

پاکستان میں صحافی ہونا ایک مشکل کام ہے اور تحقیقاتی صحافی ہونا خطرناک۔ صحافی کسی معملے کی تحقیق بھی کر رہے ہوں، وہ جائداد کی خرید و فروخت ہو، توہین رسالت کے معملات یا کسی چھوٹے سے قصبے میں سڑک کا ایک غیر مکمل ٹکڑہ، ان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ رپورٹنگ کو کہاں روکا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ صحافت کو بطور ایک صنعت مالی مشکلات کا سامنا بھی ہے، جس کا مطلب ہے کہ صحافیوں کو اپنا کام کرنے میں کئی مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ ۲۰۱۹ سے پاکستان رپورٹرس ودآوئٹ بارڈرز کے شائع کرده پریس فریڈم انڈیکس یا صحافتی آزادی کی فہرسے میں ۱۰ پائنٹس نیچے آیا ہے۔ اس سال رپورٹ میں خاص لکھا گیا، "نظریے کا فرق نہیں ہے، پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں صحافتی آزادی کی حمایت کرتی ہیں، لیکن اقتدار میں آنے پر، ملکی معملات پر فوجی اختیار کہ وجہ سے وہ اس کا دفاع نہیں کر سکتے۔”
اس کے باوجود، یہ جی آئے جے این کی پیش کردہ یہ فہرست ان صحافیوں کی بہادری کا ثبوت ہے، جو سنسرشپ اور بڑھتی ہوئے خطراد کے بوجود حقائق کے تلاس میں کہانیوں کو کریدتے ہیں۔ ان خطرات کی مثالیں بھی اس فہرست میں شامل ہیں — پہلی ایک کہانی جہاں پاکستانی نساد کے غیر پاکستان کارکنان کو اپنی آواز اٹھانے پر دھمکایا گیا اور دوسرا پاکستان میں سیلاب سے بچاوٴ کے لیے ایک سکیم کی کہانی۔ دونوں کہانیاں ایسی ویب سائٹس پر شائع کی گئی جن تک رسائی پاکستان میں ممکن نہیں۔
پکڑ سکو تو پکڑ لو
نذیحہ سید علی ایک تجربہ کار تحقیقاتی رپورٹر ہیں اور انگریزی میں شائع ہونے والے پاکستانی اخبار ڈان میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی ہیں۔ ان کی حالیہ رپورٹنگ مالی کرپشن پر متوجہ ہے، جس میں بہریہ ٹاوٴن، جو کراچی کے مضافات میں موجود ایک گیٹڈ کمیونٹی ہے، پر ایک کہانیوں کا سلسلہ ہے۔ انہوں نے اپنی پرانی کہانیوں پر اور گہرائی سے رپورٹنگ کی اور اس کہانی میں بتایا کہ کس طرح بہریہ ٹاوٴن نے سپریم کورٹ کے ۲۰۱۹ آرڈر کے خلاف جا کر سوسائٹی میں آنے والے رقبے میں اضافہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نا صرف عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں جنہوں نے یہاں زمیں خریدی ہے۔ انہوں نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ بہریہ ٹاوٴن نے عدالت کے طرف سے نافذ کیا جرمانہ بھی ادا نہیں کیا۔ سید نے اپنی تحقیق میں سیٹلائیٹ تصاویر کا استعمال کیا، یہ دیکھناے لے لیے کہ انہوں نے کہاں قبضہ کیا ہے۔ ساتھ یہ انہوں نے وہاں جا کر بھی رپورٹنگ کی اور کورٹ میں جمع کرائے دساتویزات کا استعمال بھی کیا جس میں زمین کا سروے بھی موجود تھا۔
بہریہ ٹاوٴن بنانے والوں نے ابھی تک اس کہانی میں لگائے الزامات کا جواب نہیں دیا۔ حتکہ کورٹ میں انہوں نے کہا کہ یہ ۲۰۱۹ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کر رہے اور ان کو دی گئی زمین سے زیادہ رقبے پر قابض نہیں ہیں۔
ٹیڑھا راستہ: تربت بلیدہ روڈ
اکبر نوتزئی کی ڈان میں شائع کردہ اس تحقیق کے مطابق، پاکستان کے صوبے بلوچستان میں دو شہروں کو جڑنے والی سڑک سن ۱۹۹۰ سے ذیر تعمیر ہے۔ نوتزئی کے کہانی اس سڑک کی تاریخ پیش کرتی ہے، کہ اس کی تعمیراتی اجازت کب ملی اور آج کام کہاں رکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سڑک کے ابھی تک ذیرتعمیر ہونے کی ایک وجہ سرکاری افسران کی طرف سے کیا گیا غبن ہے، خاص طور پر صوبائی اسمبلی کے مختلف ممبران کی ظرف سے۔ نوتزئی نے بلوچستان کے فنائنینس ڈیپارٹمنٹ میں کچھ گمنام ذرائع سے بات کی جنہوں نے نظامی بدعنوانی کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے اسی ڈمارٹمنٹ سے حاصل کردہ دستاویزات کو بھی استعمال کیا یہ دیکھانے کے لیے کہ کس طرح سالہ سال سڑک کو مکمل کرنے کے لیے پیسے دیے گئے۔
اس کہانی میں علاقے کی صوبائی اسمبلی کے ایک رکن اور سابق وزیر خزانہ ظہور بلیدی سے بھ بات کی گئ، جنہوں نے تسلیم کیا کہ سڑک کا ایک حصہ نامکمل ہے، تقریباً تین دہائیوں سے کام جاری رہنے کے باوجود – لیکن انھوں نے نوتزئی کے اس دعوے کو چیلنج کیا اور کہا کہ تاخیر کی وجہ علاقے میں سیکیورٹی کی صورتحال ہے نا کہ مقامی حکام کی بد دیانتی۔
انسٹگرام اور غلط معلومات
اکتوبر ۲۰۲۴ میں پاکستانی طلباء سڑکوں پر تھے، لاہور میں ایک لڑکیوں کی کالج میں ایک لڑکی کا ساتھ مبینہ ریپ پر احتجاج کرتے ہوئے۔ جیسے احتجاج لاہور کے علاوہ اور شہروں، گجرانوالہ اور راولپینڈی میں پھیلا، پولیس اور حکومت کی سختی بھی بڑھی اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کئی طلباء کو حراست میں لیکا گیا اوت تقریباً ۲۸ زخمی ہوئے۔ طلباء کے دعوں کے باجود کالج انتاظامیہ اور کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے جائزے کے بعد اور ارد گرد کے ہسپتالوں میں تفتیش کے بعد پولیس کا بھی کہنا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
بی بی سی اردو کے صحافی روہان احمد نے اس کہانی میں دیکھا کہ کس طرح مبینہ ریپ کی خبریں پہلے کچھ انسٹاگرام اکاوئنٹس پر سامنے آئیں اور پھر واٹس ایپ گروپس میں پھیلیں، جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوئے۔ احمد نے اپنی تفتیش میں احتجاج کرت طلباء، کالج انتظامیہ، پولیس سے بات کی، سوشل میڈیا پر پوسٹس کا تجزیہ کیا اور پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی – ایف آئی آے کی رپورٹ کے مطابق غلط معلومات پہلے ۱۳ انسٹاگرام اکاوٴنٹس سے پھیلی تھی۔ ایف آئی آے نے ۳۶ لوگوں کے خلاف غلط معلومات پھیلانے پر مقدمے بھی درج کیے کن میں دو یوٹیوب اکاوٴنٹس کے مالک تھے۔
پاکستان میں مزہبی توہین کے کاروبار کا راز فاش
پاکستان کے پینل کوڈ کے مطابق بلاسفمی یا توہین مزہب کسی بھی مزہب یا مزہبی شخصیت کی بے حرمتی ہے اور اس کی سزا مالی فائین سے لے کر سزائے موت تک ہے۔ ملک میں ایسے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں جہاں ایک ہجوم نے ایک ایسے شخق کا قتل کر دیا جس پر توہین مزہب کا الزام لگایا گیا تھا۔
حال ہی میں آن لائن لوگوں پر توہین مزہب کا الزامات میں اضافہ ہوا ہے۔ وائس پی کے کی ایک تحقیق میں انہوں نے ایف آئی ارز یا پولیس کے پاس درج کمپلینز کا تجزیہ کیا اور جاننا کہ تقریباً ۴۰۰ الزامات کے پیچھے کچھ گنے چنے لوگ ہی تھے۔ ایک سوالہ سالہ لڑکے، جس پر آن لائن توہین مذہب کا الزام لگا تھا، کے باپ نے یہ جناچا تھا کہ ان کے عالاوہ سو کے تقریباً اور خاندان بھی ہیں جن پر بلکل اسی طرح سے توہین مذہب کا الزام لگایا گیا جیسے ان کے بیٹے پر۔ انہوں نے ایک مشترکہ پیٹرن کا انکشاف کیا، جس میں ایک مربوط گروپ کی کارروائیاں سامنے آئی جو نوجوانوں کو آن لائن پھنساتے ہیں اور انہیں گستاخانہ مواد کا اشتراک کرنے میں چکمہ دیتے ہیں۔
آے ایف پی نے بھی اس معملے پر تحقیق کی اور جاننا کے بہت سے اس طرح کے مقدموں میں کورٹ میں ایک رضاکارنہ طور پر کام کرنے والے وکلاء کے کے گروہ سے وکیل پیش ہوتے تھے اور مقدمے کو چلاتے تھے۔ تحقیق میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان الزامات کے پیچھے کوئی مالی ترغیب ہو سکتی ہے۔
ایک ترقیاتی پراجکٹ اور ایک حکومتی مشیر
فیکٹ فوکس کی رپورٹر امارا شاہ کی اس تحریر میں انہوں نے ۴۸۰ ملین روپے (۵۷۰،۰۰۰ امریکی ڈالر) کے ایک پراجیکٹ کی تحقیق کی۔ پراجیکٹ ضلع حافزاباد میں دو گاوں کے نزدیک بند کے تعمیر کا تھا، بند ایک مصنوعی کنارہ ہے جو دریا میس سیلاب کو روکتا ہے اور مٹی کے کٹاوٴ کا کم کرتا ہے۔ شاہ رپورٹ کرتی ہیں کہ بند بنانے کے منصوبے کی منظوری پنجاب میں نگراہ حکومت نے انتخابات سے پہلے وزیراعظم کے ایک خاص مشیر کو خوش کرنے کے لیے دی تھی۔ بند بھی انہی کی زمین پر بن رہا تھا۔ شاہ نے اس طرح کے منصوبے کے لیے منظوری کے معیار کی کمی کا حوالہ دیا، اور دلیل دی کہ "ایک نگران حکومت اس نوعیت کے بڑے پیمانے پر منصوبوں کی منظوری دینے کی مجاز نہیں ہے۔” حکومتی احکام جو اس منظوری دینے کے عمل کا حصہ تھے کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور نا ہی یہ بند کسی خاص شخص کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا گیا۔
سینٹری ورکر کا استحصال
ملٹی میڈیا تحقیقاتی پلیٹ فارم لوک سُجاگ کی یہ خصوصی سیریز پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سینیٹری ورکرز — بشمول روڈ کلینر، سویپرز، اور سیوریج ورکرز — کی دنیا کی تحقیق ہے۔ اس سیریز نے کارکنوں کو متاثر کرنے والے نظامی مسائل، جیسے سماجی بدنامی، کام کے خراب حالات، اور منشیات کی لت کے بارے میں رپورٹ کیا۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پنجاب میں زیادہ تر سینیٹری ورکرز عیسائی ہیں- ایک ایسی مذہبی اقلیت جن کو اکثر بدنامی کا نشانہ بنایا جاتا ہے – اور کس طرح ملازمتوں کی نوعیت انہیں انتہائی دباؤ میں ڈالتی ہے۔ پورے خاندان ایک لوپ میں پھنس گئے ہیں، دوسرے مواقع کی کمی کی وجہ سے پیشہ چھوڑنے سے قاصر ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کسی نے سینیٹری ورکرز کی حالت زار کے بارے میں بات کی ہو، یا اس حقیقت کے بارے میں کہ یہ کام زیادہ تر عیسائیوں کو ہی دیا جاتا ہے، لیکن اس سیریز نے اس مسئلے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر پیش کیا اور نظامی مسائل کو ان طریقوں سے روشن کیا جن کا پہلے احاطہ نہیں کیا گیا تھا۔
خوفناک فون کالز نے جبر کی عالمی مہم کو بے نقاب کیا
پاکستان میں سرگرم کارکنوں کو ہراسانی، دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں پاکستانی شہری یا دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانی نژاد افراد بھی نشانہ بن گئے ہیں۔ ریان گریم اور مرتا حسین کی اس کہانی کو ڈراپ سائٹ نیوز نے شائع کیا، جس میں انہوں نے شبیر نامی شخس کے کیس کے ذریعے اس طرح کے واقعات کی تحقیق کی۔ شبیرایک پاکستانی نژاد آس2ٹریلوی شہری ہے جو کہ پاکستان میں جمہوری اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنے والا ایک ایکس کا اکاؤنٹ چلاتا ہے، اور جس نے ہائی پروفائل کو گردش کیا۔ انسانی حقوق اور پاکستان میں فروری میں ہونے والے انتخابات پر کچھ ایسی درخواستی پیش کی جن کو کافی توجہ ملی۔
مارچ میں، انتخابات کے کچھ دیر بعد، شبیر کے پاکستان میں مقیم بھائی کو ان کے گھر سے اغوا کر لیا گیا۔ ان کی گمشدگی کے بارے میں پوسٹ کرنے کے بعد، شبیر کو اپنے بھائی کے نمبر سے ایک فون کال موصول ہوئی جس میں ایک نامعلوم شخص کو مبینہ طور پر ان کے بھائی کو مارتے اور دھمکیاں دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، اور جس نے شبیر سے سوشل میڈیا پر پاکستان پر تنقید بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ (کہانی میں فون کال کی خوفناک آڈیو پیش کی گئی ہے، جسے شبیر نے ریکارڈ کیا ہے۔)
رپورٹرز اس بات کی تصدیق نہیں کرتے کہ اغوا کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا، لیکن یہ شبیر کے تجربے کو بیرون ملک مقیم پاکستانی کارکنوں کے دیگر کیسز کے تناظر میں پیش کرتے ہیں اور بین الاقوامی جبر کے بڑھتے ہوئے رجحان پر روشنی ڈالتے ہیں۔
شوگر ملز ڈیفالٹ
پاکستان کی شوگر انڈسٹری ملک کی طاقتور ترین صنعتوں میں سے ایک ہے، پرافٹ رپورٹر احمد احمدانی نوٹ کرتے ہیں – انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی تقریباً تمام 91 شوگر ملیں "نامور سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں” کی ملکیت ہیں۔ اس کہانی میں وہ شوگر مل کی ملکیت کی تاریخ بتاتے ہیں، نظام کس طرح تشکیل پاتا ہے، اور اس طرح کے چھوٹے گروپ کے مفادات کو حکومت میں غیر متناسب نمائندگی نے ملک کو کس طرح متاثر کیا ہے۔
رپورٹنگ بینک آف پاکستان (این بی پی) ایک آڈٹ رپورٹ کا حوالہ دیتی ہے – "سیاسی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد” کی ملکیت والی کم از کم 25 شوگر ملز سے زائد مالیت کے قرضے نادہندہ ہیں۔ 23 بلین روپے (273 ملین امریکی ڈالر)، جو این بی پی کے واجب الادا ہیں۔ احمدانی نے لکھا ہے کہ ڈیفالٹ کے باوجود، مالکان کے رابطوں کی بدولت قرض بڑی حد تک معاف کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے شوگر ملوں اور ان کی ملکیت کے درمیان براہ راست تعلقات کا بھی سراغ لگایا اور بتایا کہ یہ قرضے این بی پی کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیے گئے تھے۔
امل غنی پاکستان میں مقیم صحافی ہیں۔ انہوں نے ملک میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے عروج، ماحولیات، مزدوروں کے حقوق، ٹیک اور ڈیجیٹل حقوق کا احاطہ کرنے کے بارے میں لکھنے سے لے کر مختلف مسائل پر رپورٹ کیا ہے۔ وہ فلبرائٹ فیلو ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے، جہاں انہوں نے تحقیقاتی صحافت میں مہارت حاصل کی۔