رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش
An illustration shows the shadows of four reporters in the choppy seas of data journalism, making their way towards a lighthouse.
An illustration shows the shadows of four reporters in the choppy seas of data journalism, making their way towards a lighthouse.

Image: Nyuk for GIJN

رپورٹنگ

ایشیا میں ڈیٹا جرنلزم: نیوزرومز، کمیونیٹیز اور شواہد کے درمیان تعلقات کو ازسرِنو سوچنا

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

ایشیا بھر میں ڈیٹا جرنلزم سے وابستہ نیوز رومز نے محدود ڈیٹا تک رسائی، سیاسی دباؤ اور وسائل کی کمی سے نمٹنے کے لیے نئے تخلیقی طریقے دریافت کیے ہیں۔ انہوں نے یہ طریقے اپنے لیے منفرد بنیادی مقاصد اور کہانی سنانے کے نئے انداز اپنا کر تلاش کیے ہیں۔ بھارت، سنگاپور، تھائی لینڈ اور فلپائن میں ڈیٹا جرنلزم کے اداروں کی مثالیں دکھاتی ہیں کہ  وہ کس طرح بدلتے ہوئے میڈیا ماحول اور حکومتوں و نجی کمپنیوں کی جانب سے ڈیٹا کے استعمال سے پیدا ہونے والی مشکلات پر قابو  پانے کے مختلف طریقے اپنا رہے ہیں۔

اس خطے کے مسائل واضح ہیں: ناقص ڈیٹا نظام، شفافیت کے خلاف سیاسی مزاحمت، گرانٹس پر انحصار اور نیوز رومز کی کمزور شمولیت۔ لیکن کہانی سنانے کے تخلیقی طریقے حیران کن ہیں۔ ان میں بصری فن سے لے کر اے آئی چیٹ بوٹس اور تربیتی ورکشاپس تک شامل ہیں۔ یہ طریقے دکھاتے  ہیں کہ ایشیا میں ڈیٹا جرنلزم صرف چارٹس اور ڈیش بورڈز تک محدود نہیں ہے، یہ نیوز رومز، کمیونٹیوں اور شواہد کے درمیان تعلقات کو نئے سرے سے سوچنے کا عمل ہے۔

یہ تخلیقیت اور اثر پذیری اس سال کے سگما ایوارڈز میں بھی نمایاں تھی جہاں ایشیا کے کئی ادارے مثلاً مکارانگا میڈیا، الجزیرہ، کونٹینینٹلسٹ، رائٹرز (سنگاپور)، کامن ویلتھ میگزین، دی رپورٹر (تائیوان)، انڈیپنڈنٹ فلسطینی میڈیا، جنوبی کوریا کا ایک اشتراکی منصوبہ اور عالمی دبئی ان لاکڈ پراجیکٹ پر کام کرنے والے کئی ایشیائی ادارے شارٹ لسٹ کیے گئے تھے۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ اپنی ہانگ کانگ کے گھریلو ملازمین کی پوشیدہ کمیونٹیز اور ان کی غیر قانونی رہائشی تعمیرات پر ایک تصویری تحقیق کے لیے 2025 کے فاتحین میں سے ایک تھا۔ یہ ایک ایسا پروجیکٹ ہے جس کی سگما ایوارڈ کی کمیٹی نے بطور "بصری کہانیوں کی ایک شاندار سیریز” تعریف کی تھی۔

احتساب کے لیے صبر ضروری ہے

جی آئی جے این کے رکن ادارے انڈیا اسپینڈ کی بنیاد 2011 میں بھارت کی انسدادِ بدعنوانی تحریک کے دوران بلومبرگ ٹی وی انڈیا کے سابق ایڈیٹر اِن چیف گووند راج ایتھراج نے رکھی تھی۔ اس ادارے نے احتساب کو اپنا بنیادی مقصد بنایا ہے۔ بھارت کے پہلے ڈیٹا جرنلزم ادارے کے طور پر اس کے رپورٹرز اور ایڈیٹرز نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ طرزِ حکمرانی، صحت، صنف، ماحول اور روزگار جیسے موضوعات پر کام کرتے ہوئے گزارا ہے۔ اس نظر کے ساتھ کہ ڈیٹا کیا دکھاتا ہے اور کیا چھپا جاتا ہے۔

"ڈیٹا تک رسائی اور اس کی قابلِ اعتمادیت اب بھی بڑی رکاوٹیں ہیں کیونکہ ہمیں اکثر تاخیر، نامکمل ڈیٹا سیٹس اور بدلتے ہوئے طریقہ کار سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور پھر ہمیں ایسی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو شفافیت کو محدود کرتی ہیں،” انڈیا اسپینڈ کی ریسرچ مینیجر پراچی سیلو کہتی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود، انڈیا اسپینڈ معلومات تک رسائی کے حق کی درخواستیں دائر کرتا ہے، ماہرین سے اعداد و شمار کی تصدیق کرتا ہے اور وضاحتی رپورٹس اور انٹریکٹو ویژولز تیار کرتا ہے تاکہ شہری خود نتائج دیکھ سکیں۔

اتنی محنت نے عملی اثرات پیدا کیے ہیں۔ فیکٹری سیفٹی پر ان کی تحقیق نے انکشاف کیا کہ سرکاری ڈیٹا کے مطابق 2017 سے 2020 کے درمیان رجسٹرڈ فیکٹریوں میں روزانہ اوسطاً تین مزدور ہلاک ہوئے (نیچے دیا گیا گرافک دیکھیں)۔ کہانی محض ایک اور افسوسناک اعداد و شمار پر ختم نہیں ہوئی: بھارت کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے از خود نوٹس لیا یعنی کسی کی طرف سے درخواست دائر کیے بغیر قانونی کارروائی کی  اور ریاستی حکومتوں کو نوٹسز جاری کیے۔  کرونا کی عالمی وبا کے دوران انڈیا اسپینڈ کے سرکاری شہری رجسٹری کے ریکارڈز پر مبنی اضافی اموات کے تجزیوں نے بھارت میں کرونا کی عالمی وبا کے تباہ کن اثرات پر قومی اور بین الاقوامی توجہ مبذول کروائی تھی۔

https://infogram.com/fatal-injuries-in-registered-factories-in-india-2017-2020-1h984wor539vd6p

سیلو کہتی ہیں کہ دونوں صورتوں میں اصل چیز صرف اعداد و شمار نہیں تھے بلکہ صبر، تصدیق اور کہانی کو اس انداز میں پیش کرنا تھا کہ وہ پالیسی حلقوں سے باہر بھی اثر انداز محسوس ہو۔ "ہم مشکل اصطلاحات ہٹا دیتے ہیں، قابلِ فہم تقابلی مثالیں دیتے ہیں (’صرف فیصد میں ڈیٹا بتانے کے بجائے ریاست X میں ہر دو میں سے ایک بچہ‘) اور پیچیدہ رجحانات کو قابلِ فہم بنانے لیے انفوگرافکس، چارٹس اور انٹرایکٹو نقشوں پر انحصار کرتے ہیں،” سیلو نے مزید کہا۔

ڈیزائن کے ذریعے ڈیٹا کو قابلِ رسائی بنانا

کونٹینینٹلسٹ کی ویب سائٹ کے صفحے خوبصورت بصری مناظر سے بھرے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر "نیچرز یوٹینسلز” دکھاتا ہے کہ سری لنکن کمیونٹیز کس طرح کھانے اور روایتی اوزاروں کے ذریعے اپنی ثقافت کو محفوظ رکھتی ہیں۔

"لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ہماری ویب سائٹ ’خوبصورت‘ لگتی ہے لیکن ہمارے اس طرح ڈیزائن بنانے کی وجہ یہ نہیں ہے۔ ہمارا مقصد رسائی فراہم کرنا ہے۔ اس سے ہماری مراد صرف پڑھنے میں آسانی نہیں بلکہ اپنائیت اور وقار بھی ہے۔ ڈیٹا خوف پیدا کر سکتا ہے مگر ہم اسے خوش آمدیدی بنانا چاہتے ہیں،” کونٹینینٹلسٹ کی شریک بانی اور سربراہ پئی ینگ لوہ کہتی ہیں۔

ہر کہانی کا آغاز کاغذ پر قلم سے بنائے گئے خاکوں سے ہوتا ہے پھر وہ نظرثانی کے کئی مراحل سے گزرتی ہے اور پھر ایسے لوگوں کے ساتھ مسودوں کی جانچ کی جاتی ہے جو اس موضوع سے واقف نہیں ہوتے۔ اس کا نتیجہ سنگاپور میں رہائشی عدم مساوات، بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور غزہ میں ثقافت کے مٹائے جانے جیسے موضوعات پر سدابہار وضاحتی خبریں کی صورت میں نکلتا ہے۔ سری لنکن کھانوں پر بنی کہانی جیسی خبریں سرخیوں کے ماند پڑ جانے کے بعد بھی متعلقہ رہتی ہے۔

Kontinentalist enforced disappearances in Balochistan

کونٹینینٹلسٹ کمیونیٹیز میں اپنے کردار کو ازسرِ نو سوچنا چاہتا ہے۔ لوہ وضاحت کرتی ہیں کہ صحافت کبھی کبھار بس کھوجنے تک محدود ہو جاتی ہے "جہاں آپ کسی کا انٹرویو کرتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں آتے۔”

"ہم ایک کمیونٹی منشور بنا کر ایسا کرنے سے بچنا چاہتے تھے۔ یہ ہمیں رہنمائی دیتا ہے کہ ہم قارئین، شراکت داروں، ساتھیوں اور خاص طور پر اُن کمیونٹیز سے کیسے تعلق رکھیں جن کے بارے میں ہم رپورٹ کرتے ہیں،” وہ کہتی ہیں۔ "مثلاً حال ہی میں ہم سنگاپور کی ایک مقامی سمندری کمیونٹی، اورنگ لاؤٹ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اُن کے بارے میں صرف ایک خبر لکھنے کے بجائے ہم اُن کی اپنی ڈیٹا جمع کرنے کی کوششوں میں مدد دے رہے ہیں۔ یہ ہماری تبدیلی کا ایک حصہ ہے۔ بعض دفعہ سب سے معنی خیز کام ایک اور مضمون چھاپنا نہیں ہوتا بلکہ ایک کمیونٹی کی اپنی کہانی سنانے کی صلاحیت کو مضبوط بنانا ہوتا ہے،” کونٹینینٹلسٹ  کی لوہ کہتی ہیں۔

کونٹینینٹلسٹ اور اورنگ لاؤٹ سنگاپور کے اشتراک کا ایک سب سے اہم پہلو "انہیں طاقت دینا” ہے کیونکہ یہ اس بات کی نئی تشکیل کرتا ہے کہ ڈیٹا جرنلزم کا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔ صرف کمیونٹیز کو اس سے باہر کے لوگوں کے لیے وژولائز کرنا نہیں بلکہ انہیں اس قابل بنانا کہ وہ اپنا ڈیٹا خود جمع کریں، اس کے مالک بنیں اور اسے خود استعمال کریں۔

نیوز رومز کو ماہی گیری سکھانا

ایک پرانی کہاوت ہے کہ کسی کو مچھلی دینے سے بہتر ہے کہ اسے مچھلی پکڑنا سکھایا جائے۔ 2019 میں بنکاک میں قائم ہونے والا ڈیٹا اسٹوری ٹیلنگ اسٹوڈیو "پنچ اپ” بنکاک پوسٹ اور دیگر میڈیا پارٹنرز کے ساتھ مل کر بصری کہانی سنانے کا ہنر سکھاتے ہیں۔

"آخر میں ہم چاہتے ہیں کہ میڈیا اداروں کے پاس اپنی ٹیمز ہوں۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ کام کرنے والے صرف ہم ہوں۔ ہم ڈیٹا کی مدد سے گفتگو کرنے کا ایک رواج لانا چاہتے ہیں،”  پنچ اپ کی شریک بانی اور بزنس ڈائریکٹر پاچر ڈوانگ کلاد کہتی ہیں۔

ان کے منصوبوں میں تھائی شہریوں کو انتخابات سمجھنے میں مدد دینا، اینٹی بایوٹک کے خلاف مزاحمت اور جنگلات کے کم ہوتے ہوئے رقبے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا سمیت ہر چیز شامل ہے۔ "گون وائرل” کے لیے پنچ اپ نے بینکاک پوسٹ اور ایک سوشل لسننگ کمپنی کے ساتھ مل کر یہ معلوم کیا تھا کہ کرونا کی عالمی وبا سے متعلق جعلی خبریں تھائی سوشل میڈیا پر کیسے پھیلیں۔ انہوں نے ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کو اپنے ساتھ نیٹ ورک کا تجزیہ کرنے کے لیے شامل کیا تھا۔ اس تجزیے نے دکھایا کہ کہ افواہیں کیسے اکٹھی ہوئیں اور مختلف پلیٹ فارمز پر کیسے تبدیل ہوئیں۔

مگر مقصد صرف خبر نہیں تھا۔ پنچ اپ نے ایک سالہ شراکت داریاں قائم کیں جن کے ذریعے سرکاری نشریاتی ادارے تھائی پی بی ایس اور دیگر اداروں میں ادارتی ٹیموں کو تربیت فراہم کی گئیں تاکہ وہ ڈویلپرز اور ڈیزائنرز کے ساتھ کام کرکے ایسی مہارتیں اور نظام بنائیں جنہیں ان کا عملہ استعمال کرتا رہے۔”ہم ایک ہی پروجیکٹ کے لیے بار بار اپنی ہی خدمات نہیں دینا چاہتے۔ ہم اوپن ڈیٹا کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی کمیونٹی بنانا چاہتے ہیں جو اس کے ساتھ کام کر سکے اور نیوز رومز کو اتنا پراعتماد بنانا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارا کام ختم ہونے کے بعد بھی اسے جاری رکھ سکیں،” ڈوانگ کلاد کہتی ہیں۔

اسی لیے ان کے کام میں اکثر بوٹ کیمپس اور ورکشاپس شامل ہوتی ہیں۔ ڈوانگ کلاد وضاحت کرتی ہیں کہ وہ صرف ایک دفعہ کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹس پیدا نہیں کر رہے  بلکہ روایتی نیوز رومز میں ڈیٹا لٹریسی کی صلاحیت پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایک سست لیکن "ایسے خطے میں ضروری تبدیلی ہے جہاں اب بھی کئی ایڈیٹرز ڈیٹا جرنلزم کو ایک بنیادی صحافتی مہارت کی بجائے ایک خصوصی کام سمجھتے ہیں۔”

الگورتھمز: احتساب جس کی ادائیگی کوئی نہیں کرنا چاہتا

انڈیا اسپینڈ نے صبر اور تسلسل سے کیے گئے ڈیٹا پر مبنی کام کی طاقت ثابت کی ہے لیکن الگورتھمز پر رپورٹنگ نے ڈیٹا جرنلزم میں ایک تاریک گوشے کو بے نقاب کیا ہے۔ رائٹرز 2025 کی فیلو اور بوم لائیو کی ڈپٹی ایڈیٹر کیرن ریبیلو صاف لفظوں میں کہتی ہیں کہ "الگورتھمز کے سماجی اثرات کا جائزہ لینے والی ڈیٹا پر مبنی زیادہ تر تحقیقات گرانٹس کی مدد سے ممکن ہو پاتی ہیں اور مین اسٹریم نیوز ادارے ان پر سرمایہ نہیں لگاتے۔”

اپنے رائٹرز انسٹی ٹیوٹ کے مقالے میں انہوں نے یہ دیکھا تھا کہ بھارت اور دیگر ممالک میں صحافی  الگورتھمز کو کس طرح جواب دہی کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس میں وہ لکھتی ہیں کہ الگورتھمز بھارتی معاشرے کے سب سے زیادہ پسماندہ اور کمزور طبقے کو صحت کی سہولتوں تک رسائی سے لے کر کریڈٹ ریٹنگ تک ہر چیز میں متاثر کرتے ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ یہ کام زیادہ تر فلاحی اداروں اور تعلیمی شراکت داریوں کے ذریعے ہو رہا ہے۔ یہ کام نیوز رومز کے اپنے وسائل سے نہیں ہو رہا۔ الگورتھمز کے آڈٹ کے لیے خصوصی مہارت، مسلسل وقت اور اکثر قانونی معاونت درکار ہوتی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ بہت کم ادارے ایسے ہیں جو اس کو ترجیح دینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

یہ تضاد واضح ہے: الگورتھمز ایشیا میں عدم مساوات کی ایک بنیادی وجہ بن رہے ہیں لیکن صحافت انہیں نظر انداز کر رہی ہے۔ اور اس کی وجہ عارضی طور پر ملنے والی گرانٹ پر مبنی منصوبے ہیں۔ ریبیلو کے مطابق یہ منصوبے احتساب کو ایک منظم اور ڈیٹا جرنلزم میں گندھی مشق کے بجائے ایک وقتی مشق بنا دیں گے۔

جب اے آئی بوٹس شہریوں میں مکالمے کو فروغ دیتے ہیں

فلپائن میں ایک شخص کے تجربے نے ثابت کیا کہ ٹیکنالوجی کس طرح احتساب کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کر سکتی ہے۔ ایک فری لانس صحافی اور میڈیا ایڈوائزر جائیمارک ٹورڈیسیلا نے 2025 کا پورا قومی بجٹ ایک کسٹم جی پی ٹی چیٹ بوٹ میں اپ لوڈ کر دیا تھا۔ انہوں نے اسے "بجٹ بوٹ” کا نام دیا تھا۔ شہری عام زبان میں اس بوٹ سے سوال کر سکتے تھے جیسے "اس ضلع میں درجنوں باسکٹ بال کورٹ کیوں ہیں؟ یہاں سیلاب کنٹرول کے اخراجات میں اچانک اضافہ کیوں ہوا ہے؟”

"سب سے بڑی مشکل صحافیوں کی مہارت نہیں ہے بلکہ ماحول ہے۔ ایشیا کے کئی ممالک میں ڈیٹا کی دستیابی پہلے بھی مشکل تھی اور غالباً آج بھی یہ ایک بڑا مسئلہ ہے،” — یولانڈا جنشِن ما ہانگ کانگ یونیورسٹی

ٹورڈیسیلا یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب انہوں نے بجٹ بوٹ فیس بک پر پوسٹ کیا تھا تو ان کی پوسٹ ہزاروں بار شیئر ہوئی تھی اور عام شہریوں، این جی اوز اور ریپلر اور پی سی آئی جے جیسے میڈیا اداروں نے چیٹ بوٹ کے ذریعے اس بجٹ میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی۔ "اے آئی والا حصہ تو آسان ہوگا۔ ڈیٹا تک رسائی وہ نکتہ ہے جہاں خلا موجود ہوگا،” انہوں نے وضاحت کی۔ ان کے ٹول کا استعمال کر کے عام لوگوں نے اپنی دریافتیں آن لائن پوسٹ کیں، این جی اوز نے سرکاری دعووں کی تصدیق کے لیے اس ٹول کا استعمال کیا اور رپورٹروں نے بجٹ میں شہریوں کی تلاش کردہ بے ضابطگیوں پر تحقیقات کیں۔

ان تجربات اور کامیابیوں کے باوجود ایشیا میں ڈیٹا جرنلزم اب بھی سخت ساختی پابندیوں میں کام کر رہا ہے۔ یولانڈا جنشِن ما ہانگ کانگ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے 2014 میں چینی صحافیوں کو ڈیٹا مہارت سکھانے کے لیے ڈیٹا جرنلزم چائنا کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ مسئلہ صلاحیت کی کمی نہیں ہے۔ "سب سے بڑی مشکل صحافیوں کی مہارت نہیں ہے بلکہ ماحول ہے۔ ایشیا کے کئی ممالک میں ڈیٹا کی دستیابی پہلے بھی مشکل تھی اور غالباً آج بھی یہ ایک بڑا مسئلہ ہے،” انہوں نے کہا۔

چین میں صحافیوں کو سرکاری اوپن ڈیٹا کی کمی پوری کرنے کے لیے "متبادل ڈیٹا طریقوں” جیسے ویب اسکریپنگ، کراؤڈ سورسنگ یا سیٹلائٹ تصاویر کے استعمال کو اپنانا پڑا۔ ما کی ہانگ کانگ یونیورسٹی میں تدریس اب اے آئی اور اختراع پر مرکوز ہے لیکن ایک انتباہ کے ساتھ: "انسانی بصیرت اور فیصلہ سازی نہ اے آئی سے بدلی جا سکتی ہے نہ بدلی جانی چاہیے۔ کسی کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اے آئی سے پوچھے کہ ’اس ڈیٹا سے کیا پتہ چلتا ہے؟‘ بلکہ صحافیوں کو خود خبر تلاش کرنی چاہیے اور پھر اے آئی کو اس ڈیٹا پر کام کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔“

وہ ایشیا کے لیے "میپنگ ماکوکو” جیسے منصوبوں کی بطور ماڈل مثال دیتی ہیں۔ اس منصوبے میں نائجیریا کے شہر لاگوس کی ایک کچی آبادی کے رہائشیوں کو ڈرونز اور اوپن ڈیٹا استعمال کر کے اپنے علاقے کا نقشہ بنانے کی تربیت دی گئی تھی۔ ان کے مطابق مستقبل سرحد پار تعاون میں ہے۔ "ٹیکنالوجی سرحدیں پار کر رہی ہے۔ اسی طرح ایسی خبریں جو واقعی قابلِ توجہ ہیں انہیں بھی سرحد پار تعاون کرنا چاہیے۔”

وسیع تر منظر

ممبئی میں سیلو، آکسفورڈ اور ممبئی میں ریبیلو، سنگاپور میں لوہ، بنکاک میں  ڈوانگ کلاد، منیلا میں ٹورڈیسیلا اور ہانگ کانگ میں ما کو ایک بات متحد کرتی ہے: وہ ان کا اعداد کو محض تجریدی نہ رہنے دینا ہے۔ چاہے ایسا نگران صحافت کے ذریعے ہو یا ڈیزائن، تدریس یا تجربے کے ذریعے ہو وہ ڈیٹا کو ایک جیتی جاگتی حقیقت میں ڈھال رہے ہیں۔

انڈیا اسپینڈ کی پراچی سیلو کے مطابق قابلِ اعتماد ریکارڈز کی عدم موجودگی اعدادوشمار سے کہیں زیادہ نتائج رکھتی ہے۔ "جب مردم شماری میں تاخیر ہوتی ہے تو اس کا اثر دیگر ڈیٹا سیٹس پر بھی پڑتا ہے اور یہ تاخیر لاکھوں لوگوں کو فلاحی اسکیموں جیسے فوڈ سیکیورٹی ایکٹ سے خارج کر دیتی ہے کیونکہ ان پروگراموں سے مستفید ہونے والوں کی تعداد آبادی کے ڈیٹا کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔” وہ مزید کہتی ہیں کہ ڈیٹا کے بغیر پوری کی پوری کمیونٹیز نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔

بوم لائیو کی ڈپٹی ایڈیٹر کیرن ریبیلو خبردار کرتی ہیں کہ نئے اندھے گوشے پیدا ہو رہے ہیں۔ "سماجی فلاحی اسکیموں میں استعمال ہونے والے الگورتھمز غیر منصفانہ بے دخلیوں، راشن کی محرومی اور اجرتوں میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔ ان اسکیموں میں سبسڈی والے کھانے، یومیہ اجرت، پنشن سے معذوری تک کے الاؤنس جیسے پروگرام شامل ہیں۔ ان الگورتھمز  کی جانچ ناگزیر ہے،” وہ کہتی ہیں۔

پَنچ اپ کی پیچَر ڈوانگ کلاد کہتی ہیں کہ خلا صرف رسائی میں موجود نہیں ہے بلکہ ہماری اس کے حوالے سے سوچ میں بھی موجود ہے: "چارٹس آج بھی بہت سے لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ چیلنج یہ ہے کہ ڈیٹا کو روزمرہ زندگی کا ایسا حصہ بنایا جائے جو ہوم ورک نہیں بلکہ بات چیت جیسا لگے۔”

اور  امید بھی موجود ہے۔ "جب شہری کسی بجٹ سے بات کر سکتے ہیں یا خود ڈیٹا سیٹ کی تشخیص کر سکتے ہیں تو وہ محض قاری نہیں رہتے۔ وہ شریک تحقیق کار بن جاتے ہیں،” جائیمارک ٹورڈیسیلا کہتے ہیں۔ لیکن ڈیٹا جرنلزم چائنا کی یولانڈا جنشن ما کہتی ہیں کہ نئے آلات کے وعدے کے ساتھ احتیاط بتانا بھی ضروری ہے: "ہانگ کانگ یونیورسٹی میں میری تدریس اب اے آئی اور اختراع پر مرکوز ہے مگر ایک شرط کے ساتھ — ہم یہ زور دیتے ہیں کہ یہ آلات رپورٹنگ میں مدد دیں گے۔ اسے ہدایت نہیں دیں گے۔”


ریچل چترا جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے ٹیک ان ایشیا، رائٹرز اور خمیر ٹائمز جیسے مختلف بین الاقوامی اداروں کے لیے رپورٹنگ کر چکی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک مالیاتی صحافی ہیں جو ڈیٹا کے ذریعے کہانیاں سناتی ہیں۔ رائٹرز 2024 فیلوشپ کے دوران انہوں نے ڈیٹا حاصل کرنے کے متبادل طریقوں پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا  تھا جس کا عنوان تھا ” نفرت انگیز جرائم اور تشدد کی رپورٹنگ کرنا جب حکومتی سورسز ناکام ہو جاتے ہیں”۔

السٹریشن: نیوک ۲۰۱۰ میں جنوبی کوریا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ابھی سیول کی ہانیانگ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اپلائیڈ آرٹ ایجوکیشن میں زیرِ تعلیم ہیں۔ وہ وہاں بطور السٹریٹر بھی کام کر رہے ہیں۔2021 میں ہِڈن پلیس میں نمائش کے بعد سے وہ متعدد السٹریشن نمائشوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویروں میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ان کی فنکارانہ دنیا کی قدر کی نمائندگی کرتی ہیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

ریاستی سرپرستی والے اولیگارکس اور لوٹے گئے عوامی فنڈز: ایشیا میں غیر قانونی رقوم کے بہاؤ کا سراغ

جی آئی جے این کے ایشیا فوکس پروجیکٹ کی اس قسط میں، ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح پورے براعظم میں تفتیشی صحافی کلیپٹوکریسی کو بے نقاب کر رہے ہیں اور سرکاری بدعنوانی کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔

ایک کامیاب مقامی تحقیقاتی ادارہ چلانے کے لیے تجاویز

بغیر دفتر اور بغیر کسی ٹیم کے ایک آن لائن نیوز لیٹر کے طور پر شروع ہونے کے باوجود، جوشی ہرمنز مل میڈیا ایک کیس اسٹڈی میں تبدیل ہو گیا ہے کہ کس طرح مقامی تحقیقاتی صحافت کے کام کو بڑے اثر انداز کیا جائے۔