

ایڈیٹر کی پسند: پاکستان سے 2021 کی بہترین تفتیشی سٹوریز
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
پاکستان میں رپورٹروں پر ہونے والے حملے اور شفافیت کے گرتے ہوئے رجحان کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جو موثر تفتیشی صحافت کے لئیے سازگار نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت پر کریک ڈاون جو کہ معمولی لگتا ہے لیکن تفتیشی رپورٹروں کے لئیے پریشانی کا باعث ہے یعنی ڈیجٹل ریکارڈ کی کمی جو کے صحافیوں کے لئیے بڑی ڈیٹا اسٹوری میں کھودنا مشکل کردیتا ہے۔
اس سب کے باوجود صحافی موجودہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے تفتیش کو جاری رکھتے ہیں،جس میں وہ روایتی انداز کی رپورٹنگ، کولڈ کالنگ اور دروازوں پر دستک دیتے ہیں اورمعلومات اور کبھی کبھی لوگوں کے ذریعے اہم ڈیٹا تک رسائی بھی حاصل کرتے ہیں۔
پاکستانی رپورٹر اپنے ملک کے بارڈر سے آگے بڑھ کر دیگر ایسے ممالک میں بھی دیکھ رہے ہیں جو کہ دستاویزات اور ذرائع میں بہتر شفافیت رکھتے ہیں اور جہاں سوال اٹھانے کی زیادہ اجازت ہو۔ جب کے اندرونی بات چیت سیاسی گپ شپ میں ہی ہوتی ہے ایسا بھی ہوا ہے کہ ان لیک کے ساتھ دستاویزات ملے ہیں جو کہ صحافیوں کے لئیے سونے کی کان ہوتی ہے۔
اس سال جو ہم نے جو اسٹوریاں چنی ہیں وہ ملک میں ہونے والی تفتیشی صحافت کے چھوٹے لیکن اہم اقدامات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ پہلے سے موجود اسٹوریاں کو نئے تیکنیکی طریقے سے دکھاتی ہیں لیکن ان کے پاس ڈیٹا کی کمی ہوتی ہے یا پھر ایسی اسٹوریز جو کے کھلی ہوئی خفیہ باتیں جیسے کہ کرپشن وغیرہ اور ایسے ساختی مسائل کو بے نقاب کرتی ہیں جس سے ملظمان ہر طریقے کی استثنی حاصل کرلیتے ہیں اور اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
یہ پاکستان کے سب سے معروف انگریزی اخبار، ڈان، کی طویل تفتیش ہے جس میں وہ ملک کے سب بڑے ریل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کی تفتیش کرتے ہہں۔ یہ پروجیکٹ ایک برطانیہ کے تفتیشی صحافت کے پروجیکٹ، فائنینس انکورڈ، جس میں وہ برٹش نیشنل کرائم اجنسی (این سی اے) جو کے منظم جرائم کے لئیے لڑتی ہے، کی طرف سے چانچ بڑتال کرتے ہیں ۔
یہ جانچ پڑتال ۱۹۰آوٹ آف کورٹ سول سیٹلمنٹ ملین پاوؐنڈ پر اختتام پزیر ہوئی، جس کے ٹرم خفیہ ہیں اور جس کے بارے میں ایجنسی کہتی ہے کہ یہ ادائیگی "جرم کی نمائندگی نہیں کرتی،” یہ اسٹوری ریاض سے منسلک کیسز اور وہ زمین جو کہ امیروں کے لئیے خصوصی کمیونیٹیز پر اثرات کے بارے میں بتاتی ہے ۔
اس کو تفتیشی صحافی نزیحہ سید علی نے لکھا ہے جنہوں نے پاکستان کی ریل اسٹیٹ ہولڈنگ پر کئی سال تفتیش کی ہے، اس میں نہ صرف فائنینس انکورڈ کی دستاویزدیکھے بلکہ سرکاری ذرائع اور کورٹ فائلینگ سے یہ معلومات لی کہ کیسےاس خفیہ سیٹلمنٹ میں گورمنٹ کا ہاتھ تھا۔ سید نے کہا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ این سی اے نے خود کو پاکستانی پاور بروکروں کے ہاتھ مینوپولیٹ ہونے دئیے ہوگا اورخفیہ نان ڈسکلوژر اگریمنٹ نے اس معاملے کو "کارپٹ کے نیچے” چھپا دیا تھا۔
لیکن، پاکستانی گورمنٹ کے "اکاوؐنٹیبیلیٹی زار” نے این سی اے کی اس ڈیل کو "پاکستان اور برطانیہ کی قانون نافز کرنے والوں کی اس باہمی ڈیل کو کامیاب اسٹوری” قرار دیا۔
ہسپتال کے فضلے کو خاص انسینیٹر میں جلایا جاتا ہے لیکن ایک رپورٹر نے یہ دریافت کیا کہ اس آلودہ مواد کو ری سائیکل کر کے گھریلو اشیا میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
سوجاگ، ایک آزاد نیوز تنظیم ہے جو کہ واچ ڈاگ صحافت کرتا ہے، اس نے ایک اسٹوری کی کہ کیسے پورا ایک گروہ جس میں ہسپتال کی انتظامیہ، جمادار، کچرا اکھٹے کرنے والے اور بیچنے والے اور سنتکار جو اس سارے فضلے کو پلاسٹک کی اشیا میں بناتے ہیں حالانکہ گورمنٹ کا پورا سسٹم ہسپتال کے فضلے کی ڈسپوزل کے لئیے کام کرتا ہے۔ وہ ساختی خامیاں جو یہ سب کچھ ہونے دیتی ہیں رپورٹر نے سپلائی چین کو دیکھا جو انسنریٹر ورکر(جو یہ بتاتا ہے کہ معمولی کچڑا اور میڈیکل کچرے اس تک پہنچنے سے پہلے علیحدہ نہیں کیا جاتا) سے شروع ہوکر فضلہ مینجمنٹ کمپنیوں کو پہنچتا ہے۔ آپ اس اسٹوری انگریزی اور اردو میں پڑھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں ڈیٹا ملنا کافی چیلنجنگ ہوتا ہے اور رپورٹر آسان تریں ڈیٹا سیٹ کو ڈھونڈنے کے لئیے اکژرروایتی طور پر بھروسہ کرتے ہیں۔ سما ڈجٹل کو مرکزی دھارے کا ٹیلیویژن چینل سما کا آنلائن ڈویژن ہے، اس نے ۲۰۲۱ کے پہلے حصے میں یہ جاننے کی کوشش کی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کتنی خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بنیں۔ ان کو یہ پتا چلا کہ اس "سوال کا جواب بہت ہی مشکل ہے کیونکہ گورمنٹ، ہسپتال، اور پولیس اس ڈیٹا کو دستیاب نہیں کرتے۔ تو رپورٹر فردا ہر ہسپتال میں گئے جہاں پر انہوں یہ پوچھا کہ کتنے میڈیکو لیگل معاینے ہوئے اس مظلوموں کے جنہوں نے یہ کہا کی ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔ اس سے ان کو "ریپ رجسٹر” تک رسائی ہوئی جو کے ہر ہسپتال میں رکھا جاتا ہے جہاں پر ڈاکٹر اس معاینے کے تفصیل درج کرتے ہیں۔ ان کو پتا چلا کہ کراچی کے تین بڑے ہسپتالوں میں ایسے ۳۰۲ معاینے ہوئے ہیں اور اس طرح سے رپورٹر ایک کچے ڈیٹا سیٹ کو جوڑ سکے تھے۔ حالانکہ یہ ایک مکمل تصویر نہیں تھی، اس تفتیش سے بہت کم وقت میں سینکڑوں کیسز کے بارے میں پتا چل سکا۔
کیا عالمی بینک نے کراچی میں بے دخلیوں کو فنڈ کیا ہے؟
کراچی دنیا کی میگا سٹییوں میں شمار ہوتی ہیں جہاں پر آبادی تقیبا ۱۶ ملین کی ہے۔ لیکن اس بڑھتے ہوئے شہر اپنے پرانے انفراسٹرکچر پر دباوؐ ڈالتا ہے۔ اگست ۲۰۲۰ میں، مونسون بارش نے شہر کو سالاب کی حالات میں چھوڑ دیا تھا خاص کر کے نئے تعمیر یافتہ اپر مڈل کلاس کے نئے علاقے جس سے کراچی کے نالوں پر روشنی ڈلی۔ اس شہری سیلاب نے گورمنٹ کو ایک صفائی پروجیکٹ کا کام فوری طور پر شروع کیا جس سے شہر کی دریا کے کنارے اور نالوں کے پاس سے آبادیوں کو ہٹانے کا حکم دیا گیا۔ سماء نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا عالمی بینک نے اس لوگوں کی بے دخلیوں کے لئیے تعاون کیا جب انہوں نے نالوں کو صاف کرنے کے لئیے اپنی تعاون کا پلیج کیا؟ بینک کے افسران نے اس تعاون کا منفی جواب دیا کہ یہ بینک کی سماجی ذمہ داریوں کے اصولوں کے خلاف جاتی ہے۔ لیکن اس تفتیش نے اس خاموش تعاون کو بھی سوال کیا جس میں ایک ماہر نے یہ نوٹ کیا کہ: "گھر توڑے بغیر آپ نالوں کو کیسے صاف کرسکتے ہیں؟” اس سے متعلق ایک اور اسٹوری میں، سما ڈجٹل نے کرچی کے ساروں نالوں کو میپ کیا جس سے سب ڈیٹا عوامی طور پر دستیاب ہے۔
تیزی سے چلاتا ہوا ڈرائیور، ٹوٹی ہوئی گاڑی اورنہ ختم ہونے والا صحرا۔ جب ڈان کے رپورٹر اکبرنوٹزئی نےغیردستاویز ہوئے لوگوں کو پاکستانی اور افغانی بارڈر جاتے ہوئے بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا ان کو اندازہ نہیں تھا کہ انکو کیا توقع کرنا چاہئیے۔ لیکن انکی اس طویل اسٹوری نے پڑھنے والوں کوآگاہ کیا کہ کیسے بلوچستان سے لاکھوں افغان پاکستانی سرحد سے ایران داخل ہوتے ہیں۔”
اپنی اسٹوری وہ بتاتے ہیں ایک ہجرت کرنے والے بہت ہی خطرناک حالت میں اپنی زندگی دوسروں کے ہاتھ میں ڈال کے ایک ایسے علاقے میں ہجرت کرواتے ہیں جس کو جیالجسٹ "زمین پر مریخ کے لگ بھگ” کہتے ہیں۔ جبکہ کھردرے سمندروں کو پار کرکے ہرجرت کرنے والے لوگوں کو پریس میں کوور کیا گیا ہے پہلے، زمین پر اس طرح کے خطرناک سفر اس کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے ۔
ہر سال متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے شیخ پاکستان کے سب سے بڑے اور دور دراز صوبے بلوچستان آتے ہیں۔ وہ وہاں جا کر انتہائی خطرناک حالات مین رہنے والی ہوبارہ باسٹرڈ کا شکار کرتے ہیں جن کے بارے مین کہا جاتا ہے ایک بہت ہی نایاب قسم کا پرندہ ہے جو کے یہ مردوں کا لیبیڈو بڑھاتے ہیں۔ حالانکہ کے یہ موسمی شکار کوئی خفیہ بات نہیں ہے، لیکن بی بی سی اردو نے پردے کے پیچھے کی شاہانہ تیاریاں کا منظردکھاتی ہیں جو کے اس پسماندہ صوبے میں انکے لئیے کی جاتی ہیں۔ بی بی سی کے رپورٹر کے مطابق، "یہ شاہانہ استقبال پسنی جیسے علاقے میں رکھا جاتا ہے جہاں پر بنیادی ضروریات بھی مقامی لوگوں کے لئیے ایک خواب ہے۔” یہ اسٹوری ” یہ خفیہ شکارپاکستان کی ان طاقتور دلچسپیوں کو سپورٹ کرتا ہے جو کے دہائیوں سے ہورہی ہوتی ہیں جس سے پاکستان خلیج ممالک کے بااثر لوگوں کے ساتھ تعلقات بڑھا سکتے ہیں۔”
وائس پی کے، ایک آزادانہ نیوز تنظیم جو کے پسے ہوئے لوگوں اوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی پراسٹوریز کرتے ہیں، انہوں نے پاکستان بھر میں تین مختلف شہروں میں تین مختلف قتلوں میں پولیس کی بربریت پرسسٹمک مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ "تشدد اور بربریت پاکستانی قانوں نافز کرنے والی ایجنسیوں کی ایک پرانی رسم رہی ہے” اسٹوری نی ایک سال کے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ انجام ناکالا کہ "پنجاب حکومت سب سے زیادہ ٹرگرخوش اور خطرناک رہی ہے جس میں ۵۶ حوالات میں اموات اور انکاونٹر قتل ہوئے ہیں۔” رپورٹروں نے اخباری خبروں کی مدد سے ایک مکمل اور گہری منطر کشی کی ایسے موضوع کی جو کہ بہت کم ہی عوام سے سامنے آتا ہے اور جہاں پر صرف سنگین کیسز ہی کو توجہ ملتی ہے۔
یہ پلان ایک ہاوسنگ ڈولپمنٹ کا تھا جو کہ فرانس دارالحکومت سے مشابہت رکھتا تھا۔ رہائشی جو اس جنوبی پنجاب کے بڑے شہر گجرانوالہ کے پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھ رہے تھے انکو نہ صرف ایک محفوظ، گیٹڈ کمیونٹی کا وعدہ کیا جارہا تھا بلکہ ڈزنی لینڈ سے متاثر ایک اینٹرٹینمنٹ پارک کے ساتھ ساتھ ایشیا کی سب سے بڑی مسجد کا بھی وعدہ کیا جارہا تھا۔ زمین کا پلاٹ بیلٹ سسٹم کے تحت دستیاب تھا جس کی رجسٹریشن ایک لاکھ پچیس ہزار روپے (۷۰۰ امریکی ڈالر) تھی اور صرف وہی جن کے پاس رجسٹریشن سرٹیفکٹ ہوتا ہے وہ بیلٹ میں حصہ لے سکتے ہیں۔
لیکن آزاد نیوز سائیٹ سوجاگ کی تفتیش کے مطابق، یہ لے پیرس کے لئیے بلند وعدے اور اشتہاری مہم کھلی جیسے کی "کسی کو بھی نہین پتا یہ آخر یہ کہاں تعمیر ہوگی”۔ پاکستان کا سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) نے اس زمینی لاٹری کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جب کے گجرانوالہ ڈولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) نے کہا کہ لے پیرس "ایک جعلی اور غیر قانونی اسکیم تھی جس کے پاس جی ڈی اے کی منظوری نہیں تھی اور انہوں نے بیلٹنگ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ لے پیرس کے قانونی مشیر نے کہا ہے کہ یہ فرم ابھی صرف گاہوکوں کو رجسٹر جو کے مستقبل میں اسکیم کے پلاٹ خریدیں گے” ایسی بات جو انہوں نے کہا کہ قانونی نہیں ہے اور ایس ای سی کی تحفظات کو بے بنیاد قراد دیا۔ ایک اور ملازم نے کہا کہ پروجیکٹ کا مقام اس لئیے نہیں بتایا جارہا کہ کہیں خریداری سے پہلے ہی لے پیرس کی زمین کی قیمت نہ بڑھادی جائے۔ یہ اسٹوری اردو اور انگریزی دونوں مین دستیاب ہے۔
_________________________________________________
جی آئی جے این کی اردو ایڈیٹر امل غنی نے پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے عروج سے لے کر ماحولیات اور ڈیجیٹل حقوق تک مختلف مسائل پر رپورٹنگ کی ہے۔ وہ فلبرائٹ فیلو ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے، جہاں انہوں نے تحقیقاتی صحافت میں مہارت حاصل کی۔