فیمیسائیڈ کی تفتیش: جی آئی جے این کی گائیڈ
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
فیمیسائیڈ، عورتوں کا ان کا عورت ہونے کے ناتے خود ساختہ قتل ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے حالیہ کے شمار میں، 50 ہزار کے قریب عورتوں کا قتل ان کے قریبی پارٹنر اور دیگر فیمبلی ممبران کے ہاتھوں ہوتا ہے ۔ یہ روزانہ 137 جانوں کا کھونا ہے۔ یہ نمبر صرف ان عورتون کا شمار کرتا ہے جو قریبی پارٹنر اور فیملی ممبران کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں اور ان کو شمار نہیں کرتا جو کہ مسلح تصادم یا پھر جہیز کی خاتر ماری جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم رپورٹد نمبر ہے کیونکہ دنیا بھر کی حکومتیں فیمیسائیڈ کو ایک مختلف جرم کے طور پر رپورٹ نہیں کرتیں۔
لیکن ان نمبرز کے باوجود یہ سٹوریز رپورٹ نہیں ہوتیں۔ یہ گایئڈ صحافیوں کی مدد لے لئیےہے۔ یہ سمجھنے کے لئیے کہ فیمییسائیڈ کیا ہے، ڈھونڈیں اور سمجھیں کہ کون سا ڈیٹا دستیاب ہے اورکن ماہرین کو انٹرویو کے لئیے چنا جائے یہ اس کی تجاویز دیتا ہے:
مطلق انداز میں، ایشیا وہ علاقہ ہے جہاں پر سب سے زیداہ فیمیسائڈ کے واقعات قریبی پارٹنر اور فیملی ممبران کے ہاتھوں ہوتے ہیں جس میں اقوام متحدہ کی حالایہ کی رپورٹ کے مطابق 20,000 جنس پر مبنی قتل ہوئے تھے جس کے بعد افریقہ (19,000)، امریکاز (8000) اور یورپ (3000) شامل ہیں۔
لیکن اگر فیمسائیڈ کےریٹ کو آبادی کے حساب سے دیکھا جائے ، وہ جگہ جہاں عورتوں کا مارے جانے کا سب سے زیاہ خطرہ ہے وہ افریقہ ہے۔ فیمیسائیڈ کا ریٹ ایک لاکھ عورتوں میں 3 ہے۔ امریکاز میں ایک لاکھ عورتوں میں 1.6، جس کے بعد اوشینیا ہے 3.1 پر، ایشیا ہے 9.0 پر آخر میں یورپ ہے 7.0 پر۔
برطانیہ سے نمیبیا تک اور امریکہ سے ترکی تک صنف پر مبنی تشدد کے خلاف مظاہرے سالوں سے بڑھ رہے ہیں، جو کہ زیادہ تر پریشان کن کیس کو نمایاں کرکے ہوتے ہیں۔
فیمیسائیڈ کی وضاحت
یہ سمجھنے کے لئیے کہ فیمسائئڈ کا ڈیٹا پڑھا کیسے جاتا ہے، اس کے لیے آپ پہلے یہ جانئیے کہ وہ لوگ جو فیمیسائیڈ کا ڈیٹا جمع کرتے ہیں وہ اس کے معنی کی وضاحت کیسے کرتے ہیں۔
جبکہ اس کی کئی معنوں میں وضاحت کی گئی ہے، مختلف بین الاقوامی ادارے اس پر متفق ہیں کہ یہ عورتوں کا عورت ہونے کی بنا پر قتل کرنا ہے۔
2017 میں، جو اقوام متحدہ کے پاس موجود سب سے حالیہ اعداد و شمار ہیں، 30,000 سے زائد عورتیں اپنے قریبی پارٹنر کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔ یہ فیمسائئڈ کے قتلوں میں سے 60 فیصد ہے۔ دوسرا بڑا مجرموں کا گروپ فیملی کے مرد ہوتے ہیں، شاید کے عورت کے والد، چچا، ماموں یا بھائی جن کو خاتون رشتہ دار کی مدد ہوتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کے مطابق، فیمسائیڈ ایک مرد کے قتل سے مختلف ہوتی ہے جیسے کہ زیادہ تر کیس میں، "گھر میں ہونے والی بدسلوکی شامل ہوتی ہے، ڈرانہ دھمکانہ، جنسی زیادتی اور ایسے حالات ہوتے ہیں جہاں عورتوں کے پاس اپن پارٹنر کے مقابلے میں کم طاقت اور وسائل ہوتے ہیں۔ .
یورپین انسٹیٹیوٹ فورجینڈرایکوالٹی فیمسائڈ کو مندرجہ زیل طریقے بیان کرتی ہے:
عورت کا قتل ہونا ایک قریبی پارٹنر، موجودہ یا سابقہ شوہر یا بوائے فرینڈ کے تششد کےنتیجے میں۔
عورت سے نفرت اور ازیت دے کر قتل
غیرت کے نام پر عورتوں اور لڑکیوں کو قتل کرنا
مسلح تصادم میں عورتوں اور لڑکیوں کونشانہ بنانا۔
جہیز سے متعلق عورتوں کا قتل
عورتوں اور لڑکیوں کو قتل کرنا ان کی جنسی واقفیت اور صنفی شناخت ک وجہ سے
مقامی اور انڈیجینز عورتوں اور لڑکیوں کو انکی صنف کی وجہ سے قتل کرنا
بچیوں اور ان کی پیدائش پر مار دینا یا پھے صنفی طور پر بچوں کو جنم نہ لینے دینا فیٹیسائیڈ
ستر کو مسق کر کے قتل کرنا
جادوگری کے الزام لگانا
دیگر فیمیسائیڈ کو گینگ اور منظم جرائم اور ڈرگ ڈیلرز، انسانی اسمگلنگ اور چھوٹے اسلحہ کے پہیلاوؐ سے جڑے ہوتے ہیں۔
ڈیٹا کہاں ڈھونڈیں
یونائیٹڈ نیشنز آفس آن ڈرگس اینڈ کرائم (یو ان او ڈی سی) عالمی ڈیٹا شائع کرتا ہے۔ حالیہ ڈیٹا 2019 کا دستیاب ہے۔
دا یونائیتڈ نیشنز ایکونومک کمیشن فور لیٹن امریکہ اینڈ دا کیریبین (ای سی ایل اے سی ۔ سی پی اے ایل کا ہسپانوی مخفف) اور اسکی جینڈر ایکوالٹی آبسرویٹری اعدادو شمار شایع کرتی ہے صنفی طور پر ہونے والے قتل کا مجموعہ
فیمسائیڈ واچ: ایک مشترکہ پروجیکٹ یواین اسٹڈیز اسوسییشن (یو این ایس اے) اگلوبل نیٹورک اوریواین ایس اے وینا فیمیسائیڈ ٹیم اعلی معیار کی معلومات فراہم کرتی ہے۔
اس ملک کی قومی فیمیسائیڈ ابزرویشن سینٹر جس کی آپ تفتیش کررہے ہوں، اگر ایک پائی جاتی ہے۔
پولیس
کارکنان جو ڈیٹا جمع کرتے ہیں۔
ڈیٹا کو سمجھنا
ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ زیادہ تر نمبر جو ہیں وہ کم اندازے سے کم ہوتے ہیں کیونکہ ہزاروں واقعات ہوتے ہیں اور فیمیسائیڈ میں شمار نہیں کئیے جاتے۔
ڈیٹا کے ساتھ کچھ مسائل: فیمیسائیڈ الگ سے رپورٹ نہیں ہوتے، جب جرائم ریکارڈ کئیے جاتے ہیں تو جنس کو نوٹ نہیں کیا جاتا، دیہاتی علاقوں میں جرائم رپورٹ نہیں ہوتے، اور جب تک ریکارڈ پولیس کے ہیڈکوارٹرتک پہنچتے ہیں، یا تو وہ کھو دئیے جاتے ہیں جب غلط طریقے سے ہینڈل کئیے جاتے ہیں۔ کچھ ممالک میں عورتوں کا قتل رپورٹ بھی نہیں کیا جاتا کیونکہ اسکو جرم نہیں سمجھا جاتا۔
قومی ریٹ کا موازنہ کرنے کے لئیے یہ دیکھیں کہ اس جرم جی مجرمانہ حیثیت کیا ہے اور یہ ملک کے قانونی سسٹم میں ریکارڈ کیسے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ ممالک فیمیسائیڈ کو ستر کو مسک کرنے سے ہونے والی اموات میں شمار کیا جاتا ہے ، یا پھر جنسی کارکنوں جت مارے جانے کو، یا پھر تسادم میں صنفی بنیاد پر عورتوں اور بچیوں کے قتل کو۔
کچھ ممالک فیمییسائیڈ کے لفظ کا استعمال نہیں کرنے تو سٹینڈرڈ لفظ کے لئیے انٹرنیشنل کلاسیفیکیشن آف کرئم آف سٹیٹیسٹیکل پرپس (آئی سی سی ایس کلاسیفیکیشن) دیکھیں: مظلوم عورتیں جن کو قریبی پارٹنر یا فیملی ممبران قتل کردیتے ہیں۔
اپنی تعلیم خود کریں کہ ڈیٹا جمع کرنے کا سسٹم کتنا اچھا یا برا ہے۔ سسٹم جو اچھے کام کرتے ہیں، انکو پولیس آفسراورمیڈیکل پیشہ ورانہ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، اورایسا قابل اعتماد ڈیٹا ہو جو کہ قتل کی اقسام ، جرم کرنے والے اور ہونے ولاے کا جنس، اور اسکے ساتھ ساتھ دونوں کے تعلق اور مقصد کو ریکارڈ کرسکے۔
ڈیٹا کے دیگر ریسورسز
وہ ممالک جہاں ڈیٹا کی کمی ہوتی ہے وہاں پر کارکنان، این جی اوز آگے بڑھی ہیں اور خود معلومات اکھٹا کی ہیں۔
ایسی کچھ مثالیں مندرجہ زیل ہیں:
میپنگ فیمیسائیڈز: آسٹریلیا میں جو عورت کو قریبی پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہوتی انکو جیو ٹیگ کیا جاتا ہے۔
فیمیسائیڈ واچ: دا نیشنل سٹیزن آبزرویٹری آن فیمیسائیڈ ۲۲ میکسیکن ریاست کی ۴۰ تنظیمیں کی نمائندگی کرتی ہے۔
فیمیسیڈیو ڈاٹ نیٹ: عورتوں کے ساتھ ہونے والے تشدد پر نیوز کی ویبسائیٹ۔ یہ جیوفیمیسیڈیو بھی چلاتا ہے کو کہ آنلائن ایمپلیکیشن ہے جس میں اسپین اور آیبریو امریکن ممالک میں فیمیسائیڈ کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
بلیک فیمیسائیڈ (امریکہ): افریقی امریکن عورتوں کے قتل کی میڈیا رپورٹس جمع کرتا ہے۔
وی ول اسٹاپ فیمیسائیڈ پلیٹفارم: یہ ڈیٹا جمع کرتا ہے مردوں کے ہاتھوں ترکی میں قتل ہونے والی عورتوں کی۔ یہ ماہانہ را ڈیٹا کے طور پر شئیر ہوتا ہے۔
کس کو انٹرویو کریں
ماہرین
این جی اوز
سماجی سروسز
کرمنالجسٹس
پروسیکیوٹر
پولیس افسران
فیمیسنٹ کارنان
ہہیلتھ پرووایڈر اور کرونر
وکیل
تدریسی ماہرین
فرنٹلائن ورکر
پروسی اورعینی شاہیدین
لوگ جو وعورتوں کی پناہ گاہوں اور ہیلپ لائن میں کام کررہے ہوتے ہیں
غیر ماہرین
بچ جانے والے فیملی کے ممبران اور پروسی
تقریا موت سے بچ جانے والے
خطرے کے عناصر
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ فیمیسائیڈ کو روکا جا سکتا ہے اور اس صنف پر مبنی وعورتوں کا قتل اس سئ پہلے ہونے والے تشدد کہ آخری حد ہوتا ہے، اس وجہ سےضروری ہے کہ صنفی تشدد کے اعداد و شمار کو بھی دیکھا جائے۔
مندرجہ زیل ڈبلیو ایچ او کی طرف سے ایسے خطرے کے عناصر پیں جو کہ فیمیسائیڈ کو فروغ دیتے ہین۔
ایسے ممالک میں رہنا جہاں پر صنفی غیر مساوی ہے
ایسی جگہ پر رہنا جہاں پر حکومت کی صحت اور تعلیم پر اخراجات کم ہو
اور دیگر خطرے کے عناصر یہ ہیں:
مرد پارٹنر کا بے روزگار ہونا
پستول کا اختیار ہونا (خاص کر کے امریکہ اور جنوبی افریقہ میں اور ٹسادمی اور تصادم کے بعد ہونے والے ممالک)
اسلحہ سے جان سے مارنے کی دھمکیاں
جبری طور پر جنسی تعلق کرنا
مرد پارٹنر کا شراب اور نشہ کے استعمال
مرد پارٹنر کی ذہنی صحت خراب ہونا خاص کر کے فیمیسائیڈ۔خودکشی کے کیسز مین۔
پہلے سے قریبی پارٹنر پر تشدد
خطرے کے عناصر جس سے عورتیں فیمیسائیڈ کا شکار ہوتی ہیں:
حمل
زیادتی کرنے والے کا تشدد ہونا
پہلی والے تعلق سے بچہ ہونا (یعنی ظلم کرنے والے کا وہ بچہ اپنا نہ ہونا)
پارٹنر کی طرف سے فاصلہ ہونا
تسدد والے تعلقات کو چھوڑدینا
کیس سٹڈیز
دا ان کاوؐنٹڈ: ٹورٹوائزمیڈیا نے یو کے میں فیمیسایئڈ پر ایک قابل ذکرسیریز کی تھی، جس میں انہوں نے مختلف پولیس اسٹیشنز میں سے عوامی عیکارڈ پر ڈیٹا وژیولائزیشن بنائی تھیں۔ انہوں نے ایسے کیسز پر فوکس کیا تھا جہاں پر پیچگے رہ جانے فیملہ اور دوست کو خدشہ ہوتا تھا کہ پارٹنر یا سابقہ پارٹنر کا اس کیس سے تعلق ہے۔ حالانکہ یو کے کو اوپن ڈیٹا کا لیڈرمانا جاتا ہے، انکو پتا چلا کہ کسی کو بھی نہیں خبر کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس میں سے کئی سرکاری قتلوں کے اعداد و شمار کا حصہ نہیں بن پاتے۔
ٹووکٹمز: وہ عورتیں جنہوں نے قرنطینہ میں مدد مانگی لیکن ان کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار (ہسپانی میں): لیٹن امیریکی سینٹینیلہ کووڈ 19 کی جانب سے باہمی تعون سے کیا جانے والا صحافتی الائینس پروجیکٹ یہ سیکھتا ہے کہ پینڈمک مین عورتیں قریبہ تعلقات، جسم فروس اور سرکاروں کے کیسے شکار ہوئیں۔ سینٹینیلہ کے ممبر میں شامل ہیں ڈیل سینٹرو لاٹینوامریکانو دے انویسٹیگیسیو پیریڈیسٹیکا (سی ایل آئی پی)، جیکوئیڈو (آرجنٹینا)، ال دبر (بولیویا)، ایجینسیا پبلیکا (برازیل)، ال ایسپیکٹاڈور وائے لا لیگا کانٹرا ایل سائیلینسیو (کولمبیا)، لا ووز دی گواناکانٹے (کوسٹا ریکا)، سائیپر (چلی)، جی کے (ایکواڈور)، ایل فارو (ایل سلواڈور)، نو فیشیون (گواٹمیلہ)، کوئنٹو ایلیمینٹو لیب (میکسیکو)، ایل سرٹیڈور (پیراگوئے)، آئی ڈی ایلأریپورٹیروز (پیرو)، یونیویژن نوٹیشیاز (یو ایس)، کانفیڈینشیال (نیکاراگوا) اور سوٹیسٹاڈا (یوروگوئے)۔
پچھلے سات سالوں میں دو ہزار سے ذائد عورتیں مردوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں (ترکی میں):
ساہرہ اٹیلہ کی طرف سے زبردست ویژیول جس میں وہ تشدد کا شکار ترکی کی عورتوں اور انکے کیسز کی تفصیل کا تبصرہ کرتی ہیں۔
لوکل میڈیا کے 59 دن۔ مردوں کے تشدد کو کیسے دکھایا گیا، سیریبن الکیس کی طرف سے۔ جو کے ڈیٹا وژیلویلائزیشن، میپس، اور ڈیٹا اسکریپنگ کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں ہونے والے جنوری اور فروری 2021 میں فیمیسائیڈ ڈیٹا جمع کرتے ہیں۔
#سےہرنیم: جنہوبی افریقہ میں فیمییسائیڈ ے ایپی ڈیمک کے چہرے۔ میڈیا ہیک اور بھیکیسیسا نے فیمیسائیڈ پر ایک ڈیٹا اسٹوری شائع کی جس میں انہوں نے یہ نمایاں کیا کہ میڈیا ان اسٹوریز کو کتنا نظر انداز کرتا ہے اور انکو یہ معلوم ہوا کہ 2018 سے 2020 مین قتل ہونے والے عورتوں میں سے صرف چار فیصد کو لوکل اور مقامی ضبر کے طور پر فیچرکیا گیا۔ جنوبی افریقہ میں فیمیسائیڈ کا ریٹ بہت زیادہ ہے جہاں پر اوسطی طور پر روزانہ ۷ عورتیں قریبی پارٹنر یا فیملی ممبر کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ ٹیم نے ایک میپ بنایا جس میں انہوں نے ہر قتل کو پولیس پریسنکٹ کے ساتھ جورا کیا اور ان علاقوں کو نمایاں کیا جہاں پر سب سے زیادہ فیمیسائیڈ ہوئے تھے۔
وی آر دا ڈیڈ: میکلین، جو کہ کینیڈا کا حالات حاضرہ کا میگزین ہے اس کی قریبی پارٹںر کی تشدد پر مہینہ بھر کی تفتیس یہ سامنے آیا کہ نظام، سیاستدان اور لوگوں نے عورتوں اور لڑکیاں کو کیسے ناکام کیا ہے۔ اسٹوری یہ نمایاں کرتی ہے کہ کیسے مختلف سماجی اقتصادی پس منظر سے تعلق رکھنے والی عورتیں کو انکے گھروں میں تشدد اور قتل کیا جاتا ہے۔ اس کے سماجی پہیلاوؐ خاص کر کے بچوں کا شریکی شکار ہونے کی وجہ سے میکلین اس قریبی پارٹنر کے تشدد کی وضاحت کرتے ہوئے "ایپیڈیمک” کا ٹرم استعمال کرتے ہیں۔
ریڈ ریور ومن: بی بی سی کی ریسرچ کے مقامی علاقوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں کینیڈین عورتوں نے چار گناہ زیادہ قتل ہو سکتی ہیں۔
گارڈین کا سندے سسٹر پیپر، دا آبزرور، ایک مہم چلا رہا ہے جس کا نام ہے اینڈ فیمیسائیڈ، اس میں سے ایک اسٹوری ہے جس کا فوکس 60 سال سے اوپر کی عورتوں کا قتل ہے۔ انکو یہ معلوم ہوا کہ کئی کیسز کو حادثوں کی بنیاد پربرطرف کردیا گیا۔ ڈیٹا کے مطابق، شکار ہونے والی عورتوں میں سے آدھی اپنے بیٹوں، پوتوں اوررشتہ داروں کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔
میکینیکس آف آ کرئم فورٹولڈ (فرانسیسی میں): لے مونڈے کی ایک سالہ تفتیشی اور ملٹیمیڈیا پروجیکٹ 160 فرانسیسی عورتوں کے قتل پر۔
ہڈن وائلنس (ہسپانی میں): کولومبین عورتوں کے پولیس اور فوج میں شامل پارٹنرکا تشدد اور قتل کرنے پر تفتیش۔
کتابیں
"جنوبی افریقہ میں فیمیسائیڈ": جنوبی افریقہ کی صحافی اور مصنف، نیکاما بروڈی، نے فیمیسائیڈ پرایک کتاب شائع کی ان ملکوں میں جہاں پر قتل کے ریٹ زیادہ ہیں اور جہاں پر فیمیسائیڈ کے ریٹ عالمی اوسط سے پانچ گناہ زیادہ ہیں۔
"ہونرانماسکڈ": صحافی اور تدریس دان نفیسہ شاہ اپنی کتاب میں نمایاں کرتی ہیں کہ پاکستانی صوبے سندھ میں غیرت سے وابسطه تشدد ریاسی عدالتی نظام اور غیر رسمی ازالے اس کے ساتھ کیسے جڑے ہوئے ہیں۔
آپکی ذہنی صحت
یہ اسٹوریز کوور کرنا مشکل ہوتا ہے کہونکہ یہ رپورٹرز کے لئیے انکے اپنے ماضی کے صدموں کو تازہ کرسکتے ہیں۔ یہ یقینی بنا لیں کہ آپ اپنی زہنی صحت اچھا کاخیال رکھنے کے لئیے ڈارٹ سینٹر فور جرنلزم ایند ٹراما سے اچھی پریکٹس کا انتخاب کررہے ہیں۔
بچ جانے والوں اور فیملئ ممبران سے بات کرنا کافی مشکل ہوتا ہے اور اسکے لئیے آپکو تیاری کرنی ہوگی، مارسلا ٹوراٹی کی انٹرویو ٹپس چیک کریں۔
دیگر ریسورسز
یہ پوڈکاسٹ جو فیمیسائڈ کے نمبر کا حساب لگانے میں ایک ایسے بڑی حکمت عملی کا حصہ ہونا جو کہ خواتین اور لڑکیوں پر تشدد ختم کرسکے۔
عورتوں کے خلاف تشدد کو سمجھنا اور حل کرنا: ڈبلیو ایچ او کی معلوماتی شیٹ
مرد جو اپنی فیمیلی کو قتل کرتے ہیں، ریسرچ کیا بتاتی ہے: یو کے نیشنل انٹیتیوٹ آف جسٹس کی ریسرچ
ٹرمنولوجی اینڈ انڈیکیٹر فور ڈیٹا کلیکشن: ریپ، فیمیسائیڈ، اور قریبی پارٹنر وائلینس: یورپین انسٹیٹیوٹ فور جینڈر ایکوالٹی کی طرف سے معلومات۔
سسٹینیبل ڈیویلیپمنٹ گولز، جینڈر ایکوالٹی: ورلڈ ڈیٹا کی طرف سے۔
اس ریسورز کو بڑھانے کے لئیے ہم تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم سے جی آئی جے این کی ویبسائیٹ کے ذریعے رابطہ کیجئے۔
_______________________________________________
نکولیا اپاسٹولو جی آئی جی این کے ریسورس سینٹر کی ڈائریکٹر ہیں۔ پچھلے 15 سالوں سے ، نکولیا 100 سے زائد میڈیا آؤٹ لیٹس کے لیے یونان ، قبرص اور ترکی سے ڈاکومینٹری تیار کر رہی ہیں ، بشمول بی بی سی ، ایسوسی ایٹڈ پریس ، اے جے پلس، نیو یارک ٹائمز ، دی نیو ہیومینیٹیرین ، پی بی ایس ، ڈوئچے ویلے ، اور الجزیرہ۔