رسائی

ٹیکسٹ سائیز

رنگوں کے اختایارات

مونوکروم مدھم رنگ گہرا

پڑھنے کے ٹولز

علیحدگی پیمائش

رپورٹنگ

گھر سے رپورٹنگ کرتے وقت انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات سے کیسے استفادہ کیا جائے؟ چھ ضروری ہدایات

English

فوٹو : پیکسلز

رووان فلپ

معلومات کے کھلے مآخذ (انٹرنیٹ) و وسائل کا استعمال،صارفین کے وضع کردہ مواد سے استفادہ اور تلاش وجستجو کے جدید فلٹروں نے گھر میں قید ہوئے رپورٹروں کو ایک موقع مہیا کیا ہے کہ وہ کورونا کی وبا سے متعلق بڑی خبروں کو منکشف کرسکیں۔

دنیا میں ہر سیکنڈ میں 6000 ٹویٹس کی جارہی ہیں اور یوٹیوب پر ایک منٹ میں 500 گھنٹے سے زیادہ مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔اس تمام مواد میں سے مطلوبہ اور قابل اعتبار معلومات کا کھوج جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

اس قدر مواد کے باوجود ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ ایک بہترین اور کھلی انٹیلی جنس تحقیق تو آدھا کام ہے۔یہ کوئی خود کار کام نہیں ہے۔سرچ نظاموں (سسٹمز) ، ڈیٹا کی تصدیق اور غیر روایتی وسائل تک رسائی ایک زبردست کاوش کی متقاضی ہے اور اس طریقے ہی سے کہانی کے دوسرے نصف کو اپنے ہاتھ میں کیا جاسکتا ہے۔

کروناکی وبا سے متعلق تحقیقات کے لیے جی آئی جے این کی سیریز کے چھٹے ویبی نار میں تفتیشی محققین نے ان آلات اور تیکنیکوں پر روشنی ڈالی تھی جن کے ذریعے ان حقائق اور بصری مواد (ویژولز) کو منظرعام پر لایا جاسکا ہے جو عام طور پر روایتی فیلڈ رپورٹنگ کی رسائی سے باہر ہیں۔

کیلی فورنیا یونیورسٹی برکلے میں انسانی حقوق مرکز میں ڈیجیٹل مواد کی تصدیق کے ڈیٹا جرنلسٹ جیسیلا پیریز ڈی آشا نے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر الگورتھمس پر کام کرنے والی تیکنیکوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔انھوں نے ایک صحافیہ اور انسانی حقوق کی وکیل کی حیثیت سے کھلے وسائل سے استفادہ کے لیے روایتی رپورٹنگ کے پختہ اصولوں کی ضرورت پر زوردیا ہے۔انھوں نے صحافیوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ خطرات سے دوچار اسٹوریز کے لیے مہم جوئی کے دوران میں اپنی ڈیجیٹل شناخت کا تحفظ کریں اور اس کو حتی الامکان چھپا کررکھیں۔

ایک آزاد تفتیشی ویب سائٹ بیلنگ کیٹ کے لیے محققہ اور تربیت کنندہ کے طور پر کام کرنے والی شارلوٹ گوڈارٹ نے گذشتہ ماہ عالمی ویب کاسٹ کے سامعین کو کھلے مواد سے استفادہ کے لیے سرچ فلٹروں کے مؤثر استعمال کے بارے میں بتایا تھا۔

اس وقت بہت سے آلات ووسائل موجود ہیں جنھیں رپورٹر اہم مواد کی تحقیق اور تصدیق کے لیے مفت استعمال کرسکتے ہیں۔بیلنگ کیٹ نے ایسے بہت سے بہترین آلات ووسائل کی ایک فہرست دی ہے اور ساتھ رہ نما ہدایات بھی دی ہیں کہ انھیں کیسے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔

گوڈارٹ کہتی ہیں کہ تلاش کے عمل کو’’مختصر مگر جامع‘‘کے اصول پر محدود رکھا جانا چاہیے اور صحافیوں کو گوگل سرچ اور ٹویٹ ڈیک ایسے روزانہ کے سرچ انجنوں سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے۔

گوڈارٹ نے حال ہی میں کریگ سلورمین کی بزفیڈ اسٹوری کا حوالہ دیا ہے۔یہ اوپن سورس ریسرچ اور روایتی رپورٹنگ کی مشترکہ مؤثر کاوش کی ایک بہترین مثال ہے۔اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کیسے آن لائن افواہوں اور من گھڑت کہانیوں سے نرسوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہوگئی تھیں۔انھوں نے پابندیوں کا شکار شمالی کوریا کو درآمدات پر کرونا وائرس کے اثراتکرونا وائرس کے اثرات سے متعلق نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ ایک اسٹوری کو سراہا ہے۔ اس کی تیاری میں سرچ کے جدید کھلے وسائل ، سیٹلائٹ تصاویر اور بحری جہازوں کا سراغبحری جہازوں کا سراغ لگانے کے لیے ڈیٹا سے استفادہ کیا گیا تھا۔

آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے تفتیشی نیوز پروگرام ’فور کارنرز‘ نے بھی ووہان سے یو جی سی کی تصدیق اور کرونا وائرس پر اپنی ڈاکومینٹری بنانے کے لیے انٹرنیٹ پر دستیاب مواد سے استفادہ کیا تھا۔اس اسٹوری پر کام کرنے والے رپورٹروں میں سے ایک سیان نکولیس نے گذشتہ ماہ جی آئی جے این کے زیراہتمام ویبی نار کے شرکاء کو بتایا تھا کہ ان کی ٹیم نے کیسے معکوسی امیج کی تلاش کا استعمال کیا تھا۔انھوں نے ویڈیو کلپس کے پس منظر کی تفصیل اور سوشل میڈیا سے تخریج کردہ فوٹیج کا موازنہ کیا تھا۔یہ تمام مواد ان کی اسٹوری میں یو جی سی کی تصدیق میں بڑا اہم ثابت ہوا تھا۔

کھلے مآخذ سے استفادہ کے کلیدی نکات

1۔ کھلے وسائل اور مآخذ کو بغیر کسی چھان پھٹک کے بروئے کارلانا ایک غلطی ہوسکتی ہے۔اس کے بجائے مسلسل مشق کے ذریعے آن لائن سرچ کا ایک ذہن بنائیے۔ اس مقصد کی غرض سے رپورٹروں کے لیے تحریر کردہ رہ نما گائیڈز اور کُتب کا مطالعہ کیجیے۔سلور مین کی تصدیقی عمل کیلئے مرتب کردہ دستی کتاب کھلے مآخذ سے استفادہ کرنے والے رپورٹروں کی رہ نمائی میں مدد کرسکتی ہے۔

ٹویٹ ڈیک ٹویٹر پر اہم مواد کی چھان بین کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آپ جن موضوعات پر تحقیق کررہے ہیں،ان سے متعلق ٹویٹ ڈیک پر کالم بنائیے،ہر کالم کے اوپر دائیں طرف فلٹر آئی کان پر کلک کیجیے۔پھر ان تاریخوں کے درمیان سرچ کیجیے ، جن کے دوران میں ٹویٹر کے صارفین نے آپ سے متعلقہ موضوع کے بارے میں بحث ومباحثے میں حصہ لیا تھا یا اظہارخیال کیا تھا۔

3۔ کسی مخصوص شعبے میں کیا رونما ہورہا ہے؟اس کا کھوج لگانے کے لیے جیو کوڈز استعمال کیجیے۔

مثال کےطور پر اگر کسی جگہ فسادات پھوٹ پڑتے ہیں تو گوگل نقشوں پر اس علاقے کی نشان دہی کے بعد دائیں کلک سے’’یہاں کیا ہے؟‘‘کا آپشن آجاتا ہے اور پھر وہ کو آرڈی نیٹس فراہم کرتا ہے۔انھیں پھر ٹویٹ ڈیک کے سرچ باکس سے کاپی کیا جاسکتا ہے۔

 

پہلے ’’جیو کوڈ‘‘ ٹائپ کریں،پھر کو آرڈی نیٹس کو پیسٹ کریں۔آپ اس رداس کی پیروی کریں جس کی آپ کو ضرورت ہے تاکہ آپ حقیقی وقت میں اس علاقے سے ٹویٹس کو ملاحظہ کرسکیں۔یہ ملحوظ رکھیں کہ کوئی بھی جگہ خالی نہ چھوڑیں اور ’’اینٹر‘‘ کو ہٹ کرنے سے قبل دائیں بائیں ڈیش کو حذف کردیں۔

 

اس کو پھرآپ کلیدی الفاظ، جیسے ’کرونا وائرس‘ سے مزید فلٹر کرسکتے ہیں۔

یہ یاد رہے کہ کسی خاص مقام سے ٹویٹس کا مواد اسی وقت ظاہر ہوگا جب اس علاقے کے صارفین نے اپنی جگہ کی سیٹنگ کو آن کیا ہوگا۔اس سے (پہلے) چند ایک لوگوں کی نمایندگی ہوتی تھی لیکن پھر ٹویٹر نے اس کو ’’آپٹ۔اِن‘‘ سسٹم میں تبدیل کردیا تھا۔

ہنچ ڈاٹ لی کو ملاحظہ کریں۔اس پر کھلے مآخذ سے تحقیق کے دوران میں مواد کو آرکائیو کیا جاسکتا ہے۔ہنچ ڈاٹ لی آپ کی اوپن سورس کی تلاش کی تاریخ کا تجزیہ بھی کرسکتی ہے اور یہ ابتدائی تلاش ڈیٹا کی تخریج میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے، جو شاید بعد میں تحقیق کے عمل میں زیادہ اہم ثابت ہو

5۔ یہ بھی سیکھنے کی کوشش کیجیے کہ فیس بُک کے بالعموم الجھاؤ پیدا کرنے اور غیر مددگار سرچ ایلگورتھمس کو کیسے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ ایک آپشن تو ’’کس نے کیا پوسٹ کیا ہے؟‘‘ یہ ٹول فیس بُک کی ذاتی تلاش کی تاریخ کی ترجیحات کا تعیّن کرتا ہے اوراس سے سب سے زیادہ غیرجانبدار نتائج ممکن ہوسکتے ہیں۔ آپ فیس بُک کے جس صفحے میں دلچسپی رکھتے ہیں،یہ اس کا ایک صارف آئی ڈی بنا دیتا ہے اور اس کے ذریعے مخصوص ایّام میں سرچ کی سرگرمی کی جاسکتی ہے۔نکتہ: مختصر مگر جامع تلاش کی اصلاحات اور تاریخوں کے استعمال کو یقینی بنائیں۔

6۔آن لائن چیٹ گروپوں میں شمولیت کی اخلاقیات کو ملحوظ رکھیں اور یہ ذہن میں رکھیں کہ دوسرے لوگ آپ کے بارے میں نہیں جانتے کہ آپ ایک رپورٹر ہیں۔پیریز ڈی آشا کہتی ہیں:’’ صحافت کے تناظر میں اگر میں یہ ظاہر نہیں کرتی ہوں کہ میں ایک صحافیہ ہوں تو میں مشکل سے دوچار ہوسکتی ہوں اور میں ایک پرائیویٹ چیٹ گروپ میں دخیل ہوجاتی ہوں تو اس کو دراندازی ہی خیال کیا جاسکتا ہے۔ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے پیریز ڈی آشا وقتِ ضرورت ایک منفرد تیکنیک استعمال کرتی ہیں۔یہ ’’برنر‘‘ سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا استعمال ہے۔پھر وہ ممکنہ مآخذ ووسائل تک فعال انداز میں رسائی کے لیے ذاتی اکاؤنٹ سے رجوع کرتی ہیں اور اس وقت ان کے رپورٹنگ کے ارادے علانیہ ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رووان فلپ، عالمی نیٹ ورک برائے تفتیشی صحافت (جی آئی جے این) کے لیے رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔وہ اس سے پہلے جنوبی افریقا کے اخبار سنڈے ٹائمز کے چیف رپورٹر تھے۔وہ دنیا بھر میں پچیس، تیس ممالک میں غیرملکی نامہ نگار کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔وہ عام خبروں کے علاوہ ، سیاسیات ، بدعنوانیوں اور تنازعات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔

ہمارے مضامین کو تخلیقی العام لائسنس کے تحت مفت، آن لائن یا پرنٹ میں دوبارہ شائع کریں۔

اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کریں


Material from GIJN’s website is generally available for republication under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International license. Images usually are published under a different license, so we advise you to use alternatives or contact us regarding permission. Here are our full terms for republication. You must credit the author, link to the original story, and name GIJN as the first publisher. For any queries or to send us a courtesy republication note, write to hello@gijn.org.

اگلی کہانی پڑھیں

Karachi Sewerage and Water Board corruption investigation, Dawn newspaper

‎کراچی کی واٹر سپلائی چین میں کرپشن اور ’ٹینکر مافیا‘ پر تحقیقات

کراچی کے پانی کی فراہمی کے بحران کی تحقیق کرنت والی ٹیم نے جی آئی جے این کو بتایا کہ انہوں نے یہ کہانی کیسے کی — اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں تحقیقاتی صحافت کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے