

অলংকরণ: ন্যুক
ریاستی سرپرستی والے اولیگارکس اور لوٹے گئے عوامی فنڈز: ایشیا میں غیر قانونی رقوم کے بہاؤ کا سراغ
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
آج کے دور میں غیر قانونی مالیاتی رقوم باقاعدگی سے سرحد پار جاتی ہیں اور ایشیا میں اس کے گہرے اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ اس خطے کے تحقیقاتی صحافیوں نے ایسی کہانیاں بے نقاب کی ہیں جنہوں نے آمرانہ دولت لوٹنے والے حکمرانوں، جوا بازی کے ایک نئے مرکز اور چوری شدہ رقوم کو چھپانے کے وسیع نیٹ ورکس سمیت مالی بدعنوانی کے مختلف پہلو کو بےنقاب کیا ہے۔
یہ رپورٹنگ جس نے بدعنوانی کو بے نقاب کیا اور طاقت کو جواب دہ بنایا آزادی صحافت کو درپیش موجودہ مشکل حالات میں ہوئی ہے۔کئی ممالک میں میڈیا کو حکومت کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے کیونکہ وہاں حکومتیں مقامی میڈیا کی ملکیت پر سخت گرفت رکھتی ہیں، اداریاتی فیصلوں میں مداخلت کرتی ہیں اور غیر ملکی اداروں کو غلط حرکتوں کو بے نقاب کرنے پر بلیک لسٹ کر دیتی ہیں۔ان رکاوٹوں کے باوجود پیچیدہ تحقیقاتی منصوبے ایشیا بھر میں منی لانڈرنگ اور سرکاری بدعنوانی کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔ یہ کام اکثر سرحدوں کے پار، محدود معلومات اور سخت حفاظتی دباؤ کےماحول میں ہوتا ہے۔ اس براعظم میں کئی رجحانات ابھر رہے ہیں جن میں ایسے آمرانہ حکمران شامل ہیں جو اپنے ہی ریاستی خزانوں کو لوٹ رہے ہیں اور منظم جرائم پیشہ گروہ جو جنوب مشرقی ایشیا میں کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ایک نیا جوے کا مرکز قائم کر رہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے 2024 کے کرپشن پرسیپشنز انڈیکس کے مطابق "ایشیا پیسیفک کی حکومتیں اب بھی انسدادِ بدعنوانی کے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہیں۔ کئی سال کی جمود کے بعد 2024 میں خطے کا اوسط اسکور ایک پوائنٹ کم ہو کر 44 رہ گیا ہے۔”
جی آئی جے این نے ان صحافیوں سے گفتگو کی جو ایشیا میں تحقیقاتی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں یا ان کی مدد کر رہے ہیں تاکہ ان کے تجربات، مشکلات اور سرحد پار تعاون کی اہمیت کو سمجھا جا سکے۔
کرغزستان میں بڑھتے ہوئے سرکاری کریک ڈاؤن کے دوران رپورٹنگ
کرغزستان کبھی اپنے حقیقی انتخابات، متحرک سول سوسائٹی اور ایک متحرک میڈیا کے ساتھ وسطی ایشیا کی سب سے جمہوری ریاست سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب ایک پاپولسٹ مگر بڑھتی ہوئی آمرانہ روش رکھنے والے صدر کے تحت متعدد آزاد متعدد میڈیا ادارے شدید دباؤ کا شکار ہیں (جن میں ملک کے دو بڑے تحقیقاتی ادارے اور جی آئی جے این کے ممبر کلوپ اور تیمیروف لائیو بھی شامل ہیں) اور نشریات بند کرنے کے لیے مجبور کیے گئے ہیں (جیسے بڑاڈکاسٹر اپریل ٹی وی)۔ بہت سے صحافیوں کو جیل بھیج دیا گیا ہے یا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ آزاد رہنے والے چند بہادر صحافی بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ شراکت کر کے اپنے ملک میں بدعنوانی اور غیر قانونی دولت کے بہاؤ کی تفتیش کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان میں سے ایک مشترکہ تفتیش "آل دی پریزیڈنٹز مین” نے دریافت کیا کہ کیسے موجودہ صدر نے اپنی حکومت کی طاقت کے اظہار
کے لیے ریاستی منصوبوں کی ایک بڑی سیریز کو شروع کر کے سرکاری اخراجات میں شفافیت کو نمایاں طور پر کم کیا۔ تیمیروف لائیو، کلوپ اور او سی سی آر پی نے ایک ہوائی اڈے، صدارتی رہائش گاہ اور ریلوے سمیت گیارہ بڑے سرکاری تعمیراتی منصوبوں کا جائزہ لیا اور پانچ ایسی کمپنیوں کی نشاندہی کی جنہیں ان منصوبوں کے ٹھیکے ملے تھے۔ وہ تمام پانچ کمپنیاں ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ان کے مالکان یا ڈائریکٹروں کے صدر یا حکومت کے اہم افسران میں سے ایک صدارتی انتظامی ڈائریکٹریٹ کے سربراہ سے روابط ہیں۔ ان میں سے صرف چھ منصوبوں کی تخمینہ لاگت عوامی فنڈز میں 137 ملین امریکی ڈالر سے زائد ہے۔
اگرچہ سرکاری خریداری کے سرکاری ڈیٹا تک رسائی اب ممکن نہیں رہی۔ صحافیوں نے دستیاب کارپوریٹ اور زمین کے ریکارڈز کا معائنہ کیا۔ انہوں نے کچھ کمپنی مالکان یا مینیجروں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کو بھی دیکھا جس سے انہیں ان کے اور انتظامی ڈائریکٹریٹ کے سربراہ کے درمیان بہت سے روابط کا پتا چلا۔ مزید یہ کہ صحافیوں نے اس ایجنسی کے اندرونی معاملات سے باخبر ایک اندر کے بھیدی کو ڈھونڈا۔ اس بھیدی نے انتقامی کارروائی کے خوف کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔ انہوں نے ان منصوبوں کے انتظامی عمل کے بارے میں اندرونی تفصیلات فراہم کیں۔ (نہ کرغزصدر اور نہ ہی ان کے ڈائریکٹریٹ کے سربراہ نے اس خبر پر کام کرنے والی رپورٹنگ ٹیم کے تفصیلی سوالات کا جواب دیا۔)
بولوت تیمیروف نے 2020 میں اپنے تحقیقاتی یوٹیوب چینل تیمیروف لائیو کی بنیاد رکھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایشیا کے صحافیوں کو بڑھتے ہوئے جبر اور کم ہوتی ہوئی شفافیت کے ماحول میں تخلیقی بننا ہوگا، خاص طور پر کرغزستان جیسے ممالک میں جہاں آزادی صحافت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ 2022 میں تیمیروف کی کرغز شہریت منسوخ کر دی گئی تھی اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ موجودہ حکومت کی جانب سے انہیں خاموش کرنے اور ان کی تحقیقی صحافت کا بدلہ لینے کی کوشش کا حصہ تھا۔
"ریاستی ملکیت والی کمپنیوں کے ذریعے ہونے والی سرکاری خریداری کا ایک بڑا حصہ چھپا دیا گیا ہے جبکہ تحقیقاتی صحافیوں پر وسیع پیمانے پر ظلم ہو رہا ہے،” تیمیروف وضاحت کرتے ہیں۔ "ایسے حالات میں معلومات بے نقاب کرنا اور ان کی تصدیق کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے خاص طور پر جب بہت سے صحافیوں کو جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا ہو۔ ایسے میں سورسز اور اندرونی خبریوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اسی طرح سوشل میڈیا تجزیے اور سرکاری ایجنسیوں کو براہِ راست درخواستیں بھی زیادہ ہو جاتی ہیں۔”
یہ او سی سی آر پی کی کرغز تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ پہلی شراکت داری نہیں ہے۔ 2019 میں او سی سی آر پی، کلوپ اور آر ایف ای/آر ایل کی کرغزسروس نے مل کر ایک ایسے کاروباری شخص کی دولت کے ماخذ کی تفتیش کی تھی جس کے کرغزستان اور بیرونِ ملک بے شمار اثاثے موجود تھے۔ اس انکشاف نے کرغزستان کی کسٹمز سروس میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا اور ملک بھر میں احتجاج اور غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔
بعد ازاں او سی سی آر پی، آر ایف ای/آر ایل کی ازبک سروس، کلوپ اور قازقستان کے ویلاسٹ نے مزید تحقیق کی کہ کیسے اس کاروباری شخص اور ان کے خاندان نے اپنا اثر و رسوخ اور سرمایہ کاری کرغزستان سے باہر پورے وسطی ایشیا تک پھیلائی ہے۔ اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے منصوبے "دی شیڈو انویسٹر” نے یہ دکھایا کہ کیسے ازبک اور کرغزحکام نے اس سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا جس نے تاشقند کے اسکائی لائن کو بدل دیا تھا اور بیشکیک کی شہری ترقی کو نئی سمت دی تھی۔
"او سی سی آر پی ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو کرغزصحافیوں کو بہترین وسائل اور تربیت فراہم کرتا ہے،“ تیمیروف کہتے ہیں۔ ”او سی سی آر پی کے ساتھ تحقیقات شائع کرنے سے ہمیں خطرات کو کم کرنے اور پیغام کو زیادہ پھیلانے کا موقع ملتا ہے اس یقین دہانی کے ساتھ کہ عالمی آڈئینس کرغزستان میں بدعنوانی کے بارے میں جان سکیں گے۔”
لیک شدہ خط و کتابت قازقستان میں بدعنوانی کو بے نقاب کرتی ہے
جو کام ابتدا میں آر ایف ای/آر ایل کی قازق سروس کی قازقستان کے شمال مغربی گاؤں بریزوفکا میں صحت اور ماحولیاتی حالات پر ایک رپورٹ کے طور پر شروع ہوا تھا، ایک بڑی تفتیش میں بدل گیا تھا جس نے آئی سی آئی جے اور 26 بین الاقوامی و علاقائی میڈیا ادارے کو اکٹھا کیا تھا۔ اس تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والے کاسپئین کیبلز منصوبے نے جائزہ لیا کہ کیسے اس 939 میل لمبی کاسپئین پائپ لائن جو قازقستان کے وسیع تیل کے ذخائر سے روس کے راستے بحیرہ اسود تک جاتی ہے،
نے ماحولیاتی تباہی اور مالی بدعنوانی کے الزامات کو جنم دیا ہے۔
دو سال کے عرصے میں اس بین الاقوامی رپورٹنگ ٹیم نے سینکڑوں ذرائع کا انٹرویو کیا جن میں تیل کی صنعت کے اندرونی افراد اور سابقہ انتظامی افسران شامل تھے۔ انہوں نے لیک شدہ اندرونی کارپوریٹ ریکارڈز، خفیہ ای میلز، معاہدوں، آڈٹس، زمین کے ریکارڈ، عدالتوں اور ریگولیٹری اداروں کی فائلوں کے بڑے ذخائر کا مطالعہ کیا۔ اس تحقیق نے انکشاف کیا کہ کیسے مغربی کمپنیوں نے جو اس پائپ لائن کی شریک مالک ہیں اور اسے تیل فراہم کرنے والے قازقستان کے تین تیل کے میدان چلاتی ہیں منافع کے لیے روسی اشرافیہ کے زیرِ اثر کاروباروں اور قازقستان کے سابق صدر کے ارب پتی داماد کی جزوی ملکیت میں موجود ایک کمپنی کے کروڑوں ڈالر کے ٹھیکے منظور کیے تھے۔
"بدعنوان حکام اور ان کے ساتھی قانونی میں موجود جھول اور پابندیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اثاثے چھپانے میں ماہر ہو گئے ہیں،” اس منصوبے پر کام کرنے والی آن لائن اشاعت ویلاسٹ کے ویچسلاف ابراموف کہتے ہیں۔ ابراموف نے 2012 میں ویلاسٹ کی شراکت میں بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے تب سے اسے قازقستان کا نمایاں تحقیقاتی پلیٹ فارم اور بین الاقوامی تحقیقاتی نیٹ ورکس کے لیے وسطی ایشیا میں ایک باقاعدہ شراکت دار بنا دیاہے۔
"قازقستان کی زمین رجسٹری ان پابندیوں کی نمایاں مثال ہے،“ ابراموف وضاحت کرتے ہیں۔ صحافی صرف اس وقت ملکیتی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جب زمین کسی قانونی ادارے کے نام پر رجسٹرڈ ہو لیکن نجی افراد کے ریکارڈ ’رازداری کے تحفظ‘ کی بنیاد پر دستیاب نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ پالیسی صحافیوں کو زمینوں کے بڑے رقبوں کی ملکیت کی شناخت کرنے اور ان ملکیتوں میں پیٹرن تلاش کرنے سے روکتی ہے۔”
قازقستان کے موجودہ صدر نے اپنے پیش رو اور سرپرست نورسلطان نظربایف کے آمرانہ نظام کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے جلد ہی آزادی صحافت اور معلومات تک رسائی کو محدود کرنا شروع کر دیا۔ حکومتی ریکارڈز مثلاً عہدیداروں کے اثاثوں کے گوشواروں کو چھپانا قازقستان میں تحقیقاتی کام کی راہ میں سنگین رکاوٹیں پیدا کرتا ہے اور لیک شدہ اندرونی دستاویزات تک رسائی اور ان کے تجزیے کو پہلے سے کہیں زیادہ اہم بنا دیتا ہے۔
ایسی ہی ایک لیک میں اس بار سوئس ریگولیٹری ادارے ایف آئی این ایم اے اور نجی بینک ریل انتیسا سان پاؤلو کے درمیان خط و کتابت نے ظاہر کیا کہ یہ بینک آمرانہ حکومتوں سے وابستہ مشتبہ گاہکوں کو راغب کر رہا تھا۔ ریل کے کلائنٹس کی فہرست میں قازقستان کے سابق صدر کی بیٹی اور ازبکستان کے طویل عرصے تک حکمران رہنے والے آمر کے داماد شامل ہیں۔ اس صدرنے اپنی دو دہائیوں پر محیط حکمرانی کے دوران اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بے پناہ دولت جمع کی۔ او سی سی آر پی کی قیادت میں اس تحقیق نے یہ واضح کیا کہ وسطی ایشیا کی حکومتوں سے وابستہ اشرافیہ کس طرح اپنے ممالک کے وسائل کو غیر ملکی بینکوں میں منتقل کرتی ہیں۔ ریل بینک نے اپنے حصے کے لیے او سی سی آر پی کی خبر کے لیے مخصوص کیسز پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تاہم یہ کہا کہ وہ "نگرانی کرنے والے حکام کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے اور تمام لاگو ہونے والے ضوابط پر عمل کو اپنی اولین ترجیح سمجھتا ہے۔”
"بین الاقوامی تحقیقاتی نیٹ ورکس کے ساتھ اشتراک قازقستان میں آزاد اور تحقیقاتی صحافت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔” آر ایف ای/آر ایل کی قازق سروس کے ایک صحافی ماناس کائرتایف کہتے ہیں۔ انہوں نے "کاسپئین کیبلز” پر کام کیا اور سی فار اے ڈی ایس کے ساتھ اشتراک کیا جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کا مقصد عالمی غیر قانونی نیٹ ورکس اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہے۔ انہوں نے غیر ملکی خبر رساں اداروں پر زور دیا کہ جب وہ قازقستان میں بین الاقوامی تحقیقات کریں تو آغاز ہی سے قازق صحافیوں کو اپنے ساتھ شامل کریں۔
"ابتدائی شمولیت ہمیں نئی تکنیکی مہارتوں تک زیادہ رسائی دیتی ہے، مشترکہ اشاعت اور خبروں کو عوام تک پہنچانے میں مدد دیتی ہے اور یہ یقینی بناتی ہے کہ یہ تحقیقات قازقستان کے اندر سے بھی نقطۂ نظر شامل کرتی ہوں،“ کائرتایف کہتے ہیں۔
بنگلہ دیشی ایلیٹس دبئی کے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں خریداری کر رہے ہیں
اگست 2024 میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والی ایک تحریک کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی طویل عرصے سے برسرِ اقتدار جماعت عوامی لیگ کے ہٹنے کے بعد نئے سیاسی ماحول نے ملک کے تحقیقاتی میڈیا اداروں کو یہ موقع دیا کہ وہ بااثر سرکاری شخصیات کے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سرکاری خزانے اور بینکاری نظام کو لوٹنے کی تحقیق کریں۔ دسمبر 2024 کی ایک وائٹ پیپر رپورٹ کے مطابق پچھلی حکومت کے دوران اوسطاً ہر سال 16 ارب امریکی ڈالر غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے باہر منتقل کیے گئے تھے۔ لوٹ مار کے طریقے وسطی ایشیا میں آمروں کے اپنائے گئے طریقوں سے مشابہ تھے — یعنی بڑے پیمانے پر ٹیکس میں چھوٹ، بڑھا چڑھا کر دیے گئے سرکاری ٹھیکے اور کمیشن اور مشکوک زمینوں کی خریداری جو حکومت سے وابستہ کمپنیوں اور افراد کو فائدہ پہنچا رہی تھیں۔
اس عوامی دولت کے بہاؤ کے سراغ نے نظام میں موجود ان خامیوں کو ظاہر کیا جنہیں آمرانہ حکومتیں اور بدعنوان اہلکار اپنے ملک کو لوٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈز اور C4ADS کے ڈیٹا سیٹس کا استعمال کر کے — اور او سی سی آر پی کی 2024 کی رپورٹ دبئی ان لاکڈ تحقیق — کی بنیاد پر بنگلہ دیش کے روزنامہ دی ڈیلی اسٹار نے انکشاف کیا کہ کم از کم 461 بنگلہ دیشی شہری دبئی میں 929 جائیدادوں کے مالک ہیں جن کی کل مالیت 400 ملین امریکی ڈالر سے زائد ہے۔ ان جائیدادوں کے مالکان میں بنگلہ دیش کے سابق وزیرِ اراضی، عوامی لیگ کے کئی اراکینِ پارلیمنٹ، اور ملک کے چند بڑے کاروباری شخصیات شامل تھیں۔ ان میں سے کئی افراد اس وقت کرپشن، مالی بدعنوانی، اپنی کمپنیوں میں خردبرد، اور بنگلہ دیش میں کروڑوں ڈالر کے غیر ادا شدہ قرضوں کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
الجزیرہ کی سابق وزیرِ اراضی پر مزید تحقیقات جنہوں نے حال ہی میں ایک ڈی آئی جی ایوارڈ جیتا ہے اور دی گارڈین نے انکشاف کیا کہ سابق وزیرِ اراضی — جن کی سرکاری تنخواہ سالانہ صرف 13 ہزار امریکی ڈالر تھی — نے برطانیہ میں 360 جائیدادیں بنائی تھیں جن کی مالیت 320 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ انہوں نے ان میں سے کسی بھی اثاثے کو بنگلہ دیش کے ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر نہیں کیا تھا۔ ان نتائج کو بنگلہ دیشی میڈیا نے وسیع پیمانے پر نشر کیا تھا جس نے حکومت کو برطانیہ پر سابق حکومت سے وابستہ اثاثے منجمد کرنے اور چوری شدہ عوامی رقم کو واپس لانے کے لیے دبائو ڈالنے میں مدد دی تھی۔ (سابق وزیرِ اراضی نے الجزیرہ کو بتایا کہ بیرونِ ملک جائیدادیں ان کے بیرونِ ملک موجود قانونی کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی سے خریدی گئی تھیں۔)
"بنگلہ دیشی صحافی بین الاقوامی تحقیقاتی برادری سے مزید مدد چاہتے ہیں اور اس کے ضرورت مند بھی ہیں،” بنگلہ دیش کے پروتھوم آلو کے ایک تحقیقاتی رپورٹر فخرالاسلام ہارون کہتے ہیں۔
ہارون کی بات ایشیا کے اندر اور باہر کے صحافیوں کے لیے اہم ہے۔ آل دا پریڈیڈنٹ مین، دا منسٹر ملینز اور دا کیسپئین کابالز جیسی تمام تحقیقات نے واضح کرتی ہیں کہ مالی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے لیے اشتراکی انداز میں کام کرنے سے بڑی اور بہتر خبریں جنم لیتی ہیں جو زیادہ اثر انگیز ثابت ہوتی ہیں اور عوامی احتساب کو بڑھاتی ہیں۔ آمر کی بہترین کوششوں کے باوجود جب تحقیقاتی صحافی مل کر کام کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ پیسے کے بہاؤ تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔
شیر خاشیموف تاجکستان سے تعلق رکھنے والے ایک فری لانس صحافی اور محقق ہیں۔ وہ مشرقی یورپ، وسطی ایشیا اور قفقاز میں صحافتی آزادی، ڈیجیٹل سیاست، روزگار کے لیے ہجرت اور علاقائی تنازعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ان کا کام الجزیرہ، فارن پالیسی، نیو لائنز میگزین، کوڈا سٹوری، میدوزا اور کئی دیگر پلیٹ فارمز پر شائع ہو چکا ہے۔