رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

Imagen: Shutterstock

رپورٹنگ

سائنس سے انکار کے دور میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی تحقیق کے لیے تجاویز

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

۲۰۲۱ میں جب سمندری طوفان آئیڈا نے امریکہ کے جنوبی ساحل کو تباہ کن انداز میں نشانہ بنایا  تو ایسوسی ایٹڈ پریس کے رپورٹر مائیکل بیسیکر نے کئی ماحولیاتی ریگولیٹرز سے طوفان کی وجہ سے اس علاقے میں پیٹرو کیمیکل تنصیبات سے تیل کے رِساؤ کے بارے میں معلومات طلب کیں۔ سب اداروں نے جواب دیا کہ انہیں کسی بھی رِساؤ کی خبر نہیں ہے۔

ماحولیاتی رپورٹر کے طور پر بیسیکر جانتے تھے کہ نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے تحقیقی طیارے طوفانوں کے قہر کے بعد متاثرہ علاقوں کے اوپر باقاعدگی سے پرواز کرتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے فوراً تیل کے پھیلاؤ کے ساتھ جڑی”قوسِ قزح کی چمک” تلاش کرنے کے لیے این او اے اے کی ویب سائٹ پر جاری کردہ تازہ ترین تصاویر دیکھنا شروع کیں۔ انہیں جلد ہی خلیج میکسیکو میں لوزیانا کے ساحل کے قریب دو بڑے رِساؤ مل گئے۔ انہوں نے ان کے اسکرین شاٹس قومی و مقامی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ متعلقہ ریفائنری کے مالک کو ای میل کے ذریعے بھیج کر فوراً خبردار کیا۔ پھر انہوں نے یہ خبر شائع کی کہ غوطہ خوروں نے ایک پھٹے ہوئے ۳۰ سینٹی میٹر قطر کے زیرِ سمندر پائپ کو ساحل سے دور تیل کی تہہ کے منبع کے طور پر شناخت کیا ہے۔

سنہ 2023 میں انہوں نے سیٹلائٹ تصاویر اور دیگر تحقیقی طریقوں کا استعمال کرکے صرف چار دنوں میں موسمیاتی تبدیلی سے جڑے مہلک ماؤئی جنگل کی آگ کے وہ اسباب دریافت کیے تھے  جنہیں ڈھونڈنے میں سرکاری ایجنسیوں کو ایک سال سے زائد کا عرصہ لگا تھا۔

بیسیکر کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں صحافیوں کے لیے یہ پہلے سے زیادہ اہم ہو چکا ہے کہ وہ اس طرح واقعات کی خود تحقیقات کریں۔ خاص طور پر اس دور میں جب عوامیت پسند حکومتیں اور اولیگارک کے زیرِ اثر شعبے موسمیات سے متعلق معلومات کے حصول، ذخیرہ اور ترسیل کو شعوری طور پر محدود کر رہے ہیں۔

اثرات کی زنجیر کے دوسرے سرے پر موجود دیگر ماحولیاتی صحافی مثلاً سینٹیئنٹ کی تحقیقاتی صحافی نینا الکادی کہتی ہیں کہ یہ بھی اہم ہے کہ متاثرین کے انٹرویو کرتے ہوئے مزید تخلیقی طریقے اختیار کیے جائیں۔ کیونکہ ان میں سے بہت گمراہ کن معلومات سے متاثر ہوتے ہیں یا اس موضوع پر بات کرنے میں غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں یا پھر ممکنہ نتائج سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ ان نتائج میں سوشل میڈیا پر ہراسانی سے لے کر ممکنہ جبری نقل مکانی تک شامل ہو سکتے ہیں۔

خلیج میکسیکو میں سمندری طوفان کے بعد ایک میل طویل تیل کے اخراج کا ثبوت جس کی ایسوسی ایٹڈ پریس نے این او او آے کی تصاویر سے شناخت کی اور سرکاری ایجنسیوں کو ای میل کی گئی۔ تصویر: اسکرین شاٹ، ایسوسی ایٹڈ پریس، این او او آے

موسمیاتی کہانیوں کے لیے ذرائع تیار کرنے کی تکنیکیں

یہ ان بے شمار آلات اور طریقوں میں سے تھے جن کا ذکر حال ہی میں امریکہ میں ہونے والی "انوسٹیگیٹو رپورٹرز اینڈ ایڈیٹرز” کانفرنس میں کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ماحولیاتی مسائل پر گہرائی میں بات کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اس موضوع پر کئی اہم سیشنز منعقد کیے گئے۔ "ماحولیاتی تبدیلی کی تحقیقات” پر ایک پینل میں بیسیکر کے ساتھ سی بی ایس نیوز اینڈ اسٹیشنز میں ماحولیاتی کوریج کی سینئر کوآرڈینیٹنگ پروڈیوسر ٹریسی وولف اور ایلیسن پرینگ بھی شریک تھیں جو ایک فری لانس صحافی ہیں اور ماحولیاتی مسائل پر کام کرتی ہیں۔ اور الکادی کے "قانونی دستاویزات کے ذریعے ماحولیاتی تحقیقات کی تشکیل” کے پینل میں سان فرانسسکو پبلک پریس میں ماحولیاتی صحت و مساوات کی رپورٹر آڈری می یی براؤن اور پورتو ریکو کے سینٹر فار انویسٹیگیٹو جرنلزم کے ایوارڈ یافتہ ماحولیاتی تحقیقاتی صحافی لوئس مینڈیز گونزالیز  نے شرکت کی تھی۔

دونوں پینلز نے کہا کہ عدالتی مقدمات  اور کیس دائر کرنے والوں کے وکلا موسم سے متعلقہ کہانیوں کا ایک قیمتی مگر کم استعمال ہونے والا ذریعہ ہیں اور یہ کہ شواہد اور فٹ نوٹس اکثر موسمیاتی نقصان کے واقعات پر کافی تفصیل فراہم کرتے ہیں۔

لیکن براؤن نے ایک عام مسئلہ بیان کیا جس کا رپورٹرز کو متاثرین سے بات کرتے وقت سامنا ہوتا ہے: "ہم اکثر ایسے لوگوں کا انٹرویو کر رہے ہوتے ہیں جو یہ نہیں سمجھتے کہ وہ کسی ماحولیاتی خبر کا مرکز ہیں۔”

نتیجتاً کئی مقررین نے نقصان پہچاننے اور واقعے پر ردِ عمل میں فرق کو پہچاننے کے لیے ایک حیران کن تکنیک تجویز کی: غیر رسمی بات چیت حتیٰ کہ گوسپ۔

"سماجی دنیا میں گوسپ کا منفی مطلب ہو سکتا ہے لیکن ماحولیاتی تحقیقات کی دنیا میں میرے خیال میں یہ سب سے اہم ٹولز میں سے ایک ہے،“ انہوں نے کہا۔ اپنے ذرائع کے ساتھ اس بارے میں غیر رسمی بات کرنا کہ ان کے چھوٹے شہر میں کیا ہو رہا ہے، کیا ان کے شہر کے کونسلر کا آلودگی پھیلانے والی جگہ سے کچھ لینا دینا ہے، آپ کو سننے کو مل سکتا ہے کہ شاید یہ یا وہ ہو رہا ہے۔ اکثر میرے لیے کہانی کی شروعات یہاں سے ہوتی ہے۔ اس سے مجھے انٹرویو سے پہلے یا بعد میں آزاد مکالمہ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔“

مثال کے طور پر رہائشیوں یا مزدور یونین کے ارکان سےگوسپ کرنا ایسی دریافت کی طرف اشادہ کر سکتے ہیں کہ ایک شہر میں محروم یا پسماندہ میونیٹیز میں زہریلے مادوں کی صفائی میں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔

الکادی نے کہا کہ بعض اوقات مشورہ دیا جاتا ہے کہ مشکوک یا غیر ماہر ذرائع کے انٹرویوز کرتے ہوئے "موسمیاتی تبدیلی” کا ذکر نہ کریں۔

"کسان موسم کے بارے میں ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ ان کے کام کا بنیادی حصہ ہے۔ اور میں نے یہ سیکھا ہے کہ ان کے حالات جاننے کے لیے ان سے محض موسم کے بارے میں بات کرنا کافی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے،” الکادی نے کہا۔ ”بہت سی جگہ یہ کہنا کہ ’اوہ، یہ تو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے نا؟‘ میرے معاملے میں بات چیت کو پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔ سورسز جو کہتے ہیں اور اس گفتگو کا سیاق و سباق رپورٹنگ میں خود کہانی بتائے گا۔ بہتر یہ ہے کہ اسے یوں فریم کیا جائے: ’کیا پچھلے برسوں میں یہ مسئلہ مزید بگڑا ہے؟‘”

بیسیکر سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ہمارے دور کا سب سے بڑا موضوع ہے اور نیوز رومز کو ہر موضوع کی خبر کو موسم کی خبر کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

"یہ احتساب کا معاملہ ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے ایک تحقیقاتی ذہن بنایا جائے۔ موسمیاتی مسئلہ پورے نیوز روم سے منسلک ہے۔ اگر آپ اسکول بورڈ کی کوریج کر رہے ہیں تو کیا وہ زیادہ گرم گرمیوں سے نمٹنے کے لیے نئے ایچ وی اے سی سسٹم لگانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں؟ اگر آپ سٹی ہال کو کور کر رہے ہیں اور وہ نئی سڑکیں بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو کیا وہ بات کر رہے ہیں کہ یہ سڑکیں پرانی سڑکوں سے زیادہ اونچی بنائی جائیں گی تاکہ بڑھتے ہوئے سیلاب کے خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے؟”

بیسیکر نے موسمیاتی واقعات کی تحقیقات کو مؤثر بنانے کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کیں:

ماہرین اور سرکاری حکام تک رسائی حاصل کریں۔ اگر آپ کے پاس پہلے سے لنکڈ اِن کا پریمیم اکاؤنٹ نہیں ہے تو ماہرین اور حاضر سروس اور سابقہ حکام کو ڈھونڈںے کے لیے ایک سادہ آن لائن فارم پُر کرکے مفت اور پیغامات کی سہولت کے ساتھ صحافیوں کے لیے لنکڈ اِن اکائونٹ کی درخواست جمع کروائیں۔ فری لانس صحافی بھی فارم میں اپنے کام کے نمونے شامل کر کے درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔ "لنکڈ سورس تک پہنچنے کے لیے آپ کا بہترین دوست ہے،“ انہوں نے کہا۔ "صحافیوں کے لیے لنکڈاِن کا مفت پریمیم اکائونٹ آپ کو اس شعبے کے درست افراد کو ڈھونڈنے اور انہیں پیغام بھیجنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔”

موسمیاتی تبدیلی کے بنیادی سائنسی اصول اور اس بارے میں موجودہ علم سیکھیں۔ بیسیکر ایم آئی ٹی کے ماہرِ ماحولیاتی سائنسدان کیری ایمینوئل کی کتاب "ہم موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں کیا جانتے ہیں” پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ بنیادی سائنسی معلومات پڑھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ رپورٹرز کو کارپوریشنز کی طرف سے اخراج اور رساؤ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی خطرات کے متعلق تعلقاتِ عامہ کے بیانیوں کے لیے تیار ہونے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بیسیکر نے  کوئلے کی راکھ کے گڑھوں سے آرسینک آلودگی پر اپنی تحقیق کا حوالہ دیا کہ توانائی کمپنی کے ترجمان نے دعویٰ کیا تھا: ’بچوں کے جوس کے باکس میں ان کنوؤں سے زیادہ آرسینک موجود ہے۔‘ یہ بات بالکل سچ ہے اگر آپ کو نامیاتی اور غیر نامیاتی آرسینک کے درمیان فرق معلوم نہ ہو،” بیسیکر نے وضاحت کی۔ ”اس موضوع پر بے پناہ گمراہ کن معلومات موجود ہیں۔ اس لیے ذرائع کا انتخاب کرتے وقت محتاط رہیں۔“

کاربن میپر میتھین ٹول سے آسان خبریں تلاش کریں۔ اگرچہ میتھین کا اخراج انسانی آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ یہ شاندار ڈیٹا پورٹل ایسے بڑے گرین ہاؤس اخراجات کی شناخت کرتا ہے، ناپتا ہے اور نقشے پر دکھاتا ہے جو دوسری صورت میں نظر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ محققین اور صحافیوں کے استعمال کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اسے ایک غیر منافع بخش گروہ چلاتا ہے۔ یہ تحقیقی جہازوں، خلائی سیٹلائٹس اور حتیٰ کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے حاصل کردہ سینسنگ ڈیٹا کی بنیاد پر بڑے میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراجات دکھاتا ہے۔ بیسیکر کہتے ہیں کہ کم شدت کی موسمیاتی کہانیوں کے لیے ان کی ٹیم کبھی کبھار اس پورٹل پر دکھائی جانے والی پوشیدہ دھویں کی لکیر کے کوآرڈینیٹس پر کسی مقام پر جاتی ہیں تاکہ دیکھ سکیں کہ نیچے کیا ہو رہا ہے اور اس مقام کی ملکیت معلوم کر سکیں۔ وہ ان معلومات کو کارپوریشنز کے زیرو اخراج کے دعوے چیک کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ "اس کا استعمال کرکے ہم نے دریافت کیا کہ کمپنیاں اپنے اخراجات کو بہت کم رپورٹ کر رہی تھیں،“ انہوں نے کہا۔ ”یہ منصوبہ ناسا کے ایک پروگرام کے طور پر شروع ہوا تھا اور اب یہ ایک نجی طور پر فنڈ شدہ غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ ان کے پاس سیٹلائٹس ہیں جو زمین کا چکر لگاتے ہیں اور میتھین کے اخراج دیکھتے ہیں۔ میتھین زمین کو گرم کرنے میں کاربن سے تقریباً 80 گنا زیادہ طاقتور ہے۔ کاربن میپر آپ کو دکھاتا ہے کہ کہاں اس پوشیدہ گیس کے بڑے دھوئیں فضا میں جا رہے ہیں۔” یہ دیگر ڈیٹا ٹولز  جیسے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کا انٹرنیشنل میتھین ایمیشنز آبزرویٹری کے ساتھ ملا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کمپنی کے "کاربن نیوٹرل” ہونے کے دعوے چیک کرنے کے لیے مفت آفف سیٹس ڈی بی ٹول استعمال کریں جو دنیا بھر میں کاربن آف سیٹ کریڈٹس اور منصوبوں کا ڈیٹا جمع کرتا ہے۔ جی آئی جے این کی میتھین کی تحقیق کے ساتھ ساتھ لینڈفل میتھین اخراجات پر بھی رپورٹنگ گائیڈز موجود ہیں۔

کاربن میپر کا ڈیٹا پورٹل صفحہ دنیا بھر میں 25,000 بڑے میتھین پلمز دکھاتا ہے۔ تصویر: اسکرین شاٹ، کاربن میپر

ایف او آئی اے کے ذریعے ایف او آئی ایز دیکھیں۔ "بہت سی سرکاری ایجنسیوں کا ایک ایف او آئی اے ویب پیج ہے جہاں آپ پہلے سے درج شدہ درخواستیں دیکھ سکتے ہیں۔ اگر موسم کے شعبے میں دیگر لوگ بھی موجود ہیں جو اس شعبے کی رپورٹنگ پر حاوی ہیں اور آپ ان کے مقابلے میں نئے ہیں تو دیکھیں وہ کیا سوالات پوچھ رہے ہیں۔“

ہمیشہ ماحولیاتی تبدیلی کے “بڑے حقائق” مختصر طور پر شامل کریں۔ اس معاملے پر وسیع پیمانے پر غلط معلومات موجود ہونے کی وجہ سے  بیسیکر مشورہ دیتے ہیں کہ رپورٹرز کو لازمی طور پر اپنی خبروں میں بنیادی اعدادوشمار شامل کرنے چاہیے، چاہے اس خبر میں وہ موسمی مسئلہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر ایسے اعداد و شمار جو دکھاتے ہیں کہ پچھلی دہائی میں ہر سال پچھلے سال سے زیادہ گرم رہا ہے۔ "میں ہمیشہ یہ زور دیتا ہوں کہ آپ کو یہ اعداد و شمار تقریباً ہر خبر میں ڈالنے چاہیے جو موسم کے حوالے سے ہو تاکہ عوام کو یہ احساس ہو کہ درجہ حرارت میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے۔”

نگرانوں پر نظر رکھیں۔ "ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں جب ریگولیٹر اکثر اپنا کام نہیں کر رہے،” بیسیکر نے خبردار کیا۔ "وہ اکثر صنعت اور آلودگی پھیلانے والوں کے ساتھ دوستانہ رویہ ہوتا ہے۔ پوچھیں: ’کیا وہ مخصوص صنعتوں یا کمپنیوں کو فائدہ دے رہے ہیں؟‘ لابنگ ریکارڈز دیکھیں، دیکھیں کون کس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔” "ریگولیٹری کیپچر” کے حوالے سے خطرے کےلال نشانوں کو دیکھیں۔ یہ ایسی صورتحال ہیں جب صنعتیں کسی ریگولیٹری ادارے پر اچھی طرح قابو پا لیتی ہیں۔ "اگر آپ ایسے علاقے میں ہیں جہاں گورنر نے ایک بجلی کی کمپنی کے سابق سربراہ کو آپ کی ماحولیاتی ایجنسی کا سربراہ متعین کیا ہے تو یہ ایک خطرے کی نشانی ہے۔ تعینات ہونے والے ریگولیٹرز کی پروفائلز دیکھیں۔ مفادات کے ٹکراؤ تلاش کریں۔”

ماحولیاتی رپورٹرز اور محققین کی بنائی ہوئی مقامی ڈیٹا بیس دیکھیں اور ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ ماحولیاتی رپورٹرز اکثر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی اپنا ڈیٹا اوپن سورس کر کے مدد کرتے ہیں۔ اس کی مثال کے لیے پینل نے رینیوایبل ریجیکشن ڈیٹا بیس کی طرف اشارہ کیا جو ماحولیاتی مصنف رابرٹ بائس نے مرتب کی ہے۔ یہ ڈیٹا بیس 2015 سے شمالی امریکا میں ہوا اور شمسی منصوبوں کی پابندیوں اور مسترد کیے جانے کی تفصیل دکھاتی ہے۔

"پنسل چیک” کریں۔ "میں ہمیشہ اشاعت سے پہلے ہر چیز کو پرنٹ کرکے اس میں موجود ہر دعوے کو ایک بار دیکھنا پسند کرتا ہوں،” بیسیکر نے کہا۔ "اگر آپ ایک خبر میں ایک چھوٹی سی غلطی بھی کرتے ہیں تو میرا یقین کریں دشمن کمپنیاں اور ایجنسیاں اسے بہت بڑا بنا کر آپ کے خلاف استعمال کریں گی۔ اپنے آپ کو ممکنہ ردعمل سے بچائیں: آپ آلودگی پھیلانے والے ایسے اداروں کے خلاف جائیں گے جن کے پاس بہت زیادہ فنڈنگ موجود ہے اور آلودگی منافع بخش ہے۔”

آن لائن سورسز کو انسانی آوازوں میں ڈھالیں۔ "ڈیٹا آپ کو لوگوں کو ڈھونڈنے میں مدد دے گا اور لوگ ہی ہیں جو خبروں کو بناتے ہیں،” بیسیکر نے مزید کہا۔ "لوگ دوسروں لوگوں کے بارے میں خبریں پڑھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ کسی ماحولیاتی مسئلے کے بارے میں خبر نہ پڑھیں لیکن وہ کسی کے اس مسئلے سے نبٹنے کے حوالے خبر ضرور پڑھیں گے۔ خاص طور پر اگر آپ دکھا سکیں کہ قاری بھی مستقبل میں اسی طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ الفاظ کے ذریعے اس مسئلے کی تصویر کشی کریں تاکہ آپ کا قاری وہ دیکھ سکے جو آپ زمینی سطح پر دیکھ رہے ہیں۔”

ماحولیاتی شکوک سے آگے سورس کی ہچکچاہٹ

گونزالیز نے حاضرین کو بتایا کہ ماحولیاتی شکوک کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ لوگ اس بارے میں بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

"پورتو ریکو کے جنوب مشرق میں دیہی انفراسٹرکچر کے مسائل اور ماحولیاتی تبدیلی کے تعلق پر رپورٹنگ کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ اس مسئلے کے بارے میں لوگوں سے بات کرنا بہت مشکل تھا،“ انہوں نے کہا۔ "انہیں ڈر تھا کہ سمندر کی سطح بلند ہونے اور ساحلی کٹاؤ کے بارے میں بات کرنے سے انہیں انہیں اپنے گھر چھوڑنے پڑیں گے کیونکہ حکومت اور ماہرین جس مستقل حل کی بات کر رہے تھے وہ دوسری جگہوں پر منتقل ہونا تھا۔ اس لیے آپ کو ان برادریوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے حساس رہنے کی ضرورت  ہوتی ہے۔”

حتیٰ کہ عوامیت پسند حکومتوں والے ممالک میں سرکاری اہلکاروں سے بات کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ براؤن نے کہا کہ انہیں ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ریگولیٹرز سے سوالات مختلف انداز میں دہرانے پڑے تھے اور اس کی وجوہات حکومت کے انسانی عمل سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی پر شکوک سے کہیں آگے تھیں۔

"ای پی اے کے اہلکاروں نے مجھے بتایا کہ وہ ڈی ای آئی (ڈائیورسٹی، ایکویٹی اور انکلیوسیویٹی یعنی تنوع، مساوات اور شمولیت) یا ناانصافیوں سے متعلق کسی چیز پر بات نہیں کر سکتے  اور میں مساوات پر رپورٹنگ کرتا ہوں!“ انہوں نے مزید کہا۔ ”ان انٹرویوز کو کرنے کے لیے میں اب بھی وہی مواد پوچھ رہا ہوں لیکن میں اپنے سوال پوچھنے کے طریقے کو تبدیل کر رہا ہوں۔”

وولف نے نشاندہی کی کہ اکثر یہ ضروری ہوتا ہے کہ ماحولیاتی کہانیوں کو مقبول موضوعات جیسے کھیل، تفریح یا ثقافتی تقریبات کے ساتھ ملا کر پیش کیا جائے تاکہ اس مسئلے  کی طرف موسمیاتی مسائل میں عدم دلچسپی رکھنے والی آڈئینس کے سامنے نمایاں کیا جا سکے اور مدیروں اور خصوصاً ٹی وی نیوز پروڈیوسرز کو متاثر کیا جا سکے تاکہ وہ نمایاں تحقیقات کو نشر کریں۔ مثال کے طور پر گرین واشنگ کے متعلق ایک خبر میں ان کی ٹیم نے ڈیٹا نکالا جس میں دکھایا گیا کہ امریکہ میں کالج اسپورٹس اور انتہائی مقبول تقریبات جیسے مارچ میڈنس باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں فوسل فیولز کے اشتہارات کی شرح غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے۔

"یا آپ کرسمس کے درختوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ کرسمس کے درختوں کے حوالے سے بھی بہت سے ماحولیاتی مسائل ہیں اور یہ صبح کے ٹیلی وژن پر بھی نشر ہو سکتے ہیں۔ میں آپ کو اس کا یقین دلاتی ہوں،“ وولف نے کہا۔ "ایسی مؤثر کہانیوں کے سراغ تلاش کرنے سے نہ گھبرائیں۔”


روان فلپ جی آئی جے این کے عالمی رپورٹر اور امپیکٹ ایڈیٹر ہیں۔ وہ جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز کے سابق چیف رپورٹر رہ چکے ہیں۔ وہ دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک سے خبروں، سیاست، بدعنوانی اور تنازعات پر رپورٹنگ کر چکے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ، امریکہ اور افریقہ میں نیوز رومز کے لیے اسائنمنٹ ایڈیٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دی ہیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

The Pudding Climate Zone

دا پڈنگ نے کیسے موسمیاتی تبدیلی کی کہانی کو نئے سیاق و سباق میں پیش کرنے کے لیے ڈیٹا ویژولائزیشنز کا استعمال کیا؟

موسمیاتی تبدیلی کو ہم کیسے محسوس کریں گے؟ اب سے 50 سال بعد آپ کے شہر کی آب و ہوا کیسے بدلے گی؟ ڈیٹا سائنسدان ڈیرک ٹیلر اپنے تازہ ترین ٹکڑے کی وضاحت کرتے ہیں۔