رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

رپورٹنگ

موضوعات

روایتی میڈیا سے ڈیجیٹل تک منتقلی کے اسباق

یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے

ڈیجیٹل میڈیا

یہ حقیقت پسندی ہے کہ صحافت – اور خاص طور پر تحقیقاتی صحافت ، جس میں اور بھی زیادہ وقت اور وسائل درکار ہوتے ہیں – پائیدار میڈیا تنظیموں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ لیکن کوویڈ 19 کی وبائی بیماری نے دنیا بھر کے نیوز میڈیا کے  وجود کو خطرہ لاحق کردیا ہے ، اور اداروں کو یہ ددوبارہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ وہ کاروبار کس طرح کرتے ہیں۔ خاص طور پر لیگیسی نیوز رومز پرنٹ گردش ، واقعات اور اشتہاری فروخت میں تیزی سے کمی کے بعد متاثر ہوئے ہیں ، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر زندہ رہنا ہے تو تبدیلی کی ضرورت ہے۔

لیکن وبائی بیماری سامعین کی تعداد میں کمی کا سبب نہیں بنی۔ در حقیقت ، اس کے برعکس ہے۔ اشتہارات اور مارکیٹنگ کے اخراجات میں کمی کے بعد بھی ، ذرائع ابلاغ کی کھپت نے پانچ سالوں میں سب سے تیز نمو ظاہر کی ہے۔ بڑی خبریں چلانے والی کمپنیوں – امریکہ میں دی نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ سے لے کر ، یورپ میں دی گارڈین اور لی مونڈے ، اور ایشیاء میں ملیشیاکینی اور ٹیمپو – نے پچھلے سال ریکارڈ ڈیجیٹل صارفین کو شامل کیا جس کی وجہ سے بہت سوں کی ڈیجیٹل کی طرف بڑھنے کی رفتار ان سے بھی تیز ہو گئی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے روئٹرز انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 76 فیصد میڈیا رہنماؤں نے کوویڈ 19 کے باعث بننے۔ والی صورت حال سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے ڈیجیٹل کی جانب تبدیلی کے اپنے منصوبوں کو تیز کیا ہے۔ 230 سے ​​زیادہ ایڈیٹرز ، سی ای اوز ، اور نیوز روم کے سینئر شخصیات نے "کام کرنے کے طریقوں میں تبدیلی کا حوالہ دیا؛صحافت اور فارمیٹس میں؛ کاروباری ماڈلز کو؛ اور جس طرح سے میڈیا کمپنیاں جدت کے بارے میں سوچتی ہیں،“ ترقی کے شعبوں کی حیثیت سے۔

روئٹرز کے ڈیجیٹل رکاوٹ اور تحقیق کی ساتھی ، ماہر لوسی کوینگ نے حال ہی میں لکھا ، "یہ ری سیٹ کرنے کا لمحہ ہے۔” تنظیمیں غیر منجمد ہیں۔ لوگ تبدیلی کی توقع کر رہے ہیں۔ آپ کے پاس بہانہ ہے۔ گہری تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بہتر وقت کبھی نہیں ہوگا جس کی ضرورت ہے۔ لیکن آپ روایتی میڈیا کی اشاعت سے کسی ایسی تنظیم میں کس طرح منتقلی کرتے ہیں جو ڈیجیٹل کو سب سے پہلے رکھنے والی ہے ، خاص طور پر جب اس قسم کی تنظیموں کا ایک پورا ادارہ ماضی کی کاروباری کامیابیوں پر مبنی ہوتا ہے ، سالوں کی مشقوں کے دوران تیار ہونے والا نیوز روم کلچر ، اور ایسا عملہ جو صحافت کو اس طریقے سے کرنے پر فخر کرتا ہو جیسے  اسے ہمیشہ کیا گیا ہے؟

میڈیا ٹرانسفارمیشن پر جی آئی جے این ورکشاپس کی حالیہ سیریز کے ماہرین نے اس بات کا اعادہ کیا کہ روایتی میڈیا تنظیموں کے لئے ڈیجیٹل کی طرف منتقلی مشکل ہے ، ایک لمبا وقت لگتا ہے ، اور ہر شعبے میں ذہنیت میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس میں کام کی ثقافت کو تبدیل کرنا ، صحافت کے لئے نقطہ نظر ، اور محصولات کے ماڈلز کو متنوع کرنا شامل ہے۔

بنگلہ دیش میں اعلی روایتی میڈیا ایگزیکٹوز کے ایک گروپ کے لئے ایک تین حصے کی ورکشاپ حال ہی میں جی آئی جے این نے کی تھی ، جس میں گوگل نیوز انیشیٹو کی مدد سے ایشیاء میں دوسروں کے عملی تجربات پر مبنی مشورے پیش کیے گئے تھے۔ لیکن جو ٹپس ان کو موصول ہوئیں اور جن عملی کیس سٹڈیز کے مطالعات پر غور کیا گیا وہ پوری دنیا کے میڈیا کے لئے موزوں ہے جو ڈیجیٹل منتقلی پر غور کر رہے ہیں۔

دوسرے بہت سارے ممالک کی طرح ، اس وبائی مرض کے دوران بنگلہ دیش میں میڈیا تنظیموں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ نیوز ایکو سسٹم ، جس میں بڑے پیمانے پر روایتی اخبارات اور درجنوں سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کا غلبہ ہے ، روایتی اشتہار پر مبنی محصولاتی ماڈلز پر اپنی انحصار کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں ، اور اس نے پہلے ہی ایک محدود ماحول میں معیاری صحافت تیار کرنے کی صلاحیت کو مزید محدود کردیا گیا ہے۔

سامعین نے میڈیا ڈویلپمنٹ انویسٹمنٹ فنڈ میں جنوبی ایشیا کے پروگرام ڈائریکٹر کورئیل لاہیری؛  پریمیش چندرن ، سی ای او اور ملیشیا میں مقیم ملائشیاکینی کے شریک بانی؛ اور انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ سے کام کرنے والے ٹیمپو میگزین کے چیف ایڈیٹر وایو دھیاتمیکا کو سنا۔

پہلے: کلچر کو تبدیل کریں

دھیاتمیکا ، ایک تحقیقاتی صحافی جو ایڈیٹر بنے ، ٹیمپو میں ڈیجیٹل شفٹ کی قیادت کی، یہ انڈونیشیا میں پہلی صفوں میں شامل میڈیا گروپ ہے اور اس ملک میں پہلا ہے جس نے ڈیجیٹل سبسکرپشن متعارف کروائی۔ پرنٹ پر مبنی تحقیقاتی نیوز روم کی حیثیت سے اپنی ساکھ بنانے کے باوجود ، اس سال وہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنی کل آمدنی کا 50٪ ڈیجیٹل سے حاصل کریں گے۔ "واقعی اس سے ڈیجیٹل کی طرف جانا مشکل تھا ،”دھیاتمیکا نے کہا۔ "پرنٹ پر مبنی ذہنیت اور ثقافت کی وجہ سے ، کسی بھی ڈیجیٹل یا آن لائن چیز کو کم معیار ا؛ اتنی سنجیدہ نہیں یا پرنٹ اشاعت کی طرح قابل اعتبار نہیں کے طور پر دیکھا گیا۔“

ٹیمپو نے نیوز روم کو تبدیل کرنے کے لئے تین کلیدی چیزوں کی نشاندہی کی: ثقافت ، ساخت ، اور ورک فلو اور سسٹمز۔ دھیاتمیکا کے مطابق ، نیوز روم کی ثقافت وہ ہے جس سے پہلے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ، "اگر آپ کے نیوز روم میں کچھ نیا کرنے کی لگن نہیں ہوتی ہے ، آپ کے ایڈیٹرز اور رپورٹرز آپ کے وژن پر اور جس چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اس پر یقین نہیں رکھتے ہیں ، تو کوئی بھی نیا ڈھانچہ بیکار ہوگا۔”

ٹیمپو نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک موافقت پذیر ، صارفین پر مبنی نیوز فراہم کنندہ بن جائے اور عملے کے لئے ایک پانچ سالہ حکمت عملی طے کرے ایک ایسا ڈیجیٹل میڈیا ادارہ بنانے کے لئے جو انٹرایکٹو ، باہمی تعاون کے ساتھ ، اور جہاں سامعین مرکز میں ہوں گے۔ دھیاتمیکا کے مطابق ، اس کا مطلب تھا ایک اوپن نیوز روم تیار کرنا اور یہ فیصلہ کرنے کے لئے ایک شفاف عمل قائم کرنا ہے کہ ہر روز کیا چیز خبر بنے گی۔

ٹیمپو نے ایک پیشہ ور کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کیں اور نیوز روم کے اندر ایک بڑی مہم چلائی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ہر شخص ایک صفحے پر تھا۔ "یہ اہم ہے کیونکہ ڈیجیٹل تبدیلی کی مخالفت کرنے والے کچھ دلائل [ایسے] لوگوں کی طرف سے ہیں جو آپ ہر میڈیا کی روح کو تبدیل کرنے کا الزام لگائیں گے،“ دھیاتمیکا نے کہا۔

ساخت آہستہ آہستہ تبدیل کریں

ایم ڈی آئی ایف کے لاہیری کے مطابق ، لیگسی میڈیا میں کام کرنے والے بیشتر افراد ڈیجیٹل کو اپنا چھوٹا کزن سمجھتے ہیں کیونکہ فی الحال ٹاپ لائن میں 5٪ یا 10٪ سے زیادہ اس کا حصہ نہیں ہے۔ دریں اثنا ، سب سے زیادہ خصوصی خبریں پرچم بردار مصنوعات کے لئے رکھی جاتی ہیں ، چاہے وہ ٹی وی چینل ہو یا پرنٹ۔ لیکن انہوں نے ایک مختلف نقطہ نظر پر زور دیا؛ ایک نیوز روم کا ڈھانچہ تیار کرنا جہاں سب سے پلے فیصلہ ڈیجیٹل کرے۔ لاہیری نے کہا ، "چاہے وہ آپ کا اسائنمنٹ ڈیسک ہو ، حقائق کی جانچ ہو ، آپ کا آؤٹ پٹ ڈیسک ، اشاعت ، تقسیم ، سوشل میڈیا۔ ہر چیز ڈیجیٹل کے ذریعہ چلے۔“

دھیاتمیکا نے کہا کہ اس طرح کی بنیادی تبدیلی کو نافذ کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ رپورٹرز کو سب سے پہلے ڈیجیٹل حکمت عملی کے پیش کردہ امکانات کو بتایا جائے۔

200 ایڈیٹرز اور نامہ نگاروں کے نیوز روم کے ساتھ ، ٹیمپو کی سربراہی تین ایگزیکٹو ایڈیٹرز (میگزین ، اخبار ، اور آن لائن کے لئے ایک ایک) کرتے ہیں جبکہ پانچ منیجنگ ایڈیٹرز تین پلیٹ فارمز کے لئے تیار کرنے  والے مواد کےمختلف شعبوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان کے ڈیجیٹل ڈھانچے کے مرکز میں ، میڈیا لیب ،ساتھ مل کر کام کرنے والی ایک سات رکنی ٹیم ہے جو ایڈیٹرز اور رپورٹرز ، صارف انٹرفیس بنانے والے ڈیزائنرز ، اور پروگرامرز پر مشتمل ہے۔ لیب ایڈیٹرز اور نامہ نگاروں کو اپنے ڈیجیٹل پروجیکٹس میں تعاون اور ڈیزائن کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ٹیمپو ڈیجیٹل فرائیڈے کے نام سے ماہانہ اجلاس منعقد کرکے ٹیموں کے مابین باہمی تعاون کو بھی تقویت بخشتا ہے۔ یہ ایک مقام کی حیثیت سے کام کرتا ہے جہاں پروگرامرز نیوز روم سے ملتے ہیں اور ان منصوبوں کی وضاحت کرتے ہیں جن پر وہ کام کر رہے ہیں ، اور نیوز روم آئڈیاز کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ دھیاتمیکا نے کہا ، "آپ کو اشتراکی ملااقات کو ہر صورت ممکن بنانا ہے“۔

ایک ڈیجیٹل ورک فلو کے لئے ، لاہیری کا کہنا ہے کہ یہ اہم بات ہے کہ سینئر نیوز روم قائدین ذہنی تبدیلی کو قبول کرتے ہوئے تحقیق ، ڈیزائن ، کوڈ ، تجزیات ، مارکیٹنگ ، فروخت اور مواصلات کو روایتی نیوز روم میں رپورٹنگ یاایڈیٹنگ کے برابر اسٹیک ہولڈرز تسلیم کریں۔

سامعین کو سبسکرائبرز میں تبدیل کریں

ناظرین کو تبدیل کرنے میں یہ کلیدی ہے کہ ایک قاری کو صارف میں اور صارف کو سبسکرائبر میں تبدیل کرنا ہے۔ خبروں کے روایتی عمل میں معلومات شامل ہوتی ہیں لیکن یہ ایک طرفہ نظام ہے۔تاہم، ڈیجیٹل اداروں کو سامعین کے ساتھ مشغول ہونے اور انہیں گفتگو میں مدعو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ورکشاپ کے دوران ، لاہیری نے سامعین پر مبنی تبدیلی کے ایک چار حصوں پر مشتمل ماڈل پر تبادلہ خیال کیا۔ اسکا آغاز "ہم کس کی خدمت کرتے ہیں؟” سے ہوتا ہے اور ، سب سے اہم بات ، "ہم کس کی خدمت نہیں کرتے ہیں؟” لاہری نے کہا کہ ہر ایک کے لئے ہر چیز تیار کرنے کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر صحافی خاص سامعین کے بارے میں پرجوش ہیں تو ، ان سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آیا اس گروپ کے طور پر سامعین کافی تعداد میں ہیں ، یا اتنے مالدار ، کہ سبسکرپشن کی ادائیگی کریں؟ تب ایڈیٹرز کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ سامعین آپ سے کیا چاہتے ہیں – اور کیسے۔

ایمسٹرڈم میں قائم ڈیجیٹل نیوز سائٹ ، ڈی کوریسپانڈینٹ کی مثال پیش کی (انگریزی زبان کے ورژن نے رواں سال جنوری میں اشاعت بند کردی ، لیکن ڈچ سائٹ جاری ہے)۔ اس کا ہر بیٹ رپورٹر ایک برانڈ بنانے اور کہانیوں کے لئے  آئڈیا ڈھونڈنے کے لئے نیوز لیٹر کے ذریعہ اپنی کمیونٹیز کے ساتھ رابطہ اور گفتگو کرتا ہے۔ لاہیری نے کہا ، "میرے خیال میں پلیٹ فارم کے اندر اور باہر کمیونیٹیز کو رکھنے پر غور کرنا ضروری ہے۔“

ڈیجیٹل میڈیا

سامعین پر مرکوز ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کی وضاحت کے لیے ایک میڈیا تنظیم کو جو سوالات پوچھنے ہوں گے۔ بشکریہ: کوریل لہری

انہوں نے کہا کہ آج نیوز روم کے سامعین مختلف ذرائع سے آتے ہیں۔ لہذا انگیجمنٹ کے لئے اگلا سوال یہ ہے کہ کیا مونیٹائزیشن کے لئے لینڈنگ پیج کو بہتر بنایا گیا ہے؟ اور ، اگر ایسا ہے تو ، کیا آپ اس امگیجممنٹ کو اپنی قارئین کی زندگی میں متعلقہ بنانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ آپ کے پاس واپس آتے رہیں؟

 ”یہ اس طرح ہے کہ عادت سے مجبور ہو کر صبح کا اخبار خریدنا۔”ملائشیاکینی کے چندرن نے کہا۔ “آپ کو صحیح نہیں لگتا جب تک کہ آپ کافی نہ پیئے اور آپ اپنا اخبار نہ لیں۔ اور اسی طرح آن لائن کے لئے ، آپ اس عادت کو کس طرح بنا سکتے ہیں۔“

یہ وہ جگہ ہے جہاں ٹیکنالوجی اہم ہے۔

"آپ ایسا ٹیکنالوجی سسٹم کیسے بناتے ہیں جو کسی کو آسانی سے ادائیگی کرنے کے قابل بناتا ہے؟” چندرن نے کفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ "آپ کس طرح سبسکرپشن کو منظم رکھتے ہیں ، ریمائنڈر بھیجتے ہیں ، نیوز لیٹر بھیجتے ہیں؟ اور یہ کیسے ٹریک کریں کہ کون آپ کی ویب سائٹ پر اکثر آتا ہے لیکن ابھی تک سبسکرائبر نہیں ہے؟ ہم ان کو اپنا سبسکرائبر بنانے کی پیش کش کیسے کر سکتے ہیں؟“

اس کا مطلب یہ ہے کہ تنظیم میں صلاحیت موجود ہو اور ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میں سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جاسکے۔

سامعین کی عادات سے باخبر رہنے کا مطلب فیڈبیک کا جائزہ لینا اور ڈیٹا پر مبنی فیصلے کرنا ہے۔ 2016 میں ، جب ٹیمپو نے منتقلی کا آغاز کیا ، اس نے نیوز روم کے چاروں طرف براہ راست تجزیات دکھانے والی پانچ ٹیلی ویژن اسکرینیں لگائیں تاکہ نامہ نگاروں اور ایڈیٹرز کو یہ معلوم ہوسکے کہ ان کے مضامین ریئل ٹائم میں کیسا پرفارم کر رہے ہیں۔دھیاتمیکا کے مطابق ،  اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ ان کے پاس دو طرح کے تجزیات ہیں: ایک مفت ویب سائٹ کے لئے اوردوسرا روزنامہ اخبار اور میگزین کے لئے۔

”ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ کس مضمون کو سب سے زیادہ لوگ پڑھتے ہیں ، اور ان مضامین کے مصنف کون ہیں،“انہوں نے کہا ۔ "ہم قارئین کی اقسام کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ ہم ہر چیز کا تجزیہ کرتے ہیں۔

پیسے کمانے کے ذرائع کو بڑھائیں

ڈیجیٹل میڈیا

2014 میں ایک اینٹ خریدنے کی مہم نے ملائشیاکینی کو 400،000 امریکی ڈالر اکٹھا کرنے میں مدد کی۔ بشکریہ: پریمیش چندرن

"ڈیجیٹل استعمال کی عادات مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہیں ، اور اب ، اچانک ، سبسکرپشن اور ممبرشپ ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم 30٪ سے زیادہ معاملات میں بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں،“ لاہیری نے کہا۔ لیکن ڈیجیٹل جانے کا مطلب متنوع وسائل بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ، "یہ صرف اشتہارات اور سبسکرپشن یا تقاریب سے بالاتر ہے – میڈیا کمپنیوں میں یہ یہ تین سب سے زیادہ عام ہیں ، لیکن امکانات کے مواقع کی دنیا بھی موجود ہے۔”

ملائشیاکینی کے پاس اب 25،000 سے زیادہ صارفین ہیں اور اس کے نیوز روم کا 80٪ خرچہ سبسکرپشن کے پیسوں سے چلتا ہے۔ اس مرحلے تک پہنچنے میں 20 سال لگے۔ جب انہوں نے پہلی بار پے وال کو متعارف کرایا ، تو صرف 1،000 سبسکرائبر تھے ، جو ان کے قارئین کے حساب سے مایوسی کی حد تک کم تھے۔ اور ان کے بیشتر قارئین سبسکرپشن سے ناخوش تھے کیونکہ وہ مفت میں مواد چاہتے تھے۔ قارئین کے ذہنوں کو تبدیل کرنا مینجمنٹ ٹیم کے لئے جنگ تھی۔

ملائیشیا میں ان کے سامعین مالائی ، چینی اور انگریزی قارئین کے درمیان تین حصوں میں ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چینی اور انگریزی قارئین کی آمدنی زیادہ ہے ، لہذا انہوں نے ان زبانوں میں شائع ہونے والی سائٹوں کے لئے فیس لینا شروع کی ، جبکہ مالائی سائٹ مفت رہی۔ پے وال بناتے وقت ، چندرن نے تجویز دی کہ قارئین کی عمر کے عنصر کو بھی سامنے رکھیں۔ "میرا خیال ہے کہ 15 سے 25 والی نسلوں کے لئے ، آپ کا مقصد یہ ہے کہ ان کو بغیر ادائیگی آن لائن حاصل کیا جائے۔ اور ان میں برانڈ کے حوالے سے شعور ببیدار کریں۔ 15 سے 25 نسل اشتہار پر مبنی محصول کے لئے کارآمد ہوسکتی ہے جبکہ آپ کا سبسکرپشن کے ذریعے محصولات اکٹھے کرنے کا طریقہ 30 اور اس سے اوپر والے افراد کے لئے ہے،“انہوں نے مزید کہا۔

"فریمیم ایک اور راستہ ہے ،” چندرن نے کہا۔ "آپ صرف ہیوی یوزرز سے معاوضہ لیتے ہیں اور لوگوں کو 10 یا 15 مضامین تک مفت کی اجازت دیتے ہیں ، تاکہ آپ اپنی سارا ٹریفک کھو نہ دیں۔” ملائشیاکینی نے اب ایک ماڈل شروع کیا ہے جہاں لوگ ایک مضمون مفت میں پڑھ سکتے ہیں لیکن کوئی تبصرہ پوسٹ کرنے سے پہلے اسے ضرور سبسکرائب کریں۔ "آہستہ آہستہ نئے صارفین کو حاصل کرنے کے طریقے تلاش کریں؛ ان کے لئے متاثر کن بنیں۔جیسے پرنٹ میں کمی آ رہی ہے ، آپ آہستہ آہستہ اضافے اور لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے جدید طریقوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں،“ چندرن نے کہا۔

2014 میں ، آمدنی کے سلسلے میں جدت لانے کی ان کی کوششوں کے طور پر ، ملائشیاکینی نے اپنے خیر خواہوں کو اینٹیں  بیچ کر ایک نئی عمارت کے لئے $ 400،000 جمع کیے ، جس میں ہر ایک کی قیمت تقریبا 250 ڈالر تھی۔ ان کے نئے دفتر میں معاونین کی ایک دیوار ہے ، جو ان اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے ، جس میں عطیہ دہندگان کے نام آویزاں کئے گئے ہیں۔ بعد میں انھوں نے محض 12 دن میں 100،000 ڈالر اکٹھے کیے جب انھوں نے ایک مقدمہ ہارا اور  قانونی چارہ جوئی کے لئے رقم کی ضرورت تھی۔ چونکہ کچھ حامی سیاسی وجوہات کی بنا پر سائٹ پر اپنی تشہیر نہیں کرنا چاہتے تھے ، لہذا انہوں نے تنظیم کی سیلز ٹیم کو ایک نئے ماتحت ادارے میں منتقل کردیا جو ایک اشتہاری ایجنسی کی حیثیت سے چلتا ہے۔ یہ ملائشیاکینی ، نیز فیس بک اور  گوگل پر بھی گاہکوں کو اشتہارات کے لئے جگہیں فروخت کرتا ہے۔

لاہیری کا کہنا ہے کہ ایسے بہت سارے مواقع موجود ہیں ، جن میں لائسنس یافتہ ویڈیو مواد تیار کرنا ، ترجمے ، کتابیں شائع کرنا ، اور مواد کی زیر قیادت ای کامرس شامل ہیں جو میڈیا برانڈ کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔

چندرن متفق ہیں۔ "دن کے آخر میں ، یہ حقیقتا آپ کے قارئین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ہے،“ انہوں نے کہا۔“اور جب آپ کے ساتھ مضبوط رشتہ ہے تو ، آپ پیسہ کیسے اکٹھا کرتے ہیں ، چاہے وہ سبسکرپشن ہو ، یا چندہ ہو ، یا اینٹیں بیچ رہے ہوں ، یا کچھ اور کریں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔“

پریمیم مواد میں سرمایہ کاری کریں

شاید ڈیجیٹل کی جانب منتقلی کے وقت سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ: لوگ ایسے مواد کے لئے ادائیگی کیوں کریں گے جب وہ کہیں اور اسے مفت حاصل کرسکتے ہیں؟

"وہ نہیں کریں گے ،” چندرن نے کہا۔ "لوگ تب ہی ادائیگی کرتے ہیں جب وہ اس ادائیگی کے لئے راضی ہوں۔”

لہذا قارئین سے آمدنی کی توقع کرنے کے بجائے ، ایک نیوز روم کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے سامعین کو کیا اضافی وقعت پیش کر سکتا ہے۔ یہ مقام ہے جہاں پر معیاری مواد اور نیوز روم کے کاروبار میں کردار کے سوال پر عمل درآمد ہوتا ہے۔

ٹیمپو کی طاقت تحقیقاتی اور گہری صحافت میں ہے۔ چنانچہ جب انہوں نے پاناما پیپرز پراجیکٹ پر تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم کے ساتھ تعاون کیا تو ، جان بوجھ کر کہانی کو پرنٹ کے بجائے پہلے ڈیجیٹل سائٹ پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے انڈونیشیا لیکس پروجیکٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ، جو 10 میڈیا آؤٹ لیٹس کے درمیان اشتراک سے رشوت گھوٹالے کو بے نقاب کرنے کے لئے قومی پولیس کے سربراہ کو متاثر کرتا ہے۔ ٹیمپو آن لائن نے انتخابات سے قبل نیوز گیمز اور انٹرایکٹو گرافکس جیسے مواد کو بھی پیش کیا، جسم فروشی سے متعلق ایک تحقیقات میں مدد کے لئے،  جو سامعین کی ضروریات پر مرکوز تھے۔

ڈیجیٹل میڈیا

انڈونیشیا لیکس ، ایک بڑی تفتیش جو پہلے ڈیجیٹل پر شائع ہوئی۔ سکرین شاٹ: Tempo.com

ٹیمپو کے دھیاتمیکا نے کہا ، "جب آپ اسکینڈلوں کے بارے میں بریکنگ نیوز دیتے رہتے ہیں ، جب آپ کے پاس ایک مضبوط تحقیقاتی ٹیم ہوتی ہے جو نئی کہانیاں پیش کرتی رہتی ہے تو ، یہ آپ کے سامعین کو یہ سمجھانے کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا مواد اس قابل ہے کہ قیمت ادا کی جائے کیونکہ یہ انہیں کہیں اور نہیں ملے گا۔“

ڈیجیٹل دور کے لئے ایک اور ٹپ؟ اشتراک۔ جب ملائشیاکینی نے اپنی چینی ویب سائٹ لانچ کی ، تو اس کا ایک اہم حریف ٹوٹ رہا تھا۔ جشن منانے کے بجائے ، گروپ نے محصول کی برابر تقسیم کے ساتھ مشترکہ سبسکرپشن شروع کرکے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کا ردِعمل قابل ذکر تھا۔ ملائشیاکینی میں راتوں رات سبسکرائبرز کی   تعدداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ "مجھے لگتا ہے کہ یکجہتی واقعی میں مارکیٹ کو متاثر کرتی ہے اور اس سے بہت مضبوط موقف پیدا ہوتا ہے۔ ہم اکٹھے بڑے لگتے ہیں ، "چندرن نے کہا۔

لاہیری تجویز کرتے ہیں کہ نیوز روم کے رہنماؤں کو ڈیجیٹل مواد کو ایک "مصنوع” کے طور پر سوچنا چاہئے جو نہ ختم ہونے والی ہے نا کہ ”کموڈٹی“کے طور پر جو ضائع ہوجائے اور تیزی سے قیمت کھو دے۔ کسی مصنوع کی نشوونما کرنے والی ٹیم کو اپنی نظریں ۱۸ یا ۳۶ ماہ کے دورانئیے پر رکھنی چاہئیں جب وہ سوچتے ہیں کہ سامعین کس طرح تیار ہورہے ہیں۔ "یہ مشن کی وضاحت کو برقرار رکھنے کے بارے میں ہے،“ لاہیری نے کہا۔“آسانی دیکھیں ، پریمیم ہوں ، پھر بھی روز مرہ اور سادہ رہیں۔ اس میں توازن رکھنا بہت مشکل کام ہے۔“

________________________________________________

معراج احمد چودھری بنگلہ میں جی آئی جے این کے ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں میڈیا ڈویلپمنٹ کی ایک معروف تنظیم اور جی آئی جے این ممبر ، مینجمنٹ اینڈ ریسورس ڈویلپمنٹ انیشیٹو (ایم آر ڈی آئی) کے پروگرام اور مواصلات کے سربراہ کے طور پر کام کیا۔ صحافت میں بنیادی طور پر نشریات میں ان کا 14 سال کا تجربہ ہے۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

Anti-government protestors in Dhaka, Bangladesh

بنگلہ دیش میں پولیس تشدد کی دستاویزسازی کے لیے سوشل میڈیا کی کھدائی اور قبرستانوں کا دورہ

"ہماری ترجیح یہ سامنے لانا تھا کہ حکومت کیا چھپا رہی ہے۔” یہ کہنا ہے ضیمہ اسلام کا جنہوں نے بنگلہ دیش میں ہونے والے اہم اور پرتشدد اہتجاج پر رپورٹنگ کی۔

بی بی سی اوپن سورس صحافی غزہ سے معلومات کی تحقیق، تجزیہ، اور تصدیق کیسے کرتے ہیں

اسرائیل پر ۷ اکتوبر کو حملے کے بعد بیانیہ یہ بنایا گیا کہ یہ حمل یک دم یا اچانک کیا گیا۔ لیکن جی آئی جے این نت بی بی سی کے کچھ ایسے رپورٹرز سے بات کی جنہوں نے وضاحت کی کہ حماس اس حملے کے تیاری کئی سال سے سب کے سامنے کر رہا تھا

Student journalist, talking notes

تحقیقاتی صحافت کے متعلق طالب علموں کے لیے تجاویز اور وسائل

تحقیاتی صحافت ایک مشکل عمل ہے اور نوجوان طالپ علموں کے لیے جانچنا مشکل ہو سکتا ہے کہ ایک تحقیاتی صحافی کیسے بنا جائے۔ یہاں موجود اساتازہ اور سرکدہ تفتییشی رپورٹرز کی ہدایات ان کی مدد کر سکتی ہیں