باب 2: کووڈ 19 اور خلیجی ممالک میں مہاجر ورکر
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
خلیجی ممالک نے اپنے اہم سیکٹرز کو دوبارہ کھول لیا ہے لیکن مہاجر مذدور ابھی بھی روزگار کے عدم تحفظ اور استحصال سے دوچار ہیں۔ کووڈ ۱۹ نے خلیجی ممالک میں مہاجر ورکروں کے پہلے سے موجود مسائل کو مزید بڑھایا ہے جس میں ان کی اجرت کی غیر ادائیگی، سماجی پروٹیکشن میں شامل نہ ہونا اور صحت کی فراہمی تک محدود رسائی شامل ہیں ۔ اس خطے کے ہجرت کے سسٹم اور عوامل کی وجہ سے نا صرف مذدوروں کو صحت کے مضر اثرات کا سامنا ہے بلکہ ان کو مالیاتی خطرہ بھی ہے۔
مندرجہ باب کووڈ 19 سے متعلق مسائل کے تناظر پر اچھی کووریج کے مثالیں پیش کرتا ہے اور اس کے ساتھ اس بحران پر رپورٹنگ ٹپس اور خلیجی قوموں کے ویکسین کے رول آوٹ پالیسیاں۔
اہم بیکگراوؐنڈ رپورٹنگ ٹپس
صحت کی غیر مساواتی رسائی
عام طور پر، خلیجی مملک میں مہاجر مذدوروں کے پاس صحت کی دیکھ بھال تک ایک جیسی رسائی نہیں ہوتی (اس کے بارے میں اور یہاں پڑھئیے)۔ مقامی اورغیرملکی مریضوں کے ٹریٹمنٹ میں نمیایاں فرق نظرآتا ہے خاص کر کہ وہ جو کم آمدنی رکھتے ہیں۔ مہاجر ورکروں میں اندرونی ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں جو کے کام کی اور رہنے کے حالات کی وجہ سے کووڈ اور دیگر صحت کے مسائل کا ایکسپوژر بڑھاتی ہے ۔ اب جیسے کہ مہاجر کام پر واپس جا رہے ہیں جا رہے ہیں، حفاظتی تدابیر جیسے کہ درجہ حرارت کی جانچ اور مذدوروں کی علاج تک کی رسائی کم ہورہی ہے۔
خاص کر کے گھر میں کام کرنے والے ملازم جن کی میڈیکل کئیر تک کی رسائی کم ہوتی ہے جیسے کہ ان کی رسائی مالکان کی مرضی پر ہوتی ہے کہ کیا وہ انکو میڈیکل ٹریٹمنٹ لینے دیں یا نہیں۔ یہ ہیں دو متعلقہ رپورٹنگ کی مثالیں:
بنگلہ دیشی کم آمدنی والے مہاجر ورکروں کی کووڈ ۱۹ میں غیر یقینی صورتحال
غیر یقینی میں پیدائش: پینڈمک نے مہاجرمائیں اور نومولود کی پریشانیاں مزید بڑھائیں۔
بیروزگاری اور معاشی کمزوری
خلیجی ریاستوں میں مزدوروں کی اکثریت میں مہاجر مزدور ہیں، اور تمام آمدنی والے طبقے کے کارکن کووڈ کے معاشی بحران سے متاثر ہوئے ہیں۔ قطر میں، حکومتی اقدامات کا مقصد ان تنخواہوں اور ملازمتوں کی حفاظت کرنا ہے جو بنیادی طور پر ان کے اپنے شہریوں پر لاگو ہیں۔ اس کے ساتھ سماجی بہبود کے نظام میں نا شامل ہونے کی وجہ مہاجر مذدوروں نے کھانے تک رسائی اور اپنے آبائی ممالک میں کرایہ یا واپسی کے ٹکٹ کی ادائیگی کے لیے بھی جدوجہد کی ہے۔ یہ مسائل کارکنوں کو شدید متاثر کرتے رہتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو گھر واپس نہیں آنہیں سکتے یا آنا نہیں چاہتے۔ ان کے آبائی ممالک میں خاندانوں پر اثرات، جن میں سے اکثر ترسیلات زر پر انحصار ہیں، بھی تباہ کن رہے ہیں۔
اس سے متعلقہ کچھ مثالیں:
عیش و آرام کی زندگی: دبئی کے بڑے سروس سیکٹر کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا۔
کووڈ 19 اور مہاجر مذدورں کی ہاؤسنگ کا بحران
خلیج میں ہجرت اور کووڈ 19 وبائی بیماری۔
خلیجی ممالک میں جہ فور ایس ملازمین عطیہ کیا گیا کھانا کھاتے ہیں۔
نظربندی اور جبری ملک بدری
غیر قانونی مہاجر مذدور اپنی امیگریشن کی حیثیت کی وجہ سے ہمیشہ انتظامی حراست اور ملک بدری کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی حراست کے حالات اکثر غیر صحت بخش اور تنگ ہوتے ہیں، جس سے مذدور کووڈ-19 سمیت متعدی بیماریوں اور انفیکشنز کا شکار بنتے ہیں۔ اگرچہ کچھ ممالک نے ابتدائی طور پر حراستی مراکز میں بھیڑ کو کم کرنے کی کوششوں کی اطلاع دی تھی، لیکن اس عمل میں بہت کم شفافیت تھی اور انتظامی حراست کا عمل جاری ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے ایتھوپیا کے کارکنوں کو بڑے پیمانے پر حراست میں لینا اس طرز عمل کی خاص طور پر قابل مذمت مثال ہے۔
کچھ متعلقہ مثالیں:
کووڈ کے دوران سعودی عرب میں امیگریشن کے حراستی مراکز
سعودی عرب میں قید ایتھوپیائی مہاجروں نے ‘جہنمی’ قرار دیے
‘ہم بیت الخلا سے پانی پیتے ہیں’: مہاجر سعودی حراستی مراکز کے بارے میں بتاتے ہیں۔
اجرت کی چوری اور ملازمت کی شرائط میں تبدیلی
بہت سے کارکن اجرت کے تنازعات کا شکار ہیں جو کووڈ 19 سے پہلے کے ہیں، لیکن عدالتی طریقہ کار میں رکاوٹوں اور حکومتی صلاحیت میں کمی کی وجہ سے اب ان مسائل کو حل کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ وبائی مرض سے
پہلے بھی، آجروں کے خلاف قابل نفاذ قراردادیں حاصل کرنا ایک طویل، مشکل جنگ تھی۔ کووڈ 19 نے کئی اضافی رکاوٹیں متعارف کرائی ہیں، جن میں کمیونٹی سپورٹ میں کمی اور ملازمتیں تبدیل کرنے کے کم مواقع شامل ہیں، جس کی وجہ سے مذدوروں کے لیے اپنے میزبان ملک میں رہنا اور اپنا مقدمہ لڑنا مشکل ہو بن گیا ہے۔ ایک بار جب ایک مہاجر گھر واپس آجاتا ہے، تو اکثر اس کے لیے مقدمے کو جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے جب تک کہ وہ پاور آف اٹارنی پر دستخط نہ کر لیں، یہ ایک مہنگا عمل ہے جس کا زیادہ تر متحمل نہیں ہو سکتا۔ اجرت کی چوری کے بہت سے واقعات کی توقع میں جو کووڈ 19 کی وجہ سے رونما ہو ئے، بین الاقوامی تنظیموں کا اتحاد کارکنوں کی اجرتوں اور واجب الادا مراعات کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی انصاف کے نظام کا مطالبہ کر رہا ہے۔
دیگر متعلقہ مثالیں:
کس طرح کورونا وائرس کی بندشوں نے قطر کے مہاجر مذدوروں کو متاثر کیا۔
"اجرت کی چوری”، خلیج سے واپس آنے والوں کے لیے ایک نقصان
رہنے اور کام کرنے کے نازک حالات
بحران کے شروع سے ہی، خلیجی گورمنٹ اور مشاہدین نے ان خطرات کو پہچان لیا تھا جو کہ ورکروں کی رہنے کے اور کام کرنے کے حالات کی وجہ سے وائرس کے پھیلاو کو آسان کر سکتے ہیں۔
گوورمنٹ افسران وائرس کے پھیلاو کے بارے میں زیادہ پریشان تھے بنسبت مہاجر ورکروں پر اس کے اثرات کت بارے میں، کبھی کبھار کچھ غیر موثر طریقوں سے انہوں نے ان کے رہنے کی جگہوں میں لوگوں کو کم کرنے کو کوشش کی۔ کچھ کیسز میں، ورکروں نے رپورٹ کیا کہ ان کو ایسے کیمپوں میں زبردستی بھیجا گیا جہاں حالات خراب تھے اور افسران نے ان کو زیادہ معلومات نہیں فراہم کی۔ اس کے علاوہ، لاکڈاون کے سخت ٹائم پر بھی یہ لوگ مہاجر ورکر تعمیراتی سائئٹس، گروسری سائیٹس اور دیگر سروس انڈسٹریز میں کام ہر جا رہے تھے۔ حفاظات زیادہ تر اوپر سطح پر تھی اور اسے پر اثرانداز طور پر نافزنہیں کیا گیا۔
اور مثالیں:
چھوڑے گئے اور بند کئیے گئے: عرب ممالک میں وائرس ڈومیسٹک ورکروں کو جکڑا ہوا
مہاجر ورکروں کی رہائش گاہ جو کووڈ انفیکشن کو بڑھا رہی ہے
ڈومیسٹک ورکرز: پوشیدگی، تنہائی اور عدم مساوات کے نقصان برداشت کرنا
کورونا وائرس خلیجی ممالک کے مہاجر ورکروں کو پھنسا دیا
نسل پرستی اور زینوفوبیا
نسل پرستی اورزینوفوبیا مہاجر ورکروں کے روزمرہ کے تجربات میں شامل ہوتا ہے اور کووڈ کے شروع سے اس میں بڑھاو آیا ہے۔ مہاجروں کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ یہ وائرس کواپنے رہن سہن کے انداز سے پھیلاتے ہیں حالانکہ ان کا اس پر بہت کم اختیار ہے۔ کچھ کیسز میں، اس سے مہاجر کی حالت پر بات چیت اور آگاہی شروع ہوئی۔ اور دیگر کیسز میں، اس نے مہاجر ورکروں کی آبادی اور ان کی جلا وطنی کی کالز کو بڑھایا ہے۔ نسل پرستی اور زینوفوبیا سے یہ بھی فرق پڑتا ہے کہ مذدوروں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اور یہ کے ان کو گوورمنٹ کے جواب سے کیسے خارج ہوتی ہیں۔
کچھ مثالیں:
خلیجی پارس کے مہاجر ورکروں لئیے پینڈیمک نے نظامی امتیازی کو بڑھایا ہے
کووڈ کا بحران مہاجر ورکروں میں نسل پرستی کی گفتگو کو ابھار رہا ہے
مہاجر خلیج میں ورکر نسل پرستی اور روز بروز کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کا سامنا کرتے ہیں
رپورٹنگ ٹپس
- کئی مہاجر ورکر اپنی بھڑاس نکالنے کے لئیے سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں۔ ٹوئیٹر، ٹک ٹاک، اور فیس بک ایسے مسائل کو ٹریک کرنے کے لئیے اچھی جگہیں ہیں۔
- کمیونٹی نیٹورک اور مقامی تنظیموں میں دیکھئیے۔ آبائی ممالک میں موجود تنظیموں تک رسائی زیادہ آسان ہوتی ہے۔ یہ ان لوگ تک رسائی بھی دے سکتے ہیں جو اپنی کہانی شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ ورکروں سے ان کا نمبر لینے کے بجائے اپنا نمبر ان سے شئیر کریں اور ان کو یہ بتا دیں کہ وہ جب چاہیں آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
- پچھلے کچھ عرصے میں افریقہ سے آنے والے ورکروں کی خاص کر کے عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کے ان کے پاس ڈیاسپورا والی سپورٹ نہیں ہوتی یہ گروپ فیس بک پر ایکٹو ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلقات بنائیے کیونکہ یہ اکثر کئی کمزور گروپوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے۔
- ورکروں کی حفاظت سب سے ضروری ہے اور یہ یقینی بنالیں کہ ان کو معلوم ہو کے آپ سے بات کرنے کے کیا رسک ہیں۔ ان باتوں کو دیگر سیکیور پلیٹفارم جیسے کے سگنل پر لے جائیں۔
- اگر آپ ورکروں سے لیبر کیمپ یا کسی اور رہائشگاہ پر براہراست ملیں تو واضح درخواست کریں کہ چند ہی ورکرباقی سب کے نمائندگان بن کر آگے آکر بات کریں ۔ ورنہ یہ حالت مزید بری ہوکر ایک خطرناک صورتحال بن سکتی ہے کیونکہ مہاجروں کے بڑے اجتماع غیر ضروری توجہ حاصل کریں گے۔ ایک اور چیز یقیی بنالیں کہ کووڈ کے پیش نظر مناسب سماجی فاصلہ اور حفاظتی اقدامات اختیار کرلیں۔
- گوورمنٹ کے داوں کو ورکروں اور مقامی تنظیوموں سے بات چیت کر کے فیکٹ چیک کریں۔ یہاں پر نظر آنے والی حقیقت سے کئی زیادہ ورکروں کے ساتھ کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ ہمیشہ جنس کے سوال کو ذہن میں رکھیں۔ مہاجر خواتین پر ہمیشہ ہی غیر متناسب اثر ہورہا ہوتا ہے چاہے وہ گھروں میں کام کریں یا دیگر سیکٹر میں کام کر رہی ہوں۔ ٹرانس اور نان بائینری مہاجر زیادہ جانچ پڑتال اور تفریق کا نشانہ بنتے ہیں۔
- اپنی تحقیق پہلے سے کرلیں اور انکے ٹائم کی دیکھ بھال کریں کیونکہ آپ جن تنظیموں سے ٹائم لے رہے ہیں وہ اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اپنی گنجائش سے زیادہ کام کررہی ہوتی ہیں۔
سیکورٹی مشورة
خلیجی ممالک کے پاس سٹیٹ آف دا آرٹ ڈیجٹل جانچ پڑتال کے ٹولز ہوتے ہیں تو آپ یہ پہلے سے سمجھ لیں کہ ساری کمیونیکیشن یعنی سوشل میڈیا، موبائل میسیجنگ کا نظام اور ای میل کو مانیٹر اور جانچا جارہا ہے۔
بات چیت کا سب سے محفوظ ترین طریقہ فلپ فون ہے کیونکہ سمارٹفون اکثر ڈیجٹل نشانات چھوڑ دیتا ہے۔ جبکہ سگنل جیسی میسجنگ ایپس سے باحفاظت کمیونیکیشن ممکن ہے لیکن جو سیکورٹی سمارٹ فون سے ملتی ہے اس کا ایسی صورتحال میں کوئی فائدہ نہیں جہاں فون ہی آپ سے یا آپ کے ذرائع سے لے لیا جاتا ہے۔
خاص طور پر،عوامی کارکن اور صحافیوں سے ان کے فون اکثر خلیجی ممالک میں چھین لئیے جاتے ہیں۔ تو دو قدم تصدیق شدہ طرز اور غائب ہوجانے والے میسجز بہت اہم ہیں۔ لیکن، اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ انکرپٹڈ میسجنگ ایپس کو خود ہی سٹیٹ سیکورٹی ایجنسیاں فلیگ کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ورچوئل پرائیوٹ نیورک (وی پی این) کا استعمال اومان میں غیر قانونی ہے اور خلیجی ممالک اور سعودی عرب اور یو اے ای میں محدود ہوتا ہے۔ اس ہی طرح، وائس اوور انٹرنیٹ (وی اوآئی پی) کالز کو پینڈیمک کے دوران خلیجی ممالک میں بلاک کیا گیا اور کئی مہاجروں کو گھر فون کرنے کے لئیے مفت سروسز استمعال کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اپنے ذرائع کے ناموں کواوردیگر معلومات کو اپنے کانٹینکٹ میں سیونا کریں۔ اس کے بجائے کوڈ ورڈ کا استعمال کرتے ہوئے ناموں کی شناخت یا زرائع اورانٹرویو کریں ۔
مہاجر ورکر خود ہی انجانے میں اپنی سیکورٹی کو نظر انداز یا کمزور کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ آگاہی کی کمی ہوتی ہے لیکن کسی بھی صورت میں حساس سٹوریز میں ان کی شناخت کو ظاہرنہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، حساس معلومات کو سوشل میڈیا پر بات کرنے سے گریز کریں خواہ وہ پرائیوٹ یا براہ راست میسجز ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی گفتگو کو آفلائن لے کر جانا ہی اپنے ذرائع کو محفوظ بنانا بہترین طریقہ ہے ۔
خلیجی ممالک میں کووڈ ویکسینیشن اپڈیٹ
سارے گلف کووپریشن کاونسل (جی سی سی) کی ریاستوں نے مہاجر اور باہر رہنے والے رہائشی کو مفت کووڈ ویکسینیشن اور بوسٹر مہم میں شامل کیا ہوا ہے۔ لیکن، اس تک کی رسائی کا لیول نہ صرف مختلف ممالک میں الگ ہے بلکہ ایک ہی ملک میں مختلف معاشی کلاس، رہائش کی جگہ اور امیگریشن کی بنا پرالگ ہوتا ہے۔ کوویت کے علاوہ سارے ہی خلیجی ممالک، پیپر پر ہی صحیح، قومیت کو ہٹا کر غیرامتیازی پروٹوکول مہیا کرتی ہے۔
پریکٹس میں، شہریوں کو پہلے ترجیح دی گئی تھی یا تو ڈیزائن کی بنا پر، یا بھرآبادی کی خدمت کرنے والے ویکسین سینٹرز کو کم بھیڑ اور زیادہ رسائی بخش بنا کر۔
کمزوریاں
مہاجرورکروں کی عارضی اور ایکسپوژر اور بڑے پیمانے کی نوکریاں ختم ہونے کی بنا پر، اس بات کا خطرہ ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کو ویکسین کا ایک ڈوز ملا وہ اتنے عرصے خلیجی ممالک میں ٹھہر ہی نہ پائے کہ وہ دوسرا ڈوز لے سکیں۔
کسی بھی جی سی سی ممالک نے واضع طور پر یہ نہیں کہا کہ غیر قانونی اور غیر دستاویزی مہاجر بغیر کسی پینلٹی کے لئیے ویکسینیشن کے لئیے اہل ہوں گے۔ مائگرنٹ رائٹس ڈاٹ او آر جی کی جانب سے کی گئی تحقیق اورانٹرویوز کے مطابق فرنٹ لائن اور ضروری ورکروں کے لیئے علاقے میں کوئی حتمی تعریف نہیں ہے۔ جب کے صحت فراہم کرنے والے ورکروں کو ترجیح دی جاتی ہے، سیکورٹی گارڈ، ڈیلووری پرسنل، اور مہمان توزی کا عملہ کم ہی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ جب کے کچھ قوانین پر کام کیا گیا تھا کہ ورکروں کو انکی تنخواہوں کی گارنٹی دی جائے، ورکروں کا کہنا ہے کہ انکو کم ہی وقت دیا جاتا ہے کہ وہ ویکسین کے ضمنی اثرات سے صحت یاب ہو سکیں۔
نئی ریکروٹمنٹ
ہم نئے مہاجر ورکروں کی نئ لہر دیکھ رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین پاسپورٹ ایک ابھرتا ہوا رجحان ہے۔ کچھ جی سی سی ممالک میں، کچھ سیکٹر میں کام کرنے کے لئیے ویکسینیشن اب لازمی ہے اور مالکان اب ویکسینیشن اور بوسٹر کو بھرتی کے لئیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔
ایک اور اہم عناصر پر غور کریں: آبائی ملکوں میں ویکسین کے لئیے کون ادائیگی دیتا ہے اگر بھرتی کرنے کا عمل اور سفر کرنے کا مقصد ہی نئی نوکریاں لینا ہے۔ کئی مہاجر، خاص کر کے، پہلے بارجانے والے، 35 سال سے کم کی عمر کے لوگ صحت بخش افراد ہوتے ہیں۔ اور ویکسین اور اس کے بعد کے بوسٹر شاٹس کے لئیے اہل نہیں ہوں گے۔ مثال کے طور پر بھارت میں، گوورمنٹ کے سینٹر مفت ویکسین فراہم کرتے ہیں، لیکن اہلیت کا معیار 80 سال سے ذائد اور دوسری بیماریاں رکھنے والے پینتالیس سے زیادہ رکھنے والے لوگوں کو ترجیح دیتا ہے۔ اور بھارت کے کچھ نجی ہسپتال جو کے ویکسینیشن اور بوسٹر کے منظور شدہ ہیں وہاں پر بھی کچھ قیمت چکانی پڑتی ہے تاکہ قطار میں آگے بڑھ سکیں۔ لیکن، بھرتی کرنے کا عمل چھ سےآٹھ مہینے کا لمبا انتظار اتنا وقت مہیا نہیں کرتا جو کہ دونوں خوراکوں کے درمیاں وقفے کا دورانیہ ہے۔ یہ اہم ہے کہ جی سی سی کی ویکسین پالیسیوں کو بھی بھرتی کرنے کے عمل میں دیکھیں۔ کیا ڈومیسٹک ورکر اور صحت فراہم کرنے والے ورکروں کے لئیے بھی ضروری ہے کہ وہ آنے اور اپنے کام کی جگہ جانے سے پہلے ویکسین لگائے ہوئے ہوں۔ چاہے بڑھنے والی پیچدگیوں کے بارے میں ہمیں ویکسین پروٹوکول کی وجہ سے یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، ہمیں اتنا ضرور پتا ہے کہ اس سےعدم مساوات اوراس مسئلے پر رپورٹنگ دشوار ہوگی۔ ملک اپنی ویکسین پالیسیاں اور پروٹوکول اپ ڈیٹ کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر، اپریل 2021 میں قطر میں ویکسین سینٹر بنایا گیا جس کے ذریعے کم آمدنی رکھنے والے مہاجروں کو سروس دی جاتی ہے۔
کووڈ ویکسین کی خلیجی ممالک مین معلومات اور ڈیٹا کے ذرائع