رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش
The Pudding Climate Zone
The Pudding Climate Zone

Image: Screenshot, The Pudding

رپورٹنگ

دا پڈنگ نے کیسے موسمیاتی تبدیلی کی کہانی کو نئے سیاق و سباق میں پیش کرنے کے لیے ڈیٹا ویژولائزیشنز کا استعمال کیا؟

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

ماحولیاتی تبدیلی کیسی محسوس ہوتی ہے؟ آج سے پچاس سال بعد آپ کے شہر کا موسم کیسے تبدیل ہوگا؟ ہم ماحولیاتی تبدیلی کے طویل المدتی اثرات کو بہتر انداز میں کیسے سمجھ سکتے ہیں؟

یہ وہ سوالات ہیں جنہیں ڈیٹا سائنس دان اور جی آئی ایس ماہر ڈیرک ٹیلر نے دا پڈنگ کے لیے اپنے تازہ ترین پروجیکٹ میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ افریقہ میں ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی ایک پہلے کے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے ٹیلر نے شہروں کے ماحولیاتی مستقبل کو عالمی سطح پر از سر نو تصور کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس کے نتیجے میں بننے والی انٹریکٹو کہانی ماحولیاتی زونز دنیا بھر کے پانچ مختلف ماحولیاتی زونز — خشک، استوائی، معتدل، سرد اور قطبی — اور ان کی ذیلی اقسام میں پھیلے 70 شہروں پر ماحولیاتی تبدیلی کے مخصوص اثرات کو بصری انداز میں پیش کرتی ہے۔ ایک ایسے ڈیٹا سیٹ کو استعمال کر کے جو 2023 کے ماحولیاتی شماریات کا 2070 کے ممکنہ موسمی اعدادوشماریات سے موازنہ کرتا ہے، ٹیلر دکھاتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہر ان ماحولیاتی زونز سے کس قدر مختلف طور پر ہم آہنگ ہوں گے۔

اسٹوری بینچ نے ٹیلر سے ان کے منصوبے اور اس بات پر گفتگو کے لیے ملاقات کی کہ وہ کس طرح امید کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ ماحولیاتی گفتگو کو بدل دے گا۔

سوال: آپ کو ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر اس انداز میں بات کرنے کی ترغیب کیسے ملی؟

ڈیریک ٹیلر: بہت سی ماحولیاتی رپورٹس اور ماحولیاتی مضامین جنہیں میں دیکھ رہا تھا، وہ سب بہت بھاری بھرکم سائنسی اصطلاحات اور غیر محسوس ڈیٹا پوائنٹس پر مبنی تھے۔ ایک چیز جیسے کہ سمندر کے اوسط درجہ حرارت کو دیکھیں، انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا اگر آپ صرف یہ کہتے ہیں کہ سمندر کا درجہ حرارت ایک ڈگری سیلسئیس بڑھ گیا ہے۔ ان میں سے کچھ چیزیں بہت تجریدی محسوس ہوتی تھیں حالانکہ ظاہر ہے ان کے نتائج اور اثرات بہت شدید ہو سکتے ہیں۔

ابتدائی نکتۂ آغاز یہ سوچنا تھا کہ شہر کیسے محسوس ہوتے ہیں اور کیسے لوگ ماحول کو محسوس نہیں کرتے۔ وہ موسم کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک بنیادی راہ تھی۔ ہمیں سوچنا تھا کہ مستقبل میں موسم کیسے مختلف ہو سکتا ہے۔ اور درجہ حرارت میں تبدیلی بارے سوچنے کا ایک اچھا طریقہ بھی تلاش کرنا تھا۔ اس بات پر بھی غور کر رہا تھا کہ تبدیلیوں کو ایک تعلق کے تناظر میں کیسے سمجھایا جا سکتا ہے۔ محض یہ نہیں کہنا کہ نیویارک شہر گرم ہو جائے گا بلکہ یہ کہنا کہ 2070 میں نیویارک کا موسم 2023 کے بارسلونا جیسا محسوس ہوگا۔

سوال: اس عالمی مسئلے کی بصری انداز میں عکاسی ایسا کیا پیش کرتی ہے جو محض شماریاتی اعداد حاصل کرنے کے قابل نہیں تھے؟

ڈی ٹی: میرے خیال میں یہ ڈیٹا کو کچھ حد تک انسان دوست بنانے کی کوشش ہے۔ یہ ایک ایسی کاوش ہے جس میں انتہائی تفصیل کو قربان کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ آپ کو دکھاتا ہے کہ فلاں شہر کا درجہ حرارت پانچ ڈگری فیرن ہائیٹ تک بڑھ جائے گا،لیکن وہ اس کہانی کا کم اہم پہلو ہے۔ اس کا اہم ترین پہلو اس بارے سوچنا ہے کہ شہروں کے یہ گروہ 2070 میں آج کے شہروں کے مقابلے میں کیسے ہوں گے۔

سوال: آپ کی درجہ بندی ماحولیاتی تحقیق کی تاریخ سے کس طرح متاثر ہوئی؟

ڈی ٹی: مجھے یہ ڈیٹا سیٹ کافی شروع میں ہی مل گیا تھا۔ حتیٰ کہ میرے موسم اور شہروں کے احساس کے بارے میں سوچنے سے پہلے ہی مجھے یہ ڈیٹا سیٹ ملنا شروع ہو گیا تھا جس میں 2023 اور 2070 کے شہر موجود تھے۔ یہ پوری دنیا کا ڈیٹا سیٹ ہے جو مختلف موسمی اقسام کے حامل تمام مقامات کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ مجھے اس لیے بہت دلچسپ لگا کیونکہ اس نےتصور واضح کیا کہ سکرامینٹو (جہاں سے میں ہوں) میں 90 ڈگری کا دن اور بوسٹن میں 90 ڈگری کا دن بالکل مختلف محسوس ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق صرف درجہ حرارت سے نہیں ہے۔ یہ موسمی درجہ بندیاں مزید سیاق و سباق اور فہم فراہم کرتی ہیں کہ کیوں بعض مقامات کا درجہ حرارت ایک جیسا ہوگا لیکن اس کا احساس بالکل مختلف ہوگا۔

Climate Zones, How Hollywood Becomes Bollywood

Image: Screenshot, Climates Zones, The Pudding

سوال: آپ نے کیسے فیصلہ کیا کہ اس بصری کہانی میں کن شہروں کو شامل کرنا ہے؟

ڈی ٹی: پہلا مقصد یہ تھا کہ مختلف ماحولیاتی زونز سے شہروں کا انتخاب مساوی طور پر کیا جائے۔ ظاہری طور پر، دنیا کے زیادہ تر شہر معتدل علاقوں میں واقع ہیں کیونکہ انسان ان علاقوں میں بس چکے ہیں۔ ایک چیز یہ تھی کہ ایسے شہروں کا انتخاب کیا جائے جو مختلف اقسام کی نمائندگی کرتے ہوں تاکہ تقابل کے لیے آغازی نکات موجود ہوں۔ دوسری چیز ایسے شہروں کا انتخاب تھا جن کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں کسی قسم کا تصور موجود ہو۔ چاہے کسی نے نئی دہلی کا سفر نہ بھی کیا ہو، انہوں نے کہیں نئی دہلی کی جھلک دیکھی ہوگی تو جب آپ کہیں کہ 2070 میں لاس اینجلس کا موسم نئی دہلی جیسا ہوگا تو وہاں ذہن میں ایک تصویر بن جائے۔

سوال: آپ نے اس ڈیٹا اسٹوری کو بنانے کے لیے کن کوڈنگ ٹولز کا استعمال کیا اور وہ عمل کیسا تھا؟

ڈی ٹی: ڈیٹا کی تمام تر صفائی، پراسیسنگ اور اس طرح کا کام یا پائیتھون یا پوسٹگریس پر ہوا ہے۔ اس منصوبے کے اصل ڈیٹا کا حصہ آسان ترین تھا۔ میرے پاس ایک ہفتے میں ہی ڈیٹا سیٹ تیار اور اف اور ترتیب میں موجود تھا۔ زیادہ کام وژولائزیشن ٹولز اور کہانی تخلیق کرنا تھا۔ دا پڈنگ میں سویلٹ نامی ایک جاوا سکرپٹ کی لائبریری استعمال ہوتی ہے۔ آخر میں، سامنے نظر آنے وال حصہ جاوا سکرپٹ کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے اور وہ سویلٹ کے فریم ورک میں بنا ہوا ہے۔

سوال: میں نے دیکھا کہ آپ نے اس سے پہلے افریقہ پر مرکوز ایک ملتے جلتے پراجیکٹ پر کام کیا تھا۔  کیا اس پراجیکٹ نے ماحولیاتی زون کے لیے ایک خاکے کے طور پر مدد کی؟ اور آپ نے کیا تبدیلیاں یا بہتریاں کیں؟

ڈی ٹی: درحقیقت، میں نے ایک ابتدائی تصور کے ثبوت کے طور پر دا پڈنگ کو وہ بطور خیال پیش کیا تھا۔ میں نے تھری ڈی میں تیار کردہ افریقہ کا نقشہ بنایا تھا جس پر ایک ڈیٹا سیٹ لگایا گیا تھا اور میں اس پر ایک مختلف ڈیٹا سیٹ لگانا چاہتا تھا۔ میں نے شروع میں ہر براعظم کے لیے ایک ڈیٹا اسٹوری بنانے کے خواب سے کام کا آغاز کیا تھا لیکن مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ بہت زیادہ کام تھا جسے مکمل کرنا مشکل ہوگا تو اس طرح یہ بہت وسیع ہونے سے تھوڑا محدود ہو گیا۔

سوال: اس منصوبے نے آپ کو ڈیٹا سائنس کے حوالے سے آپ کے نقطہ نظر میں کون سی نئی جہتیں دکھائیں؟

ڈی ٹی: ایک بہت ہی عملی اور ٹھوس انداز میں، میں اب روزانہ سویلٹ استعمال کرتا ہوں۔ میں زیادہ تر فرنٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ اور انٹرایکٹو ڈیٹا وژولائزیشن پر کام کرتا ہوں تو اس نے مجھے بے حد مدد دی۔ سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ہر وقت یہ سوچنا چاہیے کہ کہانی کو جتنا ممکن ہو سادہ بنایا جائے اور ہر مرحلے پر خود سے پوچھیں کہ آپ چاہتے ہیں قاری اس سے اصل میں کیا اخذ کرے گا۔ اگر آپ اس مقصد سے پیچھے کی طرف سوچنا شروع کریں تو یہ واضح ہوتا جاتا ہے کہ کن چیزوں کو کس انداز میں وژولائز کرنا ہے۔ آخر میں، آپ کو ایک ایسا منصوبہ تیار کرنا ہوتا ہے جو تکنیکی طور پر متاثر کن ہو لیکن غیر ضروری چمک دمک سے پاک ہو۔

سوال: آپ کیا امید رکھتے ہیں کہ آپ کی آڈئینس اس پراجیکٹ سے کیا حاصل کرے گی؟

ڈی ٹی: میرے خیال میں اصل امید یہ ہے کہ قارئین کو ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں ایک مختلف نکتۂ نظر ملے اور ممکن ہے کہ یہ انداز ان پر زیادہ اثر کرے بہ نسبت اس کے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی پر کوئی سائنسی انداز میں لکھی گئی رپورٹ پڑھیں۔

مدیر کا نوٹ: یہ انٹرویو سب سے پہلے نورتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے اسکول آف جرنلزم کی ویب سائٹ سٹوری بینچ پر شائع ہوا تھا۔ اسے یہاں اجازت کے ساتھ دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔


Darin Zulloدارن زولو نورتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں فوٹو جرنلزم میں مائنر کے ساتھ جرنلزم اور انگریزی کے مشترکہ مضمون کے تیسری سال کے طالب علم ہیں۔ اس وقت وہ بوسٹن ڈاٹ کام میں جنرل اسائنمنٹ رپورٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور اس سے قبل دا نیوز کے لیے ڈپٹی لائف اسٹائل ایڈیٹر اور ڈپٹی فوٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

smartphone TikTok videos misinformation

ٹک ٹاک پر مِس انفارمیشن: ڈاکیومنٹڈ نے مختلف زبانوں میں سینکڑوں ویڈیوز کا کیسے جائزہ لیا؟

ٹک ٹاک پر غلط معلومات کی تحقیق کے لیے، ڈاکیومنٹد کی ٹیم نے بڑی مقدار میں ڈاؤن لوڈ کی گئی ویڈیوز کو نقل کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے آے آئی کے استعمال کے لیے یہ طریقہ کار تیار کیا۔

Border grave Greece

یورپ کے سرحدی علاقوں میں تارکین وطن کی نامعلوم قبروں کی دستاویز سازی

اس تفتیش نے ان اہم سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جن کا کوئی حکومت جواب نہیں دے سکی: جب کوئی یورپ کی سرحدوں پر لاپتہ ہو جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ اور پورے یورپ میں کتنی تدفین کی جگہیں ہیں؟