رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش
New York Times reporter Azmat Khan, speaking at a panel event in New York City.
New York Times reporter Azmat Khan, speaking at a panel event in New York City.

The NYT reporter Azmat Khan, speaking at a panel even in New York. Image: Clarissa Villondo / Karlin Villondo Photography, republished under a CC license

رپورٹنگ

اس رپورٹر نے امریکی فضائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو بے نقاب کیا تھا۔ ان کی تنبیہ: ایک مزید مخالف دنیا کے لیے تیار رہیں

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

عظمت خان ایک پولٹزر انعام یافتہ تحقیقاتی صحافی ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ اسکول آف جرنلزم میں پروفیسر ہیں۔ وہ دی نیو یارک ٹائمز اور دی نیو یارک ٹائمز میگزین کے لیے بطور تحقیقاتی رپورٹر کام کرتی ہیں۔

وہ جنگ، احتساب اور حکومتی شفافیت کے موضوعات پر اپنی سخت رپورٹنگ کے لیے جانی جاتی ہیں۔ خان نے امریکی فوجی کارروائیوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں سے متعلق سچ بے نقاب کیے تھے اور سرکاری بیانیے کو زمینی رپورٹنگ اور اوپن سورس انٹیلیجنس (او ایس آئی این ٹی) کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔

انہوں نے نیو یارک ٹائم میں اپنی سیریز عام شہریوں کی ہلاکتوں کی دستاویزات پر 2022 پولٹزر انعام برائے بین الاقوامی رپورٹنگ جیتا تھا۔ یہ سیریز پانچ سال سے زائد عرصے پر محیط رپورٹنگ کا نتیجہ تھی جس میں عراق، شام اور افغانستان میں 100 سے زائد ایسے مقامات پر کی جانے والی تحقیقات بھی شامل تھیں جہاں عام شہری امریکی حملوں میں مارے گئے تھے۔ یہ سیریز ایک قانونی جنگ کے بعد شائع ہوئی تھی۔ اس میں 1,300 سے زائد فوجی ریکارڈز عام ہوئے تھے جو اس سے پہلے خفیہ تھے۔

ان کی 2017 کی تحقیق دا ان کائونٹڈ نے انکشاف کیا تھا کہ عراق میں امریکی فضائی حملوں نے فوج کی طرف سے تسلیم شدہ تعداد سے 31 گنا زیادہ شرح کے حساب شہری ہلاک کیے تھے۔ بز فیڈ نیوز میں اپنے وقت کے دوران ان کی ایک اور تحقیق گوسٹ سکولز نے افغانستان میں امریکی مالی امداد سے چلنے والے تعلیمی منصوبوں میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔

خان کے کام نے نہ صرف عسکری اور حکومتی احتساب کی ساختی ناکامیوں کو بے نقاب کیا بلکہ تحقیقاتی صحافت میں نئے معیارات بھی طے کیے ہیں۔ میں نے حال ہی میں ان سے نیویارک میں ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ انہوں نے اپنے تحقیقاتی طریقۂ کار، جنگی رپورٹنگ کی اخلاقی پیچیدگیوں اور آج کے دور میں جب صحافیوں پر نگرانی بڑھتی جا رہی ہے اور آزادی صحافت کم ہو رہی ہے، صحافیوں کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات پر بات کی۔

سوال: آپ کے کام نے امریکی ڈرون حملوں سے ہونے والے شہری جانی نقصان کے حوالے سے اہم حقائق کو کو بے نقاب کیا ہے۔ آپ کس چیز سے متاثر ہو کرتحقیقاتی صحافت کے اس شعبے میں آئیں؟

عظمت خان: سن 2008 اور 2009 میں پاکستان میں ڈرون حملوں میں بے مثال اضافہ ہوا تھا۔ ان حملوں نے جنگ کے طریقہ کار اور امریکہ کے عالمی کردار پر نئے سوالات اٹھائے تھے۔ اگلے چند برسوں میں ہم نے جنگ کے اس طریقے کو کئی جگہوں جیسے یمن تک پھیلے ہوئے دیکھا۔ صرف ڈرون حملے ہی نہیں، فضائی حملے مجموعی طور پر امریکی حکمت عملی کا حصہ بنتے گئے تاکہ اسے ایک بڑی تعداد میں زمینی فوج مختص کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

مجھے اس موضوع کی طرف اس وقت کشش محسوس ہوئی تھی جب میں نے دیکھا کہ امریکی فوج کے دعوے اکثر بغیر کسی جانچ کے قبول کیے جا رہے تھے۔ ایک مخصوص اعداد و شمار میرے لیے فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوا تھا۔

اپریل 2016 میں میں نے ایک اخبار کے فرنٹ صفحے پر خبر پڑھی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ نے عراق اور شام میں تقریباً 25,000 داعش جنگجو مار دیے تھے۔ اسی وقت میں امریکی اتحادی افواج کا اپنا ڈیٹا بھی دیکھ رہی تھی جس کے مطابق صرف 24 شہری ہلاک ہوئے تھے۔ یہ اعداد پچیس ہزار جنگجو بمقابلہ چوبیس شہری، جو مجھے زمینی حقیقت پتہ تھی اس سے کافی مختلف لگ رہے تھے لیکن انہیں عمومی طور پر سچ مانا جا رہا تھا۔

میں نے سوچا کیا میں خود ان اعداد و شمار کی تصدیق کر سکتی ہوں؟ کیا میں کسی گاؤں یا شہر جا کر ہر فضائی حملے کی جگہ دیکھ سکتی ہوں اور دیکھ سکتی ہوں کہ کتنے حملوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں؟ یہ دعوے کتنے درست ہیں؟

سوال: آپ نے کیسے شروعات کی؟

عظمت خان: میں نے چھوٹے پیمانے پر آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلا علاقہ جس پر میں نے توجہ دی وہ اربیل اور موصل کے قریباً درمیان میں واقع ایران کے شہر قیارہ کے قریب تھا۔ میں نے وہاں 10 فضائی حملوں کی جگہوں کا دورہ کیا۔ ان میں سے آدھے حملے عام شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنے تھے۔ یہ حیران کن تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنا سیمپل سائز بڑھانے کی ضرورت تھی۔ میں مزید تفتیش کے لیے واپس لوٹتی رہی۔

وہ کام بالآخر ان نتائج کی شکل میں بدلا جو 2017 میں دا ان کائونٹڈ کی شکل میں شائع ہوئی تھیں۔ 103 فضائی حملوں کے نمونے کی بنیاد پر میں نے اور میرے شریک مصنف نے یہ ڈھونڈا تھا کہ ہر پانچ میں سے ایک حملہ عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنا تھا۔ یہ شرح امریکی قیادت والے اتحاد کے دعوے (جو ایک فیصد سے بھی کم تھی) سے 31 گنا زیادہ تھی۔ یہی میری آئندہ برسوں کی تحقیق کی بنیاد بنا جس میں میں نے امریکی فضائی حملوں کے حقیقی اثرات کا جائزہ لیا تھا۔

سوال: آپ نے فوج کے دعوؤں کی تحقیق کیسے کی؟

عظمت خان: نائن الیون کے بعد کے تناظر میں فوجی ادارے اکثر اہداف کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ ان فیصلوں کے پیچھے موجود انٹیلیجنس یا منطق صاف نہیں بتاتے۔ وہ اکثر "قومی سلامتی” کا حوالہ دے کر تفصیلات کو چھپا لیتے ہیں جس سے صحافیوں کے لیے ان دعوؤں کو چیلنج کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

اس عدم شفافیت سے نمٹنے کے لیے میں نے کئی طریقے اپنائے تھے۔ سب سے پہلے میں نے معلومات اکٹھی کرنے کے لیے خود اس جگہ جانے کی اہمیت سمجھی۔ کیونکہ فوج اکثر خود ان واقعات کی تحقیقات نہیں کرتی تھی۔ اس چیز نے مجھے اپنی معلومات اکٹھی کرنے کا عمل شروع کرنے کی تحریک دی اور یہی صحافت ہے، عوام کے لیے معلومات اکٹھی کرنا۔

دوسرا، میں نے فوجی پریس ریلیز، حملوں کی تفصیلات اور جانی نقصان کے اندازوں کا باقاعدہ تجزیہ کیا۔ ان سب کو ایک ڈیٹا بیس میں اکٹھا کیا تاکہ ان میں کوئی تضاد یا پیٹرن تلاش کر سکوں۔ میں نے ان کے عوامی بیانات کو بھی پرکھا کہ آیا وہ درست ہیں یا نہیں۔

تیسرا، میں نے فوج کے فیصلوں کے پیچھے کی منطق کو مختلف ذرائع سے سمجھنے کی کوشش کی۔ ان میں اتحاد کے مختلف کرداروں سے انٹرویو، قطر میں امریکی ایئربیس میں ایمبیڈڈ رپورٹنگ اور ریکارڈ کی درخواست کے لیے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ (ایف او آئی اے) کا استعمال شامل ہیں۔ اس حکمت عملی نے مجھے فوجی بیانیے کو چیلنج کرنے اور واقعات کی ایک زیادہ حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کرنے میں مدد دی تھی۔

سوال: ایف او آئی اے کی درخواستوں کے ذریعے ملٹری کے تجزیے حاصل کرنا کیوں اتنا اہم تھا؟

عظمت خان: اس نے سارا معاملہ ہی تبدیل کر دیا تھا۔ دا ان کائونٹڈ میں میں نے یہ دریافت کیا کہ ہر پانچ میں سے ایک فضائی حملے میں عام شہری مارے گئے تھے اور ان میں سے نصف حملے ناقص یا پرانی انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیے گئے تھے۔ ایف او آئی اے کے تحت دلائل دیتے ہوئے، مجھے ایک فوجی تجزیاتی دستاویز ملی تھی جس میں یہ لکھا تھا کہ ایک خاص واقعے جیسے کہ باسم رضو والے حملے میں انٹیلیجنس کیسے ناکام ہوئی تھی۔

اس کامیابی نے مجھے ہزاروں دیگر تجزیے حاصل کرنے کے لیے متحرک کیا جن سے مجھے سیویلئین کیثویلٹی فائلز پراجیکٹ ملا تھا۔ کئی سالوں تک ایف او آئی اے کی درخواستوں جمع کروانے اور بالآخر پینٹاگون کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بعد میں نے 1,300 سے زائد ریکارڈز حاصل کیے تھے۔ ان دستاویزات نے مجھے موقع دیا کہ میں فوج کے دعوؤں اور ان کے پیچھے چھپی انٹیلیجنس کا تجزیہ کر سکوں اور اس معلوماتی خلا کو پُر کر سکوں جس کا اکثر حکومتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔

سوال: آپ کے کام پر اس کا کیا اثر ہوا؟

عظمت خان: میرے کام ہر اس کا بہت گہرا اثر ہوا۔ ان ریکارڈز کو زمینی تحقیقات کے ساتھ جوڑ کر میں شہری ہلاکتوں کی ایک مکمل تصویر پیش کرنے کے قابل ہوئی تھی۔ اس سے فوج کو جوابدہ ٹھہرانا ممکن ہوا تھا اور ان کے فیصلے کرنے کے طریقہ کار پر سوال اٹھے تھے۔

سوال: آپ جنگ میں بچ جانے والوں اور ان کے خاندانوں کا انٹرویو کس طرح کرتی ہیں؟

عظمت خان: یہ بہت اچھا سوال ہے۔ ایک چیز جس کی میں تجویز کروں گی وہ ہے وقت۔ لوگوں کو اپنی کہانیاں سنانے کا موقع دیں اور انہیں دھیان سے سنیں۔ ان سے صرف اپنی دلچسپی کے سوالات نہ پوچھیں۔ یہ اعتماد پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے اور انہیں کھل کر بولنے کی آزادی دیتا ہے۔ بہت سے متاثرین نے کبھی کسی صحافی سے بات نہیں کی ہوتی یا وہ ان سے بات کرنے کا طریقہ کار نہیں جانتے۔

بعض ثقافتوں میں مہمانوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ ہر سوال کا جواب دینا اپنا فرض سمجھیں چاہے وہ غیر آرام دہ محسوس کر رہے ہوں۔ میں ہمیشہ انہیں شروع میں ہی واضح کر دیتی ہوں: آپ کو میرے کسی بھی سوال کا جواب دینا ضروری نہیں۔ اگر میں کوئی ایسا سوال کروں جو آپ کو تکلیف دے یا نقصان پہنچا سکتا ہو تو آپ کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بچوں کی موجودگی کا بھی خیال رکھتی ہوں اور اپنی بات چیت کا انداز اسی کے مطابق بدلتی ہوں۔

جب میں ان سے صدمے  کے تجربات کے بارے میں سوال کرتی ہوں تو یہ میری ذمے داری ہوتی ہے کہ میں بعد میں بات کو ایک ہلکی سمت میں لے جاؤں۔ میں اکثر سوالات ان کی امیدوں، ایمان یا دلچسپیوں کی طرف لے جاتی ہوں۔

میں کچھ ذرائع جیسے کولمبیا یونیورسٹی کے ڈارٹ سینٹر بھی تجویز کرتی ہوں جو صدمہ سے گزرنے والوں کے انٹرویو کرنے کے حوالے سے عملی مشورے دیتا ہے۔ وہ کچھ چیزوں کی نشاندہی کرتے ہیں جیسے کہ ہاٹ مومنٹس جن میں جسمانی تاثرات بتاتے ہیں کہ کوئی صدمے کو دوبارہ محسوس کر رہا ہے۔اس سے ہمیں اپنےرویے کو فوری طور پر بدلنے کا اشارہ ملتا ہے۔ میں نے موقع کے لحاظ سے اپنے طریقہ کار کو تبدیل کرنا سیکھا ہے۔ جو طریقہ افغانستان میں کارآمد ہے وہ شاید عراق یا شام میں کام نہ کر سکے۔ یہ سارا کام با معنی کہانیاں اکٹھی کرنے کے ساتھ ساتھ حساسیت بھی قائم رکھنا ہے۔

سوال: آپ ٹرامہ سے گزرے افراد کا انٹرویو کیسے کرتی ہیں خاص طور پر جب انہیں ان تکلیف دہ تجربات کو پھر سے یاد کرنا ہو؟

عظمت خان: مجھے اکثر حیران ہوتی تھی کہ متاثرہ افراد کتنا کچھ بتانا چاہتے تھے حالانکہ میں انہیں اس سے رکنے کی پیشکش بھی کرتی تھی۔ بہت سے لوگوں کو یہ تھیراپی لگتا تھا اور کچھ کو اچھا لگتا تھا کہ کوئی انہیں سن رہا ہے۔ بعض دفعہ انٹرویو ختم ہو جاتا تھا لیکن وہ انسان بات کرنا ختم نہیں کرنا چاہتا تھا اور پھر میں گھنٹوں انہیں سنتی تھی۔

مثال کے طور پر، میں بسم رضو کے ساتھ اس گھر میں گئی جہاں وہ ایک فضائی حملے سے زندہ بچے تھے لیکن اس حملے میں ان کی بیوی، بیٹی، بھائی اور بھتیجا جاں بحق ہو گئے تھے۔ میں جانتی تھی کہ وہاں جانا انہیں پھر سے صدمے میں لے جائے گا مگر انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا "میری اندر سے حساسیت ختم ہو گئی ہے” مگر ایک لمحے پر وہ ٹوٹ گئے تھے۔ جب وہ لانڈری روم میں گئے تو رونا شروع ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ انہیں ملبے میں اپنی بیٹی کی ایڑی نظر آئی تھی۔ وہ لمحہ اس کہانی کا مرکزی حصہ بن گیا تھا اور وہ ہمارے کہانی سنانے کے طریقے سے مطمعن تھے۔

انہیں روتا ہوا دیکھ کر مجھے دکھ محسوس ہوا تھا اور اپنا آپ قصوروار بھی لگا تھا لیکن ان کے اس لمحے کو دیکھنا میرے لیے ایک اعزاز بھی تھا۔ اگر میں ان کی کہانی درست انداز میں بیان کر سکتی ہوں اور وہ خود اسے دوسروں کو بتانا چاہتے ہیں تو یہ ٹھیک تھا۔

یہ بھی ضروری ہے کہ متاثرہ افراد کی معنوی رضامندی لی جائے۔ میری ساتھی جینا مور نے اس بارے میں لکھا ہے۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ صرف انٹرویو کی اجازت لینا کافی نہیں۔ آپ کو بتانا چاہیے کہ آپ کون ہیں، کہانی کہاں شائع ہو گی اور اس کے کیا ممکنہ خطرات ہو سکتے ہیں۔ متاثرین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی کہانی کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔

سوال: آپ نے او ایس آئی این ٹی کو کیسے استعمال کرنا شروع کیا اور آپ کو کون سے طریقے یا ٹولز سب سے مفید لگے؟

عظمت خان: میں نے پچھلی دہائی میں جتنی بھی تحقیقات کی ہیں ان سب میں ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے میں او ایس آئی این ٹی ٹولز لازم رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، میری بز فیڈ نیوز کے لیے افغانستان میں گوسٹ سکولز تحقیق کے دوران، میں نے حکومتی دعوؤں اور زمین پر موجود سکولوں کی تصدیق کے لیے وے بیک مشین،انٹرنیٹ آرکائیو اور سیٹلائٹ امیجری کا استعمال کیا تھا۔

وقت کے ساتھ میں نے ان ٹولز کو بہتر طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اپنی رپورٹ دا ان کائونٹڈ میں، میں نے حملے کی جگہوں اور عینی شاہدین کی بتائی گئی تاریخوں کی تصدیق کے لیے  گوگل ارتھ، پلینٹ لیبز اور سینٹی نیل ہب استعمال کیے۔ ان ٹولز نے مجھے حملے سے پہلے اور بعد کے مناظر کا موازنہ کرنے میں اور واقعات کی تصدیق کرنے میں مدد دی۔

عراق میں وکی میپیا جیسے کرائوڈ سورسڈ نقشے بھی بہت مفید ثابت ہوئے تھے۔ مقامی لوگ ان نقشوں میں مقامات کی نشان دہی کرتے تھے جس سے مزید گہرائی میں تفتیش میں مدد ملتی تھی۔ میں نے ٹویٹ ڈیک پر وقت کے لحاظ سے سرچ کیں اور ڈیپ ویب سرچز بھی کیں تاکہ ایسی ویڈیوز تلاش کر کے محفوظ کروں جنہیں خصوصاً داعش جیسے گروپ حذف کر چکے تھے۔

سوال: کیا آپ نے آرکائیونگ اور مانیٹرنگ ٹولز استعمال کیے؟

عظمت خان: وہ بہت اہم تھے۔ میں اکثر وہ ویڈیوز محفوظ کر لیتی تھی جن کے بارے میں مجھے پتہ ہوتا تھا کہ وہ ہٹا لی جائیں گی۔ میں انہیں ایک طریقے سے محفوظ کرتی تھی اور ان کا تجزیہ کرتی تھی۔ مثلاً، میں نے ایک امریکی زیرِ قیادت اتحاد کی یوٹیوب اور dvidshub.net (ڈیفنس ویژول انفارمیشن ڈسٹریبیوشن سروس) پر اپلوڈ کی گئی ویڈیوز کو اکٹھا کر کے ان کے مطالعے کے لیے ایک ڈیٹا بیس بنائی تھی۔

یہ احتساب کے لیے اہم تھا۔ جب اتحاد نے ایک مخصوص علاقے میں حملہ کرنے کے کے دعوے کو رد کیا تو میں نے آرکائیو شدہ ویڈیوز کی مدد سے ثابت کیا تھا کہ انہوں نے وہ حملہ کیا تھا۔ میرا وہ دعویٰ ان کے حملے کے ریکارڈ میں غلطیاں سامنے لایا تھا اور اس نے ان کے رپورٹنگ کے نظام میں موجود خامیاں بھی عیاں کی تھیں۔

اس کے لیے لاتعداد ٹولز دستیاب ہیں لیکن مجھے ایک ٹول جو بہت فائدہ مند لگتا ہے، وہ ویثول پنگ ہے۔ یہ ویب سائٹس پر ہونے والی تبدیلیوں کو ٹریک کرتا ہے اور آپ کی طے شدہ ترجیحات کے مطابق آپ کو الرٹ کرتا ہے۔ چاہے وہ روزانہ کی ای میل ہو یا ہر پانچ منٹ بعد چیک کرنا ہو۔

اسی ٹول نے مجھے یہ دریافت کرنے میں مدد دی تھی کہ اتحاد نے یوٹیوب سے کچھ ویڈیوز ہٹا دی تھیں۔ اور یہ میری ان ویڈیوز پر تحقیق سے میل کھا رہا تھا۔ ایسی تبدیلیوں کی نگرانی کرنا احتساب کے لیے اہم ہے اور رپورٹنگ کو جاندار بناتا ہے۔

ریورس امیج سرچ جیسے ٹولز نے بھی مجھے یہ دیکھنے میں مدد دی کہ کوئی مواد کب اور کہاں سب سے پہلے اپلوڈ ہوا تھا۔ آیا وہ مطلوبہ تاریخ سے میچ کرتا ہے اور کیا اسے وقت کے ساتھ تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ معلومات کی تصدیق اور فیکٹ چیکنگ کے لیے بہت ضروری تھا۔

میں مشورہ دوں گی کہ ان ٹولز کی باقاعدگی سے مشق کریں۔ بہت سے پلیٹ فارمز جیسے پلینٹ لیبز صحافیوں کو مفت یا رعایت پر سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ زمینی رپورٹنگ کو او ایس آئی این ٹی ٹولز کے ساتھ ملا کر کام کرنا ہی سرکاری بیانیے کو چیلنج کرنے اور سچ سامنے لانے کا سب سے مؤثر طریقہ رہا ہے۔

سوال: او ایس آئی این ٹی تکنیکوں کی کچھ حدود بھی ہیں۔ آپ نے ان سے کیسے نمٹا؟

عظمت خان: او ایس آئی این ٹی ٹولز صحافت میں کسی جادو کی چھڑی کی طرح لگتے ہیں لیکن ان کی اپنی کچھ حدود ہیں۔ صرف او ایس آئی این ٹی پر انحصار کرنا لوگوں کی کہانیوں کو سطحی بنا سکتا ہے۔ اگر آپ صرف سیٹلائٹ تصاویر یا آن لائن رپورٹس کا استعمال کرتے ہیں اور لوگوں سے بات نہیں کرتے تو آپ ان کی زندگیوں کی پیچیدگی اور انسانیت کا احاطہ نہیں کر پاتے۔

بعض اوقات صرف او ایس آئی این ٹی پر مبنی کہانیاں مشکل اور جذبات سے خالی محسوس ہوتی ہیں۔ لوگوں سے بات کرنا، ان کی پیچیدہ زندگیوں کو سمجھنا اور ان کی زندگیوں کو بامعنی انداز میں پیش کرنا صحافت کی بنیاد ہے۔ چاہے آپ ان سے جا کر ملیں، دور بیٹھ کر بات کریں یا ان کی آن لائن موجودگی کا تجزیہ کریں۔ ان کی آواز کو اجاگر کرنا بے حد ضروری ہے۔

سوال: ایف او آئی اے درخواستوں کے لیے آپ نے کون سی حکمتِ عملیاں کامیاب پائیں؟

عظمت خان: ایف او آئی اے میں کامیابی کی کنجی اپنی تحقیق خود کرنا ہے۔ ادارے کو سمجھیں، ریکارڈز کو کیا کہا جاتا ہے اور وہ کہاں رکھے جاتے ہیں تاکہ آپ ایک واضح درخواست جمع کروا سکیں۔ ادارے کے سابقہ رویے کو دیکھنا بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ وہ کتنی جلدی جواب دیتے ہیں، وہ عام طور پر کتنا وقت لیتے ہیں اور اس عمل کو تیز کرنے کے حوالے سے ان کی پالیسی کیا ہے۔

امریکہ میں رپورٹرز کمیٹی فار فریڈم آف دا پریس کا ایف او آئی اے وکی ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ آپ کو عمل کو سمجھنے اور مختلف اداروں کے ان درخواستوں کے طریقۂ کار کو جاننے میں مدد دیتا ہے۔ اگر کوئی ادارہ سست روی کا مظاہرہ کرے تو آپ فوری کارروائی کی درخواست دے سکتے ہیں۔ صحافی اکثر عوامی مفاد کا حوالہ دیتے ہیں لیکن بعض ادارے اس کے علاوہ بھی وجوہات کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔

جب میں ایک ایسے کیس کی تفتیش کر رہی تھی جس میں ایک عام شہری کی جان فوجی غلطی کے باعث خطرے میں تھی تو میں نے دلیل دی تھی کہ اس ریکارڈ کو عام کرنا نقصان کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس دلیل نے مجھے ریکارڈ حاصل کرنے میں مدد دی تھی۔

سوال: کیا آپ کوئی مثال دے سکتی ہیں؟

عظمت خان: باسم رضو کی جان خطرے میں آ گئی تھی جب اتحادی افواج کی ایک ویڈیو نے ان کے اور ان کے بھائی کے گھر کو "کار بم بنانے کی فیکٹری” کہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ فوجی ریکارڈ میں اسے ایک غلطی کہا گیا تھا لیکن وہ ویڈیو آن لائن موجود تھی اور ہزاروں افراد اسے دیکھ چکے تھے۔

میں نے ایف او آئی اے کے تحت یہ دلیل دی تھی کہ وہ ریکارڈ عوامی احتساب اور بسم کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ اس دلیل کی وجہ سے مجھے وہ ریکارڈ ملا تھا اور میں نے یہی منطق بعد کی درخواستوں میں بھی استعمال کی تھی۔

استقامت بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی ادارہ تاخیر کرے یا آپ کی درخواست مسترد کر دے تو آپ کو قانونی چارہ جوئی کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ مجھے بھی مقدمہ دائر کرنا پڑا تھا۔ اور رپورٹرز کمیٹی نے میری نمائندگی کی تھی۔ وہ قانونی مدد فراہم کرتے ہیں اور ان کے پاس صحافیوں کے لیے ایک ہاٹ لائن بھی ہے۔

میں آخری بات یہ کروں گی کہ آپ اپنے کام میں ترتیب لائیں۔ اپنی تمام ایف او آئی اے درخواستوں، جوابات اور رابطوں کا مکمل ریکارڈ رکھیں۔ اگر آپ کو قانونی مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو یہی چیز آپ کے کیس کو مضبوط کرے گی اور آپ کے کام میں عوامی مفاد دکھائے گی۔

سوال: صحافی ایف او آئی اے کے تحت درخواستیں جمع کرواتے ہوئے کون سی غلطیاں کرتے ہیں؟

عظمت خان: میں امریکہ اور آزادیِ اطلاعات کے بارے میں غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شرم محسوس کرتی ہوں۔ کئی ممالک نے یہ قوانین بنا تو رکھے ہیں مگر عملی طور پر وہ کام نہیں کرتے۔ برطانیہ کی مثال لیں۔ شہری ہلاکتوں پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیمیں کئی سالوں سے صرف ایک فوجی رپورٹ شائع کروانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ وہ اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ دوسری طرف میں امریکی نظام کے تحت دو ہزار سے زائد ایسی رپورٹس حاصل کر چکی ہوں۔

اس کے ساتھ، ان ممالک میں بھی جہاں ایف او آئی اے کا نظام چلتا ہے، میں نے صحافیوں کو کچھ ایسی عام غلطیاں کرتے ہوئے دیکھا ہے جو ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیتی ہیں۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ان کی درخواست بہت مبہم اور غیر واضح ہوتی ہے۔ اگر آپ "X سے متعلق تمام دستاویزات” کا مطالبہ کرتے ہیں تو آپ بیوروکریسی کے جال میں پھنس جائیں گے۔ یہاں مقصد واضح درخواست دینا ہے۔ آپ کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جس ریکارڈ کی آپ کو ضرورت ہے وہ موجود ہے اور پھر بالکل واضح انداز میں اسے جاری کرنے کی درخواست کریں۔

دوسرا اہم نکتہ یہ سمجھنا ہے کہ ایف او آئی اے کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا۔ حکومتی ادارے آپ کے لیے نئے کاغذات نہیں بنائیں گے اور نہ ہی تجزیہ کریں گے۔ آپ صرف پہلے سے موجود ریکارڈ ان کی حالیہ شکل میں مانگ سکتے ہیں۔  بہت سے لوگ یہاں غلطی کرتے ہیں۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ ادارے ان کی  جگہ انہیں معلومات اکٹھی کر کے دیں گے۔

آپ کو ہر خط و کتابت کا ریکارڈ رکھنا ہوگا۔ ڈیڈ لائن گزرنے پر پیروی کرنی ہوگی اور قانونی چارہ جوئی سے پہلے اپیل کرنے کا پورا عمل سمجھنا ہوگا۔ مثلاً امریکہ میں آپ کو قانونی کیس درج کرنے سے پہلے تمام انتظامی راستوں پر چلنا ہوتا ہے۔ آپ نے ایسا نہ کیا ہو تو آپ کا کیس شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔

یہ بھی اہم ہے کہ  آپ ایف او آئی اے کو واحد ذریعہ نہ سمجھیں۔ بعض اوقات جن دستاویزات کی آپ کو ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے ہی عام دستیاب ہوتے ہیں۔ بس سرکاری ویب سائٹس کے گوشوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ آپ ایڈوانس سرچ طریقے جیسے کہ مخصوص فائل کی قسم تلاش کرنا سیکھ کر قیمتی ترین دستاویزات کھوج سکتے ہیں۔ اور ظاہر ہے ذرائع بنانا اور ان سے تعلق رکھنا پہلے کی طرح بہت ضروری ہے۔

سوال: آپ موجودہ سیاسی ماحول کا تحقیقاتی صحافت پر کس طرح اثرانداز ہوتا دیکھتی ہیں؟

عظمت خان: ہم صحافیوں کی نگرانی میں اضافہ دیکھیں گے۔ رپورٹرز کی ڈیجیٹل نگرانی ایک ڈرامائی انداز میں بڑھی ہے۔حکومتیں اور دوسرے ادارے صحافیوں کی آن لائن نگرانی کے لیے جدید ٹولز کے استعمال میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ہم صحافیوں کی رسائی میں کمی ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔ ہم یہ پہلے ہی دیکھ رہے ہیں۔ غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اسرائیل اور مصر دونوں انہیں داخلہ دینے سے منع کر رہے ہیں۔ سب سے تشویشناک بات صرف یہ ناکہ بندی نہیں ہے بلکہ خاموش عالمی ردِعمل ہے۔ چند امریکی سینیٹرز کے سوا عالمی طاقتوں کی طرف سے کوئی خاص مزاحمت سامنے نہیں آئی ہے۔

ہم ایک خطرناک حد پار کر چکے ہیں جہاں حکومتیں اب کھل کر یہ تسلیم کر رہی ہیں کہ وہ صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اور اس کے جواب میں انہیں نتائج بھی نہیں دیکھنے پڑ رہے۔ جب طاقتور ممالک ایسی حرکتوں کو چیلنج کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو یہ ہر جگہ آمریت پسند حکومتوں کو کچھ بھی کرنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ پیغام بالکل واضح ہے: آپ ناپسندیدہ رپورٹنگ کو ختم کر سکتے ہیں اور آپ کو جواب میں کوئی خمیازہ بھی نہیں بھگتنا پڑے گا۔

یہ کریک ڈاؤن ظاہر کرتا ہے کہ طاقتور حلقے تحقیقاتی صحافت سے کس قدر خوف محسوس کرتے ہیں۔ اصل احتساب پر مبنی رپورٹنگ طاقت پر آخری مؤثر قدغنوں میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو کمزور کرنے کے لیے اس قدر منظم کوششیں دیکھ رہے ہیں۔

غزہ میں جو طریقے اپنائے جا رہے ہیں — مکمل معلوماتی بلیک آؤٹ، صحافیوں پر بلاخوف حملے — یہ معمول بننے کا خطرہ رکھتے ہیں جب تک کہ عالمی برادری اپنی آنکھیں نہ کھولے اور دیکھے کہ اس سے کس چیز کو خطرہ پہنچ رہا ہے۔ یہ اب محض خیالی خدشات نہیں رہے۔ ہم اس وقت براہِ راست دیکھ رہے ہیں کہ تحقیقاتی صحافت کو خاموش کرنے کی حکمتِ عملی لکھی جا رہی ہے۔


یہ اقتباس ایک مضمون سے لیا گیا ہے جو اصل میں رائٹرز انسٹیٹیوٹ نے شائع کیا تھا اور یہاں اجازت کے بعد شائع کیا جا رہا ہے۔


موریس اونایانگو کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں مقیم ایک ایوارڈ یافتہ فری لانس ملٹی میڈیا صحافی اور ڈاکیومنٹری فلم ساز ہیں۔ وہ نیشنل جیوگرافک، 100 رپورٹرز، افریقہ ڈاٹ کام اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے علاوہ دیگر اداروں کے لیے لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے نیشنل جیوگرافک ایکسپلورر ایوارڈ بھی جیتا ہے۔ انہوں نے  نیشنل جیوگرافک کے پروگرام الٹیمیٹ وائپرز کے ساتھ ساتھ پروجیکٹ گرین, افریقہ ان سینسرڈ, ای ٹی وی وائلڈ اور تازامہ کے لیے بھی ڈاکیومنٹریز بنائی ہیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

The Pudding Climate Zone

دا پڈنگ نے کیسے موسمیاتی تبدیلی کی کہانی کو نئے سیاق و سباق میں پیش کرنے کے لیے ڈیٹا ویژولائزیشنز کا استعمال کیا؟

موسمیاتی تبدیلی کو ہم کیسے محسوس کریں گے؟ اب سے 50 سال بعد آپ کے شہر کی آب و ہوا کیسے بدلے گی؟ ڈیٹا سائنسدان ڈیرک ٹیلر اپنے تازہ ترین ٹکڑے کی وضاحت کرتے ہیں۔