

A farmer applies pesticide to a cucumber crop near a residential area in Ogun, Nigeria. Image: Shutterstock
سنہ 2021 میں نائجیریا کی ایک فری لانس تحقیقاتی صحافی جینیفر اوگوا کو چار افریقی ممالک — نائجیریا، گھانا، کیمرون اور کینیا — میں پرانے برقی آلات کے غیر قانونی کچرے میں پھینکے جانے پر تحقیق کرتے ہوئے ایک اور خبر کا سراغ ملا۔
اس تحقیق کے دوران اوگوا اور ان کی ٹیم کو پتہ چلا کہ نائجیریا میں ایسے کیڑے مار ادویات کی درآمد میں اضافہ ہو رہا تھا جو یورپ میں ممنوعہ تھے۔ انہوں نے اس کی مزید تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں نائجیریا میں ایسے کیڑے مار ادویات کی فروخت اور تلفی پر ایک تفصیلی تحقیق سامنے آئی جو یورپی یونین میں پابندی کا شکار ہیں۔ یہ تحقیق جنوری 2025 میں شائع ہوئی تھی۔
ان میں سے کچھ کیڑے مار ادویات کینسر، بچوں کی نشوونما کے مسائل یا آلودگی سے جڑے ہونے کی وجہ سے یورپی یونین میں ممنوع ہیں۔ لیکن اوگوا کہتی ہیں "ہمیں پتہ چلا کہ جو کیمائی مادے یورپی کھیتوں میں استعمال کے لیے ممنوع ہو چکے تھے وہ اب بھی نائجیریا کی منڈیوں میں دستیاب تھے۔”
یہ تحقیق ارتھ جرنلزم رپورٹنگ پروجیکٹ کے تحت جرنلزم فنڈ یورپ کی مالی معاونت سے کی گئی جس کی گرانٹ عموماً سرحد پار صحافیوں کی ٹیموں کو یورپ سے متعلق ماحولیاتی امور پر تحقیقات کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔
یہ رپورٹنگ ایک سال کے عرصے تک محیط رہی۔ اوگوا نے وضاحت کی کہ اعداد و شمار اکٹھے کرنے اور ان کی تصدیق کرنے، نائجیریا کو کیڑے مار ادویات برآمد کرنے والی کمپنیوں سے تبصرے لینے اور بحری بندرگاہوں اور نائجیریا کے دارالحکومت نائیجر اسٹیٹ اور لاگوس کی منڈیوں میں جہاں کیڑے مار ادویات آتی ہیں رپورٹ کرنے میں وقت لگا۔
یہ تحقیق جو کئی حصوں پر مشتمل سلسلہ ہے تین ممالک — نائجیریا، گھانا اور کینیا — میں اس مسئلے کا احاطہ کرتی ہے۔ گیڈین سارپونگ کا تحریر شدہ گھانا پر مرکوز مضمون بتاتا ہے کہ کیسے یورپی یونین میں ممنوع کیڑے مار ادویات یورپی ترقیاتی بینکوں کی امداد سے گھانا کے ربڑ فارموں تک پہنچتی ہیں۔ کینیا پر مبنی مضمون جلد شائع ہوگا۔
تین ممالک سے چار صحافیوں نے گرانٹ کے لیے ایک ہی موضوع پر مشترکہ تجویز جمع کرائی تھی۔ اوگوا نے بتایا کہ ہر مضمون ٹیم کے ہر صحافی نے آزادانہ طور پر تیار کیا ہے۔
سارپونگ کے الفاظ میں یہ سلسلہ افریقہ میں کیڑے مار ادویات کے استعمال اور درآمد کے انتظام میں "ماحولیاتی ناانصافی” کو بے نقاب کرتا ہے۔ قانون سازی کی کمزوریوں نے اسے ممکن بنایا ہے اور یہ طویل مدتی صحت اور ماحولیاتی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ وہ افریقی ممالک میں سخت قوانین کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اوگوا اس مسئلے کی انسانی قیمت کو اجاگر کرنا چاہتی تھیں: "کہانی بیان کرنے کے طریقے کے لحاظ سے یہ ایک تحقیقاتی مضمون ہے جو اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے انسانی بیانیے کے زاویے کو استعمال کرتا ہے۔”
"دوہرا معیار دکھانے کے لیے اس عمل سے ہونے والے حقیقی نقصان کو دکھانا ضروری تھا۔ میں نے بصری اثر کے لیے گرافکس اور درآمدی سطح کے اعداد و شمار اور ان کے بہاؤ کو دکھانے کے لیے نقشہ سازی سمیت دیگر ڈیٹا ٹولز کا استعمال کیا۔”
اثر کو بے نقاب کرنا
اوگوا نے کہا کہ وہ یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ ان میں سے کتنے کیمیائی مادے ملک میں درآمد ہو رہے تھے اور ان کا کسانوں اور ان کے خاندانوں پر کیا اثر پڑ رہا تھا۔
ان کی تحقیق نے ان مقالوں کا حوالہ دیا جو دکھاتے ہیں کہ آلودہ عناصر مثلاً کیڑے مار ادویات سے رابطہ زرعی مزدوروں میں کینسر اور ٹھوس رسولیوں کے بڑھتے ہوئے امکانات پیدا کر سکتا ہے۔ ان کے ذرائع میں نائجیریا کے صنعتی کیمیا دان، سائنس دان، محققین، صحت کے حکام اور وہ کسان شامل تھے جو ان زہریلے مادوں کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہتے ہیں۔
"میرے پاس اس وقت ایک اور پروجیکٹ تھا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ میں بس ایک ڈیٹا اسٹوری کروں گی جس میں دکھا سکوں کہ کون زیادہ پیسہ کما رہا ہے اور کون فروخت کے مارجن کو کنٹرول کر رہا ہے۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ مقدار تو بس کہانی کا ایک حصہ تھی،” انہوں نے کہا۔
نیشنل فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کنٹرول (این اے ایف ڈی اے سی) ایک سرکاری ادارہ ہے۔ اس کا کام یہ یقینی بنانا ہے کہ کیڑے مار ادویات جیسی درآمدات کی ہر شے معلومات کے مطلوبہ معیار جس میں پروڈکٹ نمبر، نام اور اصل ملک شامل ہیں، کے ساتھ آئیں۔ اس ادارے کی ویب سائٹ سے ڈیٹا نکالنے کے بعد اوگوا کو پتا چلا کہ کسانوں اور تاجروں کے زیرِ استعمال اسٹوروں میں عام دستیاب بہت سی اشیاء بہت پہلے ان ممالک میں ممنوع قرار دی جا چکی تھیں جہاں وہ تیار کی گئی تھیں۔
"میں نے نائجیریا کی منڈیوں اور کھیتوں میں پائی جانے والی کئی کیڑے مار ادویات کے ماخذ یورپی صنعت کار پائے۔ ان میں سے بہت سے کیمیکلز جیسے اٹرازین اور پیرا کوئٹ، یورپی یونین میں کینسر، بچوں میں نشوونما کے مسائل اور ماحولیاتی نقصان سے تعلق کی وجہ سے غیر قانونی ہو چکے ہیں،” انہوں نے کہا۔ ”لیکن انہیں اب بھی قانونی طور پر تیار کیا جاتا ہے اور برآمد کیا جاتا ہے۔ بس یہ یورپ میں استعمال کے لیے نہیں ہوتے۔“
اوگوا کے مطابق یہ ظاہر کرتا ہے کہ کمپنیاں مکمل طور پر خطرات سے آگاہ ہیں لیکن ان کیمیکلز کو وہاں بھیج کر منافع کما رہی ہیں جہاں قوانین کمزور ہیں اور نگرانی نہ ہونے کے برابر ہے یا بالکل موجود نہیں ہیں۔
"اگرچہ یورپی یونین میں ممنوعہ کیڑے مار ادویات میں سے چند ہی یورپی یونین سے درآمد ہوتی ہیں اور [یورپی کمیشن کی] کیمیکلز اسٹریٹیجی ایسی درآمدات کو روکتی ہے لیکن کمپنیاں تیسرے ممالک میں ان مصنوعات کو تیار کرنے اور وہاں سے انہیں برآمد کرتی ہیں،” انہوں نے اپنی تحقیقات میں کہا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ یورپی یونین کے موجودہ قوانین نقصان دہ کیڑے مار ادویات کے کچرے میں پھینکنے یا تیسرے ممالک سے ان کی برآمدات کو روکنے کے قابل نہیں ہیں۔ یورپی یونین کا ایک نیا کارپوریٹ پائیداری کا ہدایت نامہ کمپنیوں کو انسانی حقوق کی پامالی یا ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے جوابدہ ٹھہرا سکتا ہے لیکن یہ "یورپی یونین میں ممنوعہ تمام کیڑے مار ادویات کی برآمد کو خودکار طور پر ممنوع نہیں ٹھہراتا۔” یورپی سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل اینڈ ہیومن رائٹس میں قانونی مشیر بین وین پیپر اسٹریٹ نے اوگوا کو بتایا۔
"میں نے ایک ایسا نظام بے نقاب کیا جو صنعت کاروں کو اپنے ہاتھ صاف رکھنے کی اجازت دیتا ہے جبکہ وہ خاموشی سے ان مصنوعات کو نائجیریا بھیجتے رہیں کیونکہ ان میں سے کچھ مصنوعات دیگر افریقی ممالک سے درآمد ہو رہی تھیں لیکن انہیں یورپی یونین کے صنعت کاروں کی ذیلی کمپنیوں نے تیار کیا تھا،” اوگوا نے مزید کہا۔
اوگوا نے اپنی تحقیق میں لکھا کہ این ایف ڈی اے سی اور چھ بڑی زرعی کیمیائی کمپنیوں کی نمائندگی کرنے والے ایک لابی گروپ سے انہیں اس صورتحال پر تبصرے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں ملا اور یورپی کمیشن نے "اس مؤقف پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ کمپنیاں اپنی مصنوعات تیسرے ممالک میں تیار کر کے برآمدات کے ذریعے یورپی یونین کی پابندیوں کو نظرانداز کر رہی ہیں،” اوگوا نے اپنی تحقیق میں لکھا۔ زرعی ٹیکنالوجی کمپنی سنگینٹا کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ کمپنی اب لاگوس کی ایک کیمیکل مارکیٹ میں ملنے والی مصنوعات فروخت یا تقسیم نہیں کر رہی تھیں اور وہ مصنوعات جعلی بھی ہو سکتی ہیں۔ بائر کے ترجمان نے اوگوا کو ای میل میں جواب دیا کہ ان کی کمپنی نے 2021 میں نائجیریا میں ٹاپ اسٹار کی فروخت بند کر دی تھی جس میں یورپی یونین میں ممنوعہ اجزاء شامل ہیں۔
جب اوگوا نے کسانوں اور مقامی کیڑے مار دوا بیچنے والوں سے بات کی تو انہیں پتا چلا کہ زیادہ تر کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ یہ مصنوعات کتنی خطرناک ہو سکتی ہیں اور وہ انہیں پکڑتے ہوئے حفاظتی دستانے بھی شاز و نادر ہی پہنتے ہیں۔
"ان میں سے زیادہ تر لوگ استعمال کے بعد خشک کھانے کی چیزیں انہی کیڑے مار ادویات کے ڈبوں میں رکھتے ہیں،“ انہوں نے کہا۔ میں نے رپورٹ پر کام کرنے کے کئی مہینوں بعد درآمدی نگرانی کے بارے میں کچھ سوالوں کے حوالے سے این اے ایف ڈی اے سی سے رابطہ کیا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ ایک سال بعد ان کی ویب سائٹ سے تمام کیڑے مار ادویات کا ڈیٹا ہٹا دیا گیا تھا۔”
"فی الحال ڈیٹا کی بنیاد پر ہمیں نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں ابھی بھی کیا دستیاب ہے، کون سی شے فہرست سے نکالی جا چکی ہے یا پھر کون سا نیا نقصان دہ کیمیائی مادہ متعارف کرایا گیا ہے کیونکہ ادارے نے سارا ڈیٹا ہٹانے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے سوالات پر مشتمل متعدد ای میلز کے باوجود کوئی وضاحت نہیں دی،” اوگوا نے وضاحت کی۔
نائجیریا ان مصنوعات کو 2026 اور 2027 کے درمیان مرحلہ وار ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم اوگوا کا کہنا ہے کہ موجودہ رجحانات ایک لابی کے ایجنڈے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔
"یہ مضمون بدعنوانی، کمزور قوانین اور عوامی صحت پر منافع کو ترجیح دینے کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اس سب کے بیچ میں لوگ ہیں۔ کسان، بچےاور خاندان جو انجانے میں اس کی قیمت ادا کرتے ہیں،” انہوں نے کہا۔ اپنی تحقیق میں اوگوا نے 2020 کے ایک واقعے کا حوالہ دیا جس میں 270 سے زائد افراد جن میں زیادہ تر کسان اور شمالی وسطی علاقے کی ایک کمیونٹی کے مقامی لوگ شامل تھے، کیڑے مار زہر سے ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ 2022 کی ایک تحقیق نے دکھایا کہ کسانوں کے زیرِ استعمال سب سے زیادہ عام 80 فیصد کیڑے مار ادویات خطرناک تھیں۔ ان کے استعمال سے خواتین کسانوں میں سانس، آنکھوں کے مسائل، چکر آنا، قے اور جلد پر خارش کی علامات ظاہر ہو رہی تھیں۔
"یہ صرف غیر ملکی کیمیکلز کی تفتیش نہیں تھی۔ یہ ایک ایسے نظام کی جھلک دکھا رہی تھی جو اب بھی ان لوگوں کو مایوس کر رہا ہے جن کی حفاظت کا ذمہ اس کے سر ہے۔”
مشکلات اور اسباق
اوگوا نے وضاحت کی کہ اس تحقیق میں سب سے بڑا مسئلہ ڈیٹا حاصل کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ اسکریپنگ اور ڈیٹا میں ماہر نہیں ہیں لیکن انہوں نے ایک آزاد ڈیٹا ماہر کے ساتھ کام کیا جو جانتا تھا کہ اس خبر کے لیے بامعنی وسائل فراہم کرنے میں کس طرح مدد کی جا سکتی ہے۔
"جب انہوں [این اے ایف ڈی اے سی] نے ویب سائٹ سے تمام کیڑے مار زہروں کی معلومات حذف کیں تو اس چیز نے مجھے ڈرا دیا تھا لیکن شکر ہے کہ اصل معلومات محفوظ تھیں اور ان کا بیک اپ بھی موجود تھا،” انہوں نے وضاحت کی۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق میں شناخت کیے گئے فریقین سے جواب حاصل کرنے میں مہینوں لگ گئے تھے لیکن بار بار یاد دہانیاں اور مستقل مزاجی سب سے مؤثر حکمت عملی ثابت ہوئیں۔
"میں پہلے ہی نائجیریا کی سب سے بڑی شوگر مل پر ایک مضمون پر کام کر رہی تھی۔ اس لیے مجھے اس وقت ممنوعہ کیڑے مار ادویات کے بارے میں تھوڑا سا علم تھا۔ اس نے بھی مجھے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ کن مصنوعات کی زیادہ مانگ تھی۔”
اوگوا نے کہا کہ وہ اس تحقیق پر اپنے کام سے مطمعن تھیں۔ "مجھے سکون ملا کیونکہ بعض اوقات آپ ایک خبر پر کام کرنا شروع کرتے ہیں اور اچانک کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے یا آپ کسی بھی وجہ سے پھنس جاتے ہیں لیکن یہ تعاون کے کئی فوائد میں سے ایک ہے۔ اگرچہ اس کیس میں مشترکہ بائی لائن نہیں تھی لیکن گروپ کی مدد شامل تھی جس نے کھیل میں شامل رہنے میں مدد دی۔”
پیٹرک ایگ وو ایک نائجیرین فری لانس صحافی ہیں۔ وہ شکاگو، ٹورنٹو، جوہانسبرگ، برلن اور لاگوس سے کئی اشاعتی اداروں جیسے کہ گلوب اینڈ میل، فارن پالیسی، این پی آر، ریسٹ آف ورلڈ، ڈیلی میورک، ورلڈ پالیٹکس ریویو، امریکہ میگزین اور دیگر سے رپورٹنگ کر چکے ہیں۔