رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

رپورٹنگ

جلاوطنوں پر کیے جانے والے ریاستی حملوں کی تحقیقات: واشنگٹن پوسٹ کی ‘ظلم کے لمبی بازو’ کی سیریز سے سبق

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

ایڈیٹر کا نوٹ: یہ مضمون امریکی جمہوریت دن کے موقع پر شائع کیا جا رہا ہے، یہ دن 15 ستمبر کو منائے جانے والے بین الاقوامی جمہوریت دن پر مرکوز ایک اشتراکی کوشش ہے جس میں خبر رساں ادارے اس بات کا احاطہ کرتے ہیں کہ جمہوریت کیسے کام کرتی ہے اور اسے کن خطرات کا سامنا ہے۔ مزید جاننے کے لیے، usdemocracyday.org ملاحظہ کریں۔

جب ہم جلاوطن مخالفین اور منحرف افراد کے بارے میں سوچتے ہیں جنہیں ایک نئے ملک میں اباد ہونے کے باوجود ان کی حکومت تنگ کرنا نا چھوڑے، تو ہم عام طور پر روس اور اس کی خوفناک خفیہ ایجنسیوں کے حملوں کا خیال آتا ہے۔

تاہم، پچھلے سال کینیڈا میں ایک ہندوستانی نژاد سکھ کارکن کے بے باک قتل — جس کا الزام بظاہر ہندوستان کی جمہوری حکومت کے ایجنٹوں پر ہے — اس بات کی ایک حیران کن یاد دہانی تھی کہ خودمختار سرحدوں کی بے باکانہ بے حرمتی میں روس اکیلا نہیں ہے۔

اور فریڈم ہاؤس کی ایک حالیہ رپورٹ — جس نے پچھلی دہائی میں 44 حکومتوں کی جانب سے جلاوطنوں پر سرحد پار حملوں اور ہراساں کرنے کا سراغ لگایا — بتاتی ہے کہ یہ تحقیقاتی صحافیوں کے لیے ایک فوری اور کم احاطہ شدہ موضوع ہے، جو ترکی سے تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ سے لے کر امریکہ تک جلاوطنوں کی میزبان ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا: ”ملک بدر ظلم اب ایک غیر معمولی آلہ نہیں رہا بلکہ درجنوں ممالک کے لیے ایک عام اور ادارہ جاتی عمل بن گیا ہے جو اپنے شہریوں کو بیرون ملک قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔“

ان واقعات کی گہری تحقیقات — جو جسمانی حملوں سے لے کر جاسوسی سافٹ ویئر کے حملوں اور جعلی پاسپورٹ کے نوٹس تک پھیلے ہوئے ہیں — کئی وجوہات کی بنا پر مشکل ہیں، جن میں ہدف بننے والی تارکین وطن برادریوں کا خوف، اور میزبان ممالک کی جانب سے اپنے سرزمین پر ہونے والے جرائم کو غیر ملکی حکومتوں سے منسلک کرنے میں ہچکچاہٹ شامل ہے، تاکہ سفارتی نتائج سے بچا جا سکے۔ لہٰذا، عوامی جوابدہی اکثر تحقیقاتی صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ذمے چھوڑ دی جاتی ہے۔

ایک سال پہلے، واشنگٹن پوسٹ کی بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیم نے اس مسئلے کو ”ریپرشنز لانگ آرم“ نامی ایک جاری سیریز میں نمٹانے کا فیصلہ کیا۔

اپریل میں شائع ہونے والی اس کی پہلی قسط نے ہندوستان کی جاسوسی ایجنسی، جسے ر اے ڈبلیو، یا را کے مخفف سے جانا جاتا ہے، کے ایک منصوبے کے شواہد سامنے آئے، جس میں ایک قاتل کو نیویارک میں ایک ہندوستانی مخالف کو اس کے نئے گھر میں قتل کرنے کے لیے نوکری دی گئی تھی۔

اس کی حال ہی میں شائع ہونے والی دوسری تحقیق — چین نے کیسے اپنے ظلم کو ایک امریکی شہرمیں پھیلایا — نے انکشاف کیا کہ کیسے امریکہ میں مقیم چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے حامی گروہوں اور چینی سفارتکاروں نے نومبر میں سان فرانسسکو میں وزیراعظم شی جن پنگ کے دورے کے دوران تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے پرتشدد مخالف مظاہروں کی مدد کی تھی۔ انہوں نے دیگر ممالک میں چینی انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف سرحد پار ظلم کے ایک پیٹرن کو بھی نمایاں کیا۔ تاہم، اس کے نتائج — اور اس میں شامل امریکی سڑکوں پر مظاہرین پر منظم حملوں کی ویڈیو کلپس — نے ان امریکی سامعین کو گہرا صدمہ کیا جو اپنے پہلے ترمیمی حق برائے آزاد اجتماع کی قدر کرتے ہیں۔

لمبے بازو کی توجہ ایران کی طرف مڑتی ہے

جی آئی جے این کے ساتھ ایک انٹرویو میں، بین الاقوامی تحقیقات کے سینیئر ایڈیٹر پیٹر فن نے انکشاف کیا کہ یہ سلسلہ طویل عرصے تک چلنے والا ہے — اورکہا تھا کہ اس کی تازہ ترین تحقیق، جو صرف پچھلے ہفتے شائع ہوئی تھی، نے یہ بے نقاب کیا کہ کیسے ایران نے ”حالیہ پرتشدد سازشوں کی ایک لہر کو انجام دینے کے لیے مغرب میں مجرمانہ نیٹ ورکس کے ساتھ تعلقات پروان چڑھائے ہیں۔“

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سلسلے کی پہلی دو تحقیقات میں سے کسی میں بھی وسل بلور کی تجاویز یا قطعی ثبوت والے دستاویزات شامل نہیں تھیں، اور ان میں مختلف فارمیٹس استعمال کیے گئے تھے۔ اس کے بجائے، دونوں میں محنتی ادارہ جاتی شواہد جمع کرنا شامل تھا۔ ہندوستان کی کہانی ذرائع پر مبنی تھی اور اس میں تین براعظموں میں قومی سلامتی اور قانون نافذ کرنے والے ذرائع کو نمایاں کیا گیا تھا۔ فن نے کہا کہ اس منصوبے کے لیے ٹریگر لمحہ اس وقت آیا جب ٹیم نے سوچا کہ امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے قتل کی کوشش پر ایک الزام میں ایک اہم سازشی کو صرف ”سی سی-1“ کے طور پر کیوں حوالہ دیا گیا تھا، اور پھر دریافت کیا کہ یہ بے نام شخص ہندوستانی حکومت کے لیے کام کرنے والا ایک خفیہ افسر تھا۔ اس کے برعکس، چین کی کہانی ٹیکنالوجی پر مبنی تھی، جو وی چیٹ چینلز سے ملنے والے سراغوں اور شی کے حالیہ امریکی دورے کے ارد گرد پرتشدد مظاہروں کے چار دنوں کی 21 گھنٹے کی ویڈیو فوٹیج کے فورینسک تجزیے پر مرکوز تھی۔

 

”اس سلسلے کے لیے ہم نے ہر کہانی کو منفرد بنانا چاہا، لہٰذا، بجائے اس کے کہ صرف یہ کہا جائے کہ ‘ملک ایکس ملک یا وائی میں یہ برا کام کرتا ہے،’ اور پھر اسے صرف دوسری حکومتوں پر دہرایا جائے، ہم چاہتے تھے کہ کہانیوں میں وہ اصل احساس ہو،“ فن وضاحت کرتے ہیں۔ ”میرے پاس چھ بہت تجربہ کار رپورٹرز کی ایک ٹیم ہے، لیکن میں مختلف ٹیموں سے بھی تعاون کے ذریعے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ گریگ ملر خفیہ برادری کو کور کرتے ہیں؛ نئی دہلی میں جیری شیہ اس دنیا میں گہرے ذرائع رکھتے ہیں؛ اور ایلن ناکاشیما یہاں واشنگٹن میں ہیں، اور قومی سلامتی ایجنسیوں سے بہت جڑی ہوئی ہیں۔ چین کی کہانی میں بین الاقوامی ٹیم کا مجموعہ شامل تھا — شبانی مہتانی اور کیٹ براؤن؛ دو قومی سلامتی کے رپورٹر؛ بصری فورینسک ٹیم پر میگ کیلی؛ اور کرس دہغانپور، جو اوپن سورس رپورٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔“

ریاست کے زیر کنٹرول تارکین وطن گروپوں کا سراغ لگانا

چین کی کہانی سے حاصل ہونے والے نتائج میں یہ شامل تھا: ”انتہائی تشدد سی سی پی کے حامی کارکنوں کی طرف سے بھڑکایا گیا اور ان میں شامل نوجوانوں کے ہم آہنگ گروپوں کی طرف سے انجام دیا گیا، یہ تصدیق شدہ ویڈیوز دکھاتی ہیں۔ شی کے مخالف مظاہرین پر لمبی جھنڈے کی چھڑیوں اور کیمیائی اسپرے سے حملہ کیا گیا، انہیں مکے مارے گئے، لاتیں ماری گئی اور ان کے چہروں پر مٹھیاں بھر کر ریت پھینکی گئی۔ لاس اینجلس میں چینی قونصل خانے نے حامیوں کی شرکت کے عوض انعام کے طور پر ان کے ہوٹلوں اور کھانوں کی ادائیگی کی تھی۔“

سنگاپور میں مقیم رپورٹر شبانی مہتانی نے مخالف مظاہروں میں نمائندگی کرنے والے 35 سی سی پی حامی تارکین وطن گروپوں کی شناخت میں مدد کی تھی؛ ان میں سے بہت سے یونائیٹڈ فرنٹ ورک ڈیپارٹمنٹ سے منسلک تھے، جو سی سی پی کی ایک شاخ ہے جو بیرون ملک شہریوں کے گروہوں کو چینی حکومت کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے محرک کرتا ہے۔

مہتانی جی آئی جے این کو بتاتی ہیں کہ امریکہ کے اندر یونائیٹڈ فرنٹ تنظیموں کی ساخت اور آپریشن کو بے نقاب کرنا سب سے بڑا تحقیقاتی چیلنج تھا۔

”وہ بدنام طور پر غیر شفاف ہیں … اور اپنے آپ کو چھپانے کے لیے بہت کوشش کرتے ہیں، مثال کے طور پر، مختلف ناموں کا استعمال جن کا مختلف طریقوں سے ترجمہ کیا جا سکتا ہے،“ وہ کہتی ہیں۔ ”جو ہم نے پچھلے سال سان فرانسسکو میں دیکھا وہ بہت سارے بصری مواد تھے، خاص طور پر ویڈیوز، جن کا ہم استعمال کر کے تحقیقات شروع کر سکتے تھے“

کیسے پرانے ذرائع اور نئے خیالات نے فورینسک ثبوت کی طرف راہنمائی کی

مہتانی اور ان کے ساتھی ٹیم کے ممبران نے جو رپورٹنگ کے طریقے استعمال کیے، وہ دوسروں کے لیے ملک بدر ظلم کی تحقیقات کرنے میں مفید سبق پیش کرتے ہیں۔

حکومت کی طرف سے کرایے پر لیے گئے نجی سیکیورٹی کو ذرائع کے طور پر استعمال کرنا۔ چونکہ عام طور پر غیر ملکی حکومتوں کے پاس بیرون ملک بڑے واقعات کو منظم کرنے کے لیے سیکیورٹی کے وسائل کی کمی ہوتی ہے، اس لیے قونصل خانوں کو اکثر مقامی سیکیورٹی اہلکاروں کو کرایے پر لینے کی ضرورت پڑتی ہے، جو رپورٹروں کے لیے نئے ذرائع کے راستے کھول سکتا ہے۔ سنگاپور اور کیلیفورنیا کے درمیان 15 گھنٹے کے وقت کے فرق کے باوجود، مہتانی نے فون پر ان 60 نجی سیکیورٹی گارڈز تک رسائی حاصل کی جنہیں چینی سفارتکاروں نے سی سی پی کے حامی مخالف مظاہرین کی ”حفاظت“ کے لیے کرایے پر لیا تھا۔ یہ اہم گواہ ثابت ہوئے — جنہوں نے مظاہرین کے خلاف تشدد کے واقعات اور ایسی ہدایات کا انکشاف کیا جن کے مطابق ان کا حفاظت سے زیادہ ”پٹھوں“کے طور پر استعمال کرنا مقصود تھا۔

”ہمارے لیے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ آپ تمام ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں لیکن کسی ایسے شخص کاجو وہاں موجود تھا اور جس کی ذمہ داری سیکیورٹی تھی، آپ کو بتائے کہ اس میں کچھ واقعی غلط تھا — اور کیسے ان کی ہدایات مسلسل بدلتی رہیں — تو یہ بہت بڑا انکشاف تھا،“ وہ یاد کرتی ہیں۔ ”اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ یہ لوگ زیادہ تر امریکی تھے اور پیسوں کے لیے کام کرنے والے تھے، میرا خیال تھا کہ وہ واقعی نہیں جانتے تھے کہ وہ ان نوکریوں کو قبول کر کے کس سیاست میں داخل ہو رہے تھے۔“

جلاوطن ذرائع کے ساتھ رابطے برقرار رکھنا۔ اگرچہ زیادہ تر ہم آہنگی کے ثبوت وی چیٹ میسجنگ پلیٹ فارم پر تھے، مہتانی کو اب بھی ان ثبوتوں تک رسائی کے لیے انسانی ذرائع کی ضرورت تھی کیونکہ زیادہ تر بات چیت نجی تھی۔ ٹیم کی اس تک رسائی اور ویڈیو ثبوت کے ایک خزانے تک رسائی کا راز ان جمہوریت پسند کارکنوں میں تھا جنہیں مہتانی نے ہانگ کانگ میں کئی سالوں کی رپورٹنگ کے دوران ذرائع کے طور پر تیار کیا تھا — اور یہ حقیقت کہ وہ ان کارکنوں کے ساتھ رابطے میں رہیں جب وہ ہانگ کانگ کے 2019 کے مظاہروں پر چین کی کارروائیوں سے بھاگ گئے تھے۔ سالوں بعد، ان میں سے بہت سے لوگ سان فرانسسکو میں شی کے دورے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے دوبارہ ظاہر ہوئے تھے۔

”سان فرانسسکو میں ان دنوں کے دوران ان کے تجربات کو  دیکھتے ہوئے، بہت سی ویڈیوز سامنے آئی تھیں،“ وہ وضاحت کرتی ہیں۔ ”بدقسمتی سے، بہت سے وی چیٹ چینلز ہمارے لیے بند تھے، اس لیے ہمیں ان گروپوں میں ذرائع کی ضرورت تھی تاکہ وہ اسکرین شاٹس لے کر ہمیں بھیج سکیں۔“

انہوں نے مزید کہا: ”ہم نے جس چیز پر سب سے زیادہ انحصار کیا وہ ویڈیوز تھیں تاکہ اہم پرتشدد عناصر کی شناخت کی جا سکے جو ان چار دنوں کے دوران اہم لمحات پر ظاہر ہوتے رہے تھے۔ اس کے علاوہ، ہم چینی سفارتکاروں کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جو ہمارے لیے ایک حقیقی کامیابی تھی۔“

تارکین وطن گروپ کے ٹیکس فائلنگز میں کھودنا۔ ”سب سے پہلے، ہم نے ایف اے آر اے (امریکی غیر ملکی ایجنٹوں کی رجسٹریشن ایکٹ) کا استعمال کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان میں سے کوئی بھی غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر رجسٹرڈ نہیں تھا،“ وہ یاد کرتی ہیں۔ ”لیکن، ڈیٹا بیس کے لحاظ سے، واحد چیز جس پر ہم واقعی انحصار کر سکتے تھے — کیونکہ ہم امریکہ کے اندر گروہوں کو دیکھ رہے تھے — وہ ٹیکس فائلنگز تھیں۔ کیونکہ یہ تمام چینی تارکین وطن تنظیمیں 501(c)3 کے طور پر درج تھیں؛ وہ تکنیکی طور پر خیراتی ادارے تھے۔ ان فائلنگز نے ہمیں اس بات کا بہترین تخمینہ دیا کہ یہ تنظیمیں کتنی بڑی ہیں؛ انہیں کتنا پیسہ آ رہا تھا؛ اور ان کھلاڑیوں کا سائز۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ کس سے رابطہ کرنا ہے۔“

منظور شدہ چہرے کی شناخت کے ٹولز کا استعمال — اور احتیاط سے تصدیق کرنا۔ فن نے انکشاف کیا کہ طاقتور اور متنازعہ ریورس امیج ٹول پِم آئیز — جو انٹرنیٹ پر چہروں سے مماثل تصاویر تلاش کرتا ہے — کو پوسٹ کے رپورٹرز نے استعمال کے لیے باضابطہ طور پر منظور کیا تھا لیکن صرف ایک کثیر مرحلہ تصدیقی عمل اور انتہائی سخت اخلاقی احتیاطوں کے ساتھ۔ وہ شامل کرتے ہیں کہ یہ ٹول چین کی تحقیق میں شناخت کے سراغوں کے لیے اہم تھا۔

”پِم آئیز کو معیارات کے جائزے کے عمل سے گزارا گیا اور اسے ہماری کہانیوں میں استعمال کے لیے منظور کیا گیا لیکن یہ ایسی چیز نہیں ہے جس پر ہم نے مکمل طور پر انحصار کیا تھا،“ انہوں نے کہا۔ ” پِم آئیز ہمیں سراغ فراہم کرتا ہے جن کی ہمیں پھر جا کر تصدیق کرنی پڑتی ہے۔ اس طرح کی کسی بھی ٹیکنالوجی پر الگورتھم کہہ سکتا ہے: ‘ہمارا خیال ہے کہ یہ مسٹر ایکس ہے،’ لیکن یہ ہمارے لیے تصدیق نہیں ہے؛ یہ محض ایک شروعاتی نقطہ ہے۔ ہمیں خود مسٹر ایکس کے پاس جانا پڑتا ہے اور ان کے دوستوں کے پاس جانا پڑتا ہے یا بصری اور کھلے ذرائع سے تصدیق حاصل کرنی پڑتی ہے کہ وہ واقعی مسٹر ایکس ہیں۔“

ٹیم سے باہر ماہرانہ مہارتوں کو شامل کرنا۔ ٹیم نے پوسٹ کے قومی سلامتی کے رپورٹر کیٹ کیڈل کی مدد حاصل کی جن کی مینڈرین میں زبان کی مہارت چینی سرکاری میڈیا اور سی سی پی کے حامی گروپوں کے درمیان بیانیوں کو نقشہ کشی کرنے کے لیے اہم تھی۔ مہتانی کہتی ہیں کہ ویڈیو کلپس کی بڑی تعداد کے لیے ایک ڈیجیٹل اسکریپنگ ٹول کی ضرورت تھی تاکہ افراد کو متعدد واقعات تک ٹریک کیا جا سکے، جسے ایک ٹیک وزرڈ ساتھی کرس دہغانپور نے خاص طور پر اس منصوبے کے لیے تیار کیا تھا۔ اور فن نے انکشاف کیا کہ پوسٹ کی ویژول فورینسک ٹیم کے ایک رکن کی طرف سے کہانی میں ویڈیو تجزیہ نے بہت سی وہی تکنیکیں استعمال کی تھیں جو اس کے پولٹزر انعام یافتہ منصوبے میں 6 جنوری، 2021 کو امریکی کیپیٹل کے فساد کے لیے، اور اس کی غزہ کی تحقیقات کے لیے استعمال کی گئی تھیں۔

Washington Post investigation, Iran, Repression's Long Arm

The latest in the Post’s Repression’s Long Arm series exposed how the Iranian government is partnering with criminal groups in the West to conduct operations. Image: Screenshot, The Washington Post, Rob Dobi

سرحد پار جبر کے اتحادیوں کے لیے رازداری کا اندھا نقطہ

ایک اور اصول جو مہتانی ان تحقیقات میں مددگار پاتی ہیں وہ یہ ہے کہ ”اس بات کو کبھی کم نہ سمجھیں کہ لوگ آن لائن کتنا پوسٹ کریں گے، اور وہ کتنا کچھ کہیں گے بغیر یہ سوچے کہ کوئی دیکھنے والا ہے۔“ آن لائن معلومات کا حد سے زیادہ اشتراک ٹیم کے اس نتیجے کی تصدیق کرنے میں مدد گار ثابت ہوا کہ ایک چینی قونصل خانے نے بہت سے مخالف مظاہرین کی رہائش کی مالی مدد کی تھی جنہیں بعد میں تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

”اس معاملے میں، تصدیق وی چیٹ سے آئی — اور عجیب بات یہ ہے کہ لوگوں نے خود اپنی تنظیموں کی ویب سائٹس پر فنڈنگ کا ذکر کیا تھا۔ وہ بے باک تھے۔“

وہ مزید کہتی ہیں: ”اس طرح کے گروپوں کو یہ دکھانا پڑتا ہے کہ وہ جن ممالک میں ہیں ان کے قوانین کی پیروی کر رہے ہیں۔… لیکن انہیں چینی حکومت کو یہ بھی دکھانا ہوتا ہے کہ وہ کچھ کر رہے ہیں؛ اپنی قدر و قیمت اور اپنی رسائی کو ثابت کرنے کے لیے یہ دکھا کر کہ انہوں نے اس ملک میں کیا کام کیا ہے۔“

اثر کے بارے میں پوچھے جانے پر، فن کہتے ہیں: ”اس کے کچھ اثر کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ کیا ہندوستانی حکومت شمالی امریکہ میں دوبارہ ایسی کوشش کرے گی؟ میرا خیال ہے شاید ‘نہیں۔’ اور نہ صرف اس لیے کہ اس نے ہماری اور دوسری جگہوں سے جانچ پڑتال کو متوجہ کیا بلکہ ان کے پاس اسے انجام دینے کی مہارت بھی نہیں تھی۔ اور انہوں نے اپنے کسی بھی مقصد کو حاصل نہیں کیا۔ اگر کچھ تھا تو بس یہ کہ ان کی کارروائیاں الٹ پڑ گئی تھیں۔“

فن کے خیالات تحقیقاتی صحافت کے اس ابھرتے ہوئے شعبے کے لیے ایک دلچسپ مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں: کہ — جیسا کہ یہ اکثر ایسے جرائم کو ظاہر کرتی ہے جنہیں حکومتیں مکمل طور پر ظاہر نہیں کرتیں — اس کا جوابدہی کا اثر بھی ایک روایتی حکومتی فعل جیسے کے روک تھام کو اپنا سکتا ہے۔

”عوامی جانچ پڑتال کی جوابدہی روک تھام کی طرف لے جاتی ہے،” فن کہتے ہیں۔ "امریکہ میں رہنے والے لوگوں کو چین کی طرف سے کیوں متحرک کیا جا رہا ہے، بعض معاملات میں ان ساتھی تارکین وطن کی آوازوں کو دبانے کے لیے جن کا ایک مختلف نقطہ نظر ہے؟ شروع سے ہی، ہمارا مفروضہ تھا: ‘ٹھیک ہے، ہم نے چین کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اپنے فوری پڑوس میں یہ اور وہ کر رہا ہے’ — لیکن اس حقیقت نے ہمیں حیران کر دیا کہ وہ ایک بڑے امریکی شہر میں مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کریں گے — [سابق پوسٹ ایڈیٹر] بین بریڈلی کے الفاظ میں — یہ ‘ہولی شٹ’ فیکٹر تھا۔“ٍ


روان فلپ جی آئی جے این کے سینیئر رپورٹر ہیں۔ وہ پہلے جنوبی افریقہ کے سنڈے ٹائمز کے چیف رپورٹر تھے۔ بطور غیر ملکی نامہ نگار، انہوں نے دنیا بھر کے دو درجن سے زیادہ ممالک سے خبروں، سیاست، بدعنوانی، اور تنازعات کی رپورٹنگ کی ہے۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

Anti-government protestors in Dhaka, Bangladesh

بنگلہ دیش میں پولیس تشدد کی دستاویزسازی کے لیے سوشل میڈیا کی کھدائی اور قبرستانوں کا دورہ

"ہماری ترجیح یہ سامنے لانا تھا کہ حکومت کیا چھپا رہی ہے۔” یہ کہنا ہے ضیمہ اسلام کا جنہوں نے بنگلہ دیش میں ہونے والے اہم اور پرتشدد اہتجاج پر رپورٹنگ کی۔

بی بی سی اوپن سورس صحافی غزہ سے معلومات کی تحقیق، تجزیہ، اور تصدیق کیسے کرتے ہیں

اسرائیل پر ۷ اکتوبر کو حملے کے بعد بیانیہ یہ بنایا گیا کہ یہ حمل یک دم یا اچانک کیا گیا۔ لیکن جی آئی جے این نت بی بی سی کے کچھ ایسے رپورٹرز سے بات کی جنہوں نے وضاحت کی کہ حماس اس حملے کے تیاری کئی سال سے سب کے سامنے کر رہا تھا