپ میں ایسی کتنی قبریں موجود ہیں؟ جو لوگ یورپ کی سرحدوں پر لاپتہ ہو جاتے ہیں، ان کا کیا ہوتا ہے؟ اور ان کے خاندانوں کا کیا ہوتا ہے؟

المناک دریافت

ٹیم نے مل کر گزشتہ ۱۰ سالوں میں اسپین، اٹلی، یونان، مالٹا، پولینڈ، لتھوانیا، فرانس اور کروشیا میں ۶۵ قبرستانوں میں ۱۰۱۵ بے نشان قبریں دریافت کیں۔ ہر بے نشان قبر ایک ایسے فرد کی نمائندگی کرتی ہے جو یورپ پہنچنے کی کوشش میں جان کی بازی ہار گیا تھا۔

تارکینِ وطن کی بے نشان قبروں، یورپ کی نظامی غفلت اور اس صورتحال کی انسانی قیمت کو اجاگر کرنے والی ان کی تفصیلی اور بصری طور پر متاثر کن تحقیق ۱۰ ممالک کے ۲۰ میڈیا آؤٹ لیٹس میں شائع ہوئی تھی۔ جرنلزم فنڈ یورپ اور آئی جے فار ای یو نے اس تحقیق کے لیے امداد فراہم کی تھی جبکہ لائم لائٹ فاؤنڈیشن نے ”ان بائس دا نیوز“ کو یہ تحقیقات شائع کرنے میں مدد دی تھی۔

یہ تحقیق اور اس پر مبنی کہانیوں کو ۲۰۲۴ میں یورپئین پریس پرائز، آئی جے فار ای یو امپیکٹ ایوارڈاور لورینزو نٹالی پرائز کی طرف سے متعدد بار سراہا گیا اور ایوارڈ دیے گئے۔

Members of the Border Graves investigation team accepting the award for the European Press Prize 2024.

Members of the Border Graves investigation team accepting the award for the European Press Prize 2024. Courtesy of team

جی آئی جے این نے شو اور رامیرز سے آٹھ ماہ پر محیط سرحد پار تحقیقات کے بارے میں بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ اس تحقیق میں کیا شامل تھا، اس نے کیا انکشافات کیےاور اس دوران انہوں نے کیا سیکھا۔

بارڈر قبروں کی تحقیقات کرنے والی ٹیم میں باربرا ماتیچیچ، ڈیفنی ٹولیس، دانائی ماراگوڈاکی، ایوگھن گلمارٹن، گیبریلا رامیرز، گیبریل کروچیاتااور لیا پیٹم شامل تھے جبکہ اس ٹیم کی قیادت ٹینا ژو نے کی تھی۔ مزید برآں، ٹیم نے زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ کے صحافی کرسٹیانا لڈوِگ اور بینجمن ہوئبلاور دی گارڈین کے فیلسیٹی لارنس، عشفہ قاسم، لورینزو ٹونڈو، منیشا گانگولیاور پامیلہ ڈنکن کے ساتھ بھی مل کر کام کیا۔

اداروں کی چھوڑی گئی خالی جگہ کو پُر کرنا

ابتدائی طور پر ٹیم کو توقع تھی کہ اس منصوبے میں بڑی حد تک سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے شامل ہوں گے۔ تاہم، یہ ممکن نہ ہو سکا، جزوی طور پر اس وجہ سے کہ بہت سی قبریں عمودی تھیں یا جنگلات سے ڈھکی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے وہ سیٹلائٹ کی برڈ آئی کے زاویے سے لی گئی تصاویر میں واضح دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ اس حقیقت کا ادراک ہوتے ہی تحقیقات کے آغاز کے فوراً بعد ہی ٹیم کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنا پڑی۔

جلد ہی انہیں ایک اور نمایاں رکاوٹ کا سامنا ہوا: نامعلوم قبروں کے حوالے سے مختلف ممالک میں سرکاری ڈیٹا موجود ہی نہیں تھا۔

"کوئی بھی بغیر شناخت والی قبروں کی تعداد شمار نہیں کر رہا۔۔۔ نہ کوئی سرکاری ادارہ، نہ کوئی بڑی این جی او،” ژو نے وضاحت کی۔ کسی بھی سرکاری ڈیٹا کو حاصل نہ کرپانے یا سیٹلائٹ امیجری تجزیے پر انحصار نہ کر سکنے کی وجہ سے ٹیم کے پاس صرف زمینی تحقیق اور روایتی صحافت کا راستہ ہی بچا تھا۔

آگے بڑھنے کے لیے، صحافیوں نے این جی اوز، رابطہ کاروں، قبرستانوں کے مقامات اور دیگر اہم معلومات کی فہرست تیار کرنا شروع کی جو انہیں ڈیسک ریسرچ کے ذریعے حاصل ہوئیں۔ انہوں نے مقامی تنظیموں اور عام شہریوں سے مدد طلب کی اور پھر فیلڈ ورک اور موقع پر تحقیق کی جانب رخ کیا۔

ٹیم نے جلد ہی محسوس کیا کہ حکومت اور اداروں کی جانب سے چھوڑی گئی اس خالی جگہ کو شہریوں اور چھوٹی تنظیمیں پُر کر رہے تھے۔ وہ مرنے والے تارکین وطن کی شناخت کر رہے تھے اور ان کے خاندانوں سے رابطہ کروا رہے تھے۔ ان مقامی افراد اور تنظیموں کے ساتھ مل کر یہ ٹیم اپنی تحقیق مکمل کرنے کے قابل ہوئی۔

اسپین میں کامیناندو فرونٹیراس نامی ایک تنظیم لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو تلاش میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اس تنظیم نےٹیم کا ان خاندانوں سے رابطہ کروایا۔ اٹلی میں، کومیٹیٹو 3 اوتوبری صحافیوں کو سسلی کے مختلف قبرستانوں میں لے گئی اور رپورٹروں کو ۳ اکتوبر کے لامپےڈوسا کشتی حادثے کے متاثرین کے اہلِ خانہ کی سالانہ ملاقات میں مدعو کیا۔

بلقان میں نیہاد سولیجک نامی شخص، جو ڈیڈ اینڈ مسنگ ان دی بلقانز نامی فیس بک  پیج چلاتے ہیں، صحافیوں کو سرحد کے ساتھ موجود قبرستانوں میں لے گئے۔ اسی طرح پولینڈ میں پوف، لتھوانیا میں سیینوس گروپاور کروشیا میں انسٹی ٹیوٹ آف ایتھنالوجی اینڈ فولکلور ریسرچ کے ساتھ بھی ٹیم نے ایسے ہی تعاون حاصل کیا۔

Journalist investigating possible migrant grave sites.

Journalist investigating possible migrant grave sites. Image: Courtesy of TK

ان صحافیوں نے مجموعی طور پر پانچ درجن سے زیادہ قبرستانوں کے دورے کیے۔ ان کے معلومات حاصل کرنے کے طریقے ہر ملک اور ہر قبرستان میں مختلف تھے۔ مثال کے طور پر، کروشیا میں مقامی حکام نے ٹیم کے ساتھ بھرپور تعاون کیا لیکن دیگر قبرستانوں میں ریکارڈ رکھنے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا جبکہ اٹلی میں کئی مقامی حکومتیں مکمل طور پر خاموش رہیں۔

"ہم نے ان تمام مختلف سطحوں پر ڈیٹا ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ یورپی سطح پر کچھ نہیں ہے، قومی سطح پر کچھ نہیں ہے، شہری سطح پر کچھ نہیں ہے تو ہمارا آخری حل یہی تھا کہ ہم چھوٹی دیہاتی حکومتوں، تدفین کے مراکز، قبروں کے رکھوالوں یا ایسے افراد سے رجوع کریں جو اموات کی وجوہات کی تحقیق کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔”

درحقیقت اس ٹیم کے صحافیوں کا ماننا ہے کہ اس تحقیق کی سب سے بڑی کامیابی ڈیٹا کی تلاش تھی۔ اس نے ایک ایسا دستاویزی ریکارڈ مرتب کیا جو پہلے موجود ہی نہیں تھا۔

اس طرح کی رپورٹنگ کے ذریعے جوابات تلاش کرنے کی کوشش نے اس منصوبے کو مزید مہنگا اور وقت طلب بنا دیا۔ فنڈنگ کی مقررہ مدت میں توسیع کرنی پڑی اور ٹیم مختص شدہ بجٹ سے تجاوز کر گئی۔ تاہم، صحافی اپنی متعلقہ علاقوں میں صورتِ حال کو بہترین انداز میں رپورٹ کرنے کے لیے پرعزم رہے۔ مزید گہرائی میں جانے کے لیے، کئی صحافیوں نے ذاتی اخراجات پر اضافی کام کیا۔ یہ ایک ایسی حقیقیت ہے جو فری لانس صحافیوں کو اکثر درپیش رہتی ہے۔

گمنامی میں انسانیت لانا

رامیرز کو اس کہانی پر کام کرنا ایک ذاتی تجربہ محسوس ہوا کیونکہ ان کے رشتہ دار وینزویلا سے امریکہ ہجرت کر رہے تھے۔ خود کو ان تارکین وطن کے خاندانوں کی جگہ رکھ کر انہوں نے اس نقطہ نظر سے صورتِ حال کو بہتر طریقے سے سمجھنا اور مزید جاننا ضروری سمجھا۔

"یہ مسائل کو سمجھنے کے بارے میں بھی تھا،“ وہ کہتی ہیں۔ ”ایسا کیا ہے جو خاندانوں کے لیے اپنے پیاروں کو تلاش کرنا اتنا مشکل بنا دیتا ہے؟ وہ کون سے مراحل ہیں جن سے وہ عموماً کسی لاپتا فرد کے بارے میں خبر حاصل کرنے کے لیے گزرتے ہیں؟”

مقامی تنظیموں کی مدد اور سوشل میڈیا پر تلاش کے ذریعے ٹیم کے ارکان لاپتا، نامعلوم اور جاں بحق ہونے والے افراد کے خاندانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے ان افراد کے خاندانوں سے بات کی جن کے عزیز شام، افغانستان، اریٹیریا، ایتھوپیا، عراقی کردستان، الجزائر اور سری لنکا سے یورپ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ٹیم نے ان خاندانوں سے ان سنگین رکاوٹوں کے بارے میں بات کی جن کا سامنا انہیں اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے دوران ہوا یا ان کے ملنے پر ان کی لاش کی تدفین کرتے ہوئے ہوا۔

منظم غفلت کو بے نقاب کرنا

ہر صحافی نے اپنے علاقے کی صورتحال کا جائزہ لیا لیکن ٹیم کی مشترکہ رپورٹنگ نے یہ ظاہر کیا کہ غفلت نہ صرف مقامی سطح پر موجود تھی بلکہ مجموعی طور پر یورپی سطح پر بھی نمایاں تھی۔

یونان میں صحافیوں نے انکشاف کیا کہ جنازہ گاہوں کو قانونی کارروائی مکمل کیے بغیر جلدی تدفین کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جبکہ اٹلی میں قبروں کو غیر قانونی طور پر قبرستان سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا تھا۔ پولینڈ میں رپورٹنگ میں ایک ایسا کیس سامنے آیا جس میں ایک شخص کو پاسپورٹ ہونے کے باوجود ایک نامعلوم قبر میں دفن کر دیا گیا تھا۔

یورپی یونین کے ممالک کے درمیان رابطے کی کمی اور تارکینِ وطن کی لاشوں کو مناسب طریقے سے سنبھالنے میں ناکامی نے ایک منظم غفلت کو بے نقاب کیا حالانکہ ۲۰۲۱ کی ایک یورپی کمیشن کی قرارداد میں نامعلوم تارکینِ وطن کی باقیات کی باعزت دیکھ بھال اور شناخت کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

تحقیقات کے بعد یورپی یونین کی طرف سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم، ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ لیتھوانیا میں رامیرز کی رپورٹنگ نے ایک مقامی این جی او کی طرف سے ایک کامیاب کراؤڈ فنڈنگ مہم کو تحریک دی، جس کے نتیجے میں اس این جی او نے ان کی کہانی کے ایک کردار کا مقدمہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔

ٹیم کی طاقت

آن لائن بین الاقوامی تحقیقات اب بھی ایک نسبتاً نیا میدان ہے اور صحافی اس دائرے میں کام کرنے کے اصول و ضوابط کو سیکھ رہے ہیں۔ رامیرز نے جی آئی جے این کو بتایا کہ اس تحقیق نے ٹیم کو مواصلات کی اہمیت سکھائی اور یہ سکھایا کہ پہلے سے ہی تفصیلات جیسے کہ اشاعت میں کریڈٹ دینے کی وضاحت کرنا کتنا ضروری ہے۔

رامیرز اور ژو اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ایک ایسی ٹیم کا ہونا جو مقامی صحافیوں یا ایسے صحافیوں پر مشتمل تھی جو اپنے علاقوں سے واقف تھے، اس بین الاقوامی منصوبے کی کامیابی میں ایک کلیدی عنصر ثابت ہوئی۔ یہ تعاون اس وقت اور بھی اہم ہو گیا جب اس تحقیق کے حساس موضوع کو مدنظر رکھا گیا۔کہانی کی سنگینی سے نبٹتے ہوئے ان کی ہفتہ وار کالز ہونے تجربات کو سمجھنے اور ایک دوسرے کو سنانے کا اہم ذریعہ بن گئی تھیں۔


جوانا ڈیمارکو جی آئی جے این کی ویژولز اور نیوز لیٹر ایڈیٹر ہیں اور گزشتہ دہائی سے مالٹا میں صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں جہاں وہ مقامی رپورٹر اور فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان کا کام پولیٹیکو یورپ، دی واشنگٹن پوسٹ، نیشنل جیوگرافک اور ڈر شپیگل جیسے نشریاتی اداروں میں شائع ہو چکا ہے۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

smartphone TikTok videos misinformation

ٹک ٹاک پر مِس انفارمیشن: ڈاکیومنٹڈ نے مختلف زبانوں میں سینکڑوں ویڈیوز کا کیسے جائزہ لیا؟

ٹک ٹاک پر غلط معلومات کی تحقیق کے لیے، ڈاکیومنٹد کی ٹیم نے بڑی مقدار میں ڈاؤن لوڈ کی گئی ویڈیوز کو نقل کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے آے آئی کے استعمال کے لیے یہ طریقہ کار تیار کیا۔

Imagen: Joanna Demarco para GIJN

ٹپ شیٹ

صحافیوں کے لیے ٹِپ شیٹ: او سی سی آر پی کے ایلیف سے فائدہ کیسے اٹھائیں

تحقیقاتی صحافت میں معلومات کے مختلف نکات کو جوڑنا اکثر سچائی کو بے نقاب کرنے کے لیے اہم ۔ہوتا ہے۔ آن لائن اور آف لائن دستیاب معلومات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ صحافیوں کو دستاویزات، ریکارڈزاور ڈیٹا سیٹس کے وسیع مجموعوں کو دیکھنے اور استعمال کرنے کے لیے مؤثر طریقوں کی ضرورت ہے۔