Image: Pexels
تحفظِ صحافت: کووِڈ کے بعد دنیا کے لیے ایک ویژن
2020ء میں صحافت کو جن مالیاتی مسائل سے دوچار ہونا پڑا ہے،ان کے پیش نظردنیا بھر میں ادارے نت روز نئے تخلیقی حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ برلن میں قائم فاؤنڈیشن کونارڈ ایڈنیو اسٹیفٹنگ(Konrad-Adenauer-Stiftun) کے لیے ہماری نئی رپورٹ – ‘صحافت کا تحفظ :کووِڈ کے بعد دنیا کے لیے ایک ویژن’ میں ہم نے امریکا، جنوبی افریقا، ڈنمارک اور سنگاپور سمیت بعض ممالک میں روبہ عمل نئے آئیڈیاز کا احاطہ کیا ہے۔ اس میں ہمارے ساتھ حناہ کلیفورڈ شریک لکھاری ہیں۔ کرونا وائرس کی وَبا کے ابتدائی دنوں میں میڈیا کو فنڈ مہیا کرنے والی لومینیٹ فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے نشانت للوانی نے ہمیں بتایا کہ اب تک سامنے آنے والی تجاویز چار زمروں میں شمار کی جاسکتی ہیں: فاؤنڈیشن کے لیے عطیات( فنڈنگ) میں اضافہ کیا جائے، سرکاری زرِتلافی، نئے کاروباری ماڈل کے لیے رقم بڑے ٹیکنالوجی اداروں سے حاصل کی جائے۔
فاؤنڈیشن کے لیے مزید فنڈنگ
وَبا کے زور پکڑنے کےساتھ ہی بہت سے اداروں نے عطیات جمع کرنے کی مہم تیز کردی تھی تاکہ میڈیا اداروں کی مدد کی جاسکے۔ اس کے تحت ڈونرز سے روابط کی کوششیں کی گئی ہیں تاکہ اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ عطیات حاصل کی جاسکیں۔ ان تنظیموں میں راسمس کلیس نیلسن کے زیر قیادت انڈی پینڈنٹ نیوزایمرجنسی ریلیف کوآرڈی نیشن بھی شامل ہے۔ راسمس آکسفورڈ یونیورسٹی میں رائیٹرز انسٹی ٹیوٹ برائے مطالعہ صحافت کے ڈائریکٹرہیں۔
ایک اور تنظیم بین الاقوامی فنڈ برائے پبلک انٹرسٹ میڈیا کا مقصد حکومتوں اور فاؤنڈیشنز کی صحافتی امداد کے لیے مشترکہ کاوشوں میں معاونت کرنا ہے۔ گوگل، جنوبی افریقا قومی مدیران فورم سمیت دنیا بھر میں بہت سی چھوٹی بڑی تنظیموں اور اداروں نے ہنگامی امدادی فنڈز قائم کیے ہیں۔ انہیں اتنی زیادہ تعداد میں امداد کے لیے درخواستیں موصول ہورہی ہیں کہ ان سب کی مانگ کو پورا کرنا ان کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔
سرکاری زرِتلافی
آسٹریلیا ، ناروے اور سنگاپور کی حکومتوں نے کووِڈ-19 کے بحران کے دوران میں میڈیا اداروں اور فری لانسروں کی امداد کے لیے فنڈز قائم کیے ہیں۔ آسٹریلیا نے پانچ کروڑ(50 ملین) ڈالر (قریباً چار کروڑ امریکی ڈالر) مالیت کا پبلک انٹرسٹ نیوز گیدرنگ فنڈ قائم کیا۔ اس کا مقصد علاقائی خطوں میں مفادِ عامہ کی صحافت کو زندہ رکھنے کے لیے امداد مہیا کرنا ہے۔ ناروے نے کروناوائرس کی وَبا کی وجہ سے اشتہارات کی آمدن سے محروم ہوجانے والے میڈیا ذرائع کے لیے 2 کروڑ 70 لاکھ کرون (قریباً 32 لاکھ ڈالر) کی رقم مختص کی تھی۔
اوسلو میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں صحافت کے پروفیسررائے کروول کہتے ہیں:’’دلچسپ امریہ ہے،ناروے میں میڈیا اورصحافت کی معاونت کے لیے کوئی تنقید یا بحث نہیں ہوئی ہے۔ میڈیا کو آبادی میں عمومی طور پر بہت اعلیٰ سطح کی مدد وحمایت حاصل ہے۔‘‘
ایکواڈور میں دوجامعات (سان فرانسیسکو ڈی کوئٹو اور یو ٹی ای) اور دو میڈیا اداروں (ایل یونیورسو اور کوڈیگو وِڈریو) نے باہمی اشتراک کے ذریعے امریکی حکومت سے وَبا سے متعلق ڈس انفارمیشن اور مِس انفارمیشن سے نمٹنے کے لیے گرانٹ حاصل کی تھی۔ صحافت کی صنعت کے لیے نئے فنڈز کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ فنڈنگ کے بڑے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے قابلِ عمل حل بھی تلاش کیے جائیں۔
مثال کے طور پر امریکا میں اس امر میں دلچسپی کا اعادہ کیا جارہا ہے کہ حکومت میڈیا کی معاونت کرے۔ اس ضمن میں وہ گروپ پیش پیش ہیں جو فرانس، کینیڈا اور ناروے ایسے ممالک میں پالیسیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ان ممالک میں پہلے ہی معیاری صحافت کی معاونت حکومتی طور پر کی جارہی ہے۔
امریکا کے فیڈرل کمیونییکشنز کمیشن کے سابق مشیر اسٹیو والڈمین اور بعض دوسرے حضرات میڈیا واؤچر سسٹم کو متعارف کرانے پر زور دے رہے ہیں۔ یہ نظام فرانس میں 2009ء میں متعارف کرائے گئے نظام کے مشابہ ہے۔ اس کے تحت ہائی سکولوں کے طلبہ کو رقم ادا کرنے پراخبارات فروخت کیے جاتے ہیں۔ یہ حضرات مقامی صحافت پائیداری ایکٹ وضع کرنے میں بھی معانت کررہے ہیں۔
والڈمین کے بہ قول مقامی صحافت کے لیے رقوم مختلف ذرائع سے مہیا کی جاسکتی ہیں۔ ان میں انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے اشتہارات پر ٹیکس، میڈیا کا ادغام یا ائیرویو لائسنس کا اجراء شامل ہے۔ یہ مختلف النوع نیلامی کا ایک طریقہ کارہے۔ مذکورہ ایکٹ جولائی 2020ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اگر یہ نافذالعمل ہوجاتا ہے تو اس کے تحت فیڈرل ٹیکس کریڈٹس مقامی میڈیا اداروں کو مہیا کیا جائیں گے۔ اکتوبر 2020ء تک اس بل کو پیش کرنے والوں کی تعداد 72 ہوچکی تھی۔ ان میں 20 ری پبلکن ارکان اور 52 ڈیموکریٹس شامل ہیں۔
نئے بزنس ماڈل
جنوبی افریقا میں بوٹسوانا کے اِنک مرکز برائے تحقیقاتی صحافت کے این تبنین اور زمبابوے سے تعلق رکھنے والے دا نیوزہاکس کے رپورٹر اور ایڈیٹر ڈومیسانی مولیا نے خطے کے اخبارات کو ڈیجیٹل شکل میں تبدیل کرنے کے لیے رقوم مہیا کرنے کی غرض سے ایک مشترکہ تجویز پیش کی تھی۔ انہیں ڈھائی لاکھ ڈالر تک رقوم جمع ہونے کی امید ہے۔ اس کے ذریعے وہ خطے بھر میں 20 آزاد اخبارات کو منافع بخش انداز میں ڈیجیٹل شکل میں تبدیل کرنے کے لیے مدد کرسکیں گے۔ اس سے وہ وَبا کے بعد بھی پائیدار انداز میں اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے۔ اس منصوبہ کے تحت مقامی سرکاری حکام سے بھی میل ملاقاتیں کی جائیں گی تاکہ انہیں حکومت کی جانب سے مقامی میڈیا کی حمایت پرآمادہ کیا جاسکے۔
والڈمین نے گذشتہ ستمبر میں مقامی اخبارات کی مدد کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس میں امریکا کی خبری صنعت کی نہ صرف خوف ناک حالتِ زار کی وضاحت کی گئی ہے بلکہ اس کی احیائے نو کے لیے ایک منصوبہ بھی وضع کیا گیا ہے۔ والڈمین امریکا کے قریباً 67 ہزار نجی ملکیتی اخبارات کی تنظیمِ نو چاہتے ہیں۔ انھوں نے ‘ری پلانٹگ سٹریٹجی: ہیج فنڈز کی وجہ سے تنگ مقامی اخبارات کی بچت۔’ کے نام سے ایک غیر منافع بخش فنڈ قائم کرنے کی تجویزپیش کی ہے۔ یہ تنظیم نو کے خواہاں اخبارات کی خود جانچ کرے گا اور پھر ان کے کاروباری ڈھانچوں کو اس انداز سے ازسرنو منظم کرے گا کہ وہ نہ صرف زیادہ بہترانداز میں کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کرسکیں بلکہ مالیاتی طور پر آزاد ہوسکیں۔
بڑے ٹیکنالوجی ادارے خبر کے لیے رقم ادا کریں
ان تمام تجاویز میں سب سے اہم اور قابل عمل آسٹریلیا کی مسابقتی اتھارٹی کی سنگِ میل کوشش ہے۔ وہ اس امر کے لیے کوشاں ہے کہ گوگل اور فیس بُک جیسے بڑے ادارے خبرکے لیے رقم ادا کریں۔ اس تجویزمیں سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ حکومت کاپی رائٹ کے قانون کے بجائے مسابقتی قانون کو بروئے کارلارہی ہے۔(یورپ میں یہ بروئے کار نہیں لایا جاسکا تھا کیونکہ گوگل نے رقم ادا کرنے سے انکار کردیا تھا)۔
آسٹریلیا کی نئی قانون سازی گوگل اور فیس بُک کو خبر کے لیے رقم کی ادائگی پر مجبور کردے گی۔ اگر طرفین کا کسی قیمت پر اتفاق نہیں ہوتا ہے توپھر مصالحتی پینل کوئی فیصلہ کریں گے اورطرفین اس پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔ آسٹریلوی پارلیمان میں اس قانون کا مسودہ دسمبر 2020ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اب گوگل اور فیس بُک اس قانون کی منظوری کو رکوانے کے لیے سخت تگ ودو کررہے ہیں۔
صحافت کی بقا کے لیے تمام اخباری اداروں ، حکومتوں ،فاؤنڈیشنوں اور شہریوں کو مربوط کوششیں کرنا ہوں گی کیونکہ کسی ایک اقدام سے اب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ ہماری رپورٹ یقینی طور پراس سوال کا تو کوئی جواب نہیں دیتی ہے کہ میڈیا کو کیسے بچایا جاسکتا ہے لیکن یہ ان تمام افراد کے لیے ایک مفیدبنیاد ضرور مہیّا کرتی ہے جو اس مسئلہ کے حل کے لیے تگ ودو کررہے ہیں۔
__________________________________________________________
کیلی لین ٹومیاٹی کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل اور پبلک افیئرز(سیپا)سے ’’انتظامِ عامہ‘‘ میں ماسٹرز کررہی ہیں۔ اس سے قبل وہ ملائشیا میں فُلبرائٹ ٹیچنگ اسسٹنٹ رہی تھیں۔ کولمبیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ امریکا کی خارجہ سروس میں شمولیت اختیار کریں گی۔
ڈاکٹر آنیا شیفرین سیپا میں سینیرلیکچرر ہیں۔ وہ ٹیکنالوجی ، میڈیا اور کمیونیکیشنز سپیشلائزیشن میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ ‘میڈیا کاپچر: کیسے پیسہ ، ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور حکومتیں خبروں پر قابو پاتی ہیں کے آیندہ شمارے کی ایڈیٹر ہیں۔ اس کو 2021ء میں کولمبیا یونیورسٹی پریس شائع کررہا ہے۔