

Protestors in Dhaka, Bangladesh in early August 2024
16 جولائی کو ملک بھر میں حکومت مخالف احتجاج پھوٹ پڑنے کے بعد سے بنگلہ دیش میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 500 سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انٹرنیٹ بندش، کرفیو اور سڑکوں پر تشدد کا سامنا کرتے ہوئے آزاد بنگلہ دیشی صحافیوں نے طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاجوں کے دوران قتل عام کی کوریج کی۔ یہ احتجاج 5 اگست کو طویل عرصے سے آمر شیخ حسینہ کے اقتدار سے باہر ہونے پر ختم ہوئے۔
ان صحافیوں میں سے ایک ڈیلی اسٹار کی سینئر اسٹاف نمائندہ ضیمہ اسلام ہیں۔ ان دو ہفتوں کے دوران، اس 33 سالہ تحقیقاتی
رپورٹر نے بنگلہ دیشی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ضرورت سے زیادہ تشدد کی مسلسل رپورٹنگ کی تھی۔ اس تشدد میں متعدد بے ہتھیار مظاہرین کو قریب سے گولی ماری گئی تھی۔
بنگلہ دیش میں صحافیوں کے لیے دنیا کے سب سے سخت قوانین میں سے ایک، ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ (ڈی ایس اے) نافذ ہے جو حکومت کو وارنٹ کے بغیر صحافیوں کی تلاشی کرنے اور گرفتاری کی اجازت دیتا ہے اور ”منفی پروپیگنڈا“ سمجھی جانے والی صحافت پر بھاری قید کی سزائیں دینے کا اختیار دیتا ہے۔ بین الاقوامی تنقید اور ایڈیٹرز کی جانب سے قانون سازی میں تبدیلی کے لیے دباؤ کے بعد حکومت نے 2023 میں ڈی ایس اے کو سائبر سیکیورٹی ایکٹ سے تبدیل کر دیا تھا جس کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ یہ پچھلے قانون میں شامل ”تقریباً تمام ظالمانہ خصوصیات کو دوبارہ پیش کرتا ہے"۔
اس انٹرویو میں اسلام سینسر شپ سے نمٹنے، موسم گرما میں ہونے والے احتجاجوں کی کوریج کرنے اور بنگلہ دیش میں صحافت کے لیے آگے کیا ہو سکتا ہے، کے حوالے سے اپنے تجربات کی روشنی میں بات کر رہی ہیں۔
رائٹرز انسٹیٹیوٹ: آپ نے 11 سال پہلے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تھا، آپ اس وقت کے بنگلہ دیش میں صحافتی آزادی کی صورتحال کو کیسے بیان کریں گی؟
ضیمہ اسلام: 2013 میں جب شیخ حسینہ اپنی پہلی مدت کے اختتام پر تھیں، اس وقت بھی ان کے پاس بہت زیادہ عوامی حمایت تھی۔ اس وقت حکومت میڈیا کے ساتھ کافی دوستانہ تعلق رکھتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میری ڈیلی اسٹار کی ایک رپورٹ پارلیمنٹ میں ایک وزیر نے پڑھی تھی۔ ایک نوآموز رپورٹر کے طور پر وہ میرے لیے ایک بڑا لمحہ تھا۔ لیکن بعد میں میرے اخبار کو حکمران جماعت کے دفتر اور وزیراعظم کے گھر کے ساتھ ساتھ ان کی بریفنگز اور پریس کانفرنسوں سے بھی ممنوع کر دیا گیا تھا۔ ہم ناپسندیدہ شخصیات بن گئے تھے۔ یہ وہ راستہ ہے جو آزادی صحافت نے میرے کیریئر کے دوران اختیار کیا تھا۔
حسینہ کے اقتدار سے باہر ہونے کے ایک دن بعد کئی اخبارات انہیں آمر اور ڈکٹیٹر کہہ رہے تھے۔ بے شک وہ یہ سب تھیں لیکن بنگلہ دیش کی زیادہ تر میڈیا تنظیموں نے کبھی انہیں ایسا کہنے کی جرأت نہیں کر سکتی تھیں۔ یہاں تک کہ جب طلبہ سڑکوں پر بڑی تعداد میں مر رہے تھے، یہ اخبارات تب بھی پارٹی کی زبان دہرا رہے تھے اور بہت نرم زبان استعمال کر رہے تھے: ”احتجاج کے دوران جھڑپوں میں فلاں فلاں ہلاک ہو گیا۔“ ان کی اموات کی کوریج بہت سطحی تھی۔
آر آئی: حسینہ کے 15 سالہ اقتدار کے دوران بنگلہ دیش میں صحافتی آزادی تدریجی طور پر خراب ہوتی گئی۔ 2009 اور 2024 کے درمیان آپ کا ملک رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے پریس فریڈم انڈیکس میں 44 مقامات نیچے گر گیا۔ کیوں؟
ض ا: 2018 کے ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ (ڈی ایس اے) نے بنگلہ دیش میں اظہار رائے کی آزادی کے جرم کو ادارہ جاتی شکل دے دی تھی۔ یہ ایک ایسا آلہ تھا جو حکومت نے ہر اس فرد کے خلاف استعمال کیا جو ان سے متفق نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم سب کو اس بارے میں بریفنگ دی گئی تھی کہ ہم اپنے خلاف مقدمہ ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں بنگلہ دیش میں مقدمے سے پہلے حراست ہوتی ہے لہٰذا آپ جیل میں خدا جانے کتنے عرصے تک ہو سکتے ہیں۔ ایک مصنف، مشتاق احمد، کو ڈی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ وہاں ان پر تشدد کیا گیا تھا اور ان کی ضمانت سے مسلسل انکار کیا گیا تھا – یہاں تک کہ 2021 میں وہ جیل میں پراسرار حالات میں فوت ہو گئے تھے۔
ڈی ایس اے اس لیے بھی مسئلہ ساز تھا کیونکہ کوئی بھی کسی دوسرے شخص کی جانب سے رپورٹ دائر کر سکتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر کسی وزیر کے بارے میں لکھا جا رہا ہوگا، تو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں لوگ بڑی تعداد میں آئیں گے اور اسی کہانی یا اسی شخص کے خلاف مقدمات دائرکریں گے۔
ہر دفعہ کسی بھی کہانی کو شائع کرتے ہوئے ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتے تھے: کیا اسے شائع کرنا ہمارے لیے سیاسی طور پر محفوظ ہوگا؟ مثلاً ہم انتخابات سے قبل بدعنوانی کو اس وقت زیادہ وسیع پیمانے پر کور کر سکے تھے، جب حکومت صحافیوں پر تھوڑی نرم تھی۔ لیکن ہم نے اکثر الزامات کا سامنا کرنے والے لوگوں اور اداروں کے نام ہٹا دیتے تھے، کچھ ایسی صورتوں میں بھی جب ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہوتے تھے۔
چیزیں تدریجی طور پر بدتر ہوتی گئیں۔ احتجاجوں سے پہلے میری آخری تحقیقاتی تحریروں میں سے ایک بنگلہ دیش کے ایک سرمایہ دار کے بارے میں تھی۔ اسے شائع کرنے کے فوراً بعد ان کے لوگوں نے ہمارے ایک رپورٹر کو بتایا کہ انہیں معلوم ہے کہ میں سکوٹر پر گھومتی ہوں اور (ان کے لیے) مجھے قتل کرنا اور اسے سڑک کے حادثے کے طور پر ظاہر کرنا بہت آسان ہوگا۔
مجھے اپنے سابق شوہر سے طلاق لینی پڑی کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ میں اپنی نوکری چھوڑ دوں اور وہ ہماری ہونے والی نگرانی سے مسلسل گھبرا رہا تھا۔ نگرانی، گرفتاریوں اور (جنسی) ہراسانی نے ہماری ذاتی زندگیوں کو متاثر کیا۔ ہم ہیرونہیں ہیں۔ ہم محض جرأت کے سہارے آگے بڑھتے رہے، اس سوچ کے ساتھ کہ (اس) نظام کو کسی نہ کسی وقت ختم ہونا ہی تھا اور اس امید کے ساتھ کہ ہماری رپورٹنگ لوگوں کو ان کے جمہوری حقوق کا احساس دلانے میں مدد کرے گی۔
آر آئی: آپ نے احتجاج کے پہلے کچھ ہفتوں کو کیسے کور کیا؟
ض ا: شروع میں، احتجاج صرف سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ نظام کے بارے میں تھے اور صحافیوں کے لیے کوئی پابندیاں نہیں تھیں۔ پھر حکومت نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو بالترتیب پانچ اور چودہ دنوں کے لیے بلاک کر دیا، اس امید میں کہ مظاہرین سوشل میڈیا استعمال کرنے اور منظم ہونے کے قابل نہیں ہوں گے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ صحافی خبریں اکٹھی کریں اور انہیں عوام تک پہنچائیں۔
صحافیوں کو زمینی سطح پر جو کچھ ہو رہا تھا اس کی لائیو ویڈیوز بنانے سے تقریباً ہمیشہ روکا جاتا تھا۔ تب تک، سیکیورٹی فورسز 100 سے زیادہ طلبہ کو گولی مار چکے تھے اور شہری کوٹہ کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے تھے- وہ اموات کی جوابدہی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
حکومت ماضی میں بھی انٹرنیٹ پر پابندی نافذ کر چکی تھی جب بھی انہیں معلوم ہوتا کہ تشدد قابو سے باہر ہو رہا ہے۔ تشدد کے پیمانے کا صحیح اندازہ نہ ہونا کئی سطحوں پر مسئلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک موقع پر میں ایک ایسے علاقے میں داخل ہوئی جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین پر گولیاں چلا رہے تھے، یہ جانے بغیر کہ اس جگہ پر کیا ہو رہا تھا۔
جو نیا تھا وہ تھا کرفیو، لیکن صحافی ان پیشہ ور گروپوں میں سے تھے جنہیں کرفیو پاس ملے ہوئے تھے، ہم نے حکام کی طرف سے ملنے والے مختصر وقفوں کے دوران آنے جانے کے لیے استعمال کیا۔ کرفیو لگنے سے پہلے میرے ساتھیوں کو تین دنوں تک دفتر میں کیمپ لگانا پڑا۔ وہ صرف صبح سے پہلے جب ہر طرف خاموشی ہوتی تھی، نہانے کے لیے گھر جاتے تھےاور پھر اپنے دفتر واپس آ جاتے تھے۔
جیسے ہی انٹرنیٹ واپس آیا، ہمارے پاس مضامین تیار تھے جن پر ہم نے محض پرانی تاریخ ڈالی تھی۔ ہم نے پرنٹ اخبار کو بھی جاری رکھا تھا۔ میں ان لوگوں کا بہت احترام کرتی ہوں جنہوں نے ایسے پرتشدد حالات میں ضلعوں تک ٹرک چلائے۔ پھر ہاکروں نے بہت سارے اخبار گھر گھر پہنچائے۔ انٹرنیٹ بندش بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ کا سب سے خونی دور تھا اور لوگوں کو جاننے کی ضرورت تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔
آر آئی: کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق، احتجاج کی کوریج کرتے ہوئے دو صحافی ہلاک ہوئے۔ آپ کو اپنی حفاظت کے بارے میں کتنی فکر تھی؟
ض ا: میں نے ایک مردہ خانے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے تیسرے مردہ صحافی کو دریافت کیا۔ اس کے شناختی کارڈسے پتہ چلا کہ وہ ایک چھوٹے مقامی خبروں کے ادارے کے لیے کام کرتا تھا۔ اسے سر کے پیچھے گولی ماری گئی تھی۔
دفتر کے اندر مجھے غیر محفوظ محسوس نہیں ہوا کیونکہ میرا ڈیسک ساتویں منزل پر ہے۔ ایک دن ہمارے دفتر کے بالکل سامنے سڑک پر لڑائی ہو رہی تھی۔ مظاہرین کا ایک جھرمٹ سڑکوں پر تھا اور حکمران جماعت کے کارکن ان پر گولیاں چلا رہے تھے۔ ہم صوفوں اور دھاتی بل بورڈز کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔ میں نے ایک احتجاج کرنے والے کو گولی سے مرتے ہوئے دیکھا پھر اچانک انہوں نے اپنا غصہ ڈیلی اسٹار کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے ہمارے دفتر کے کچھ حصوں کو توڑا۔ اگلے دن انہوں نے ہمارے دفتر پر دوبارہ حملہ کیا تھا۔
میرے کئی ساتھیوں کو کام پر آنے کی کوشش کرتے ہوئے مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے افسران دونوں کی طرف سے نقصان پہنچایا گیا تھا۔ مظاہرین نے کافی میڈیا ہاؤسز پر حملہ کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں میڈیا پر بے اعتمادی خطرناک حد تک بلند ہے۔
آر آئی: حسینہ کے استعفی سے ایک دن پہلے، ڈیلی اسٹار نے 2,200 الفاظ پر مشتمل ایک فیچر شائع کیا جس میں آپ اور آپ کے ساتھی نے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہونے والے تشدد کی دستاویزسازی کی تھی۔ آپ کو وہ کہانی کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟
ض ا: وہ آٹوپسی نہیں کر رہے تھے گرچہ قانون اس کا تقاضا کرتا ہے۔ مردہ خانے میں ایک شخص اپنے سر کا آدھا حصہ اڑا کر آ سکتا ہے اور وہ اس کے خاندان کو اسی طرح اس کی لاش لے جانے کی اجازت دے دیں گے۔ حکومت تشدد کو کم کر کے پیش کرنے کی کوشش کر رہی تھی – وہ نہیں چاہتی تھی کہ لوگ تصاویر دیکھیں یا انہیں پتہ لگے کہ کتنے لوگ مارے گئے تھے۔
ہم نے ان خبروں کے لیے سوشل میڈیا کی کھدائی کی جو لوگوں نے اپنے پیاروں کے بارے میں شیئر کی تھیں؛ ہم نے یونیورسٹی کلبز سے بھی رابطہ کیا، لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی مارے گئے تھے وہ یونیورسٹی نہیں جاتے تھے۔ اسی لیے ہم ہسپتال کے مردہ خانوں میں گئے، حالانکہ ہم جانتے تھے کہ صرف کچھ لاشیں ہی آٹوپسی کے لیے آتی ہیں۔ ہم قبرستانوں میں بھی گئے جہاں ہمیں گولی لگنے سے مرنے والے متاثرین کی کچھ تازہ کھدی ہوئی قبریں ملی تھیں۔
مقصد مردہ لاشوں کی تصاویر اور ان کی زندہ رہتے ہوئے تصاویر کا کراس میچ کرنا تھا۔ میرے پاس بہت سی مردہ لاشوں کی تصاویر ہیں جن کی میں شناخت نہیں کر سکی کیونکہ میں ابھی تک انہیں سرکاری ہسپتال کے ریکارڈ سے میچ نہیں کر سکی ہوں۔
ہماری ترجیح یہ تھی کہ ہم وہ سب ظاہر کریں جو حکومت چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ہم اموات کی جس تعداد تک پہنچے تھے وہ بہت کم تخمینہ ہے۔ ہم نے یقیناً ہر ایک
شخص کا حساب نہیں لگایا جو مارا گیا تھا۔
آر آئی: کیا آپ کو مردوں کی دستاویزسازی کرتے ہوئے ایک اضافی جلدی کا احساس ہوا؟
ض ا: بالکل۔ ہم جانتے تھے کہ تشدد کے دائرے اور طریقوں کو دکھانا حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیےضروری تھا۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم حکومت کو تبدیل کریں، یہ بنگلہ دیش کے لوگوں پر منحصر ہے۔ لیکن یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے منتخب نمائندوں کو جوابدہ ٹھہرائیں۔ تو یہی وہ جگہ تھی جہاں ہم نے اپنی تمام توانائیاں مرکوز کیں۔ یہ ایک بڑی ٹیم کی کوشش تھی اور مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم اسے انجام دے سکے۔
آر آئی: کیا بین الاقوامی میڈیا نے مہلک احتجاجوں پر کافی توجہ دی؟
ض ا: میری رائے میں غیر ملکی میڈیا نے کافی اچھا کام کیا۔ مثلاً اے ایف پی نے سیٹلائٹ انٹرنیٹ کنکشن کی بدولت انٹرنیٹ بندش کے دوران ہر روز کچھ مضامین شائع کیے تھے۔ ایک سیاہ سوراخ میں یہ واقعی ایک جگمگاتی روشنی کا ایک منارہ تھا۔ لیکن انصاف کی بات کی جائے تو غیر ملکی پریس کو مقامی میڈیا کے مقابلے میں بہت کم پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ حکومت جسمانی طور پر غیر ملکی میڈیا ہاؤسز پر قبضہ نہیں کر سکتی تھی یا ان کی فنڈنگ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی تھی۔
آر آئی: اگلے کچھ ہفتوں اور مہینوں میں صحافتی آزادی کے بارے میں آپ کی کیا امیدیں اور خدشات ہیں؟
ض ا: میں پہلے کے مقابلے میں بہتر صحافتی آزادی کے ایک دور کا تصور کر رہی ہوں۔ ہم پچھلی حکومت کی بدعنوانی کی کوریج کے ایک اچھے مہینے کا انتظار کر رہے ہیں جس کی ہم ماضی میں رپورٹ نہیں کر سکے تھے۔
عبوری حکومت نے کہا ہے کہ وہ سائبر سیکیورٹی ایکٹ کو منسوخ کرنے پر غور کریں گے۔ کسی وقت ہمیں انتخابات میں جانا ہوگا تاکہ ایک سیاسی جماعت اقتدار میں آ سکے۔ ہم اس حکومت کی جانب سے کچھ بڑی اصلاحات کیے جانے کے منتظر ہیں۔ اس کے علاوہ صحافیوں کو اظہار رائے کی آزادی اور صحافتی آزادی کے لیے ایک بڑا دباؤ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہم کبھی پچھلے 15 سالوں کی طرف واپس نہ جائیں۔
سوال: عبوری حکومت کی قیادت نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں۔ آپ اسے کیسے جوابدہ ٹھہرا رہے ہیں اور آپ مستقبل کی حکومتوں کو کیسے بھی جوابدہ ٹھہرانے کے ارادہ رکھتے ہیں؟
ض ا: پچھلے ہفتے اور اس سے زیادہ عرصے سے ہم نے ہندو برادری کے خلاف حملوں کی ایک لہر دیکھی ہے۔میرے ہندو دوست کافی خوفزدہ ہیں۔ کچھ تو اپنے گھر سے بھاگ گئے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ایل جی بی ٹی کیو آئی یا ٹرانسجینڈر شخص ہونا بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ بنگلہ دیش کی اقلیتوں کی حفاظت کی جائے۔
ہم سیاسی غیر یقینی کے ایک دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ اسلام پسند گروپوں کے لیے اپنے سیاسی اڈوں کو متحرک کرنے کا بالکل مناسب وقت ہے۔ بنگلہ دیش کے آئین کے مطابق جماعتیں سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا غلط استعمال نہیں کر سکتیں۔ لہٰذا ہمیں حکومت کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہم ایک سیکولر ملک رہیں۔ ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔
یہ مضمون اصل میں رائٹرز انسٹیٹیوٹ کی جانب سے شائع کیا گیا تھا اور اجازت کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ آپ اصل مضمون یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
بنجمن باتھکے برلن میں مقیم ایک کاروباری ملٹی میڈیا صحافی ہیں۔ وہ پچھلے سات سالوں سے آن لائن، ریڈیو اور ویڈیو صحافت میں کام کر رہے ہیں اور فی الحال ڈوئچے ویلے اور دیگر متعدد بین الاقوامی اشاعتوں کے لیے نقل مکانی، میڈیا میں جدت اور ٹیکنالوجی کے ساتھ دیگر موضوعات کو کور کر رہے ہیں۔