رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش
Belarusian political activist Sviatlana Tsikhanouskaya being interviewed by a Radio Free Europe/Radio Liberty reporter in Paris, France, 2022. Image: Pavel Krichko, Flickr, Creative Commons
Belarusian political activist Sviatlana Tsikhanouskaya being interviewed by a Radio Free Europe/Radio Liberty reporter in Paris, France, 2022. Image: Pavel Krichko, Flickr, Creative Commons

Belarusian political activist Sviatlana Tsikhanouskaya being interviewed by a Radio Free Europe/Radio Liberty reporter in Paris, France, 2022. Image: Pavel Krichko, Flickr, Creative Commons

رپورٹنگ

اگر وائس آف امریکہ ختم ہو جائے تو کیا کھو جائے گا: واچ ڈاگ کی روح، دلیر صحافی، اور عالمی جنوب پر مرکوز توجہ

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

ایک رپورٹنگ نیٹ ورک جو دنیا بھر میں کروڑوں افراد تک رسائی رکھتا ہے، جو جمہوریت کے فروغ کے مقصد سے قائم کیا گیا تھا اور جو اکثر مقامی اور ریاستی میڈیا نیٹ ورکس کے متبادل کے طور پر اکلوتا ذریعہ ہے، اس وقت خطرے کی زد میں ہے۔

لیکن جبکہ وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی اور ریڈیو فری ایشیاء جیسی ویب سائٹس کئی خطوں میں متبادل حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے طور پر دیکھی جاتی ہیں، اب یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے وجودی خطرے کا سامنا کرنے والے تازہ ترین صحافتی ادارے بن چکے ہیں۔

مارچ کے وسط میں وائٹ ہاؤس نے اچانک اعلان کیا کہ وہ یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) کی فنڈنگ بند کرنے اور بڑے پیمانے پر برطرفیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ادارہ امریکی کانگریس کی طرف سے سالانہ ۸۶۰ ملین ڈالر کی فنڈنگ حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ یہ ادارہ زیادہ مشہور نہیں ہے۔ یو ایس اے جی ایم وائس آف امریکہ (وی او اے)، ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/آر ایل) اور دیگر امریکی فنڈ یافتہ نیوز اداروں کی سرپرست ہے۔ یہ ادارے دنیا کے کئی حصوں میں عوام میں مشہور ہیں۔

یہ نیوز سائٹس کل ملا کر ہر ہفتے اندازاً ۳۶۰ ملین عالمی سامعین تک پہنچتی ہیں اور ۴۷ زبانوں میں ڈیجیٹل، ٹی وی اور ریڈیو کے لیے مواد تیار کرتی ہیں۔

"یو ایس اے جی ایم کے ذرائع ابلاغ کو خاموش کرنا درحقیقت اُن کمزور اور مظلوم طبقات کی آواز دبانے کے مترادف ہے جو ابلاغِ عامہ تک رسائی سے محروم ہو جائیں گے،” انٹرنیوز کے سینئر مشیر اور جی آئی جے این کے بورڈ ممبر اولیگ کھومنوک نے خبردار کیا۔ "سینکڑوں ملین افراد مقامی زبان میں خبریں فراہم کرنے والے آزاد اور غیرجانبدار ذرائعِ اطلاعات سے محروم ہو سکتے ہیں۔”

وی او اے اور آر ایف ای/آر ایل جیسے اداروں کو بند کرنا ان سینکڑوں صحافیوں کی آواز کو بھی بند کرنا ہوگا جنہوں نے دنیا کے نظرانداز شدہ حصوں میں سالوں یا دہائیاں گزاری ہیں اور جو اکثر وہ ان چند اداروں میں شامل ہوتے ہیں جو انسانی حقوق، بدعنوانی، اور جنگی جرائم جیسے موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں—اکثر اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ایسا کرتے ہیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق ۲۰۰۳ سے وی او اے سے منسلک یا اس کے لیے کام کرنے والے نو صحافیوں کو قید کیا گیا اور مزید نو کو قتل کر دیا گیا۔ اس وقت بھی وی او اے کے دو معاون صحافی جیل میں ہیں۔ سی تھو آنگ مائنت کو ۲۰۲۱ میں میانمار میں فوج کو بدنام کرنے اور لوگوں کو اس کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں کُل۱۲ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تحقیقاتی صحافی اور ریڈیو فری ایشیاء کے ساتھ کام کرنے والی فام چی دونگ نے ویتنامی حکومت میں بدعنوانی اور بد انتظامی کو بے نقاب کیا تھا۔ انہیں ان کے اپنے ملک میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس وقت وہ "حکومت مخالف پراپیگنڈا” کے لیے ۱۵ سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

Voice of America sign

The Voice of America was founded during World War II and has editorial independence from government influence built into its charter. Image: Shutterstock

اس قدر نتائج خیز فیصلے کا جواز دیتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وی او اے اور دیگر یو ایس اے جی ایم کی خبریں "متعصبانہ” ہیں اور وہ دنیا کو "امریکہ نواز” نقطہ نظر مناسب طور پر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن وی او اے ۱۹۴۲ میں نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے تاسیسی چارٹر میں ادارتی آزادی شامل تھی اور ۱۹۹۴ کا یو ایس براڈ کاسٹنگ ایکٹ اس کے ادارتی ملازمین کے کام میں حکومتی اہل کاروں کی طرف سے کسی بھی مداخلت کو روکتا ہے۔

یو ایس اے جی ایم کی عالمی سطح پر نشریات اور اشاعت کی موجودگی کو تقریباً ختم کرنے کی یہ کوشش ٹرمپ انتظامیہ کے امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے خاتمے کے لیے وسیع مہم کے آغاز کے ہفتوں بعد آئی تھی۔  اس ایجنسی کے خاتمے نے ایک امداد کا بحران پیدا کیا ہے جس نے دنیا بھر میں آزاد اور تحقیقاتی صحافتی اداروں کی ایک ان کہی تعداد کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

یو ایس اے جی ایم کی امداد میں کٹوتیوں کے خلاف اس وقت امریکی عدالتوں میں مقدمات زیرِ سماعت ہیں جیسے یو ایس ایڈ پروگراموں کے خاتمے کے خلاف بھی کیس دائر ہیں۔ مارچ کے آخر میں ایک وفاقی جج نے وی او اے میں برطرفیوں کو روکنے کا حکم دیا اور ایک اور جج نے آر ایف ای/آر ایل کی فنڈنگ ستمبر تک بحال کرنے کا حکم دیا۔ لیکن یہ کامیابیاں وقتی ثابت ہو سکتی ہیں اور یو ایس اے جی ایم کے خبروں کے عوامل کا مستقبل شدید خطرے میں ہے۔

آر ایس ایف نے وی او اے کے صحافیوں اور بعض لیبر یونینز کے ساتھ مل کر عدالت میں فنڈنگ کی کٹوتیوں کو چیلنج کیا ہے۔ آر ایس ایف یو ایس اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کلیٹن ویمرز نے کہا کہ ”یہ عارضی حکم امتناع صرف خون بہنے سے روکنے کے لیے ہے اور اگلا قدم مریض کو بچانے کی کوششیں شروع کرنا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ وہ  وی او اے کے خلاف مزید کسی قدم کی ہمیشہ کی روک تھام کے لیے حکمِ امتناعی کی درخواست جمع کروائیں گے۔

خومینوک نے یو ایس اے جی ایم کی غیر موجودگی کے عمومی طور پر عالمی صحافت پر پڑنے والے اثرات کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا خاص طور پر وہ اہم کردار جو اس کے ذیلی ادارے ان کے علاقے میں ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ "ریڈیو لبرٹی اور وائس آف امریکہ سوویت یونین کے زوال کے بعد وجود میں آنے والے ممالک جن میں مشرقی یورپ، قفقاز، وسطی ایشیا اور روس شامل ہیں، میں پیشہ ورانہ معیار طے کرنے والے ادارے ہیں۔” "یو ایس اے جی ایم نے مقامی صحافیوں کو آگاہی دینے اور تربیت دینے کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں — چاہے وہ اپنے ممالک کے اندر ہو یا مطالعاتی دوروں، انٹرن شپس، یا پراگ اور واشنگٹن میں نیوز رومز کے ذریعے ہوں۔ واضح طور پر یو ایس اے جی ایم کے زرائع ابلاغ کا خاتمہ پیشہ ورانہ معیارات اور مقامی صحافیوں اور میڈیا میں پیشہ ورانہ سطح کے زوال کا سبب بنے گا۔”

مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تردید کرنا

گزشتہ چند برسوں میں وی او اے کے کام کا ایک بڑا حصہ مِس انفارمیشن اور ڈِس انفارمیشن کی تردید پر مشتمل رہا ہے۔ فاطمہ تلیس بتاتی ہیں

"ایسے ممالک جہاں ریاست میڈیا پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے وہاں حقائق کی جانچ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی،” وی او اے کی فیکٹ چیک یونٹ پولی گراف ڈاٹ انفو کی سپروائزری ایڈیٹر فاطمہ تلیس نے کہا۔ اس یونٹ کی توجہ روسی ڈس انفارمیشن اور چینی ریاستی پراپیگنڈا کی تردید پر مرکوز ہے۔ "ہم اسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

 

فاطمہ تلیس اپنے کام کے لیے غیر معمولی طور پر موزوں ہیں۔ وہ ۲۰۰۰ کی دہائی کی شروعات سے وسط تک دوسری چیچن جنگ کے دوران شمالی قفقاز میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹر تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں روسی ایجنسیوں نے اغوا کیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ "مجھے معلوم ہے کہ اقتدار کے سامنے سچ بولنا کیا ہوتا ہے،” انہوں نے کہا۔ ۲۰۰۷ میں انہیں اور ان کے خاندان کو امریکہ میں سیاسی پناہ دی گئی تھی۔

جب ۲۰۱۶ میں اس یونٹ کا ٓغاز ہوا تو اس میں ۱۰ افراد تھے۔ وقت کے ساتھ فنڈنگ میں کمی کے باعث یہ یونٹ سکڑ گیا۔ جب مارچ کے وسط میں وی او اے کے عملے کو جبری چھٹی پر بھیجا گیا تو ان کے یونٹ میں صرف تین افراد باقی رہ گئے تھے۔

ٹلس نے کہا کہ اس وقت جب انٹرنیٹ پر معلومات کا سیلاب آیا ہوا ہے تو کسی کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ فیکٹ چیکنگ کتنی اہم ہے۔ "لیکن آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ان ممالک میں صورتحال کیسی ہوتی ہے جہاں فیکٹ چیکنگ کا تصور ہی موجود نہیں ہے،” انہوں نے مزید کہا۔

ٹلس یہ تسلیم کرتی ہیں کہ چونکہ وی او اے صرف امریکہ سے باہر نشریات کرتا ہے، اس لیے امریکی عوام کے لیے سمجھنا مشکل ہے کہ عالمی سطح پر اس کی کیا اہمیت ہے اور غیر ملکی سامعین کیسے اس کی آزادانہ رپورٹنگ کی تعریف کرتے ہیں۔ "لیکن اب وقت ہے کہ انہیں دکھائیں کہ وی او اے کتنا ناگزیر ہے،” انہوں نے کہا۔

دور دراز علاقوں میں پہنچنا

آٹھ دہائیوں پر محیط اپنی صحافتی تاریخ میں وی او اے نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی حمایت کرنے والے ادارے کے طور پر ایک معتبر شناخت حاصل کی ہے۔ سمن خان 2017 سے پاکستان میں وی او اے کی مکمل وقتی غیر ملکی کنٹریکٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ ایک ایسا لمحہ یاد کرتی ہیں جو دنیا میں وی او اے کو ملنے والی عزت کو اجاگر کرتا ہے۔

"ان خاتون — میری سورس — نے مجھے انٹرویو دینے کے لیے آٹھ گھنٹے انتظار کیا،” خان نے یاد کرتے ہوئے کہا۔ "انہوں نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتی تھیں کہ وائس آف امریکہ کے لیے ان کی کہانی بتانے کا کیا مطلب تھا۔”

"پاکستان میں ٹیلی ویژن ایک بااثر اور وسیع پیمانے پر دستیاب ذریعۂ ابلاغ ہے۔ لیکن پاکستان میں زیادہ تر میڈیا سیاستدانوں اور ان کی حرکات کے بارے میں ہر بات پر توجہ رکھتا ہے،” خان نے بتایا۔ "ہم ان چند لوگوں میں شامل تھے جو انسانی دلچسپی کی خبریں کیا کرتے تھے۔”

خان نے ملک کے دور دراز علاقوں سے بھی رپورٹنگ کی ہے جن میں خیبر پختونخوا جو افغانستان سے متصل ایک دشوار گزارپہاڑی علاقہ ہے بھی شامل ہے۔ ” میں اور میرے شوہر چند برس پہلے اس علاقے میں چھٹیاں منا رہے تھے،” انہوں نے بتایا۔ جب مقامی لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ وی او اے سے وابستہ صحافی ہیں تو وہ ان کے ہوٹل پہنچ گئے تاکہ انہیں اس علاقے میں اپنے مسائل بتا سکیں، اس امید کے ساتھ کہ ان کی کہانیاں ممکنہ طور پر بہتری لائیں گی۔ "ہم نے اپنی چھٹیاں ان کی باتیں سننے میں گزار دیں اور واپسی پر ۱۶ کہانیوں کے ساتھ لوٹے،” انہوں نے بتایا۔

سمن خان 15 مارچ سے رخصت پر ہیں اور چونکہ وہ کنٹریکٹر ہیں، وفاقی ملازم نہیں ہیں۔ اس لیے وہ اب تک اپنی ملازمت کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کی کیفیت میں ہیں۔

آمریت زدہ ممالک کے ناظرین کے لیے خبر رسانی

کیرولینا ویلاڈاریس پیریز 18 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ مصر، ترکی اور ہونڈوراس جیسے ممالک سے رپورٹنگ کر چکی ہیں جہاں صحافتی آزادی کو اکثر دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ تاہم گزشتہ چھ سالوں سے وہ وی او اے کے لیے وائٹ ہاؤس اور کانگریس کی نمائندہ کے طور پر لاطینی امریکہ ڈویژن میں موجود ہیں۔

ان کی رپورٹنگ لاطینی امریکہ کے 700 سے زائد الحاق شدہ چینلز تک پہنچتی تھی۔ "ہمارا بنیادی مقصد ان علاقوں تک پہنچنا تھا جہاں میڈیا کی زیادہ موجودگی نہیں ہے،” انہوں نے وضاحت کی۔ وہ اپنے کردار کو واشنگٹن ڈی سی سے لاطینی امریکی ممالک کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے ناظرین تک براہِ راست رابطے کے طور پر دیکھتی تھیں۔ وہ امیگریشن جیسے اہم مسائل پر پالیسیوں کی کوریج کرتی تھیں۔

گواتیمالا یا ہونڈوراس جیسے ممالک میں میڈیا اداروں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ واشنگٹن میں نمائندہ مقرر کر سکیں تو انہوں نے کہا کہ ان کی رپورٹنگ نے اس خلا کو پُر کرنے میں مدد فراہم کی۔ اور بہت سے مقامی صحافیوں کے برعکس جو ان ممالک میں طاقتور حلقوں کے لیے ناپسندیدہ رپورٹس پر دھمکیوں یا اس سے بھی بدتر حالات کا سامنا کرتے ہیں، وہ یہ واضح کرتی ہیں کہ وائس آف امریکہ میں "ہمیں ہمیشہ ادارتی آزادی حاصل رہی ہے۔”

یورپ میں اہم کردار

آر ایف ای/آر ایل یو ایس اے جی ایم کا گرانٹ یافتہ ادارہ ہے۔ اس کے پاس وی او اے کی طرح وفاقی ملازمین نہیں ہیں۔ تاہم، اس کی فنڈنگ کو ختم کرنے کا خطرہ یورپ میں میڈیا کے ماحول پر سنگین اثرات ڈال سکتا ہے۔

"ریڈیو لبرٹی کے نیوز روم وہ واحد معیاری میڈیا تھے جو ایسی کہانیاں رپورٹ کرتے تھے جو دوسرے حالات میں ان کہی رہ جاتیں۔” — اولیگ کھومنوک

ویلےریا یگوشینا سکیمز نامی ایک تحقیقی نیوز پروجیکٹ کی صحافی ہیں۔ یہ پروجیکٹ ریڈیو لبرٹی کی یوکرین سروس کا حصہ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ بہت کم میڈیا اداروں میں سے ایک تھے جو بدعنوانی جیسے سنگین مسائل پر رپورٹ کرتے تھے۔ جبکہ یوکرین کے بیشتر میڈیا پلیٹ فارمز جنگ پر مرکوز تھے۔

آر ایس ایف کے کلیٹن وائمرز کا کہنا ہے کہ اس بحران نے سیکھنے کا ایک موقع بھی فراہم کیا ہے۔ "ہمیں ہمیشہ آزاد میڈیا کی اہمیت پر زور دینا چاہیے،” انہوں نے نشاندہی کی۔ "صرف اس وقت نہیں جب یہ ادارے خطرے میں ہوں۔”

پیچھے رہ جانے والے خبروں کے خلا کو کون بھرے گا؟

اگر وی او اے اور آر ایف ای/آر ایل جیسی ویب سائٹس غائب ہو جاتی ہیں تو بہت سے ممالک کے نیوز ماحولیاتی نظام میں ان کی جگہ جو بھی لے گا، وہ آزاد صحافت سے کم ہی مشابہت رکھے گا، اگر وہ رپورٹنگ کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر خومینوک نے مشرقی یورپ کے بیشتر حصوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "ریڈیو لبرٹی کے نیوز روم وہ واحد معیاری میڈیا تھے جو ایسی کہانیاں رپورٹ کرتے تھے جو دوسرے حالات میں ان کہی رہ جاتیں۔ بین الاقوامی رپورٹرز کی ٹیموں نے بہت سی بہترین سرحد پار تحقیقی کہانیاں تیار کیں جنہوں نے منظم جرائم، بدعنوانی، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بے نقاب کیں۔”

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس قسم کی احتسابی رپورٹنگ کے بغیر دنیا کے کئی علاقے صحافتی آزادی کو مزید کم ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں جبکہ لوگ ممکنہ حکومتی یا کارپوریٹ بدانتظامی کی نگرانی کی کمی کا شکار ہوں گے۔

خومینوک نے خبردار کیا کہ یہ آمروں کی انتقام لینے اور صحافیوں کو سزا دینے کی خواہشوں کو بھی بڑھائے گا۔ "ہمیں یہ واضح طور پر سمجھنا چاہیے کہ آزاد میڈیا کو بند کرنے کا مطلب پراپیگنڈہ، گمراہ کن معلومات اور ہیرا پھیری کے لیے مواقع فراہم کرنا اور جگہ بنانا ہے اور یہ عوام کی بہتر زندگی کے لیے امید کو مزید تباہی کی طرف لے جائے گا۔”


رکشا کمار بھارت میں مقیم ایک فری لانس صحافی ہیں۔ ان کی رپورٹنگ انسانی حقوق، زمین اور جنگلات سے متعلقہ حقوق پر مرکوز ہے۔ سنہ ۲۰۱۱ سے، وہ دی نیو یارک ٹائمز، بی بی سی، گارڈین، ٹائم اور ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ جیسے اداروں کے لیے رپورٹنگ کر چکی ہیں۔ آپ ان کے مزید کام یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

smartphone TikTok videos misinformation

ٹک ٹاک پر مِس انفارمیشن: ڈاکیومنٹڈ نے مختلف زبانوں میں سینکڑوں ویڈیوز کا کیسے جائزہ لیا؟

ٹک ٹاک پر غلط معلومات کی تحقیق کے لیے، ڈاکیومنٹد کی ٹیم نے بڑی مقدار میں ڈاؤن لوڈ کی گئی ویڈیوز کو نقل کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے آے آئی کے استعمال کے لیے یہ طریقہ کار تیار کیا۔

Border grave Greece

یورپ کے سرحدی علاقوں میں تارکین وطن کی نامعلوم قبروں کی دستاویز سازی

اس تفتیش نے ان اہم سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جن کا کوئی حکومت جواب نہیں دے سکی: جب کوئی یورپ کی سرحدوں پر لاپتہ ہو جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ اور پورے یورپ میں کتنی تدفین کی جگہیں ہیں؟

Imagen: Joanna Demarco para GIJN

ٹپ شیٹ

صحافیوں کے لیے ٹِپ شیٹ: او سی سی آر پی کے ایلیف سے فائدہ کیسے اٹھائیں

تحقیقاتی صحافت میں معلومات کے مختلف نکات کو جوڑنا اکثر سچائی کو بے نقاب کرنے کے لیے اہم ۔ہوتا ہے۔ آن لائن اور آف لائن دستیاب معلومات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ صحافیوں کو دستاویزات، ریکارڈزاور ڈیٹا سیٹس کے وسیع مجموعوں کو دیکھنے اور استعمال کرنے کے لیے مؤثر طریقوں کی ضرورت ہے۔