رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

رپورٹنگ

ایک کامیاب مقامی تحقیقاتی ادارہ چلانے کے لیے تجاویز

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

جب بات دلچسپ خبروں کی ہو تو مقامی خبریں بدقسمتی سے سب سے نچلے درجے پر آتی ہیں۔ تاخیر کی شکار ٹرینوں اور کھوئی ہوئی بلیوں کے متعلق روائیتی مقامی خبریں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن وہ یقیناً کوئی پلٹزر انعام نہیں جیت سکتیں۔ کچھ ہی نئے صحافی ایسی روزمرہ کی مختصر خبریں لکھنے کا خواب دیکھتے ہیں اور اعداد و شمار کے مطابق بہت کم لوگ انہیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ صرف گزشتہ دہائی میں ہی برطانیہ میں سینکڑوں مقامی اخبارات بند ہو چکے ہیں۔

یہی چیز مِل میڈیا کو منفرد بناتی ہے۔ مِل میڈیا ایک ایسا ادارہ ہے جس کے اب برطانیہ میں چھ علاقائی ایڈیشنز اور سترہ رپورٹرز ہیں۔ ان رپورٹرز میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں اور کچھ تو ابھی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ ۲۰۲۰ میں سب اسٹیک نیوز لیٹر کے طور پر قائم ہونے والے اس ادارےکے بانی جوشی ہیرمن نے اس کی پہلی ای میل کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا کہ مِل میڈیا نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا۔ "میں نے ایک تحریر لکھی تھی جس نے ایک ایسی چیز کے لیے بات کرنے کی کوشش کی تھی جسے میں نیا اخبار کہتا ہوں،“ انہوں نے سی آئی جے سمر کانفرنس ۲۰۲۵ میں کہا۔ ”یہ ایک جرات مندانہ دعویٰ تھا کیونکہ اس وقت ایک ہی شخص تھا، کوئی دفتر نہیں تھا، کوئی ٹیم نہیں تھی اور کوئی فری لانس کام کرنے والا بھی نہیں تھا۔“

بارہ سال صحافت کرنے اور تفصیلی فیچرز لکھنے اور تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے کے بعد ہیرمن نے فیصلہ کیا کہ وہ مقامی خبروں کی بوسیدہ شبیہ کو بدلیں گے اور  بے رنگ کہانیوں کو لمبی رپورٹس میں تبدیل کریں گے۔ "میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتا تھا کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح اس چیز کو لوگوں کو لوٹانے کی کوشش کر رہا تھا جو وہ مقامی اخبارات سے حاصل کرتے تھے،“ انہوں نے وضاحت کی۔ "اس لیے میں نے مقامی خبروں کا ایک ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی جو پہلے سے موجود دیگر نشریاتی اداروں سے مختلف لگے گا۔“

مل میڈیا کے بانی جوشی ہرمن (بائیں سے دوسرے) اور ان کی ادارتی ٹیم کے ارکان، بشمول اسٹاف رائٹر جیک ڈلہنٹی (بائیں)، مصنف ڈینی کول (درمیان دائیں) اور سینئر ایڈیٹر سوفی اٹکنسن۔ تصویر: ڈینی کول

وہ ماڈل ادارے کے لیے ایک بڑی کامیابی ثابت ہوا ہے۔ اس کے اب مانچسٹر، شیفیلڈ، لندن، برمنگھم، لیورپول اور گلاسگو میں ۱۷۰،۰۰۰ قارئین اور ۱۱،۰۰۰ ادائیگی کرنے والے سبسکرائبرز ہیں۔ ان کی تحقیقات میں دو ایسی خبریں شامل ہیں جو حال ہی میں برطانیہ کے معتبر "پال فُٹ ایوارڈ” کے لیے نامزد ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ لیورپول میں خیراتی ہاؤسنگ کی خراب حالت کو بے نقاب کرنے والی ایک چار حصوں پر مشتمل سیریز اور مانچسٹر شہر کے ایک سرکاری اہلکار کے وبا کے فنڈز کے انتظام پر ایک سات ماہ پر محیط تحقیق بھی شامل ہیں۔

اگرچہ سخت گیر تحقیقات کے لیے فنڈنگ حاصل کرنے اور آڈئینس  بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن مِل میڈیا کی واچ ڈاگ رپورٹس اکثر نئے قارئین اور سبسکرائبرز کی ایک بڑی تعداد کو متوجہ کرتی ہیں۔”ہمیں پتہ چلا ہے […] کہ ہمارے بڑے لمحات ان لمحات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جن ہم ایسی رپورٹ شائع کرتے ہیں جو ہفتوں، مہینوں یا بعض اوقات ایک سال سے بھی زیادہ محنت کے بعد تیار کی جاتی ہیں،“ ہیرمن نے کہا۔ ”جو کہ ظاہر ہے ایک اچھی بات ہے۔ اس قسم کی صحافت ہمیں اچھا بدل دیتی ہے۔”

اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہیرمن نے ایک کامیاب مقامی تحقیقاتی پلیٹ فارم چلانے اور ایسی پر اثر خبریں بنانے کے لیے جو ایک وفادار قارئین پیدا کرتی ہیں، اپنی سب سے اہم ٹِپس کا ذکر کیا۔

کہانیاں سنانا

ہیرمن نے ایک ایسی چیز پر زور دیتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا جو ”اکثر نظرانداز ہو جاتی ہے“: کہانی سنانے کا فن۔ تحقیقاتی صحافیوں کی میزوں پر دستاویزات اور انٹرویوز کے متن کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ ایسے میں ایک قدم پیچھے ہٹ کر یہ سوچنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کہانی ایک ایسے انداز میں کیسے سنائی جائے کہ قاری اس کے ساتھ ایک جذباتی تعلق محسوس کرے۔ ہیرمن نے زور دیا کہ یہ مِل میڈیا کی تحریر اور ایڈیٹنگ کے عمل میں کس قدر اہم ہے۔

"اگر آپ کسی ناول نگار یا نیٹ فلکس کے پروڈیوسر کے بارے میں سوچیں […] تو وہ سب سے پہلے یہ سوچیں گے: کہانی کیا ہے؟ کہانی کا تسلسل کیا ہے؟ میں اس میں کشیدگی کیسے پیدا کروں؟ میں اسے کیسے سلجھائوں؟ کردار کون ہے؟” انہوں نے کہا۔ "میرا نہیں خیال کہ تحقیقاتی صحافی ہمیشہ ایک خبر کو ایک بہترین کہانی کے خاکے میں فِٹ کر سکتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کہانی سنانا معلومات کا ایک ڈھیر دینے کے مقابلے میں لوگوں کے لیے زیادہ پرکشش اور دلچسپ طریقہ ہے۔”

ہیرمن نے اس کا موازنہ دوستوں کو زبانی کہانی سنانے سے کیا۔ اس کی ایک تمہید ہوتی ہے، ایک جھلک ہوتی ہے جو بتاتی ہے کہ آگے کچھ دلچسپ ہونے والا ہے اور پھر معلومات کا ایک آخری حصہ اس وقت آتا ہے جب سب سننے والے تجسس کی انتہاء پر ہوتے ہیں۔”یہ بہت عجیب ہوگا کہ آپ انہیں سب سے اہم بات شروع میں ہی بتا دیں،“ انہوں نے کہا۔ ”اس سے تو محفل فوراً ختم ہو جائے گی۔”

چاہے وہ ناول نگار ہوں، دستاویزی فلم بنانے والے ہوں یا بس نجی محفل میں سنائی جانے والی کہانیاں ہوں جو متاثر کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں ۔ "ہمیں بطور صحافی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ تکنیکیں کیا ہیں،“ انہوں نے کہا۔ ”کیونکہ وہ حیران کن طور پر متاثر کن ہوتی ہیں۔”

مناظر تخلیق کرنا

ہیرمن نے کہا کہ کہانی سنانے کے عمل کا ایک اور بنیادی حصہ تفصیلات کی مدد سے "مناظر” تخلیق کرنا ہے۔ "آپ صرف وہی روٹین کی چیزیں جیسے کہ  بیانات، رنگ، حقائق، تصدیق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے جو صحافت کے اسکول میں سکھائی جاتی ہیں،” انہوں نے وضاحت کی۔ "مناظر ایک خبر یا ایک شخص کے بارے میں کسی چیز کو طویل وضاحت یا تجزیے سے بہت بہتر انداز میں دکھا سکتے ہیں۔”

کہانیوں کو ایڈٹ کرتے ہوئے ہیرمن اکثر رپورٹرز سے کہتے ہیں کہ وہ ایک منظر کو مزید واضح کریں۔ "میں ہمیشہ کہوں گا: ’کیا آپ واپس سورس کے پاس جا سکتے ہیں اور اس سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ [واقعہ] کہاں ہوا تھا؟ وہاں کتنے لوگ موجود تھے؟ ماحول کیسا تھا؟ لوگوں نے کیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے؟ لوگوں کو کیا غیر معمولی لگا؟‘” انہوں نے کہا۔ "آپ قاری کو چند پیراگراف دے رہے ہیں جو اسے اس کمرے کے اندر لے جاتے ہیں۔”

ہیرمن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ہی ایک منظر ۲۰۲۲ میں شائع ہونے والی مانچسٹر مل کی ایک رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے: سائمن مارٹن مانچسٹر کا بہترین شیف ہے۔ کیا وہ اس شہر کا بدترین باس ہے؟ اس رپورٹ میں کل ۱۶ ذرائع نے مارٹن کی طرف سے دفتر میں توہین آمیز رویے کے الزامات کی بات کی۔ ہیرمن کے مطابق وہ ایک "بہترین شیف” تھے جو مانچسٹر کے ایک اعلیٰ ریسٹورنٹ کی قیادت کر رہے تھے لیکن "اسی وقت میں ایک آمر بھی تھے۔” (مارٹن نے ان ۱۶ افراد کے انٹرویوز کو "غیر معتبر ذرائع” اور "ناراض سابق ملازمین” قرار دے کر رد کر دیا اور کہا کہ اس کے کیریئر کو نقصان پہنچانے کے لیے مل کر سازش کر رہے تھے۔)

اس خبر نے ایک اہم منظر دکھایا جس میں مارٹن نے سٹاف کے ساتھ ایک رات باہر ہوتے ہوئے ڈنمارک کے مشہور مشلین اسٹار شیف رینے ریڈزیپی کے ساتھ فون پر بات کرنے کا دعویٰ کیا۔ "مارٹن کے کے سٹاف ان کی عزت اس لیے کرتے تھے کہ انہوں نے اس عظیم شیف [ریڈزیپی] کے ساتھ کام کیا تھا،” ہیرمن نے وضاحت کی۔ "کیا شاندار لمحہ ہے کہ آپ اپنے باس کو دنیا کے بہترین شیف سے بات کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اور پھر کچھ دیر بعد ایک سٹاف ممبر نے نوٹ کیا کہ مارٹن کے فون پر ان کی ہوم اسکرین نظر آ رہی تھی۔”

"نہ صرف یہ کہ مارٹن دنیا کے بہترین شیف سے بات نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ کسی سے بھی بات نہیں کر رہا تھا،” انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ "کسی قسم کی وضاحت سائمن مارٹن کے عجیب رویے اور اس چھوٹے سے تاثر کی وضاحت نہیں کر سکتی۔”

اپنے کردار ڈھونڈیں

ایسے افراد کو ڈھونڈنا جو آپ کی خبروں کو مزید دلچسپ بناتے ہیں بہت اہم ہے، ہیر من نے مشورہ دیا۔ "اچھی خبریں اچھے کرداروں پر منحصر ہوتی ہیں۔ یہ تحقیقاتی صحافیوں کے سوچنے کے لیے ایک روائیتی چیز نہیں ہے،” انہوں نے کہا۔ ”ہم نے جو سب سے متاثر کن خبریں کی ہیں ان میں بہت مضبوط مرکزی کردار موجود تھے۔ اصل میں لوگ کسی کہانی سے یہ چاہتے ہیں کہ جب وہ اسے پڑھیں تو جان سکیں کہ دوسرے انسان مختلف حالات سے کس طرح نمٹتے ہیں۔”

اسٹاک مارکیٹ انویسٹمنٹ فنڈ اور سوشل ہاؤسنگ سیکٹر میں معاہدوں پر مبنی ایک تحریر پر اٹک جانے کے بعد ہیر من اور ان کی ٹیم کو اُس وقت بڑی پیش رفت ملی جب انہیں پتہ چلا کہ ایک ایسا مرکزی کردار موجود ہے جو قارئین کی ایک بہت  پیچیدہ کہانی میں آسانی سے توجہ پیدا کر سکتا ہے۔ انہوں نے وولور ہیمپٹن کے ایک پراپرٹی ایجنٹ پر اپنی توجہ مرکوز کی جنہیں بدھ مت کی ایک ریٹریٹ میں احساس ہوا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بے گھری کا مسئلہ حل کریں گے۔

لیورپول پوسٹ کی رپورٹر ابی وِسٹینس کو برطانیہ کے پال فٹ ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا کیونکہ وہ ایک ہاؤسنگ چیریٹی کے بارے میں اس کی چار حصوں پر مشتمل تحقیقات کے لیے تھا جس نے رہائشیوں کو خوفناک حالات میں رہنے دیا تھا۔ تصویر: اسکرین شاٹ، یوٹیوب

"کتنا غیر معمولی پس منظر تھا، کیا آدمی تھا،” ہیر من نے یاد کرتے ہوئے کہا۔ ”کیا یہ ایسا شخص ہے جو نیک نیت رکھتا ہے، وہ اچھی نیت کے ساتھ کام کر رہا ہے اور پھر کچھ غلط ہوتا ہے اور پھر پتہ لگتا ہے کہ وہ ایک ایسا نظام چلا رہا ہے جہاں لوگ انتہائی خوفناک رہائشی حالات میں رہ رہے ہیں یہاں تک کہ ایک عورت اس کے فلیٹوں میں سے ایک میں مر گئی۔ […] لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ایک کردار کی کہانی ہے اور کردار یہ چیز آپ کو دیتا ہے۔“

”اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ اپنی ہفتے کی صبح کے بیس منٹ آپ کی تحقیقاتی رپورٹ پڑھنے پر صرف کریں تو آپ کوشش کریں اور کہانی کی شروعات میں ہی ان کی توجہ حاصل کر لیں،“ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کو لوگوں کی توجہ حاصل کرنی ہے اور میرے خیال میں ایک مرکزی کردار کو بطور انسان اپنی خبر میں بہت جلدی متعارف کروانا لوگوں کی اس کہانی میں دلچسپی قائم رکھنے کا ایک حیران کن طریقہ ہے۔“

قارئین کو پردے کے پیچھے لے جانا

مانچسٹر شہر کے معاشی عہدیدار ساچا لارڈ پر دو اقساط پر مشتمل پروفائل شائع کرنے کے بعد مل کو ایک اطلاع موصول ہوئی تھی۔ رابطہ کرنے والے شخص نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ لارڈ کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا اور اس کے پاس ثبوت تھا کہ متعلقہ کاروباروں نے کووڈ-۱۹ وبا کے دوران غیر قانونی طریقے سے حکومت سے تقریباً چار لاکھ پاؤنڈ (پانچ لاکھ چالیس ہزار امریکی ڈالر) حاصل کیے تھے۔ مل نے یہ خبر شائع کی اور اگلے ہی دن لارڈ نے ایک وکیل کے ذریعے جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ خبر دعوے کے اعتبار سے غلط تھی اور ویب سائٹ کو ہتکِ عزت کا مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دی۔

مِل نے فیصلہ کیا کہ وہ معمول کے مطابق وکلا سے مشورہ لینے اور جواب بھیجنے کی بجائے اس دھمکی کو

Mill Media response to defamantion lawsuit threat

شہر کے ایک اہلکار کی جانب سے ہتک عزت کے مقدمے کی دھمکی کے بعد مانچسٹر مل کی قارئین سے اپیل۔ تصویر: اسکرین شاٹ، مانچسٹر مل

۔ انہوں نے تحقیق سے حاصل شدہ ایف او آئی دستاویز اپنے سبسکرائبرز کے ساتھ شیئر کی تاکہ کمیونٹی "فیکٹ چیک” کر سکے۔ "قارئین کو اپنے کام میں زیادہ شامل کرنا بے حد مددگار ثابت ہو سکتا ہے،“ ہیر من نے کہا۔

"مجھے محسوس ہوا کہ ہم ان کی دھمکیوں کو عوام کے سامنے لا کر ہی یہ لڑائی جیت سکتے ہیں۔ ان کے پاس ہم سے زیادہ پیسہ ہے۔ ان کے پیچھے (مانچسٹر کے میئر) اینڈی برنہام کی حمایت بھی ہے۔”

"ہم نے اپنے قارئین سے کہا: ’یہ دستاویز ہے، ہماری مدد کریں،‘” ہیر من نے وضاحت کی۔ اگلے چند دنوں میں ان کے سبسکرائبرز نے بے شمار تجاویز بھیجیں اور پھر صحافیوں کی ایک مکمل ٹیم جس میں ان کے دیگر علاقائی ایڈیشنز کے صحافی بھی شامل تھے، نے موصول ہونے والی معلومات پر کام کیا۔ "تین دن تک ہم مزید مستند تفصیلات شائع کرتے رہے کہ کیسے انہوں نے آرٹس کونسل کو گمراہ کیا اور آخر کار معلومات افشاء ہو گئیں،“ ہیر من نے کہا اور لارڈ کو اپنی قانونی دھمکی واپس لینی پڑی۔”

"ہم نے اپنے قارئین کو جس طریقے سےھ منظم کیا اس سے میں نے واقعی سیکھا اور میں یہ دوبارہ کرنا چاہوں گا،” انہوں نے کہا۔ ”مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ سارا منظر بدل رہے  ہیں۔ آپ اچانک عوام میں جاتے ہیں اور  وہ ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتا ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ وہ ایسی صورتحال میں نظر آئیں جہاں وہ ایک آزاد میڈیا ادارے پر دھونس جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

مقامی تحقیقاتی صحافت کے مستقبل پر غور کرتے ہوئے ہیر من نے زور دیا کہ صحافی مقامی خبروں کی طرف اپنے رویے کو ازسرِنو تشکیل تشکیل دیں۔ "کیونکہ اصل میں ہمیں روشن مستقبل کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہر کمیونٹی میں مقامی صحافت کی ایک طرح کی تجدید ہو،“ انہوں نے کہا۔ "اور میرا خیال ہے کہ ہم اس کی ابتدائی جھلکیاں دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ واقعی خوش آئند ہے۔”


Emily O'Sullivanایملی او سولیوان جی آئی جے این میں ریسورس سینٹر ریسرچر ہیں۔ وہ بی بی سی پانوراما میں تحقیقاتی ریسرچر اور بی بی سی نیوز نائٹ میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ انہوں نے سٹی یونیورسٹی آف لندن سے تحقیقاتی صحافت میں ایم اے کیا ہے۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

The Pudding Climate Zone

دا پڈنگ نے کیسے موسمیاتی تبدیلی کی کہانی کو نئے سیاق و سباق میں پیش کرنے کے لیے ڈیٹا ویژولائزیشنز کا استعمال کیا؟

موسمیاتی تبدیلی کو ہم کیسے محسوس کریں گے؟ اب سے 50 سال بعد آپ کے شہر کی آب و ہوا کیسے بدلے گی؟ ڈیٹا سائنسدان ڈیرک ٹیلر اپنے تازہ ترین ٹکڑے کی وضاحت کرتے ہیں۔