تحقیقاتی صحافت نےخاموش کراۓ جانے والے صحافیوں کے کام کو کیسے زندہ رکھا؟
یہ مضمون ان زبانوں میں بھی دستیاب ہے
بھارت میں رپورٹر جگندر سنگھ نے مقامی حکام کے ریت نکالنے کے کاروبار میں مبیّنہ طور پر ملوث ہونے کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا، انھیں 2015ء میں جلا دیا گیا اور تب یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انھوں نے خود سوزی کی ہے لیکن بعد میں پتا چلا کہ انھیں جان بوجھ کر جلایا گیا تھا۔ گوئٹے مالا میں صحافی کارلوس شاک کو فوجداری الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے 2017ء میں پانی کو آلودہ کرنے کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک مچھیرے کی ہلاکت کے بارے میں دستاویزی ثبوت فراہم کیے تھے۔ تنزانیہ میں ’عظیم جھیلوں کے علاقے‘ میں جب کوئی ایک درجن رپورٹروں نے سونے کی ایک کان میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق الزامات کی تحقیقات کی کوشش کی تھی تو انھیں ڈرایا، دھمکایا اور ہراساں کیا گیا تھا۔
گرین بلڈ (سبز خون) کے نام سے اشتراکی تحقیقاتی صحافت کے عمل میں دنیا کے 15ممالک سے تعلق رکھنے والے 40 صحافیوں نے حصہ لیا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ ممالک میں جوکام مقامی رپورٹر حضرات مکمل نہیں کرپائے تھے اس کو پایہ تکمیل پہنچایا جاسکے۔ اس تحقیقاتی عمل کی جی آئی جے این کی رکن تنظیم ممنوعہ کہانیاں (Forbidden Stories) نے قیادت کی ہے۔ پیرس میں قائم اس غیر منافع بخش کنسورشیم نے اُن تمام صحافیوں کے کام کو جاری رکھا اور شائع کیا ہے جن کی زندگی اور آزادی ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے معرض خطر میں پڑ گئی تھی۔
ممنوعہ کہانیاں نامی ادارے کو تحقیقاتی صحافیوں نے 2017ء میں قائم کیا تھا۔ اس کے پس پشت یہ مقصد کارفرما تھا کہ کرپشن اور ماحولیاتی جرائم ایسے خطرناک موضوعات کے بارے میں مل جل کر رپورٹنگ کرنا ہی مضبوطی کی علامت ہے۔ ممنوعہ کہانیوں کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر لوراں رچرڈ کا کہنا ہے، ’’ایک گروپ کی حیثیت میں ہم پریس کے دشمنوں کو ایک مضبوط اشارہ دے سکتے ہیں: تم پیغامبر کو تو روک دیتے ہو لیکن تم پیغام کو نہیں روک سکو گے۔‘‘
سبز خون منصوبہ آٹھ ماہ کی مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ اس کے بعد 30 میڈیا تنظیموں نے جولائی 2019ء میں سلسلہ وار تحقیقاتی رپورٹس اور مضامین شائع کیے تھے، اس کے علاوہ ایک دستاویزی سیریز حال ہی میں فرانسیسی ٹی وی سے نشر کی گئی ہے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں کینن ، ایپل اور نوکیا سمیت دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے تنزانیہ میں سونے کی کان کنی کی صنعت کے ساتھ اپنے کاروباری سودوں کا ازسرنو جائزہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔ گوئٹے مالا میں ایک عدالت نے فیرونکل (فولادی دھات) نکالنے والی کمپنی کو انسانی حقوق کے استحصال کا سلسلہ بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
ممنوعہ کہانیوں کے پراجیکٹ مینجر جولزجیرودات کہتے ہیں: ’’اتنے بڑے پیمانے پر سرحد پار تحقیقات پہلی مرتبہ کی گئی ہیں۔ یہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور دراصل یہ ایک مربوط رابطہ کاری کا نتیجہ تھا۔‘‘
اس تحقیقاتی عمل میں حصہ لینے والے رپورٹروں کو پہلے پیرس میں ایک انٹرانیٹ سسٹم کو استعمال کرنے کی تربیت دی گئی تھی کہ وہ کیسے محفوظ طریقے سے معلومات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ یہ نظام ایک مربوط مشترکہ سوفٹ وئیر کو استعمال کرتے ہوئے وضع کیا گیا تھا تاکہ اس ٹیم میں شامل لوگ صفحات ،بلاگ پوسٹوں، اجلاس کے نوٹس اور فائلوں کو محفوظ انداز میں آپس میں شیئر کرسکیں۔ اس میں ان کے لیے کام کی ایک ذاتی جگہ (سپیس) مختص کی گئی تھی اور وہ پاس ورڈ کے ذریعے اس سپیس تک رسائی حاصل کرسکتے تھے۔
ان رپورٹروں نے خود کو تین ٹیموں میں تقسیم کر لیا تھا۔ مذکورہ تینوں ممالک کے لیے صحافیوں کی ایک ،ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ کسی ایک اخبار سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ان تینوں ٹیموں میں تقسیم کردیا گیا تھا، اس کے بعد انھوں نے اپنی اپنی اسٹوریوں کا تعیّن اور انتخاب کیا جن پر وہ کام کرنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں انھوں نے تحقیقات کے ممکنہ نتائج، برسر زمین لوگوں کے ساتھ ممکنہ تعاون اور جغرافیائی رسائی کے پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھا تھا۔
جیرودات نے جی آئی جے این کو بتایا کہ ’’ ہم نے تین مختلف برِّاعظموں کے بارے میں اسٹوریوں کا انتخاب کیا اس سے ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ماحولیاتی جرائم درحقیقت عالمی مسئلہ ہیں‘‘
ان تینوں میں سے ہر ٹیم میں شامل بعض صحافیوں نے صرف تحقیق پر توجہ مرکوز کی اور بعض نے فیلڈ رپورٹنگ کی منصوبہ بندی کی۔ محققین نے تحقیقاتی عمل میں مختلف آلات کو استعمال کیا ان میں سوشل میڈیا کا تجزیہ، پروازوں کی آمدورفت کے ریکارڈ کی تفصیل، ویڈیوز کا فورنزک تجزیہ اور ایڈوانس انٹرنیٹ تلاشیں شامل ہیں برسر زمین ٹیموں نے اپنے بااعتماد ذرائع کا ایک نیٹ ورک تشکیل دیا تھا ماحولیاتی سنسروں کااستعمال کیا اورسرکاری ریکارڈز اور کمپنی کی رجسٹریوں کو ملاحظہ کیا تھا۔
کان سے لے کر حتمی خریدار تک رسدی زنجیروں (سپلائی چینوں) کی تمام کڑیوں کا سراغ لگانا تحقیقاتی صحافت ہی کی طرح جوئے شیرلانے کے مترادف تھا۔ امریکا سے تعلق رکھنے والی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں سمیت فرموں سے اکثر شفافیت کا تقاضا کیا جاتا ہے اور ان سے یہ کہاجاتا ہے کہ وہ اپنی ریفائنریوں کی فہرست تیار کریں لیکن ان کانوں کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا جہاں سے دھاتیں نکل کر آتی اور ان تک پہنچتی ہیں۔ یہی وہ ’ممنوعہ علاقہ‘ ہے جہاں اسٹوری کا اصل منبع پنہاں ہوتا ہے۔
تنزانیہ میں سونے کی کان میں انسانی حقوق کی پامالی
سبز خون ٹیم سے وابستہ صحافی سونے کی جن کانوں کے سربستہ رازوں کو منکشف کرنا چاہتے تھے ان میں ایک تنزانیہ کے علاقے شمالی مارا میں واقع ہے۔ اس کان میں انسانی حقوق کی مبیّنہ خلاف ورزیوں کے بارے میں تحقیقات کی کوشش کرنے والے غیرملکی اور مقامی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو تنزانیہ کے حکام نے گرفتار کر لیا، ڈرایا دھمکایا یا سنسر کردیا تھا۔ سبز خون منصوبہ کے حصے کے طور پر گارڈین جیسے میڈیا اداروں نے متاثرہ افراد کے بیانات جمع کیے اور برسوں سے خاموش کردہ افراد کو آواز دی اور ان کی آواز سنی۔
ٹیم نے اس امر کی تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا کہ کون سی کمپنیاں اس خام سونے کی حتمی خریدار یا اس کو حتمی طورپر وصول پانے والی ہیں۔ ان کے بارے میں تحقیقات میں اوپن سورس ٹولز بہت مفید ثابت ہوئے ہیں، گوگل پر ایڈوانس تحقیق سے کارآمد ابتدائی مواد دستیاب ہوا تھا ۔ان میں عدالتی دستاویزات اور رسدی زنجیر کے بارے میں پاور پوائنٹ کی پریزینٹیشن شامل تھیں، ان کی مدد سے وہ ایک فارمولا وضع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پروازوں کی آمد ورفت کا کھوج لگانے والے آلات استعمال کرکے انھیں یہ پتا چلا تھا کہ اس سونے کو فضائی سفر کے ذریعے کہاں بھیجا جارہا ہے۔ اس کان میں کام کرنے والی کمپنی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ اس کے افسر تعلقاتِ عامہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے رن وے پر کھڑے طیاروں کے بالکل قریب سے لی گئی سیلفیوں کے ریکارڈ کا پتا چلا تھا۔ ان تصاویر نے اضافی معلومات فراہم کی تھیں کہ کن پروازوں کا مزید سراغ لگانے کی ضرورت ہے۔
معلومات کے اس انبار کا حوالہ مقامی ذرائع تھے اور یہ ان ہی سے دستیاب ہوئی تھیں لیکن یہ ٹیم کئی مرتبہ راستہ بھٹکی اور غلط سمت چل نکلی۔ تاآنکہ اس کو کسی نے ٹھیک ٹھیک اطلاع دی اور درست سمت میں استوار کیا، اس کے بعد اس نے ایک بھارتی ریفائنر پر اپنی تمام توجہ مرکوز کی، وہ ایک بین الاقوامی صنعتی اور تجارتی سروسز گروپ کا حصہ ہے۔
اس ٹیم کو حتمی طور پر اس امر کی تصدیق کی ضرورت تھی کہ یہ کان کمپنی کے کس مالک کی ملکیت ہے۔ جب اس فرم نے ایک ای میل کا جواب دیا تو اس تعلق کی بھی تصدیق کردی اور پھر یہ بات عام ہوگئی۔ اس فرم نے بذات خود یہ وعدہ کیا کہ ’’ہم کان کے ساتھ اس صورت میں تعلق کو منقطع کر لیں گے اگر ہمیں کسی مسئلے کی شناخت ہوجاتی ہے کہ وہ (کان مالکان) انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔‘‘
اس تصدیق سے ان متعدد بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ اسکے تعلق کا بھی سراغ مل گیا تھا جو اسی ریفائنری کو استعمال کررہی تھیں اور انھوں نے اس تحقیقات کے نتیجے میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی رسدی زنجیروں کا از سرِنو جائزہ لیں گی۔ اس دوران میں تنزانیہ کی حکومت نے اس کان پر جرمانے کے علاوہ مختلف قدغنیں عائد کردی تھیں۔
گوئٹے مالا میں آلودگی اور مظاہرین
2011ء میں کان کنی اور دھاتوں کا کاروبار کرنے والے ایک بین الاقوامی گروپ کی گوئٹے مالا کے مشرق میں پہاڑی علاقے میں واقع ایک دور دراز بلدیہ میں آمد ہوئی تھی۔ اس نے وہاں اترتے ساتھ ہی فیرونکل کی ایک کان کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کان سے نکلنے والے فولاد اور جست کو اسٹیل تیار کرنے والے مختلف بین الاقوامی اداروں کو فروخت کیا جاتا تھا۔ یہ گروپ اس کان کو ایک مقامی ذیلی کمپنی کے ذریعے چلا رہا تھا۔
مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والے مایا کیوایکشی گروپ نے تب یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ کان جھیل کو آلودہ کر رہی ہے اور علاقے کے بڑے جنگل میں دھڑا دھڑ کٹائی کی بھی ذمے دار ہے۔ اس کمیونٹی کے مکینوں کا کہنا تھا کہ پہلے جہاں درخت کھڑے تھے اب وہ وہاں سے نارنجی رنگ کی گرد آسمان کی جانب بلند ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
27 مئی 2017ء کو مشتعل مظاہرین نے اس پر احتجاج کیا اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔ مظاہرے میں شریک کارلوس معاذ نامی ایک مچھیرا گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا تھا لیکن گوئٹے مالا کے حکام نے کسی شخص کی ہلاکت کی تردید کردی جبکہ مقامی خبری ویب سائٹ پرینسا کمیونیٹیریا سے وابستہ ایک صحافی کارلوس شاک نے معاذ کی لاش کی تصاویر اور ویڈیو کیمرے میں محفوظ کر لیں تھیں۔ اس ویڈیو اور تصاویر میں قیمتی شواہد موجود تھے: وردی میں ملبوس افسروں سے پولیس کی نشاندہی ہوتی تھی، بیجز سے کمان کی لائن کی شناخت ہوتی تھی اور ایک تصویر سے یہ عیّاں ہورہا تھا کہ ایک پولیس افسر نے مچھیرے پر گن تانی ہوئی ہے۔
اس صحافی نے جائے وقوعہ سے واقعے کو آن ائیر رپورٹ کیا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ اس کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں اس، کے خلاف فوجداری تحقیقات کا آغاز کردیا گیا اور وہ روپوش ہونے پر مجبور ہوگیا (شاک کو اس وقت قانونی مقدمے کاسامنا ہے، اپریل میں بعض لوگ اس کے گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور اس کے آلات چُرا کر لے گئے تھے اس کو یقین ہے کہ یہ سب کچھ اس کو ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے کیا جارہا ہے)۔ گرین بلڈ کی ٹیم نے شاک کے ساتھ تعلق استوار کیا اس نے بعد میں یہ رپورٹ کیا کہ گوئٹے مالا کے حکام مچھیرے کی ہلاکت سے متعلق مسلسل غلط بیانی سے کام لے رہے تھے۔
لیکن شاک کی بنائی تصاویر اور ویڈیو نے اپنا کام دکھا دیا اور مچھیرے پر گولی چلانے والے پولیس یونٹ کے انچارج افسر کی شناخت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ایک تصویر کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد مچھیرے پر براہ راست بندوق تاننے والے افسر کا پتا چل گیا جس سے حکام کے اس دعوے کی بھی تردید ہوگئی تھی کہ کسی پولیس اہلکار کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔
انھوں نے اوپن سورس محقق یوری وان دیر وید کی معاونت سے کارلوس معاذ کے آخری لمحات کو آپس میں جوڑا، دستاویزی سیریز میں ٹیم کو اس روز کمان کرنے والے افسر سے الجھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور اس تمام واقعہ کے تصویری شواہد موجود تھے مگر حکام تمام الزامات کی صحت سے انکاری تھے۔
صحافیوں نے کمیونٹی کی ماحول سے متعلق بڑھتی ہوئی تشویش کی تصدیق کی بھی ٹھان لی۔ انھوں نے کان کے نزدیک کوئی ایک ماہ تک ماحولیاتی سنسر کی مدد سے ہوا کے معیار کی جانچ کی۔ اس سے فرسودہ ذرّات کی بلند سطح کی فضا میں موجودگی کا پتہ چلا تھا اور ان میں بعض کی مقدار عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ سفارشات سے چھے گنا زیادہ تھے۔
اس تحقیق کے بعد گوئٹے مالا کی دستوری عدالت نے اس پلانٹ پر تمام آپریشنز کو معطل کرنے کا حکم دیا تھا، حالانکہ اس پلانٹ کے آپریٹر نے واضح طور پر ماحول کو نقصان پہنچانے کی تردید کی تھی۔ اس میں ملوّث ایک فرم نے ’’لی موندے‘‘ کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کردیاتھا۔ یہ اخبار بھی سبز خون تحقیقات کا حصہ تھا اس کے خلاف دائرکردہ درخواست میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’اس نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور اس کے الزامات مسخ شدہ مفروضوں پر مبنی ہیں۔‘‘
بھارت میں ’ریت مافیا‘ کے خلاف تحقیقات
بھارت میں ’’ریت مافیا‘‘ سے مراد وہ افراد ، تنظیمیں اور جرائم پیشہ گروپ ہیں جو تعمیراتی صنعت کو غیرقانونی طور پر ریت نکال کر مہیا کرتے ہیں اور پھر اس سے بھرپور مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس ملک میں ریت نکالنا ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ ریت کی مانگ رسد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اس لیے ساحلی قصبے بتدریج توڑ پھوڑ کے خطرے سے دوچار ہیں اور سمندر کی سطح بڑھتی جارہی ہے۔ جن بھی غیر سرکاری تنظیموں اور صحافیوں نے ریت نکالنے کی صنعت کے دھندے کے بارے میں انکشافات کی کوشش کی ہے انھیں مختلف دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جگندر سنگھ ہندی زبان کے میڈیا کے ایک تجربہ کار تحقیقاتی رپورٹر تھے۔ انھوں نے ریت مافیا کی سرگرمیوں کے بارے میں متعدد مضامین لکھے تھے اور ان میں ریاست اُتر پردیش کے ایک سنئیر وزیر (رام مورتی سنگھ) پراس دھندے میں ملوّث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ جگندر سنگھ کو جون 2015ء میں شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کیا گیا، وہ بری طرح جھلس چکے تھے۔ بستر مرگ سے انھوں نے ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کرایا اور اس میں انھوں نے مذکورہ سیاست دان کے حامیوں پر اقدام قتل کا الزام عاید کیا۔ بعد میں وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔
ان کی ناگہانی موت کے واقعہ کو خود سوزی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی حالانکہ ان کی ویڈیو بھی موجود تھی۔ جگندر سنگھ کی آخری رسومات کے روز ان کے خاندان نے ان کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی اور اس میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ انھیں جلا کر قتل کرنے کی سازش کی گئی تھی لیکن بعد میں ان کا خاندان اس درخواست سے دستبردار ہوگیا۔
ممنوعہ کہانیاں نے بھارت کے چند ایک بہادر رپورٹروں میں شامل سندھیا روی شنکر کو اپنے ساتھ ملایا تاکہ وزیر ،اس کے حامیوں اور جگندر سنگھ کے قتل میں موجود کسی تعلق کے تانے بانے بُنے جاسکیں۔ سندھیا روی شنکر آج بھی ’’ریت مافیا‘‘ کے خلاف تحقیقات میں ڈٹی ہوئی ہیں اس اسٹوری پر تحقیقات کی کلیدی ٹیم کے ارکان اور سنگھ خاندان کے درمیان اعتماد کی فضا کی بحالی تھی۔ سندھیا نے جی آئی جے این کو بتایا:’’ ہم نے سوچا کہ اگر وہ ہمارے چہروں کو دیکھیں گے تو وہ بول پڑیں گے۔ یہ حربہ کارگر ثابت ہوا اور پھر کیا تھا کہ ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے۔‘‘
سنگھ خاندان کو بین الاقوامی صحافیوں کے ایک اکٹھ کی جانب سے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ اگر قانونی چارہ جوئی کے لیے دائر درخواست سے دستبردار ہوجاتا ہے تو اس کے عوض اس کو 30 لاکھ روپے ( قریباً 40 ہزار ڈالر) نقد ادا کر دیئے جائیں گے۔ ان کے خاندان کی اتنی بھاری رقم کی وصولی کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی تھی لیکن اس رقم کی منتقلی کا کوئی کاغذی ثبوت موجود نہیں تھا چنانچہ تحقیقاتی ٹیم نے مزید شواہد اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا۔
رپورٹروں نے خفیہ کیمروں کو استعمال کرتے ہوئے جگندر سنگھ کی ایک دوست کے ساتھ اپنی گفتگو کو ریکارڈ کر لیا تھا۔ یہ خاتون حملے کی عینی شاہد تھی لیکن وہ بھی اپنے بیانات سے مُکر گئی تھی۔ جب صحافیوں نے اس خاتون سے رابطہ کیا تو اس نے کسی شخص سے فون پر بات کی اور بتایا کہ وہ اس کا ’’بڑا بھائی‘‘ ہے۔ اس کے تھوڑی دیر کے بعد سندھیا روی شنکر کو ایک سیاست دان کی فون کال موصول ہوئی اور اس نے یہ پوچھا تھا کہ ان کے اس خاتون کے پاس آنے کا آخر مقصد کیا ہے۔
سندھیا کا ایک مقامی پولیس اسٹیشن میں افسروں سے بھی ٹاکرا ہوا۔ یہ پولیس افسر انھیں ابتدائی اطلاعی رپورٹ ( ایف آئی آر) کی نقل مہیّا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ ایف آئی آر دراصل کسی جرم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ابتدائی تفتیش کی روشنی میں مرتب کی جاتی ہے اور پھر اس کی بنیاد پر پولیس جُرم کی مزید تحقیقات کرتی ہے۔
مذکورہ وزیر کے ترجمان سے ٹیم نے کئی مرتبہ اس معاملے پر تبصرے کے لیے رابطہ کیا تھا لیکن اس نے ہمیشہ اس درخواست کو مسترد کردیا اور کوئی بیان نہیں دیا۔ بھارت میں بعد میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں یہ وزیر صاحب اپنی نشست کھو بیٹھے تھے اور اس کے بعد پھر عوامی سیاست سے ہی دستبردار ہوگئے تھے۔
سندھیا روی شنکر کا کہنا ہے کہ ریت نکالنے کے عمل میں سمندر کے پشتے توڑے جارہے ہیں اور سمندر بھارت کی مرکزی سرزمین کی جانب رُخ کرتا چلا آرہا ہے۔ ریت بھی پانی کی طرح کم یاب ہوتی جارہی ہے مگر صحافیوں کی اجتماعی کاوش بھارت میں اس مسئلہ کے بارے میں مزید شعور اجاگر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
ایک رپورٹر کی حیثیت سے انھیں اپنا کام جاری رکھنے کے لیے حوصلہ ملا ہے ان کا کہنا ہے کہ ’’اب میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ ریت مافیا کے بارے میں رپورٹنگ نے پہلے مجھے بہت زیادہ پریشان کیا تھا لیکن اب میں یہ بات جانتی ہوں کہ اگر کچھ بُرا ہوتا ہے تو دوسرے صحافی حضرات موجود ہیں اور وہ میرے لیے آواز اٹھائیں گے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار فیڈریکا مَرسی ایک فری لانس صحافی ہیں انسانی حقوق اور ماحولیاتی مسائل ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں ان کا تحقیقی کام الجزیرہ ، وائس یوکے ، اوپن ڈیمو کریسی ،مڈل ایسٹ میگزین اور وائرڈ میں شائع ہوچکا ہے انھوں نے لندن کی سٹی یونیورسٹی سے صحافت میں ڈگری حاصل کی تھی۔