

Wastewater flowing from an industrial copper mine. The Orange soil is contaminated with heavy metals. Image: Shutterstock
حالیہ برسوں میں تحقیقاتی صحافیوں نے فوسل فیول اور پام آئل کی صنعتوں میں مزدوروں کے استحصال اور ماحولیاتی نقصان کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن شمسی پینلز، برقی گاڑیوں کی بیٹریوں اور دیگر متبادل ایندھن کے لیے وسائل فراہم کرنے والی صنعتوں پر اتنی تحقیق نہیں ہوئی ہے۔
قابلِ تجدید توانائی کے ماحولیاتی فوائد اور اقوامِ متحدہ کے مسلسل اصرار کہ "تمام معدنیاتی سپلائی چینزمیں انسانی حقوق کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے” کے باوجود ہر سال عالمی جنوب میں نئے وسائل نکالنے کے منصوبے مقامی برادریوں کا استحصال کرتے ہیں اور ان کی رائے لیے بغیر شروع کیے جاتے ہیں۔ ایسے مقامی ماحولیاتی نظام متاثر ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہوتے ہیں۔
یہ نقصانات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ کچھ کم نمایاں ہوتے ہیں جیسے کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں دیہاتوں کے بالکل اوپر خطرناک طریقے سے بنائے گئے زہریلے فضلے کے ڈیم اور کچھ بالکل واضح ہوتے ہیں جیسے کہ کچھ شمسی توانائی کے بعض آلات کی تیاری میں جبری مشقت، گاڑیوں کے نئے ماڈلز سے وابستہ جنگلات کی کٹائی اور مقامی و اصل باشندہ برادریوں کے لیے صاف پانی تک رسائی کا ختم ہونا۔ اس کے علاوہ ان متاثرہ سپلائی چینز کے اختتامی صارفین ایسی سبز توانائی کو جوش و خروش سے اپنی زندگی میں شامل کر رہے ہوتے ہیں۔ انہیں ان مصنوعات سے متعلقہ انسانی قیمتوں اور متنازعہ ذرائع کے بارے میں بہت کم یا بالکل بھی آگاہی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات یہ صارفین ہوشیاری سے بنائی گئی گرین واشنگ مہمات کا ٹارگٹ بھی بنتے ہیں۔ یہ مہمات باکسائٹ، کوبالٹ، ربڑ اور لیتھیم جیسے اہم خام مال کے حصول کے بارے میں گمراہ کن معلومات پھیلاتی ہیں۔
بزنس اینڈ ہیومن رائٹس ریسورس سینٹر کے مطابق ان معدنیات کی مانگ میں بڑھتا ہوا اضافہ پیداواری اور درآمدی ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ تحفظات پر رسائی کو ترجیح دیں، کان کنی کے پروجیکٹ کی منظوری دیں اور ان کے سماجی، ماحولیاتی اور انسانی حقوق کے خدشات کو کم ثابت کریں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ تحقیقاتی صحافی کئی ایسے طاقتورتحقیقاتی ٹولز کو مفت استعمال کر سکتے ہیں جو اصل میں سول سوسائٹی گروپس کے لیے تیار کیے گئے تھے تاکہ ان نقصانات کے مختلف ذمہ داران جیسے کہ عالمی جنوب کی کان کنی کرنے والی کمپنیوں سے لے کر ان مغربی برانڈز تک جنہیں یہ کمپنیاں سپلائی کرتی ہیں، کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔
حال ہی میں امریکہ میں منعقد ہونے والی انویسٹیگیٹو رپورٹرز اینڈ ایڈیٹرز (آئی آر ای) کانفرنس کے متبادل توانائی کے اثرات پر تحقیق نامی ایک سیشن میں ماہرین کے ایک پینل نے بتایا کہ متاثرہ کمیونیٹیز سے متعلقہ براہِ راست رپورٹنگ کے ساتھ گہرائی سے کی گئی سپلائی چین پر تحقیق متاثر کن کام کرنے کا بہترین فارمولا ہے۔ یہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ مشہور برانڈز والی متبادل توانائی بنانے والی کمپنیاں منرلز فراہم کرنے والوں اور ایجنٹوں پر غیر ذمہ دارانہ وسائل نکالنے کے نتائج کو محدود کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہیں بلکہ اس لیے بھی ہے کہ صارفین دور دراز خطے میں انسانوں کی زندگی اور اپنی ماحول دوست مصنوعات کی اجازت دینے کے لیے ماحول خراب کرنے پر شدید عوامی ردِعمل دکھا سکتے ہیں۔
اس آئی آر ای پینل میں فری لانس تحقیقاتی صحافی اور انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم انکلوسیو ڈیولپمنٹ انٹرنیشنل (آئی ڈی آئی) کی ڈپٹی ریسرچ ڈائریکٹر اینی برنز-پائپر، ہائی کنٹری نیوز میں انعام یافتہ انڈیجینس افیئرز کی صحافی بی۔ ٹوسٹی اوسٹر اور بلومبرگ کی سینئر تحقیقاتی مصنفہ شیریڈن پراسو شامل تھے۔
پراسو نے 2023 میں اس شعبے میں ایک کلاسیکی سپلائی چین تحقیق شائع کی تھی جس میں انہوں نے ایک معروف امریکی الیکٹرک گاڑی میں استعمال ہونے والے ایلومینیم کا ایک ایسے ریفائنری سے تعلق نکالا تھا جس پر ایمازون میں ہزاروں افراد کو بیمار کرنے کا الزام عائد تھا۔ انہوں نے اس ایلومینیم کا ایک ایسی کان سے بھی تعلق نکالا تھا جو جنگلات کی کٹائی اور زمین پر قبضے سے جڑی ہوئی تھی۔ مارچ میں انہوں نے اور ان کی ٹیم نے مغربی افریقہ میں ربڑ اور پام آئل کی پلانٹیشنز پر محنت کشوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ اس میں یہ الزامات بھی شامل تھے کہ وہاں کام کرنے والی خواتین سے ملازمت کے بدلے میں جنسی تعلقات کے باقاعدگی سے مطالبات کیے جا رہے تھے۔ انہوں نے دکھایا کہ کیسے یہ پلانٹیشنز مشہور مغربی ٹائر اور خوراک کے برانڈز کو سپلائی کرتے ہیں۔
پراسو نے کہا کہ "سپلائی چینز کے آخر میں صارفین سے براہِ راست جُڑے بڑے برانڈز عام طور پر اس قسم کی تحقیقات کو بس یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں: "ہم قانون کے مطابق کام کرتے ہیں۔” لیکن انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ وہ محض قانونی تقاضے پورے کیے جانے کے ثبوت سے مایوس نہ ہوں۔
”قانون پر عمل کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ سپلائی چین کے دوسرے سرے پر ہونے والے نقصان کے لیے جواب دہ نہیں ہیں،“ انہوں نے وضاحت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سی کارپوریشنز کی سماجی اور ماحولیاتی پالیسیاں بھی ہوتی ہیں جو ان کے سپلائرز کے رویے کے متصادم ہو سکتی ہیں۔
سپلائی چین تحقیقات کے لیے سول سوسائٹی کے وسائل کو استعمال کرنا
غیر منافع بخش گروہ آئی ڈی آئی تیل نکالنے والی صنعتوں سے متاثرہ مقامی تنظیموں اور عالمی برادریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کے ساتھ براہِ راست کام کرتا ہے۔ اور برنز-پائپر نے بتایا کہ ان کا گروہ صحافیوں کو دنیا کے دور دراز علاقوں میں موجود مشکل سے ملنے والے ذرائع تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے ۔ وہ ایک ایسا رپورٹنگ چینل پیش کر رہے ہیں جو بہت سے ذرائع کے روابط اور کہانیوں کے لیے بھرپور مواد دے سکتا ہے۔
"میں سمجھتی ہوں کہ توانائی کی منتقلی سے جڑی سپلائی چینز کی کہانیاں بہت کم رپورٹ کی جاتی ہیں،” برنز-پائپر نے کہا۔ لوگ اس شعبے سے کچھ گھبراتے ہیں لیکن کچھ زبردست ٹولز ہیں جو آپ کی کام کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ہم نے آئی ڈی آئی میں ۲۰۱۶ سے 300 نقصان دہ منصوبوں کی تحقیقات کر چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کان کنی سے متعلق تھے۔ ہم دنیا بھر کی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہم سول سوسائٹی کے لوگوں کو یہ تحقیق خود کرنے کی تربیت دے رہے ہیں تاکہ ہم صحافیوں کو ان برادریوں سے جوڑ سکیں جو ان سپلائی چینز کے آخر میں استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔”
پراسو نے اس عالمی نیٹ ورکنگ کی اہمیت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا "میں اپنا کام ان روابط کے بغیر نہیں کر سکتی جو آئی ڈی آئی جیسی تنظیمیں فراہم کرتی ہیں۔”
"زیادہ تر تحقیق عوامی طور پر دستیاب مفت ذرائع کی مدد سے کی جاتی ہے۔ بس یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ کہاں تلاش کرنا ہے،”برنز-پائپر نے وضاحت کی۔ "ذرا رکیں اور دیکھیں کہ کیسے کوئی مخصوص معدنیات عموماً مارکیٹ تک پہنچتا ہے، صرف آپ کے پروجیکٹ میں نہیں بلکہ عمومی طور پر۔ اس چیز کا نام اور سپلائی چین کے الفاظ گوگل پر تلاش کریں اور نتیجے میں آنے والی تصاویر دیکھیں۔ آپ کو اکثر وہ بنیادی مراحل دکھائی دیں گے جن سے یہ معدنیات گزرتی ہے۔ اس سے آپ کو اس عمل میں شامل مختلف کرداروں کو ڈھونے میں مدد ملے گی۔”
انہوں نے مزید کہا "اس کام کے لیے کھوج میں جانے والی تخلیقی تحقیق کرنی پڑتی ہے۔ میں ہمیشہ گوگل کے ایڈوانس فیچر سے شروعات کرتی ہوں۔ میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ آیا میں کان کنی کرنے والی کمپنی کو آخری صارف سے جوڑ سکتی ہوں یا نہیں۔ اور بھی طریقے ہیں جیسے کہ کمپنی کا افشا کردہ ڈیٹا، میڈیا رپورٹس، ماہرین کے ڈیٹا بیس، او ایس آئی این ٹی ٹولز، گوگل پن پوائنٹ اور گوگل امیجز۔”
برنز-پائپر نے بھی سول سوسائٹی کے بنائے ہوئے کئی تحقیقی ٹولز کی ایک جامع فہرست شیئر کی جنہیں تحقیقاتی رپورٹر مفت استعمال کر سکتے ہیں (لیکن وہ بہت کم ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں):
منی ٹول کٹ کو دیکھیں: آئی ڈی آئی کا یہ مفت ٹولز اور ڈیٹا بیس پر مشتمل وسیع خزانہ صحافیوں کو عالمی جنوب میں کارپوریٹ نقصانات کے ہر پہلو کی چھان بین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس میں اوپن سورس والے تحقیق کے آلات، کارپوریٹ رجسٹریز اور یہاں تک کہ پنشن فنڈز کے متعلق معلومات بھی شامل ہیں۔ ان ڈیٹا بیسز میں لینڈ میٹرکس (جو دنیا بھر میں زمینوں کی خرید و فروخت کا ڈیٹا ہے) سے لے کر چین کے افریقہ کو دیے جانے والی ڈیٹا بیس اور جی آئی جے این کا ریسورس سینٹر بھی شامل ہیں۔
بینک ٹریک۔ یہ ٹول کئی وسائل فراہم کرتا ہے جو خطرے پر موجود خاص طور پر عالمی جنوب میں مالی اداروں کی ممکنہ طور پر نقصان دہ کارپوریٹ منصوبوں کی مالی معاونت کی پروفائل بنا کر دیتے ہیں۔ اسے نیدرلینڈز میں ایک غیر منافع بخش سول سوسائٹی ایڈووکیسی تنظیم چلاتا ہے۔ اس پلیٹ فارم میں ڈاجی ڈیلز ڈیٹا بیس بھی شامل ہے جسے ایک "ون اسٹاپ معلوماتی ذریعہ” قرار دیا گیا ہے۔ اس ڈیٹا بیس میں وہ منصوبے شامل ہیں جنہیں سول سوسائٹی پارٹنرز نے معاشرے یا ماحول کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ خبردار: ان کیس اسٹڈیز میں زیادہ تر تفصیلات سول سوسائٹی کے کارکنوں نے فراہم کی ہیں۔ بینک ٹریک خود بھی مانتا ہے کہ یہ جامع ڈیٹا بیس نہیں ہے اور اس میں شامل معاہدوں اور پراجیکٹس کے بارے میں حقائق کی آزادانہ طور پر تحقیق کی جانی چاہیے۔ تاہم، برنز-پائپر نے کہا کہ یہ ٹول صحافیوں کے لیے ابتدائی سراغ حاصل کرنے، ان کی تصدیق کرنے اور کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بزنس اینڈ ہیومن رائٹس ریسورس سینٹر کمپنی انڈیکس۔ یہ ذریعہ صحافیوں اور محققین کو معاشرتی اور ماحولیاتی مسائل پر رپورٹ شدہ خبروں اور نقصان کے الزامات کی بنیاد پر 20,000 سے زائد کمپنیوں کے ریکارڈ تلاش کرنے کی سہولت دیتا ہے۔ اس میں ایک نیا کمپنی ڈیش بورڈ بھی شامل ہے جو 142 کان کنی سے منسلک صنعتوں اور 144 ٹیک کمپنیوں کے مالیاتی اور پالیسی سے متعلق اضافی مالی اور پالیسی ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔
جسٹ ٹرانزیشن لٹیگیشن ٹریکنگ ٹول۔ بزنس اینڈ ہیومن رائٹس ریسورس سینٹر کے زیرِانتظام اس ڈیٹابیس میں مقامی برادریوں یا سول سوسائٹی گروہوں کی طرف سے قانونی کارروائیاں شامل ہیں جو انہوں نے ایسی کمپنیوں کے خلاف کی ہیں جو کان کنی یا متبادل توانائی سے متعلق وسائل نکالنے کے منصوبوں پر کام کر رہیں ہیں یا یہ قانونی کارروائیاں ایسی ریاستوں کے خلاف ہیں جو ایسے منصوبوں کی اجازت دے رہی ہیں۔ "یہ بہت فائدہ مند ہے کہ وہ اس مسئلے پر ہونے والے مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں۔ یہ صحافیوں کے لیے ممکنہ روابط ڈھونڈنے کا ذریعہ ہے،”برنز-پائپر نے کہا۔
انوائرونمنٹل جسٹس اٹلس۔ ای جے اٹلس دنیا بھر میں نقصان دہ معاشی سرگرمیوں سے جُڑے معاشرتی و ماحولیاتی تنازعات کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس میں اب تک 4,300 سے زائد تنازعات درج کیے جا چکے ہیں۔ یہ صارفین کواجناس کے حوالے سے ڈیٹا فلٹر کرنے کی سہولت دیتا ہے اور خاص علاقوں میں دیکھنے کی بھی سہولت دیتا ہے۔
دی منی ڈاٹ او آر جی کو دیکھیں۔ یہ آئی ڈی آئی کا ایک اہم ذریعہ ہے جس میں ڈیولپمنٹ بینک انویسٹمنٹ ٹریکر شامل ہے، جس میں 17 ترقیاتی مالیاتی اداروں کے تقریباً 300,000 منصوبوں کی سرمایہ کاری کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس میں شیئر ہولڈر ٹریکر اور پام واچ ٹول بھی شامل ہیں جو پام آئل کی عالمی سپلائی چینز اور جن مغربی برانڈز کو وہ سپلائی کرتے ہیں، کی تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔اس میں نقصان پر اصل تحقیقات اور سپلائی چین تحقیق پر ایک عملی گائیڈ بھی موجود ہے۔” یہ تحقیق کے لیے بنائی گئی گائیڈ ہے جو اگرچہ سول سوسائٹی کے لیے تیار کی گئی ہے لیکن یہ صحافیوں کے لیے بھی اتنی ہی مؤثر ہے،” برنز-پائپر نے کہا۔
برینڈز کو گلوبل ساؤتھ میں ہونے والے نقصانات سے جوڑنا
"مصنوعی ذہانت کی بات کریں تو مجھے سپلائی چین ریسرچ کے لیے لینگوئج ماڈلز کےاستعمال کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، اگرچہ شاید آئندہ اس سے مدد لینا ممکن ہو جائے،” برنز-پائپر نے کہا۔ "لیکن مجھے اس حوالے سے پِن پوائنٹ بہت مددگار لگا۔ میں کسی کمپنی کی ویب سائٹ یا ایس ای سی فائلنگز سے کارپوریٹ ڈاکیومنٹس ڈاؤن لوڈ یا اسکریپ کرتی ہوں اور پھر وہ سب پِن پوائنٹ میں ڈال دیتی ہوں پھر وہ ان دستاویزات میں تنظیموں کے نام ڈھونڈتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آیا اس میں کسی بڑے برانڈ کا نام شامل ہے یا اس عمل میں کوئی مڈل مین یا ایجنٹ ملوث ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا: "پِن پوائنٹ میں اب جیمینائی فیچر بھی شامل ہے، جس کے ذریعے آپ اس سے سوالات کر سکتے ہیں کہ
آپ کی دستاویزات میں کیا موجود ہے۔ میں نے جیمینائی سے پوچھا: ’ان دستاویزات میں گاڑیوں کی کن کمپنیوں کے نام موجود ہیں؟‘ اس نے اس میں شامل تمام گاڑیوں کی کمپنیوں کے نام دے دیے۔” ایک بار تصدیق کرنے کے بعد یہ معلومات رپورٹر کو بہت سی کہانیوں کے زاویے دے سکتی ہے۔
گرین انرجی سے متعلق دیگر اہم تحقیقی موضوعات میں یہ جانچ بھی شامل ہونی چاہیے کہ چین اور دیگر آمرانہ ریاستوں کی ان کمپنیوں کے اجزاء کہاں سے آ رہے ہیں، جنہیں جبری مشقت کے الزامات کے باعث مغربی منڈیوں سے بین کیا گیا ہے۔ان پابندیوں کے باوجود یہ خام مال اب بھی مختلف راستوں سے ان مارکیٹوں میں داخل ہوتا ہے اور ایجنٹوں کے ذریعے یا دوسرے ممالک میں تیار شدہ مکمل پراڈکٹ کی شکل میں ایجنٹوں کے ذریعے عوامی استعمال میں آتا ہے۔
"اصل مقصد یہ ہے کہ سپلائی چین کو مخصوص کمپنیوں سے جوڑنے والا ربط تلاش کیا جائے۔ میں جو کام کرتی ہوں اس کا زیادہ تر حصہ درآمد اور برآمد کا ریکارڈ دیکھنا ہے تاکہ سپلائی چین کا مخصوص کمپنیوں سے تعلق دیکھا جا سکے،” پراسو نے وضاحت کی۔ پراسو جن بنیادی ٹولز کا استعمال کرتی ہیں ان میں شامل ہیں:
امپورٹ جینئیس — یہ ایک سبسکرپشن پر مبنی سرچ ایبل سروس ہے جو امریکی درآمد و برآمد کا تفصیلی ریکارڈ فراہم کرتی ہے اور اضافی قیمت پر دیگر ممالک کا ڈیٹا بھی مہیا کرتی ہے۔
۵۲ ڈبلیو ایم بی ڈاٹ کام — یہ ایک کم قیمت والا ڈیٹا بیس ہے جو 32 ممالک سے مصنوعات کی اقسام، مقدار اور قیمتوں کا ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔
سیاری — یہ بھی سبسکرپشن پر مبنی سپلائی چین ریسرچ ٹول ہے جو کمپنیوں کے درمیان روابط دکھاتا ہے اور پارسو کے مطابق یہ بعض اوقات صحافیوں کو ان کا حوالہ دینے کے بدلے اضافی ڈیٹا بھی فراہم کرتا ہے۔
امپورٹ ییتی — یہ ایک کم جامع لیکن مکمل طور پر مفت ڈیٹا بیس ہے جو محققین کو 70 ملین امریکی سمندری پارسلوں کے ریکارڈ کے ذریعے سپلائرز تلاش کرنے کی سہولت فراہم دیتا ہے۔
"مجھے یہ بھی مددگار لگتا ہے کہ یہ جانا جائے کہ کسی چیز کے آخری صارف کون ہیں۔ جیسے اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ کچھ بڑی کار کمپنیاں کسی خاص معدنیات کو استعمال کر رہی ہیں تو یہ آپ کو سپلائی چین کی تحقیق میں بڑی مدد دے سکتا ہے،” برنز-پائپر نے کہا۔
"یہ کوئی بالکل درست سائنس نہیں ہے،” انہوں نے تسلیم کیا۔ "کسی مخصوص منصوبے یا کمپنی سے منسلک تمام گاہکوں کو تلاش کرنا مشکل ہو گا۔ ان معاملات کے حوالے سے افشا کرنے کی شرائط بہت کم ہیں۔ یہ معاہدے اکثر تجارتی رازداری کے اصولوں کے تحت ہوتے ہیں اور ان کے متعلقہ بہت سی معلومات موجود نہیں ہوتیں۔ ایک حقیقت پسندانہ ہدف یہ ہے کہ اتنے قابلِ اعتماد شواہد اکٹھے کیے جائیں کہ اس عمل میں شامل کمپنیوں سے سوال کیا جا سکے۔
روان فلپ جی آئی جے این کے عالمی رپورٹر اور امپیکٹ ایڈیٹر ہیں۔ روان اس سے پہلے جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز کے چیف رپورٹر تھے۔ وہ بطور غیر ملکی نامہ نگار دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک سے خبروں، سیاست، بدعنوانی اور تنازعات پر رپورٹنگ کر چکے ہیں۔